وزیراعظم کا دفتر

نئی دہلی  میں سی آئی آئی کی  بعد از  بجٹ کانفرنس میں وزیراعظم کےخطاب کا متن

Posted On: 30 JUL 2024 3:44PM by PIB Delhi

سی آئی آئی کے صدر جناب سنجیو پوری جی، یہاں موجود تمام صنعتی شخصیات، سینئر سفارت کار، تمام صنعتی  اور کاروباری ساتھی جو  وی سی  کے ذریعے ملک کے مختلف کونوں سے ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات!

اگر نوجوانوں  کی  میٹنگ ہوتی تو میں شروع کرتا – جوش کیسا ہے؟ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی صحیح جگہ ہے۔ اور جب میرے ملک میں اس طرح سے زندگی کے ہر شعبے میں استحکام حاصل کرنے والے  اور جوش و خروش سے بھرپور لوگ موجود ہوں تو میرا ملک کبھی پیچھے نہیں رہ سکتا۔ آپ نے  مجھے اس پروگرام میں مدعو کیا میں سی آئی آئی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے، عالمی وباء کے وقت آپ اور ہم  بات چیت کر رہے تھے، آپ میں سے بہت سے لوگوں کو بھی یاد ہوگا۔ اور بحث کے مرکز میں موضوع  رہتاتھا - ترقی کی واپسی، اسی کے ارد گرد ہماری  ہماری بحث رہتی  تھی۔ اور  تب میں  نے آپ کو بتایا  تھا کہ ہندوستان بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اور آج ہندوستان کس بلندی پر ہے؟ آج ہندوستان 8 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ آج ہم سبھی  بات کر رہے ہیں- وکِسِت بھارت کی طرف سفر۔ یہ تبدیلی صرف جذبات کی نہیں ہے، یہ تبدیلی اعتماد کی ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی پانچویں  سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا۔ میں جس برادری سے آتا ہوں، اس برادری کی ایک  پہچان بن گئی ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے جو بھی بات کرتے ہیں، الیکشن کے بعد بھول جاتے ہیں۔ لیکن میں اس  برادری  میں مستثنیٰ ہوں، اور اسی لیے میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میں نے کہا تھا کہ میری تیسری مدت میں ملک تیسرے نمبر کی معیشت بن جائے گا۔ ہندوستان انتہائی احتیاط کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔

 ساتھیو

 جب 2014  میں آپ سب نے ہمیں ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیا، 2014 میں جب ہماری سرکار بنی تو سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ معیشت کو واپس  پٹری پر کیسے لایا جائے؟ یہاں ہر کوئی 2014 سے پہلے کی فریجائل فائیو کی صورتحال اور لاکھوں کروڑوں کے گھوٹالوں کے بارے میں جانتا ہے۔ حکومت نے وائٹ پیپر جاری کر کے ہماری معیشت کی حالت کی تفصیلات ملک کے سامنے پیش کر دی ہیں۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن میں آپ سے توقع کرتا ہوں   کہ آپ جیسے لوگ، آپ جیسی تنظیم اس  کا  ضرور مطالعہ کریں گے، آپ  کے یہاں  بحث کریں گے کہ ہم کہاں کھڑے تھے  اور کن بیماریوں کا شکار ہو  گئے تھے۔ ہم نے ہندوستان اور ہندوستانی صنعت کو اس عظیم بحران سے نکال کر اس بلندی تک پہنچایا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے بجٹ آیا ہے، اور میں دیکھ رہا تھا ایک اچھی دستاویز آپ کی تیار ہوئی ہے۔ ، میں ابھی ابھی دیکھ رہا تھا، میں اس کا مطالعہ ضرور کروں گا۔ اور جو بجٹ  ابھی ابھی آیا ہے، آپ بھی بجٹ کی بات چیت میں  مصروف ہیں،  تب بجٹ سے  متعلق کچھ حقائق آپ کے سامنے  پیش کرنا چاہتا ہوں۔

