نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
ریزرویشن کے خلاف تعصب کا نمونہ سامنے آیا ہے؛ آئینی عہدے پر فائز ایک شخص نے ریزرویشن ختم کرنے کی بات کی ہے: نائب صدر
آئین ہند کا دکھاوا نہیں کیا جانا چاہیے ، اسے پڑھنا ، سمجھنا اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے : نائب صدر
ننائب صدر ے زور دے کر کہا کہ آئینی عہدے پر فائز شخص کے ذریعہ غیر ملکی سرزمین پر وقتاً فوقتاً ’’بھارت مخالف بیانات‘‘کو قبول نہیں کیا جاسکتا ہے
اداروں کو سیاسی اشتعال انگیز بحث کا محرک نہیں بننا چاہیے ، جو حوصلہ شکن تبصروں اور مشاہدات سے گریز کیا جانا چاہیے : نائب صدر
جمہوری آئینی اقدار پر پر سیدھے حملے کا جواب دیا جانا چاہیے : نائب صدر
ریزرویشن آئین کا ضمیر ہے ، مساوات لانے کے لیے ایک مثبت قدم ہے ، معاشرے کے ستونوں کو تھامنا چاہیے: نائب صدر جمہوریہ
جناب دھنکڑ نے اس ذہنیت پر سوال اٹھایا جس نے بابا صاحب امبیڈکر کو بھارت رتن دینے سے انکار کیا اور دس سال تک منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری سے انکار کیا
اکیس ماہ کی ایمرجنسی انتقامی آمریت تھی، دہشت گردی کی داستان ؛ بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دور تھا: نائب صدر
سمودھان ہتیا دیوس ہمیں اس وقت کے وزیر اعظم کی آمرانہ ذہنیت کی یاد دلاتا ہے: نائب صدر
نائب صدر نے ممبئی کے ایلفنسٹن ٹیکنیکل ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں جمہوریت کے بین الاقوامی دن پر سمودھان مندر کا افتتاح کیا
Posted On:
15 SEP 2024 3:02PM by PIB Delhi
نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکڑ نے آج گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابا صاحب امبیڈکر کو بھارت رتن دینے سے انکار اور منڈل کمیشن کی سفارشات پر تقریباً 10 سال تک عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ بننے والی ذہنیت، ریزرویشن کے خلاف تعصب کا یہ نمونہ پیش کر رہی ہے اور آئینی عہدے پر فائز ایک شخص غیر ملکی سرزمین پر وقفے وقفے سے ’بھارت مخالف نعرے‘ لگا رہا ہے، ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔
کچھ لوگوں کے ذریعے آئین کے دکھاوے پر تنقید کرتے ہوئے جناب دھنکڑ نے کہا کہ آئین کو کتاب کی طرح نہیں دکھایا جانا چاہیے۔ آئین کا احترام کیا جانا چاہیے۔ آئین کو پڑھا جانا چاہیے۔ آئین کو سمجھنے جانے کی ضرورت ہے۔ آئین کو محض ایک کتاب کے طور پر دکھاوا کرنا، اس کی نمائش کرنا، کم از کم کوئی بھی مہذب، باشعور شخص، آئین کے تئیں سرشار جذبہ رکھنے والا اور آئین کے جوہر کا احترام کرنے والا کوئی بھی شخص اسے قبول نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت ہمیں بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن ہمارے آئین میں بنیادی فرائض بھی شامل ہیں۔ اور سب سے اہم فرائض کیا ہیں؟ آئین کی پاسداری کریں اور قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام کریں۔ جدوجہد آزادی کے نظریات پر عمل کریں اور بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت کریں۔ یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ کچھ لوگوں کا غیر ملکی سفر کرنے کا واحد مقصد ان فرائض کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرعام بھارتی آئین کی روح کو پامال کیا جارہا ہے۔
آج ممبئی کے ایلفنسٹن ٹیکنیکل ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں سمودھان مندر کے افتتاح کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے جناب دھنکڑ نے کہا کہ یہ تشویش کی بات ہے، غور و فکر کا موضوع ہے اور گہری تدبر کا موضوع ہے۔ وہی ذہنیت جو ریزرویشن کے خلاف تھی، ریزرویشن کے خلاف تعصب کا نمونہ پیش کر رہی ۔ آج ایک آئینی عہدے پر بیٹھا شخص بیرون ملک کہتا ہے کہ ریزرویشن ختم کر دینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ بابا صاحب امبیڈکر کو بھارت رتن ایوارڈ کیوں نہیں دیا گیا، یہ 31 مارچ 1990 کو دیا گیا تھا۔ یہ اعزاز پہلے کیوں نہیں دیا گیا؟ بابا صاحب بھارتی آئین کے معمار کے طور پر بہت مشہور تھے۔ بابا صاحب کی ذہنیت سے جڑا ایک اور اہم مسئلہ منڈل کمیشن کی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ کو پیش کرنے کے بعد اگلے دس سالوں تک اور اس دہائی کے دوران جب ملک میں دو وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی اور جناب راجیو گاندھی تھے ، اس رپورٹ کے بارے میں ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
