ارضیاتی سائنس کی وزارت

بھارت کوچی میں 46 واں انٹارکٹک معاہدہ مشاورتی اجلاس (اے ٹی سی ایم) میں انٹارکٹک سیاحت پر پہلی بار فوکسڈ ورکنگ گروپ کے مذاکرات کی سہولت فراہم کرے گا

Posted On: 21 MAY 2024 2:36PM by PIB Delhi

انٹارکٹیکا میں سیاحت کو منضبط کرنے کے بارے میں پہلی بار فوکسڈ ڈورکنگ گروپ کے مذاکرات کو سہولت فراہم کرنے میں بھارت 46 ویں انٹارکٹک معاہدہ مشاورتی اجلاس (اے ٹی سی ایم) اور 26 ویں ماحولیاتی تحفظ کمیٹی (سی ای پی) کے اجلاس کے موقع پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج اس موقع پر مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو ، وزارت ارتھ سائنسز (ایم او ای ایس) موجود تھے۔ نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشن ریسرچ (این سی پی او آر)، گوا اور انٹارکٹک ٹریٹی سیکریٹریٹ 20 مئی سے 30 مئی 2024 تک کوچی، کیرالہ میں ان اجلاسوں کا انعقاد کریں گے۔ اس مجمع میں تقریبا 40 ممالک سے 350 سے زائد شرکاء شریک ہیں۔

اے ٹی سی ایم اور سی ای پی انٹارکٹک معاہدے کی شقوں کے مطابق منعقد ہونے والے اعلی سطحی عالمی سالانہ اجلاس ہیں ، جو 1959 میں دستخط کرنے والے 56 فریقوں کا ایک کثیر ملکی معاہدہ ہے۔ ان ملاقاتوں کے دوران انٹارکٹیکا معاہدے کے رکن ممالک انٹارکٹیکا کی سائنس، پالیسی، گورننس، مینجمنٹ، تحفظ اور تحفظ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ سی ای پی 1991 میں انٹارکٹک معاہدے (میڈرڈ پروٹوکول) کے ماحولیاتی تحفظ کے پروٹوکول کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ سی ای پی اے ٹی سی ایم کو انٹارکٹیکا میں ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں مشورہ دیتا ہے۔

بھارت 1983 سے انٹارکٹک معاہدے کا مشاورتی فریق رہا ہے۔ دیگر 28 مشاورتی پارٹیوں کے ساتھ ، انٹارکٹیکا کی سائنسی کھوج اور ماحولیاتی تحفظ کو منظم کرنے میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ اسے انتظامیہ، سائنسی تحقیق، ماحولیاتی تحفظ اور لاجسٹک تعاون کے معاملات میں اے ٹی سی ایم کے دوران کیے گئے فیصلوں اور قراردادوں پر تجویز کرنے اور ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ مزید برآں، یہ ریسرچ اسٹیشن قائم کرسکتا ہے، سائنسی پروگراموں اور لاجسٹک آپریشنز کا انعقاد کرسکتا ہے، ماحولیاتی ضوابط کو نافذ کرسکتا ہے اور انٹارکٹک معاہدے کے ممبروں کے ذریعہ مشترکہ سائنسی اعداد و شمار اور تحقیقی نتائج تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ معاہدے اور مشاورتی فریق انٹارکٹک معاہدے کی تعمیل، ماحولیات کی دیکھ بھال، سائنسی تحقیق کو فروغ دینے اور انٹارکٹیکا کو فوجی سرگرمی اور علاقائی دعوؤں سے پاک امن کے زون کے طور پر برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ اے ٹی سی ایم کا انتظام انٹارکٹک ٹریٹی سیکریٹریٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جس کا صدر دفتر ارجنٹائنا میں ہے۔

ارتھ سائنسز کے سکریٹری اور بھارتی وفد کے سربراہ ڈاکٹر ایم روی چندرن نے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، ’’انٹارکٹیکا جنگلات اور سائنسی دریافت کے آخری محاذوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس غیر معمولی خطے کے منتظمین کی حیثیت سے، یہ یقینی بنانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ تحقیق اور سیاحت سمیت تمام سرگرمیاں اس انداز میں انجام دی جائیں جو آنے والی نسلوں کے لیے اس کی ماحولیاتی سالمیت کو برقرار رکھیں۔ بھارت کو اس 46 ویں اجلاس کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ، جس سے توقع ہے کہ انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم کے وسیع تر فریم ورک میں شامل کرنے کے لیے قابل عمل سفارشات کا ایک سلسلہ آئے گا۔ انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم کا پرعزم رکن ہونے کے ناطے بھارت انٹارکٹیکا میں بڑھتی ہوئی سیاحتی سرگرمیوں اور براعظم کے نازک ماحول پر ان کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کی اشد ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ انٹارکٹیکا کا دورہ کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں گذشتہ چند سالوں میں نمایاں اضافے کے ساتھ، سیاحت ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اس منفرد اور قدیم خطے کی پائیدار اور ذمہ دارانہ جستجو کو یقینی بنانے کے لیے جامع قواعد وضع کیے جائیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت نے احتیاطی اصولوں پر مبنی ایک جامع ، فعال اور موثر سیاحتی پالیسی کی وکالت کی ہے۔ 1966 سے اے ٹی سی ایم میں سیاحت کو منضبط کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے ، لیکن یہ ایجنڈا آئٹمز ، سیشنز ، پیپرز یا قراردادیں ہیں۔ انٹارکٹیکا میں سیاحت کو منضبط کرنے کے لیے ایک مخصوص ورکنگ گروپ 46 ویں اے ٹیم سی ایم میں پہلی بار تشکیل دیا گیا ہے جس کی میزبانی بھارت کر رہا ہے۔