دوستو

 سال 2014-2013 میں جب پچھلی حکومت کا آخری بجٹ آیاتھا تو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کا آخری بجٹ 16 لاکھ کروڑ روپے کا تھا۔ آج ہماری حکومت میں یہ بجٹ تین گنا بڑھ کر 48 لاکھ کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ کیپٹل اخراجات ، جنہیں  وسائل کی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا پیداواری ذریعہ کہا جاتا ہے، اور اس کے اعداد و شمار بہت دلچسپ ہیں۔ سال 2004  جب اٹل جی کی سرکار  گئی۔ یو پی اے حکومت 2004 میں شروع ہوئی تھی اور یو پی اے حکومت کے پہلے بجٹ میں کیپٹل  اخراجات  تقریباً 90 ہزار کروڑ روپے تھے۔ 10 سال تک حکومت چلانے کے بعد یعنی 2014 میں  یو پی اے  سرکار  کا 10 واں سال تھا، اس نے اپنے کیپٹل اخراجات  کا بجٹ کو 2 لاکھ کروڑ روپے تک ہی پہنچایا تھا۔ یعنی 90 ہزار کروڑ سے بڑھا کر 2 لاکھ کروڑ۔ اور آج کیپیکس 11 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یعنی، 2014-2004 کے 10ویں سال میں، کیپیکس  کسی نہ کسی طرح دوگنا ہوگیا تھا۔ جبکہ ہماری حکومت میں کیپکس 5 گنا سے زیادہ بڑھاہے۔ اور یہاں تک کہ اگر آپ مختلف شعبوں کو دیکھیں تو آپ کو صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ آج ہندوستان  کس طرح ہر شعبے کی معیشت پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ گزشتہ حکومت کے 10 برسوں کے مقابلے میں ہماری حکومت نے ریلوے کے بجٹ میں 8 گنا اضافہ کیا ہے، ہائی ویز کے بجٹ میں 8 گنا، زراعت کے بجٹ میں 4 گنا  سے زیادہ اضافہ کیا ہےاور دفاع کے بجٹ میں 2 گنا سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ .

اور ساتھیو،

ہر شعبے میں بجٹ میں یہ ریکارڈ اضافہ بیک وقت ٹیکسوں میں ریکارڈ کٹوتی کے بعد کیا گیا ہے۔ 2014 میں، 1 کروڑ روپے کمانے والے ایم ایس ایم ایز کو 1 کروڑ روپے کا  قیاسی  ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ اب 3 کروڑ روپے تک کی آمدنی والے ایم ایس ایم ایز بھی اس  کا  فائدہ  اٹھا سکتے ہیں۔ 2014 میں، 50 کروڑ روپے تک کمانے والے ایم ایس ایم ایز کو 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ آج یہ شرح 22 فیصد ہے۔ 2014 میں کمپنیاں 30 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ادا کرتی تھیں، آج یہ شرح 400 کروڑ روپے تک کی آمدنی والی کمپنیوں کے لیے 25 فیصد ہے۔

اور دوستو،

یہ صرف بجٹ ایلو کیشن بڑھانے یا ٹیکس میں کمی کرنے کی ہی  نہیں ہے۔  بات  گڈ گورننس  کی  بھی ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ اب مثال کے طور پر ایک کمزور آدمی ہے جس کا وزن کم ہے لیکن اس کے جسم میں کسی بیماری کی وجہ سے سوجن ہے اور  پہلے کے مقابلے کپڑے  چھوٹے ہونے لگتے ہیں، لیکن کیا ہم اسے صحت مند کہیں گے؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ صحت مند ہے؟ وہ بہت صحت مند نظر آتا ہوں  لیکن حقیقت میں وہ کمزور ہوتا ہی ہے۔ 2014 سے پہلے کے بجٹ کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔  تب  بجٹ میں بڑے بڑے اعلانات کیے گئے تھے کہ معیشت کی صحت اچھی ہے۔ لیکن سچائی یہ تھی کہ بجٹ میں جو اعلانات کیے گئے تھے ان پر بھی زمینی عمل درآمد نہیں ہوتا تھا۔ یہ لوگ انفرااسٹرکچر کے لیے مختص رقم کو بھی پوری طرح خرچ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ جب بھی اعلانات کرتے تھے تو سرخیاں لیتے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی تھوڑا سا نظر آتا ہوگا۔ سابقہ ​​حکومتوں نے اسکیموں کو وقت پر مکمل کرنے پر کوئی زور نہیں دیا۔ ہم نے 10 برسوں میں اس صورتحال کو بدل دیا ہے۔ آپ سب گواہ ہیں کہ جس رفتار اور پیمانے کے ساتھ ہماری حکومت انفرااسٹرکچر  تیار کر رہی ہے، یہ بے مثال ہے۔

