وزارات ثقافت
رائے گڑھ قلعہ: سب سے مشہور مراٹھا خود مختار حاکم کی راجدھانی، جس کی نشوو نما چھترپتی شیواجی مہاراج نے کی
Posted On:
28 OCT 2024 1:45PM by PIB Delhi
دَکھن کی یہ پاون مٹی!
چھترپتی کے چرن دھول کی!!
سر جھکتا ہے رائے گڑھ پر!
راجدھانی یہ سوراج کی!!
رائے گڑھ کا قلعہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے لیے نامزد کردہ 12 قلعوں کا حصہ ہے، جس کا عنوان ہے ‘‘ہندوستان کے مراٹھا فوجی منظرنامے’’
12 نامزد قلعوں میں سے، رائے گڑھ مراٹھا فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے اور ایک پہاڑی پر واقع دارالحکومت کے قلعے کی بہترین نمائندگی ہے
اس سال کیوڑیہ، گجرات میں راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریبات کے پس منظر کا موضوع رائے گڑھ کا قلعہ ہے
چھترپتی شیواجی مہاراج کی ناقابل یقین بہادری،شجاعت کے کارناموں اور اختراعی جنگی تکنیکوں کو دکھانے کے لیے کیوڑیہ میں راشٹریہ ایکتا دیوس پریڈ کے پس منظر کے طور پر قلعہ رائے گڑھ کی ایک نقل تیار کی گئی ہے
گرانٹ ڈف، ایک برطانوی مؤرخ نے رائے گڑھ اور جبرالٹر کی چٹان کے درمیان مماثلتیں بیان کیں ہیں اور رائے گڑھ کو مشرق کا جبرالٹر قرار دیا ہے
دُرگ راج رائے گڑھ
مہاراشٹر کی وادیوں کے اوپر بلند، رائے گڑھ قلعہ چھترپتی شیواجی مہاراج کے دور کی بازگشت رکھتا ہے۔ کبھی ان کی پھلتی پھولتی مراٹھا سلطنت کی راجدھانی، یہ پہاڑی چوٹی کا گڑھ اپنے ساتھ بہادری،اختراع اور شجاعت کی داستانیں رکھتا ہے۔ رائے گڑھ کا ہر پتھر شیواجی مہاراج کی زبردست ہمت اور دور اندیش تکنیکوں کی بازگشت ہے، جن کی قیادت نے اس قلعے کو طاقت کی ایک علامت میں بدل دیا۔ آج یہ مسلسل حوصلہ افزائی کررہا ہے اور نسلوں کو ان غیر معمولی کارناموں کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے ایک سلطنت کی تاریخ کو تشکیل دیا۔
‘‘سبھاسد بکھر’’(قدیم خط)اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح چھترپتی شیواجی مہاراج نے رائے گڑھ قلعے کو مراٹھا سلطنت کے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا تھا۔یہ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ‘‘چھترپتی شیواجی مہاراج نے پہاڑی یا رائری کی صلاحیت کا مشاہدہ کیا، جس میں سیدھی ڈھلان ہے اور یہ خطے کے تمام پہاڑوں اور پہاڑیوں میں سب سے اونچی ہے۔ چٹان کی ہموار اور اٹوٹ نوعیت زبردست امکانات کی حامل تھی۔ دولت آباد کا قلعہ بھی ایک اچھا قلعہ ہے، تاہم یہ رائے گڑھ کی طرح اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ زیادہ اونچا اور بہتر ہے، لہٰذا یہ بادشاہ کے لیے دارالحکومت اور تخت کے طور پر موزوں ترین ہوگا۔’’
رائے گڑھ، کال اور گندھاری ندیوں کے ذریعے تشکیل شدہ وادیوں سے گھرا ہوا، پڑوسی پہاڑیوں سے جڑے بغیر ایک الگ تھلگ میخ کوہ کے طور پرقائم ہے۔طبعی جغرافیہ کی خصوصیات،جیسے سیدھی چٹانوں اور 1500 فٹ بلندی کھڑی چٹانوں سے متصف اس کی ناقابل تسخیر نوعیت،اختراعی فوجی دفاعی حکمت عملیوں کے نقطہ نظر سے ممتاز ہے۔
