قانون اور انصاف کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

عدالتوں میں علاقائی زبانوں کا استعمال

Posted On: 08 AUG 2024 12:59PM by PIB Delhi

دستور کی دفعہ 348 (1) (اے) میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہر ہائی کورٹ میں تمام کارروائی انگریزی زبان میں ہوگی۔ تاہم دفعہ 348(2) میں کہا گیا ہے کہ کسی ریاست کا گورنر صدر جمہوریہ کی سابقہ رضامندی سے ریاست کے کسی بھی سرکاری مقصد کے لیے استعمال ہونے والی ہندی زبان یا ریاست کے کسی بھی سرکاری مقصد کے لیے استعمال ہونے والی کسی بھی دوسری زبان کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری زبان ایکٹ 1963 کی دفعہ 7 میں کہا گیا ہے کہ کسی ریاست کا گورنر صدر جمہوریہ کی سابقہ رضامندی سے اس ریاست کے لیے ہائی کورٹ کے ذریعہ منظور کردہ یا جاری کردہ کسی بھی فیصلے ، فرمان یا حکم کے مقاصد کے لیے انگریزی زبان کے علاوہ ہندی یا ریاست کی سرکاری زبان کے استعمال کی اجازت دے سکتا ہے۔ فرمان یا حکم ایسی کسی بھی زبان (انگریزی زبان کے علاوہ) میں جاری کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہائی کورٹ کے اختیار کے تحت جاری کردہ انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ بھی ہوگا۔

21.05.1965 کو منعقدہ اپنی میٹنگ میں سرکاری زبان کی پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے مقرر کردہ کابینہ کی کمیٹی نے یہ شرط رکھی ہے کہ ہائی کورٹ میں انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان کے استعمال سے متعلق کسی بھی تجویز پر عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا کی رضامندی حاصل کی جائے۔

راجستھان ہائی کورٹ کی کارروائی میں ہندی کے استعمال کو 1950 میں دستورکی دفعہ 348 (2) کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔ کابینہ کمیٹی کے 21.05.1965 کے فیصلے کے بعد، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، چیف جسٹس آف انڈیا کی مشاورت سے اتر پردیش ہائی کورٹس (1969)، مدھیہ پردیش (1971) اور بہار (1972) میں ہندی کے استعمال کی اجازت دی گئی۔

بھارت سرکار کو تمل ناڈو، گجرات، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال اور کرناٹک کی حکومتوں سے مدراس ہائی کورٹ، گجرات ہائی کورٹ، چھتیس گڑھ ہائی کورٹ، کلکتہ ہائی کورٹ اور کرناٹک ہائی کورٹ کی کارروائیوں میں بالترتیب تمل، گجراتی، ہندی، بنگالی اور کنڑ زبان کے استعمال کی اجازت دینے کی تجاویز موصول ہوئی تھیں۔ 1965 میں کابینہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ان تجاویز پر چیف جسٹس آف انڈیا سے مشورہ مانگا گیا تھا اور چیف جسٹس آف انڈیا نے 16.10.2012 کو اپنے ڈی او خط کے ذریعے مطلع کیا تھا کہ فل کورٹ نے مناسب غور و خوض کے بعد 11.10.2012 کو منعقدہ اپنی میٹنگ میں تجاویز کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تمل ناڈو حکومت کی ایک اور درخواست کی بنیاد پر حکومت نے چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں پہلے کے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور جولائی 2014 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی رضامندی سے آگاہ کریں۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے 18.01.2016 کو اپنے ڈی او خط کے ذریعے بتایا کہ فل کورٹ نے وسیع غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ تجاویز کو قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دستور کی دفعہ 130 میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ دہلی یا ایسی دوسری جگہ یا مقامات پر بیٹھے گا جسے چیف جسٹس آف انڈیا وقتا فوقتا صدر جمہوریہ کی منظوری سے مقرر کرے گا۔ ملک کے مختلف حصوں میں سپریم کورٹ کے بنچوں کے قیام کے لیے وقتا فوقتا مختلف حلقوں سے موصول ہونے والی درخواستوں کی بنیاد پر اور گیارہویں لاء کمیشن کی ’’سپریم کورٹ - ایک بازدید‘‘ کے عنوان سے 125ویں رپورٹ میں یہ معاملہ چیف جسٹس آف انڈیا کو بھیجا گیا، جنہوں نے بتایا کہ معاملے پر غور کرنے کے بعد، 18 فروری 2010 کو فل کورٹ میں اپنی میٹنگ میں بتایا کہ دہلی سے باہر سپریم کورٹ کے بنچوں کے قیام کی کوئی توجیہ نہیں ۔