ریزرویشن مخالف ذہنیت کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے جناب دھنکڑ نے کہا، 'میں اس ذہنیت کے بارے میں کچھ روشنی ڈالتا کرتا ہوں۔ پنڈت نہرو، اس ملک کے پہلے وزیر اعظم، انھوں نے کیا کہا؟
’’مجھے کسی بھی شکل میں ریزرویشن پسند نہیں ہے۔ خاص طور پر ملازمتوں میں ریزرویشن‘‘ ان کے مطابق اور افسوس اور بدقسمتی سے میں یہ کہتا ہوں کہ ’’میں ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف ہوں جو نااہلی کو فروغ دیتا ہے اور ہمیں میڈیوکریسی کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات کرنے والوں اور اسے میرٹوکریسی کے خلاف سمجھنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جناب دھنکڑ نے کہا، ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ریزرویشن آئین کا ضمیر ہے، ریزرویشن ہمارے آئین میں اثبات کے عمل کے ساتھ ہے، جس کا سماجی مساوات لانے اور عدم مساوات کو کم کرنے کا بہت بڑا مقصد ہے۔ ریزرویشن مثبت اقدام ہے، یہ منفی نہیں ہے، ریزرویشن کسی کو موقع سے محروم نہیں کر رہا ہے، ریزرویشن ان لوگوں کا ہاتھ تھام رہا ہے جو سماج کے ستون اور طاقت ہیں۔
’’بنگلہ دیش یہاں ہو سکتا ہے‘‘جیسے بیانات کا موازنہ ایک انارکی تصور کو فروغ دینا ہے۔ جناب دھنکڑ نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ ہماری جمہوری اور آئینی اقدار پر براہ راست حملے سے گریز کریں، نائب صدر جمہوریہ نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ’’ھارت نے پہلے بھی اپنے ہی کچھ لوگوں کی بے وفائی اور خیانت کی وجہ سے اپنی آزادی کھو ئی تھی۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟ کیا بھارتی ملک کو اپنے مذہب سے بالاتر رکھیں گے یا وہ مذہب کو ملک سے اوپر رکھیں گے؟ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر پارٹیاں مذہب کو ملک سے بالاتر رکھیں گی تو ہماری آزادی دوسری بار خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘‘
اس صورت حال سے ہم سب کو پوری طرح بچنا چاہیے۔ جناب دھنکڑ نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے خون کے آخری قطرے سے اپنی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہونا چاہیے۔
نوجوان نسل سے اپیل کرتے ہوئے کہ وہ 21 ماہ کی ایمرجنسی کے بارے میں ہوشیار اور باخبر رہیں، جو آزادی کے بعد کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے، انھوں نے کہا، ’ایک خاص دن کو کبھی نہ بھولیں۔ اسے ہمیشہ یاد رکھیں. یہ ایک سیاہ دن ہے، ہماری تاریخ پر ایک داغ ہے. 25 جون 1975 آزادی کے بعد کے ہمارے سفر کا سیاہ ترین باب ہے، جو ہماری جمہوریت کا سیاہ ترین دور ہے۔ اس دن اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شہریوں اور ان کے حقوق کے خلاف ایک طوفان برپا کیا تھا۔ اکیس ماہ تک اس ملک نے شدید ظلم و ستم برداشت کیا۔ ہزاروں لوگوں کو قید کیا گیا اور قانون کی حکمرانی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آمریت کی وضاحت کرتا ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا خواب ان 21مہینوں میں چکنا چور ہو گیا۔ یہ ایک انتقامی آمریت تھی، اور دہشت گردی کی ایک داستان پھیلائی گئی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور طالب علم اس دور کے بارے میں سیکھیں اور اسے کبھی نہ بھولیں۔ یہ علم آپ کو آئین کی حفاظت کرنے کی طاقت دے گا۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے 2015 میں بھارت کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال 26 نومبر کو یوم دستور منایا جائے گا۔ ہم یوم دستور اپنے آپ کو یاد دلانے کے لیے مناتے ہیں کہ ہمارا آئین کیسے بنایا گیا تھا، یہ ہمارے حقوق کو کیسے قائم کرتا ہے، یہ ہمیں کس طرح بااختیار بناتا ہے، اور کس طرح یہ ایک ایسا نظام تشکیل دیتا ہے جہاں ایک عام پس منظر سے تعلق رکھنے والا شخص وزیر اعظم بن سکتا ہے، ایک کسان کا بیٹا نائب صدر بن سکتا ہے، اور ایک بڑی قابلیت اور خوبصورتی کی حامل قبائلی خاتون، جس نے تمام خامیوں اور زمینی حقائق کو دیکھا ہے، صدر بن سکتی ہیں۔‘‘
