وزارت اطلاعات ونشریات
مقامی ہی عالمی ہے! عالمی اپیل والی کہانیاں عالمی سطح پر سامعین كی توجہ حاصل كریں گی، ہندوستان كے 55ویں بین اقوامی فلمی میلے كے پینل ڈسکشن میں فلمی شخصیات كا اتفاق
'کہانیاں جو سفر كرتی ہیں' سےمتعلق سیشن میں عالمی سامعین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے پر روشنی ڈالی گئی
انسانی جذبات آفاقی ہیں اور سنیما ایک زبان نا شناس ذریعہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ تو کیا کہانیاں اور کہانی سنانے کا فن سرحدوں، زبانوں اور ثقافتوں کو عبور کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ آج پنجی میں کلا اکیڈمی میں ہندوستان كے 55ویں بین اقوامی فلمی میلے میں فلم کی نمائش کے موقع پر اس موضوع پر ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا ’کہانیاں جو سفر كرتی ہیں‘۔
معزز پینلسٹس میں ہندوستانی نژاد برطانوی پارسی مصنف، ڈرامہ نگار، اسکرین رائٹر فرخ ڈھونڈی، ہسپانوی پروڈیوسر انا سورا، نامور اداکار تنیستا چٹرجی، معروف اداکار اور پروڈیوسر وانی ترپاٹھی ٹیکو اور انگریزی دستاویزی فلم ڈائریکٹر لوسی واکر شامل تھے۔ ہندوستانی فلم ہدایت کار اور پروڈیوسر بوبی بیدی نے نظامت كی جس میں کہانی سنانے کی مختلف باریکیوں پر روشنی ڈالی گئی، جو کہ آفاقی ہیں، پھر بھی علاہے، ملک یا ثقافت رُخی ہو سکتی ہیں۔
بوبی بیدی نے سیشن کا آغاز اس بیان کے ساتھ کیا کہ ہندوستان عالمی سطح پر مقبول اور مضبوط فلم پروڈکشن انڈسٹری ہے، لیکن ہندوستانی فلم ساز ڈائیسپورا سے آگے کے سامعین کے بارے میں نہیں سوچتے اور اس لیے اکثر بین الاقوامی سامعین سے رابطہ نہیں کر پاتے۔
دستاویزی فلم بنانے والی لوسی واکر، جن کی فلم 'ماؤنٹین کوئین: دی سمٹس آف لکپا شیرپا' نے حال ہی میں ہندوستانی بین الاقوامی فلمی میلہ سمیت كئی فلمی میلوں میں پذیرائی حاصل کی ہے، ان كا خیال ہے كہ "کسی بھی فلمساز کو اُن لوگوں اور مخلوقات کے بارے میں فلمیں بنانا چاہئے جن کی وہ پرواہ کرتے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ وہ دنیا بھر کا سفر کرنا پسند کرتی ہیں، لیکن سیاح کے طور پر نہیں، بلکہ مقامی لوگوں پر فلمیں بنانے كے لیے۔
وانی ترپاٹھی ٹِکو نے کہا، "واسودیوا کڈمبکم" ہندوستان کا منتر ہے۔ یہ ہمیشہ سے کہانی سنانے والوں کی سرزمین رہی ہے اور "کتھاوچن" ہمیشہ سے ہماری روایت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے باہر سے آنے والی کہانیاں ملک میں بھی سنائی جاتی ہیں۔انہوں نےمزید کہا، "اس طرح جو کہانیاں سفر كرتی ہیں وہ اپنے اندرآفاقیت اور ثقافتی ربط کاعنصر رکھتی ہیں۔"
فرخ ڈھونڈی نے نسل انسانی میں کہانی سنانے کی تاریخ کے حوالے سے كہا كہ "ہر قبیلے، ہر ثقافت کی اپنی اپنی داستانیں ہیں۔ یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے! افسانے ہمیں ثقافت کی اخلاقیات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کچھ سفر کرتے ہیں، جبکہ کچھ نہیں کرتے"۔انہوں نے رائے دی کہ تمام کہانیاں دنیا میں ہر جگہ یکساں طور پرسامعین سے منسلک نہیں ہوتیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی کسانوں اور شہری غریبوں کے بارے میں راج کپور کی کہانیاں سوویت سامعین سے جڑی ہوتی تھیں اور قزاخستان، ازبکستان اور قریبی ممالک میں انہوں نے جس طرح ایوارڈز جیتے اس کی گونج امریکہ یا یورپ میں اسی اس طرح نہیں سنائی دی۔