ساتھیو

آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ غیر یقینی صورتحال سے بھری ہوئی ہے۔ اور ایسی دنیا میں ہندوستان جیسی ترقی اور استحکام ایک استثناء ہے۔ اس طرح کی غیر یقینی صورتحال کے دور میں بھی ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ آج جب تمام ممالک کم شرح نمو یا زیادہ مہنگائی سے نبرد آزما ہیں۔ ان حالات میں، ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں زیادہ ترقی اور کم افراط زر ہے۔ اتنی بڑی  عالمی وباء کے باوجود، ہندوستان کی مالی سمجھداری پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ عالمی اشیاء  اور خدمات کی برآمدات میں ہندوستان کا تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ آج عالمی ترقی میں ہندوستان کا حصہ 16 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اور آپ  توجہ دیں ، ہندوستان نے یہ ترقی اس وقت حاصل کی ہے جب پچھلے 10 برسوں میں بہت سے بحران آئے تھے جنہوں ہندوستانی معیشت کو جھٹکے دیئے تھے۔ ہمارے دور حکومت میں بھی ایک مسئلہ تھا۔ 100 سال کی سب سے بڑی  عالمی وبا، دنیا کے مختلف ممالک میں جنگ کی صورتحال، ہندوستان میں بڑی بڑی  قدرتی آفات کبھی طوفان، کبھی خشک سالی، کبھی زلزلہ۔ ہم نے ہر بحران کا مقابلہ  کیا، ہر چیلنج کو حل کیا۔ اگر یہ بحران نہ آتے تو ہندوستان آج جہاں پہنچا ہے اس سے بھی کہیں زیادہ بلندی پر ہوتا اور  یہ میرا  یقین ہے میں  اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔

ساتھیو

آج ملک  وکست بھارت کے  عزم کے ساتھ چل رہا ہے۔ پچھلے 10 برسوں میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ ہم ملک کے شہریوں کی زندگی کی آسانی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، ہم ملک کے شہریوں کے معیار زندگی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

ساتھیو

انڈسٹری 4.0 کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے اپنی بہت زیادہ توجہ مہارت کی ترقی اور روزگار پر مرکوز کی ہے۔ آج ملک کے نوجوانوں میں یہ مزاج ہے کہ انہیں اپنے طور پر کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اس میں  مدرا یوجنا ہو، اسٹارٹ اپ انڈیا مہم ہو، اسٹینڈ اپ انڈیا ہو، وہ نوجوانوں کی بہت مدد کر رہے ہیں۔ مدرا یوجنا سے مدد لے کر 8کروڑ سے زیادہ ساتھیوں  نے پہلی بارکوئی بزنس شروع کیا ہے۔ ملک میں آج  تقریباً 1 لاکھ 40 ہزار اسٹارٹ اپس ہیں۔ اور ان میں لاکھوں نوجوان کام کر رہے ہیں۔  نئے نئے حوصلے کررہے ہیں ۔اس بجٹ میں بھی جس 2 لاکھ کروڑ روپے کے پی ایم پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے چاروں طرف اس کی ستائش ہو رہی ہے۔ اس سے سیدھا فائدہ 4 کروڑ سے زیادہ نوجوانوں کوملے گا۔ یہ پی ایم پیکج  کلی اور جامع ہے۔ یہ ٹکڑوں میں نہیں ہے، یہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، ایک اختتام سے آخر تک حل ہے۔ اس کا نقطہ نظر واضح ہے، ہندوستان کی افرادی قوت کو عالمی سطح پر مسابقتی ہونا چاہئے، ہندوستان کی مصنوعات کو عالمی سطح پر مسابقتی ہونا چاہئے، اور اسے نہ صرف معیار کے لحاظ سے بلکہ قیمت کے لحاظ سے بھی مسابقتی ہونا چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کی  صلاحیتوں کو بڑھانے، ان کی نمائش کو بڑھانے اور انہیں آسان روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک انٹرن شپ اسکیم لے کر آئے ہیں۔ ہم نے اس کا بھی خیال رکھا ہے کہ آپ جیسے لوگ جو روزگار پیدا کریں انہیں بڑے پیمانے پر مراعات ملیں۔ اسی لیے حکومت نے ای پی ایف او ​​کنٹریبیوشن میں مراعات کا اعلان کیا ہے۔

