نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
منقسم دنیا میں ہندوستانی آرٹ شمولیت کا ایک اعلی نمونہ پیش کرتا ہے: نائب صدر جمہوریہ
نائب صدر جمہوریہ کا کہنا ہے کہ اختلافات اور جدو جہد کی دنیامیں رقص اور موسیقی کی روشنی لوگوں کو ثقافتی رکاوٹوں کے پار متحد کرتی ہے
نائب صدر نے کہا ہمارا ثقافتی احیاء قدیم حکمت کو عصری طریقوں کے ساتھ مربوط کرتا ہے، جو ثقافتی پاور ہاؤس کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو مستحکم کرتا ہے
نائب صدر جمہوریہ نے زور دے کر کہا آرٹ غلبہ کی ستائش نہیں بلکہ یہ انضمام کی وضاحت کرتا ہے
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ رقص ثقافتی سفارت کاری کا ایک بہترین پہلو ہو سکتا ہے
نائب صدر جمہوریہ نے ہندوستانی رقص پر بین الاقوامی میلہ کی اختتامی تقریب میں کہا کہ ہندوستان فنون لطیفہ کی سونے کی کان ہے
Posted On:
21 OCT 2024 9:25PM by PIB Delhi
ندوستان کے نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکھڑنے کہا کہ ہندوستانی آرٹ، خاص طور پر رقص، تنازعات اور اختلاف کے ذریعہ تیزی سے تقسیم ہونے والی دنیا میں شمولیت کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔ انہوں نے سرحدوں کے پار لوگوں کو متحد کرنے کے لیے ہندوستان کے خوشحال اور بھرپور ثقافتی ورثے کی طاقت پر زور دیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا-’’ایک ایسی دنیا میں جو تنازعات، خلاف ورزیوں اور جدوجہد سے دوچار ہے، ہندوستانی آرٹ روشنی کی کرن پیش کرتا ہے۔ جب حالات چیلنجوں اور تفرقہ بازی سے بھرے ہوتے ہیں تو یہ ثقافت، رقص اور موسیقی ہی ہے جو ہمیں رکاوٹوں کوپار کرکے متحد کرتی ہے۔ دنیا کتنی بھی تقسیم ہو جائے، ہماری ثقافت کی وجہ سے جو اتحاد لایا گیا ہے وہ ناقابل تسخیر، سکون بخش اور دیرپا ہوتاہے۔’’
ثقافت کی وزارت اور انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز (آئی سی سی آر) کے تعاون سے سنگیت ناٹک اکادمی کے زیر اہتمام ہندوستانی رقص کے بین الاقوامی میلے میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا-‘‘پرفارمنگ آرٹس میں شفا، حوصلہ افزائی اور تحریک میں متحد ہونے کی طاقت ہوتی ہے۔رقص کے فنکار ثقافتی اور امن کے سفیر ہوتے ہیں، جو مکالمے کو فروغ دیتے ہیں اور آرام دہ سفارتی مکالموں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ رقص ثقافتی سفارت کاری کا ایک بہت بڑا پہلو ہے، جو سرحدوں کے پار افہام و تفہیم اور روابط کو فروغ دیتا ہے’’۔
جناب دھنکھڑنے ہندوستان کی بیش بہاثقافتی ورثے کی ستائش کرتے ہوئے کہا-‘‘بھارت فنون لطیفہ کی سونے کی کان ہے۔ ہمارا ثقافتی احیاء قدیم حکمت کو عصری طریقوں کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور ایک ثقافتی پاور ہاؤس کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ دنیا نے ہماری جی- 20 صدارت کے دوران اس کا مشاہدہ کیا، جہاں ہماری ثقافت کو حسیات کی دعوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ثقافت، رقص اور موسیقی بنی نوع انسان کی آفاقی زبانیں ہیں، جنہیں عالمی سطح پر سمجھا اور سراہا جاتا ہے’’۔
نائب صدر جمہوریہ نے عالمی ثقافت پر ہندوستان کے تاریخی اثر و رسوخ پر- خاص طور پر اس کے مہاکاویہ کے ذریعہ بھی روشنی ڈالی ۔‘‘ فن غلبہ کی تعریف نہیں کرتا، یہ انضمام کی وضاحت کرتا ہے۔ رامائن کا جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلنا، جو انگکور واٹ میں نظر آتا ہے، ہماری ثقافتی سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب میں نے انگکور واٹ کا دورہ کیا تو میں پیچیدہ نقش و نگار کودیکھ کر حیران رہ گیا — ایسا لگتا ہے جیسے پتھر بول رہا ہو۔ یہ ثقافتی سفارت کاری کے لیے ہندوستانی فن کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے’’۔