25 جون کو یوم آئین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اگر آپ نے اس دور کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، تو تاریخ کا علم ہونا کہ ان 21 مہینوں کے دوران کیا ہوا، اچانک چیزیں کیسے بدل گئیں، اور کس طرح، صرف اپنی حیثیت کو بچانے کے لیے، سب کچھ حدود سے باہر کیا گیا تھا. آئینی عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے، آئین کی روح کو کچلنے اور اس کے جوہر پر حملہ کرتے ہوئے، ایمرجنسی کا اعلان رات کے اندھیرے میں کیا گیا۔ یہ ایک خوفناک تجربہ تھا. یہی وجہ ہے کہ میں اسے سمودھان ہٹیا دیوس کہتا ہوں۔ یہ ہمیں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی آمرانہ ذہنیت کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے ایمرجنسی لگا کر جمہوریت کی روح کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ دن ہر اس شخص کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی دن ہے جو ایمرجنسی کی زیادتیوں کی وجہ سے متاثر ہوا ، جو بھارتی تاریخ میں کانگریس کے ذریعہ شروع کیا گیا ایک سیاہ ترین دور ہے ۔
ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی ضرورت اور تمام اداروں کو اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب دھنکڑ نے کہا کہ ریاست کے تمام اداروں یعنی عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹو کا ایک ہی مقصد ہے: آئین کی بنیادی روح کی کامیابی کو یقینی بنانا۔ عام لوگوں کو تمام حقوق کی ضمانت دینا، اور بھارت کو خوشحال اور پھلنے پھولنے میں مدد کرنا۔
انھیں جمہوری اقدار اور آئینی نظریات کو فروغ دینے اور فروغ دینے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ادارہ اچھی طرح سے خدمت کرتا ہے جب وہ کچھ حدود سے آگاہ ہوتا ہے. کچھ حدود واضح ہیں، کچھ حدود بہت نفیس ہیں، لطیف ہیں۔ عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹو جیسے ان مقدس پلیٹ فارمز کو سیاسی اشتعال انگیز بحث یا بیانیے کا محرک نہ بنایا جائے جو قائم شدہ اداروں کے لیے نقصان دہ ہو جو ایک چیلنجنگ اور مشکل ماحول میں ملک کی اچھی خدمت کرتے ہیں۔
ہمارے ادارے، ہر طرح کے ادارے، الیکشن کمیشن، تحقیقاتی ادارے جو سخت حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، ایک مشاہدہ ان کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ یہ ایک سیاسی بحث کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک بیانیہ کو متحرک کر سکتا ہے. ہمیں اپنے اداروں کے بارے میں انتہائی ہوشیار رہنا ہوگا۔ وہ مضبوط ہیں، وہ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں، وہ چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہیں۔ وہ قانون کی حکمرانی کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر ہم محض سنسنی پیدا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، کسی سیاسی بحث یا بیانیے کا مرکز یا مرکز بن جاتے ہیں جس سے میں متعلقہ لوگوں سے اپیل کروں گا تو اس سے مکمل طور پر بچا جا سکتا ہے۔
حکام میں موجود کچھ لوگوں کے بیانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا، ’’اب دیکھیں کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بارے میں بات کرنے میں بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ کولکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک اور وحشیانہ واقعے کو ’علامتی بیماری‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ کس قسم کی وضاحت ہے؟ کیا ہم اپنے آئین کی اس طرح کی بے حرمتی کو نظر انداز کر سکتے ہیں یا برداشت کر سکتے ہیں؟ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو مسترد کریں۔ وہ ہمارے مادر وطن بھارت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اس موقع پر مہاراشٹر کے گورنر جناب سی پی رادھا کرشنن، حکومت ہند کے وزیر مملکت جناب رام داس اٹھاولے، حکومت مہاراشٹر کے ہنرمندی، روزگار، انٹرپرینیورشپ اینڈ انوویشن ڈپارٹمنٹ کے وزیر جناب ماگل پربھات لودھا، ہنر مندی، روزگار، انٹرپرینیورشپ اینڈ انوویشن ڈپارٹمنٹ، حکومت مہاراشٹر کے سکریٹری جناب گنیش پاٹل اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔
***
(ش ح – ع ا)
U. No. 10961
(Release ID: 2055203)
Visitor Counter : 57