ساتھیو

ہماری حکومت کی نیت اور عزم بالکل واضح ہے۔ ہماری سمت میں کوئی موڑ نہیں ہے۔ نیشن فرسٹ ہو، یہ ہمارا عزم ہو، 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کا ریزولیوشن ہو،  چاہےسیچوریشن اپروچ کو حاصل کرنے کا ارادہ ہو، زیرو ایفیکٹ  زیرو ایفیکٹ کا معاملہ ہو،  چاہے  آتم نربھر بھات  کا ہمارا عزم ہو۔  چاہے وکست بھارت کے، بڑے عزم کے لئے ہماری لمبی دوڑ ہو۔ ہم اس کے لیے پوری توجہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہم مسلسل اسکیموں کو بڑھاتے ہیں اور ان کی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہیں۔ آپ حکومت کے نقطہ نظر اور ترقی کے تئیں ہماری وابستگی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہر بار، ہم نئے سنگ میل بنا رہے ہیں۔ اس لیے انڈسٹری سے میری توقع ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر  وکست بھارت کے  خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حکومت  کے ساتھ مقابلہ کریں، اور حکومت کو پیچھے رکھ کر جیتیں، میری آپ سے یہی توقع ہے۔ پی ایم پیکج کے اعلانات، ہم دونوں، چاہے وہ حکومت ہو یا صنعت، ہمیں مشترکہ ذمہ داری کے طور پر اسے تیز رفتاری سے آگے بڑھانا ہے۔ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔

ساتھیو

اس بار کے بجٹ کا ایک اور پہلو بھی ہے جو ہمارے وکست بھارت کے سفر کو تقویت بخشے گا۔ یہ موضوع ہے- مینوفیکچرنگ۔ آپ سب نے دیکھا ہے کہ پچھلے 10 برسوں میں ہندوستان کا مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کس طرح تبدیل ہوا ہے۔ ہم نے میک ان انڈیا جیسی پرجوش مہم شروع کی، ہم نے بہت سے شعبوں میں ایف ڈی آئی کے قوانین کو آسان بنایا۔ ہم نے ملٹی ماڈل لاجسٹک پارکس بنائے، 14 شعبوں کے لیے  پی ایل آئی اسکیم شروع کی۔ ایسے  فیصلوں نے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے اعتماد کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ اب اس بجٹ میں ملک کے 100 بڑے شہروں کے قریب سرمایہ کاری کے لیے تیار ‘‘پلگ اینڈ پلے’’ انڈسٹریل پارکس بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ 100 شہر ترقی یافتہ ہندوستان کے نئے گروتھ ہب بن جائیں گے۔ حکومت موجودہ صنعتی راہداریوں کو بھی جدید بنائے گی۔ ہماری توجہ ایم ایس ایم ایز  پر بھی ہے۔ اس سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ حکومت نے ایم ایس ایم ایز کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ان کے چیلنجوں سے بھی نمٹا ہے۔ ہم 2014 سے مسلسل کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایم ایس ایم ایز  کو ضروری ورکنگ کیپیٹل اور کریڈٹ ملے، ان کے تعمیل کے بوجھ اور ٹیکسوں کو کم کیا جائے، ان کی مارکیٹ  تک رسائی  اور امکانات کو بہتر بنایا جائے، اور ایم ایس ایم ایز  کو باقاعدہ بنایا جائے۔ اس بجٹ میں ایم ایس ایم ای کے لیے ایک نئی کریڈٹ گارنٹی اسکیم بھی شروع کی گئی ہے۔