نائب صدر جمہوریہ نے ماضی میں جبر کے دور میں ہندوستان کی فنی روایات کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔‘‘ہماری تاریخ میں تقریباً 400-500 سال پہلے ایک وقت تھا، جب اس وقت کے حکمرانوں نے موسیقی کو ترک کر دیا تھا۔ ہمارے سب سے قیمتی ثقافتی خزانے کو ان کی اقدار کے خلاف دیکھا گیا۔ لیکن جنہوں نے رقص اور موسیقی کو پروان چڑھایا اور آگے بڑھایا ان کا ہمیشہ احترام کیا جاتا تھا’’۔
جناب دھنکھڑنے ہندوستان کے ہر علاقے کی منفرد ثقافتی پہچان و شناخت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا-‘‘اس عظیم سرزمین کے ہر حصے میں ضلع سے لے کر ضلع تک آپ کو ایک الگ ثقافتی شناخت ملے گی۔ بالکل‘ایک ضلع، ایک پروڈکٹ’ کی طرح، ہمیں رقص، موسیقی اور فن کی مقامی روایات پر زور دیتے ہوئے ‘ایک ضلع، ایک ثقافتی تقریب’ کو تسلیم کرنا چاہیے’’۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پرفارمنگ آرٹس نہ صرف ہندوستان کے عالمی قد میں حصہ ڈالتے ہیں بلکہ ملک کے نوجوانوں کی پرورش میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘ہمارے نوجوانوں کو رقص، موسیقی اور فنون لطیفہ میں شامل کرنے سے انہیں منشیات کے استعمال جیسی مضر عادات سے دور رکھنے اور مثبت، تخلیقی کوششوں میں استعمال کرنے میں مدد ملے گی’’۔
ہندوستان کی متحرک اور متنوع ثقافتی روایات کی عکاسی کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے تسلیم کیا کہ جب یونیسکو نے آٹھ ہندوستانی رقص کی شکلوں کو غیر محسوس ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کیا ہے، جن میں-‘ کالبیلیا’، ‘گربا’ اور‘ چاؤ’ شامل ہیں۔‘‘یہ صرف شروعات ہے، ہندوستان کا فنی ورثہ ان آٹھ شکلوں سے کہیں آگے پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے کہ ہمارے غیر معروف رقص کی شکلوں کو بھی محفوظ کیا جانا اور منایا جانا چاہئے اور ان کے معدوم ہونے سے روکا جا نا چاہئے’’۔
جناب دھنکھڑنے گزشتہ دہائی کے دوران رقص اور موسیقی کے میدان میں باصلاحیت و مستحق شخصیات کو دی گئی حالیہ شناخت کی ستائش کرتے ہوئے اپنی تقریر کااختتام کرتے ہوئے کہا-‘‘مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں یہ شناخت ہندوستان کے دائرہ کار میں پروقار ،نامور اور مستحق شخصیات کو ملی ہے۔ آرٹ قابل تعریف اور سکون بخش رہا ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کی زندگی کے چیلنجوں پر قابو پانے اور اپنے ناقابل تسخیر جذبے کو پروان چڑھانے میں مدد دے گا’’۔
انہوں نے سنگیت ناٹک اکادمی کی بھی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا-‘‘ہمارے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ میں اکادمی کا مسلسل کام ان روایات کو سامنے لانے میں بیش قیمتی رہا ہے’’۔
نائب صدر جمہوریہ نے ہندوستان کے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور نشو و نما کے لیے مسلسل کوششوں پر زور دیا، خاص طور پر اس کی غیر معروف رقص کی شکلیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ترقی کی منازل طے کریں اور عالمی سطح پر ملک کی شناخت اور اثر و رسوخ میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اس موقع پر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت، وزیر ثقافت، حکومت ہندوستان ، محترمہ ہیما مالنی ، رکن پارلیمنٹ لوک سبھا ، ثقافت کی وزارت کے سکریٹری جناب ارونیش چاؤلہ، سنگیت ناٹک اکادمی کے چیئرمین ڈاکٹر ساندھیا پریچا، پدم وبھوشن ڈاکٹر پدما سبرامنیم اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔
*************
(ش ح ۔ظ ا۔ج ا(
U.No 1565
(Release ID: 2066937)
Visitor Counter : 23