گرانٹ ڈف، مرہٹہ دور کے ایک برطانوی مؤرخ نے رائے گڑھ اور جبرالٹر کی چٹان کے درمیان مماثلتیں بیان کی ہیں۔یہاں تک کہ اس نے رائے گڑھ کو مشرق کا جبرالٹر قرار دیا ہے۔
رائے گڑھ کا قلعہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے لیے نامزد کردہ 12 قلعوں کا حصہ ہے جسے‘‘ہندوستان کے مراٹھا فوجی منظر نامے’’ کا عنوان دیا گیا ہے۔ 12 نامزد قلعوں میں سے، رائے گڑھ مراٹھا فن تعمیر کی بہترین مثال ہے اور ایک پہاڑی پر واقع دارالحکومت کے قلعے کی بہترین نمائندگی ہے، جو قلعے کے اندر تعمیرات کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قسم کے ساتھ پہاڑی کی طبعی جغرافیہ کے ساتھ اچھی طرح سے مربوط ہے۔
اس سال کیوڑیہ، گجرات میں راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریبات کے پس منظر کا موضوع رائے گڑھ قلعہ ہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی ناقابل یقین بہادری،شجاعت کے کاموں اور جدید جنگی تکنیکوں کی کہانیوں کو دکھانے کے لیے کیوڑیہ میں راشٹریہ ایکتا دیوس پریڈ کے پس منظر کے طور پر رائے گڑھ قلعے کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔
رائے گڑھ قلعہ کی تاریخ
1653 عیسوی میں، رائے گڑھ (اس وقت رائری کے نام سے معروف تھا)پر موریس سے مراٹھا افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔ قلعہ کو دارالحکومت بنانے کے لیے شیواجی مہاراج نے قلعہ کی تعمیر نو کا کام ہیروجی اندولکر کو سونپا۔ اس کے بعد6 جون 1674 عیسوی کو رائے گڑھ چوکی پر شیواجی مہاراج کی ایک عظیم تاجپوشی کی تقریب منعقد ہوئی، جس کے دوران انہیں ‘‘چھترپتی’’ کا خطاب ملا۔ قلعہ چھترپتی شیواجی مہاراج کے دوسرے دارالحکومت کے طور پر کام کرتا تھا اور اس نے مراٹھا سلطنت کے انتظام اور توسیع میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
رائے گڑھ قلعہ مہاراشٹر کے شاندار ماضی کی خاموش یاد دہانی کے طور پر قائم ہے اور اس کی شناخت دُرگ راج (قلعوں کا بادشاہ)کے طور پر کی جاتی ہے۔ مختلف نشانیوں نے اسے ‘شیو تیرتھ’ کا درجہ دیا ہے۔ یہ قلعہ شیو بھکتوں کے لیے ایک مقدس عبادت گاہ کا درجہ حاصل کر چکا ہے، کیونکہ ہزاروں لوگ قلعہ میں نہ صرف اس کے وراثتی کردار کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ کامل دفاعی فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے، بلکہ ان کے رول ماڈل، چھترپتی شیواجی مہاراج کی نشست بھی ہے، جو بہادری، جرأت، انتظامی صلاحیت، فیاضی اور حب الوطنی کے لیے مشہور ہیں۔ عیسائی اور ہندو کیلنڈر کی بنیاد پر شیوراجیہ بھیشیک کی سالگرہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہے،جس میں مہاراشٹر کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اسی طرح شیواجی مہاراج کی برسی (پُنیہ تیتھی)بھی انتہائی عقیدت کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