ساتھیو

جب بجٹ آتا ہے تو اکثر بحث چند اہم نکات پر ہوتی ہے۔ اور موجودہ زیادہ تر بحثیں میڈیا پر مبنی ہوتی ہیں، اور وہ بھی ایجنڈے  کے تحت چلتی  ہیں۔ جب پر امن ماحول ہوتا ہے تو صورت حال کی طرف  گہرائی سے نظرجاتی ہے۔ کئی بار متعلقہ صنعتیں یا پھر ماہرین بھی ان پر کچھ توجہ دیتے ہیں اور ان کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بجٹ میں ایسی چیزوں کو بار بار ہر شعبے میں دہرانا ضروری ہے، مائیکرو لیول پر بھی اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ اب بجٹ میں ایٹمی بجلی پیدا کرنے کے لیے مختص رقم بڑھا دی گئی ہے۔ ہم زراعت میں ڈیجیٹل پبلک انفرااسٹرکچر بھی بنانے جا رہے ہیں۔ ہم کسانوں کو ان کی زمینوں کے نمبر دینے کے لیے بھو آدھار کارڈ بھی دینے جا رہے ہیں۔ خلائی معیشت کے لیے 1000 کروڑ روپے کے وینچر کیپیٹل کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ بجٹ میں کریٹیکل منرل مشن کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ہم جلد ہی کان کنی کے آف شور بلاکس کے پہلے مرحلے کی نیلامی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ یہ تمام اعلانات ترقی کی نئی راہیں کھولیں گے اور نئے مواقع پیدا کریں گے۔

دوستو

آج جب ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے، نئے شعبوں میں بھی امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ خصوصی طور پر ہمارے سن رائز  سیکٹر میں۔ آپ جانتے ہیں، ٹیکنالوجی ہی حال ہے، ٹیکنالوجی ہی  مستقبل ہے۔ آج جو بھی ملک سیمی کنڈکٹر ویلیو چین میں اپنی جگہ بنائے گا وہ مستقبل میں بڑا کردار ادا کرے گا۔ اور اسی لیے ہم اس صنعت کو ہندوستان میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح ہم الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ آج موبائل مینوفیکچرنگ انقلاب کا دور ہے۔ ہندوستان، جو کبھی موبائل فون کا درآمد کنندہ تھا، آج دنیا کے سب سے بڑے موبائل فون بنانے والے اور برآمد کنندگان میں جگہ بنا چکا ہے۔ ہندوستان میں، ہم نے گرین جاب سیکٹر کے لیے ایک بہت بڑا روڈ میپ تیار کیا ہے۔ ہم گرین ہائیڈروجن، الیکٹرک گاڑیاں، اس طرح کے کئی شعبوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ پی ایم سوریہ گھر یوجنا اتنی بڑی اسکیم ہے، اتنے وینڈرز کی ضرورت ہے، اور حکومت ہر گھر کو 75 ہزار روپے دینے والی  ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا انقلاب  ہونے والا ہے۔ اس بجٹ میں کلین انرجی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کےبارے میں کافی چرچا ہے۔ آج کے دور میں، توانائی کی حفاظت اور توانائی کی منتقلی دونوں معیشت اور ماحولیات کے لیے یکساں اہم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہم چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹرز پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف توانائی کی رسائی کی صورت میں صنعت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ اس شعبے سے متعلق پوری سپلائی چین کو بھی کاروبار کے نئے مواقع ملیں گے۔ ہماری صنعتوں اور صنعت کاروں نے ہمیشہ ملک کی ترقی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مجھے یقین ہے  کہ میں نے جن بھی سن رائز سیکٹر کا ذکر کیا ہے۔ آپ  ان سبھی میں  ہندوستان کو گلوبل پلیئر بنانے والے ہیں اور یہ میرے لئے صرف ایک لفظ گلوبل پلیئر  نہیں ہے جی... مجھے واضح طور پر یقین ہے کہ میرا ملک ایک گلوبل پلیئر بن جائے گا۔