نیشنل کورٹ آف اپیل کے قیام سے متعلق رٹ پٹیشن ڈبلیو پی (سی) نمبر 36/2016 میں سپریم کورٹ نے اپنے 13.07.2016 کے فیصلے کے ذریعے مذکورہ معاملے کو مستند فیصلے کے لیے آئینی بنچ کو بھیجنا مناسب سمجھا۔ یہ معاملہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں کو عام شہری کی گرفت کے لیے زیادہ جامع بنانے کے لیے ، کارروائیوں اور فیصلوں کا انگریزی سے دوسری علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے خصوصی کوششیں کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ذریعے دی گئی جانکاری کے مطابق، عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا نے اے آئی ٹول کا استعمال کرتے ہوئے مقامی زبانوں میں ای-ایس سی آر فیصلوں کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جناب جسٹس ابھے ایس اوکا کی سربراہی میں اے آئی کی مدد سے قانونی ترجمہ مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ 02.12.2023 تک مصنوعی ذہانت کے ترجمے کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 31,184 فیصلوں کا 16 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ہندی (21,908)، پنجابی (3,574)، کنڑ (1,898)، تمل (1,172)، گجراتی (1,110)، مراٹھی (765)، تیلگو (334)، ملیالم (239)، اوڈیا (104)، بنگالی (39)، نیپالی (27)، اردو (06)، آسامی (05)، گارو (01)، کھاسی (01)، کونکنی (01)۔ 02.12.2023 تک 16 زبانوں میں ترجمہ شدہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تفصیلات سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے ای-ایس سی آر پورٹل پر دستیاب ہیں۔

اسی طرح کی ایک کمیٹی تمام ہائی کورٹس میں تشکیل دی گئی ہے، جس کی سربراہی متعلقہ ہائی کورٹس کے ججکر رہے ہیں۔ فی الحال، سپریم کورٹ 16 مقامی زبانوں میں ای-ایس سی آر فیصلوں کا ترجمہ کرنے میں ہائی کورٹ کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہائی کورٹس سے ملی جانکاری کے مطابق 4983 فیصلوں کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اور ہائی کورٹس نے اپنی اپنی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیا ہے۔

وزارت قانون و انصاف کی نگرانی میں بار کونسل آف انڈیا نے سابق چیف جسٹس آف انڈیا جناب جسٹس ایس اے بوبڈے کی صدارت میں ’بھارتیہ بھاشا سمیتی‘ تشکیل دی ہے۔ کمیٹی قانونی مواد کو علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے مقصد سے تمام بھارتی زبانوں کے قریب ایک مشترکہ بنیادی الفاظ تیار کر رہی ہے۔

اب تک کچھ علاقائی زبانوں جیسے گجراتی، ملیالم، مراٹھی، پنجابی، تمل، تیلگو اور اردو میں ایک محدود لغت بھی تیار کی گئی ہے۔ یہ اصطلاحات قانونی نظام کے تمام اسٹیک ہولڈروں کے استعمال کے لیے http://legislative.gov.in/glossary-in-regional-language  ویب لنک پر لیجسلیٹیو محکمہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔

یہ جانکاری قانون و انصاف کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ، پارلیمانی امور کی وزارت میں وزیر مملکت جناب ارجن رام میگھوال نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں  دی۔

***

(ش ح – ع ا – ع ر)

U. No. 9571



(Release ID: 2043266) Visitor Counter : 25