این سی پی او آر کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھمبان میلوتھ نے بتایا کہ 2022 میں نافذ انڈین انٹارکٹک ایکٹ کے ذریعے انٹارکٹیکا میں بھارت کی سرگرمیوں بشمول سیاحت کو منضبط کرنے کے لیے بھارت کے پاس ایک قانونی فریم ورک موجود ہے۔ انھوں نے کہا، ’انڈین انٹارکٹک ایکٹ بھارت کے سیاحتی ضابطوں کو بین الاقوامی معیار کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے اور مشترکہ تحفظ کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انٹارکٹک معاہدے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

بھارت نے 2022 میں 10 ویں اسکار (انٹارکٹک ریسرچ پر سائنسی کمیٹی) کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس کا موضوع ’بدلتی ہوئی دنیا میں انٹارکٹیکا‘ تھا نیز اس نے بین الاقوامی قطبی سال کی تقریبات میں حصہ لیا تھا۔ جنوبی سمندر میں 11 بھارتی مہمات اور بحیرہ ویڈیل اور قطب جنوبی میں ایک ایک مہم بھیجی جا چکی ہے۔ 2007 میں بھارت نے نئی دہلی میں 30 ویں اے ٹی سی ایم میزبانی کی تھی اور انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کیا تھا۔ بھارت نے ناروے اور برطانیہ کے ساتھ مل کر انٹارکٹک کی آئس شیلف اور برف میں اضافے کا مطالعہ کیا اور آب و ہوا کے مطالعہ کے لیے برف کے کوروں کی کھدائی کی تھی۔

ارتھ سائنسز کے مشیر اور میزبان ملک سکریٹریٹ کے سربراہ ڈاکٹر وجے کمار نے کہا، ’’گذشتہ چار دہائیوں کے دوران، بھارت نے انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم کے فریم ورک کے اندر انٹارکٹک تحقیق، ماحولیاتی انتظام اور بین الاقوامی تعاون میں خود کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ثابت کیا ہے۔ بھارت انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم میں مشاورتی فریقوں کے طور پر کینیڈا اور بیلاروس کی ممکنہ شمولیت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کرے گا۔ کینیڈا اور بیلاروس بالترتیب 1988 اور 2006 سے انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم پر دستخط کر چکے ہیں۔ نئے مشاورتی فریقوں کو شامل کرنے کے لیے بات چیت کو آسان بنانے میں بھارت کی شمولیت انٹارکٹیکا میں سائنسی تحقیق اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے اس کے وسیع تر مقاصد سے ہم آہنگ رکھتی ہے۔

سفیر پنکج سرن جنھیں 46 ویں اے ٹی سی ایم اجلاس اور 26 ویں سی ای پی کے لیے چیئرپرسن منتخب کیا گیا ہے، کہا ’’انٹارکٹک ٹریٹی سسٹم میں شامل ممالک کی مشترکہ کوششیں قدیم ماحول کے تحفظ اور انٹارکٹیکا میں سائنسی تحقیق کو آگے بڑھانے میں اہم ہیں۔ اپنی قیادت اور عزم کے ذریعے بھارت انٹارکٹک گورننس کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘

اے ٹی سی ایم کے 46 ویں مکمل اجلاس میں وزارت ماحولیات کے سابق سکریٹری پدم بھوشن ڈاکٹر شیلیش نائک نے ’انٹارکٹیکا اور آب و ہوا کی تبدیلی‘ کے عنوان پر خطاب کیا۔ اس موقع پر وزارت خارجہ کے سکریٹری (ویسٹ) جناب پون کپور بھی موجود تھے۔

***

(ش ح – ع ا – ع ر)

U. No. 6980



(Release ID: 2021222) Visitor Counter : 52