یہیں پر شیواجی مہاراج نے سترھویں صدی(1674 عیسوی) میں اپنا دارالحکومت قائم کیا تھا۔ شیواجی مہاراج نے 1656 عیسوی میں چندر راؤ مور سے قلعہ چھینا تھا۔اسے ہندوی سوراج کی راجدھانی کے لیے کافی مستعدی کے بعداور اس کے اسٹریٹیجک محل وقوع اور ناقابل رسائی کو مدنظر رکھتے ہوئے موزوں ترین سمجھا جاتا تھا۔ پہاڑی کی چوٹی تک صرف پہاڑی کے ایک طرف سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ شیواجی مہاراج نے رائے گڑھ قلعے سے 1680 عیسوی میں اپنی موت تک چھ سال تک ہندوی سوراج پر حکومت کی۔ رائے گڑھ قلعے میں چھترپتی شیواجی مہاراج کی سمادھی ہے۔
رائے گڑھ قلعہ شاندار طریقے سے بنائے گئے دروازوں، قلعہ بندی کی دیواروں اورزبردست یادگاروں کے لیے قابل ذکر ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ سوائے شیواجی مہاراج کی سمادھی، نقار خانہ، سرکئی دیوی مندر، جگدیشور مندر - بھگوان شیو کے لیے وقف ایک عبادت گاہ - قلعہ کے اندر موجود زیادہ تر تعمیرات بشمول ہال آف پبلک آڈینس (راج صدر)، رائل کمپلیکس، رانیوں کےمحل (رانی واس)، بازارپیٹھ، منور (خوشی کے پویلین)، وڈیشور مندر، خوبلادا برج، ماسد مورچہ، ننّے دروازہ تحفظ کی بری حالت میں ہیں۔
شاہی کمپلیکس: رائل کمپلیکس جس میں رانی واس، راج صدر، نقار خانہ، مینا دروازہ اور پالکھی دروازہ شامل ہے، اچھی طرح سے قلعہ بند ہے اور صرف تین داخلی راستوں سے قابل رسائی ہے: نقار خانہ، مینا دروازہ اور پالکھی دروازہ۔ یہ قلعہ بند کمپلیکس عام طور پر بلّے قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلّے قلعہ سے متصل تین خوبصورت مینار ہیں۔ ایک شمال میں واقع ہے، جبکہ باقی دو قلعہ بندی کی دیوار کے مشرق میں واقع ہیں۔ تین منزلہ ٹاورز (منور) ڈیزائن کے لحاظ سے انتہائی آرائشی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اصل میں آنند منڈپ کے طور پراستعمال کیا جاتا تھا ہے۔ مناسب نکاسی کے ساتھ منسلک ایک بیت الخلاءقابل ذکر ہے۔ایک زیر زمین(خلوت خانہ)مشرق میں واقع ہے، جو ممکنہ طور پر خفیہ ملاقاتوں، ذاتی عبادات اور خزانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔
راج صدر (عوامی سامعین کا ہال): یہ وہ جگہ ہے ،جہاں شیواجی مہاراج معمول کے معاملات میں انصاف فراہم کرنے اور معززین اور سفیروں کا استقبال کرنے کےلیے اپنا دربارلگاتے تھے۔ یہ ایک مستطیل ڈھانچہ ہے، جس کا رُخ مشرق کی طرف ہے۔ یہاں مشرق سے ایک شاندار گیٹ وے کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے، جسے عرف عام میں نقارخانہ کہا جاتا ہے۔ گیٹ وے ایک بلند تین منزلہ ڈھانچہ ہے ،جس کا رُخ شاہی تخت کی طرف ہے، جبکہ سب سے اوپر کی منزل اینٹوں سے بنائی گئی ہے، جبکہ نچلی منزل پتھر کے بلاکس سے بنائی گئی ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ نقار خانہ میں ایک شاہی بینڈباجا بجاتا تھا۔ یہ حیرت انگیز صوتی خصوصیات کے ساتھ فن تعمیر کی ایک بہترین مثال ہے۔ نقارخانہ اور شاہی تخت کے درمیان تقریباً 65 میٹر کا فاصلہ ہے، اس کے باوجود دونوں سروں سے ہلکی سی سرگوشی بھی صاف سنی جا سکتی ہے۔ راج صدر شیواجی مہاراج کی خوشیوں، غموں، غصے، فتوحات، انتظامی مہارت اور بے پناہ سخاوت کا خاموش گواہ ہے۔
