نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
ہندوستانی سیاسی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور یہ بہت دباؤ میں کام کر رہا ہے – نائب صدر
پارلیمنٹ کے کام کو روک کر سیاست کو ہتھیار بنانا ہماری سیاست کے لیے سنگین نتائج لے کر آ رہا ہے: نائب صدر
وی پی نے چیئرمین یا اسپیکر کو ”آسان پنچنگ بیگ“ بنانے کے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا
وی پی نے پارلیمنٹ کو ”جمہوریت کا شمالی ستارہ“ اور قانون سازوں کو ”لائٹ ہاؤس“ کے طور پر بیان کیا
قانون ساز مجلسوں میں بذلہ سنجی، مزاح اور طنز کی جگہ تصادم اور مخالف ماحول نے لے لی ہے
ممبران مجھ سے میرے چیمبر میں ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں ان کی سیاسی جماعت کی طرف سے ایوان میں خلل ڈالنے کا حکم ہے – وی پی
وی پی نے آج ممبئی میں مہاراشٹر اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے اراکین سے خطاب کیا
Posted On:
11 JUL 2024 7:35PM by PIB Delhi
نائب صدر، جناب جگدیپ دھنکھر نے آج تشویش کے ساتھ کہا کہ ”ہندوستانی سیاسی نظام کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور یہ بہت دباؤ کے تحت کام کر رہا ہے۔“ یہ بتاتے ہوئے کہ قانون ساز مجلسوں میں بحث، مکالمے، غور و خوض کی اولین حیثیت میں خلل پیدا ہوا ہے، وی پی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے کام کو روک کر سیاست کو ہتھیار بنانا ہماری سیاست کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہے۔
آج ممبئی میں مہاراشٹر اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے، جناب دھنکھر نے چیئرمین یا اسپیکر کو ”دونوں طرف سے پنچنگ بیگ“ بنانے کے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اسے نامناسب قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم کرسی سنبھالتے ہیں تو ہمیں انصاف پسند ہونا پڑتا ہے، ہمیں منصفانہ ہونا پڑتا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جمہوریت کے مندر کی کبھی توہین نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ چیئر کا احترام ہمیشہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے پارلیمنٹ اور مجلس قانون ساز میں سینئر رکن کو راہنمائی کرنی ہوگی۔
ہماری مجلس قانون سازی میں جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ”جس طرح کا طرز عمل پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں دیکھا گیا وہ واقعی تکلیف دہ ہے، کیونکہ یہ ہماری قانون سازی کی گفتگو میں نمایاں اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔“
پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کو ”جمہوریت کا شمالی ستارہ“ قرار دیتے ہوئے جناب دھنکر نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ روشنی کا مینار ہیں اور انہیں قابل تقلید طرز عمل کی مثال دینی چاہیے۔
نائب صدر نے کہا، ”یہ ظاہر ہے کہ اس وقت ہماری پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے کام کاج کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ جمہوریت کے یہ مندر حکمت عملی کے تحت رکاوٹوں اور خلفشار کا شکار ہیں۔ فریقین کے درمیان مکالمہ غائب ہے اور گفتگو کی سطح دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔“
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہم آہنگی اور دوستی کو محاذ آرائی اور مخالفانہ موقف سے تبدیل کیا جا رہا ہے، وی پی نے کہا کہ ”جمہوری سیاست میں نئی کمی واقع ہو رہی ہے اور تناؤ اور دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سطح پر خود شناسی کی ضرورت ہے، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے ”دھماکہ خیز اور تشویشناک منظر نامے“ میں۔
”بذلہ سنجی، مزاح اور طنز جو کبھی اسمبلیوں میں گفتگو کا جوہر تھا، ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہم اکثر تصادم اور مخالف حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں،“ وی پی نے مزید کہا۔ انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے اراکین میں نظم و ضبط کا گہرا احساس پیدا کریں اور ان اراکین کو انعام دیں جن کی کارکردگی بہترین رہی ہے بجائے اس کے کہ وہ ان لوگوں کو انعام دیں جو کہ نعرے بازی میں مصروف رہتے ہیں۔
اس موقع پر نائب صدر نے یہ بھی بتایا کہ اکثر اراکین مجھ سے میرے چیمبر میں ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں ان کی سیاسی جماعت کی طرف سے ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کا حکم ہے۔
اختیارات کی علیحدگی کے نظریے پر سختی سے عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے، وی پی نے کہا کہ ملک اس وقت ترقی کرتا ہے جب اس کے تین بازو - مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔ ”ایک ادارے کی طرف سے دوسرے کے ڈومین میں مداخلت ممکنہ طور پر سب کچھ گڑبڑ کر سکتی ہے،“ انہوں نے خبردار کیا۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ قانون ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ کا ایک خصوصی ڈومین ہوتا ہے، نائب صدر نے کہا کہ قانون ساز اسمبلی آئینی طور پر ریاست کے دیگر اداروں کے ذریعہ اپنے دائرہ کار میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا متفقہ حل تلاش کرنے کی پابند ہے۔ جمہوریت کے لیے ہم آہنگی کو بہت ضروری قرار دیتے ہوئے، انہوں نے ہماری جمہوریت کے ان ستونوں کے سب سے اوپر والوں کے درمیان بات چیت کے ایک منظم طریقہ کار کے ارتقا کی ضرورت کا اظہار کیا۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایوان میں بحث میں عدم شرکت کا کوئی جوازنہیں ہو سکتا، وی پی نے اس منظر نامے کو مسترد کر دیا جس میں ایک موقع پر ایک رکن بحث میں حصہ نہیں لیتا اور دوسری طرف، وہ اپنی عدم شرکت سے پیسے کمانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہندوستان 2047 تک ایک وکست ملک بننے کے راستے پر گامزن ہے، جناب دھنکھر نے کہا کہ اس میراتھن مارچ میں، سب سے اہم ڈرائیور ریاستی اور مرکزی سطح پر پارلیمنٹیرین ہیں اور انہیں مثالی طور پر رہنمائی کرنی چاہیے۔
**********
ش ح۔ ف ش ع- م ف
U: 8263
(Release ID: 2032574)
Visitor Counter : 285