ساتھیو

ہماری حکومت کے پاس سیاسی عزم کی کوئی کمی نہیں ہے اور آپ بھی اس سے واقف ہیں۔ ہمارے لیے ملک اور اہل وطن کی امنگیں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ میں صنعت اور ہندوستان کے نجی شعبے کو ہندوستان کو ایک وکست بھارت بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ سمجھتا ہوں۔ میں آپ جیسے  ساتھیو  کو ہندوستان کی ترقی کی داستان  کا اصل محرک سمجھتا ہوں۔ اور میں لال قلعہ سے بھی اس کا ذکر فخر  سے کرنے میں نہیں ہچکچاتا۔

ساتھیو

آج پوری دنیا کی نظریں ہندوستان پر، آپ سب پر ہیں۔ آج ہندوستان کی پالیسی، ہندوستان کی وفاداری، ہندوستان کا عزم، ہندوستان کے فیصلے اور ہندوستان میں کی جارہی سرمایہ کاری پوری دنیا کی ترقی کی بنیاد بن رہی ہے۔ دنیا بھر سے سرمایہ کار یہاں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ عالمی رہنما بھارت کے بارے میں مثبت سوچ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی صنعت کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے، یہ سنہری موقع ہے۔ ہمیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ نیتی آیوگ کی میٹنگ میں بھی، جب میں وزرائے اعلیٰ سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ ہر ریاست کو سرمایہ کار دوست چارٹر تیار کرنا چاہیے۔ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ریاستوں کے درمیان صحت مند مقابلہ ہونا چاہیے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میرے ملک کی ایک ریاست بھی پیچھے رہ جائے۔ سرمایہ کاری کے لیے پالیسیوں میں مزید وضاحت لائیں، بہتر ماحول بنائیں، ہر قدم پر اچھی حکمرانی محسوس کی جائے تاکہ سرمایہ کار ملک کی ہر ریاست میں جا سکیں۔

ساتھیو

پچھلے 10بر سوں کے تجربے کی بنیاد پر اور دنیا کے حالات کو قریب سے جاننے کے بعد، میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب ملک آزادی کی صد سالہ جشن منائے گا، جب ہندوستان کی آزادی کے 100 سال ہوں گے، اس صدی  کو ہم وکست بھارت کی شکل میں منائیں گے۔ ہم نے ایک غریب ملک کی حیثیت سے آزادی حاصل کی تھی، ہمیں لوٹا گیا۔ دنیا میں جس نے لوٹنا چاہا وہ لوٹ رہا تھا، آخری دم تک لٹتے رہے اور پھر ہم نے اپنا سفر شروع کیا۔ 100 سال کے اندر، ہم تمام رکاوٹوں کو دور کرکے اورعزائموں کو  پورا کرتے ہوئے  وکست بھارت  شکل میں  منا کر ہی رہیں گے ۔ ہم رہیں یا نہ رہیں، ہماری آنے والی نسلیں وکست بھارت کو  فخر سے جیئے یہ خواب لے کر چل رہی ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر آگے بڑھیں، اپنے ہندوستان کو ترقی یافتہ بنائیں اور اس  عزم کو تکمیل کی طرف لے جانے کے لئے  زندگی میں آپ کو اپنے پاس اشور نے  جو بھی دیا ہے اس کا بہتر سے بہتر ہم معاشرے کے  ،  ملک کے پھر سے  حوالےکریں ۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سب سبھی  کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔

بہت بہت شکریہ!

**********

 

ش ح۔ا گ ۔ رض

U:8989

 



(Release ID: 2039237) Visitor Counter : 38