امور داخلہ کی وزارت
صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو نے آج نئی دہلی میں سی ایل ای اے - کامن ویلتھ اٹارنی اور سالیسیٹرز جنرل کانفرنس‘ سی اے جی ایس سی 24’ کی اختتامی تقریب کی صدارت کی
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے سی اے جی ایس سی’24 کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا
جغرافیائی سرحدیں رکاوٹ نہیں بلکہ قانون کے لیے میٹنگ پوائنٹ(ملاقات کا مقام) ہونا چاہیے
ہندوستان کے نئے فوجداری قوانین اگلے 100 برسوں کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوں گے
انصاف کو 3 اشکال میں ڈھالنا ہو گا - قابل رسائی، سستا اور جوابدہ
انصاف کی فراہمی کے لیے تعاون – ہم آہنگی کو کلیدی منتر بنانا ہوگا
کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتا
Posted On:
04 FEB 2024 7:48PM by PIB Delhi
صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو نے آج نئی دہلی میں سی ایل ای اے - کامن ویلتھ اٹارنی اور سالیسیٹرز جنرل کانفرنس سی اے جی ایس سی 24 کی اختتامی تقریب کی صدارت کی۔ مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے سی اے جی ایس سی 24 کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے جج ، جسٹس جناب سوریا کانت، مرکزی وزیر مملکت (آئی/سی) برائے قانون و انصاف، جناب ارجن رام میگھوال، اٹارنی جنرل آف انڈیا، ڈاکٹر آر وینکٹرامانی، سالیسٹر جنرل آف انڈیا، جناب تشار مہتا اور چیئرمین کامن ویلتھ لیگل ایجوکیشن ایسوسی ایشن، ڈاکٹر ایس شیوکمار سمیت کئی دیگر معززین موجود تھے۔
جناب امت شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب دنیا میں جغرافیائی حدود کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب جغرافیائی حدود تجارت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں اور نہ ہی جرائم کے لیے۔ تجارت اور جرائم، دونوں ہی کسی بھی قسم کی جغرافیائی سرحدوں سے بے نیاز ہ ہوتے جا رہے ہیں اور ایسے وقت میں تجارتی تنازعات اور جرائم سے سرحدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نمٹنے کے لیے ہمیں کچھ نیا نظام اور روایت شروع کرنا ہو گی۔
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ ایک عام آدمی کی زندگی میں انصاف کی بہت اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ دروپدی مرمو ہندوستان کے ایک دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا ہندوستان کا صدر بننا ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور آئین کی روح کتنی گہری ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آج کی کانفرنس کا دائرہ کار صرف عدالتوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دولت مشترکہ کے ممالک اور ایک طرح سے پوری دنیا کے عام لوگوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ملک کے آئین میں انصاف اور حقوق ایک عام عامل کے طور پر ہوتے ہیں اور یہ نظام انصاف ہی انہیں زمین پر حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے اور آخری فرد تک انصاف کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ آج کی باہمی تعلقات پر منحصر دنیا میں بھی کوئی بھی جغرافیائی سرحدوں اور رکاوٹوں کے وجودسے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن تجارت، کاروبار ، مواصلات اور جرائم کسی بھی قسم کی رکاوٹ اور سرحد کے پابند ہو کر نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے سائبر فراڈ سے عالمی منظم جرائم کا تعلق اب بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی تنازعات سے لے کر سرحدی تنازعات تک کے درمیان بھی تعلق مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹی موٹی چوری سے لے کر بینکنگ سسٹم اور ڈیٹا کو ہیک کرنے تک کا سارا عمل ایک تکمیلی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور بین الاقوامی دہشت گردی کا مقامی جرائم سے تعلق بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ آج جرائم اور جرائم پیشہ افراد جغرافیائی سرحدوں کی پابندی سے آزاد ہو کر کام کرتے ہیں ، اس لیے ان پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا، ورنہ جرائم کے بے قابو ہونے سے تجارت مشکل ہو جائے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ، تجارتی تحفظ کے معاہدوں، بین الاقوامی معیارات اور ضابطوں سے متعلق شکایات اور معاہدہ اور تنازعات کے حل جیسے کئی مسائل پر کافی کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی بہت سے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کی غرض سے ہمیں جرائم پر قابو پانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے لیے جغرافیائی سرحد کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے بلکہ جغرافیائی سرحد کو قانون کے لیے میٹنگ پوائنٹ(ملاقات کا مقام) ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے میٹنگ پوائنٹ کا تعین آج کی طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے، تب ہی تمام ممالک کے قوانین ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور انصاف کی فراہمی ممکن ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوئے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے آج کے دور میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ‘تعاون’ اور ‘تال میل’ کو کلیدی منتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب آج کے عالمی جرائم کے چیلنجز سرحدوں کا احترام نہیں کرتے تو پھر انصاف کی فراہمی کے لیے بھی سرحدوں کو ایک وسیلہ کے طور پر دیکھنا ہو گا نہ کہ دائرہ کار کی آخری حد کے طورپر سرحدوں کو میٹنگ پوائنٹ کے طور پر تیار کرنا ہو گا اور انہیں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کی حیثیت اختیار نہیں کرنے دی جائے گی۔ جناب شاہ نے کہا کہ ہندوستان نے اس سمت میں کافی کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تجارتی تنازعات کو حل کرنے اور فوجداری قوانین میں مکمل اصلاحات کے حوالے سے تمام شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کرکے ہندوستان میں اس کا نقشہ بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکنالوجی کے استعمال کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ آنے والے 100 برسوں میں ٹیکنالوجی میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کو ہم آہنگ بنانا ممکن ہو جائے گا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آج کے مسلسل تبدیل ہوتے حالات میں عدلیہ کو بھی بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار مقدمات کے پیش نظر انصاف کے پورے عمل میں ٹیکنالوجی کا استعمال اپنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم 21ویں صدی میں 19ویں صدی کے قوانین کی پیروی کرتے ہوئے انصاف فراہم نہیں کر سکتے۔ جناب شاہ نے کہا کہ ایک بار جب تین نئے فوجداری قوانین - بھارتیہ نیا سنہتا، بھارتیہ ناگرک تحفظ سنہتا اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم - مکمل طور پر نافذ ہو جائیں گے،اس وقت ہندوستان کا فوجداری انصاف کا نظام دنیا کا سب سے جدید فوجداری انصاف کا نظام بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ترجمے کے عمل سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانونی نظام اور مقدمات کی باریکیوں کو سمجھنے میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ پورے نظام انصاف کو 3 صفات کا حامل یعنی قابل رسائی، سستی اور جوابدہ بنانا بہت ضروری ہے اور ان تینوں پہلوؤں کے لیے ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نئے فوجداری قوانین میں ٹیکنالوجی اور تفتیشی قوانین دونوں کی جگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شواہد پر مبنی استغاثہ کو فروغ دینے کے لیے ہم نے 7 سال یا اس سے زیادہ کی سزا والے مقدمات کی تفتیش کے لیے سائنٹیفک آفیسر کے دورے کو لازمی قرار دیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ نئے قوانین کے نفاذ سے پہلے ہی حکومت نے پورا انفرااسٹرکچر تیار کر لیا ہے اور فارنسک سائنس یونیورسٹیاں بنا کر انسانی وسائل کی پیداوار کا کام بھی مکمل کر لیا ہے اور ہم ہر سال 35000 سائنسی افسران تیار کریں گے۔ فرانزک سائنس یونیورسٹیاں انٹیگریٹڈ کریمنل جسٹس سسٹم( آئی سی آئی ایس) کے ذریعے، ہم نے ملک کے تمام تھانوں کو ایک سافٹ ویئر سے جوڑ دیا ہے تاکہ وہ اپنی اپنی زبانوں میں آن لائن کام کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پولیس کے ذریعے 8 کروڑ سے زائدپچھلوں سے ہم تک پہنچنے والا ڈیٹا محفوظ کیا ہے۔ ای کورٹ میں نچلی عدلیہ سے متعلق 15 کروڑ سے زیادہ ڈیٹا آن لائن کیا گیا ہے۔ 2.5 کروڑ سے زیادہ قیدیوں کا ڈیٹا اب ای جیل کے ذریعے آن لائن دستیاب ہے اور ای پراسیکیوشن کے ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ پراسیکیوشن کا ڈیٹا آن لائن دستیاب ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ پولیس، عدالت، استغاثہ اور سائنٹفک تفتیشی عمل کے لیے اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے سافٹ ویئر بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معاملات سے نمٹنے کی منزلیں آسان ہو جائیں گی اور تینوں نئے فوجداری قوانین کے مکمل نفاذ کے بعد کوئی بھی ایف آئی آر 3 سال میں تفصیہ کے مرحلے تک پہنچ جائے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر نے کانفرنس میں شریک دولت مشترکہ ممالک کے اٹارنی اور سالیسٹر جنرلز پر زور دیا کہ وہ کانفرنس میں زیر بحث قابل عمل نکات کو اپنے ممالک کی قانون ساز ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کریں، قانون کی تشکیل کریں اور عالمی نظام کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ تب ہی یہ کانفرنس کامیاب تصور کی جائے گی۔
*************
( ش ح ۔س ب۔ رض (
U. No.4404
(Release ID: 2002485)
Visitor Counter : 69