مرکزی چبوترے میں ایک آٹھ زاویوں والی میگھ دمبری (نشان شدہ چھتری)ہے، جس میں تخت کی اصل جگہ پر چھترپتی شیواجی مہاراج کی بیٹھی ہوئی تصویر ہے۔ یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ ہیروں اور سونے سے جڑا شاہی تخت تقریباً 1000 کلوگرام سونے کے آٹھ کالموں پر ٹکا ہوا تھا۔ اس میں شیواجی مہاراج کا شاہی نشان بھی تھا۔ تخت کے اوپر چھتری قیمتی پتھروں اور موتیوں کی تاروں سے مزین تھی۔
ہولیچہ مال: یہ نقار خانہ کے باہر واقع ہے۔ یہ ایک وسیع کھلا میدان ہے، جو ممکنہ طور پر سالانہ ہولی کے تہوار کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ہولیچا مال کے مغربی حصے پر ایک چھوٹا سا مندر ہے، جو قلعہ کے اہم دیوی شرکائی بھوانی کے لیے وقف ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اہم دیوی اصل میں ہولیچا مال کے جنوب مغرب میں واقع ایک اونچے پتھر کے چبوترے پر واقع تھی، جسے بعد میں اس کے موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ ہولیچہ مال کے شمال میں، ساختی اکائیوں کی ایک کشادہ اور اچھی طرح سے رکھی ہوئی متوازی قطار ہے، جسے عام طور پر بازار پیٹھ کہا جاتا ہے۔ اس کمپلیکس کے ہر یونٹ میں سامنے ایک برآمدہ اور عقب میں یکے بعد دیگرے دو کمرے ہیں۔ چبوترے اور دیواریں نیم ملبوس بیسالٹ پتھر کے بلاکس اور بے ترتیب ملبے والے پتھروں سے بنائی گئی ہیں، جن میں چونا ہمیشہ گارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
جگدیشور مندر: یہ مندر جس کا رُخ مشرق کی طرف ہے، منصوبہ بندی کے مطابق مستطیل ہے، جس کے سامنے ایک منڈپ اور عقب میں مقدس حرم ہے۔ مندر میں کم اونچائی والے دروازے سے داخل ہوا جا سکتاہے۔ مقدس مقام میں شیو لنگ ہے، جو اب بھی پوجا جاتا ہے۔ مندر کی اندرونی دیواریں بغیر کسی نقش و نگار کے ہیں۔ تاہم پیش کردہ بالائی تعمیر کو خوبصورتی سے کھدی ہوئی بریکٹس پر قائم ہے۔
چھترپتی شیواجی مہاراج کی سمادھی: مندر سے متصل، چھترپتی شیواجی مہاراج کی سمادھی جگدیشور مندر کے مشرقی دروازے کے تقریباً بالمقابل واقع ہے۔ اصل میں سمادھی میں صرف ایک کم اونچا آٹھ زاویوں والا پلیٹ فارم تھا، لیکن کسی وقت بیسویں صدی کے شروع میں نہ صرف پلیٹ فارم کی اونچائی بڑھائی گئی تھی ، بلکہ اسی جگہ پر ایک سائبان بھی تعمیر کردیا گیا تھا۔
دامن کوہ میں رائے گڑھواڑی گاؤں کے قریب، چٹِا دروازہ واقع ہے۔ اسے مقامی طور پر جِٹ دروازہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تقریباً 80-70 میٹر پیدل ٹریکنگ کے بعد وہاں خو بلادا برج موجود ہے۔ یہ اسٹریٹجک طورپر واقع ایک ٹاور ہے ،جہاں سے قلعہ کے قریب آنے والے کسی کو بھی سیکورٹی اہلکار آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
*************
(ش ح ۔ا ک۔ن ع(
U.No 1824
(Release ID: 2068881)
Visitor Counter : 42