دوسری طرف ستیہ جیت رے کی ناول نگاری کی کہانیاں یورپ اور امریکہ کے سامعین سے جڑ نے میں كامیاب رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگلے مرحلے كی جدید حقیقت پر مبنی کہانیاں دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اور سلم ڈاگ ملینیئر اور سلام بمبئی جیسی فلمیں دنیا بھر میں بہت سے لوگوں سے منسلک ہیں۔ مون سون ویڈنگ نے جس میں ’محبت سب کو فتح کرتی ہے‘ کا آفاقی پیغام ہے، مغربی سامعین کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ فرخ دھونڈی نے کہا کہ بینڈٹ کوئین نے مختلف زبان اور مختلف ثقافت مكا حصہ ہونے کے باوجود اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی ایک عورت کی کہانی كے طور پر مغربی سامعین کو حیران کیا۔
مشہور ہسپانوی فلم ساز کارلوس سورا کی بیٹی اینا سورا نے کہا کہ انٹرنیٹ کے دور میں لوگوں کو دنیا بھر کے مواد تک رسائی ہے اور اسی لیے تمام کہانیوں کے عالمی ناظرین ہوتے ہیں۔انہوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ "کہانیاں جو بحیثیت انسان ہم سے تعلق رکھتی ہیں ان کا پوری دنیا میں رابطہ ہوگا"۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہانیاں دنیا میں کہیں سے بھی ہو سکتی ہیں۔ انا سورا نے رائے دی کہ فلمی میلوں اور او ٹی ٹی نے دستاویزی فلموں اور مختصر فلموں کو بھی ایک پلیٹ فارم دیا ہے اور اس وجہ سے سب کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ کھل گئی ہے۔انہوں نے بہر حال کہا کہ پروڈیوسرز اور فلم سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا میں پراجیکٹوں کو فروغ دیں۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ ایسے موضوعات ہیں جو پوری دنیا میں سفر کر سکتے ہیں اور سمجھے جا سکتے ہیں اور اس کے لیے زبان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
مشہور اداکار تنیستا چٹرجی نے عالمی سامعین کے لیے کہانیوں کی اپیل پر ہونے والے مباحثوں میں ایک اداکار کا نقطہ نظر پیش کیا اور کہا کہ ہندوستانی ناظرین بڑے پیمانے پر زیادہ تر ٹی وی سے قریب ہیں اور سنیما ان کے لئے ثانوی ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ ہندوستانی سنیما ثقافت کی طرح بلند بانگ اور جشن كے جذبے سے بھرا ہے جب کہ مغرب میں جذبات کا اظہار زیادہ لطیف انداز میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثقافتی باریکیاں بھی ملک در ملک بدلتی رہتی ہیں۔
تنیستا چٹرجی نے مزید کہا کہ جذبات عالمگیر ہیں۔ "لیکن جب موضوع مقامی ہو، تو یہ سفر کرتا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ ایسا كرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو ہمہ گیر ہو، بلکہ مقامی کہانیاں سنانے پر توجہ دی جانی چاہءے۔ "ثقافت اور جذبات کی عالمگیر زبان ہمیشہ سفر کرتی ہے۔"
بوبی بیدی نے اوتار جیسی فلموں کا ذکر کیا جہاں ہندوستان کی ایک مقامی کہانی نے عالمی سپر اسٹوری کی شکل اختیار کرلی تھی۔فرخ ڈھونڈی نے یاد دلایا کہ امریکی سپر ہیرو فلموں کے عالمی ناظرین بھی ہوتے ہیں۔ اس پر بات کرتے ہوئے لوسی واکر نے کہا کہ سپر ہیروز بھی مقامی لوگ ہوتے ہیں جو موقع پر سامنے آتے ہیں۔
مذاكرہ اس مشترکہ ادراك كے ساتھ اختتام پر پہنچا کہ مقامی کہانیاں جو عالمگیر جذباتی اپیل رکھتی ہیں دنیا بھر کے سامعین کی توجہ حاصل كریں گی۔
*******
U.No:2861
ش ح۔ع س۔س ا
(Release ID: 2076536)
Visitor Counter : 6