خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
مختلف پیشوں میں خواتین کی شراکت کو فروغ دینے کے لیے اسکیمیں
Posted On:
13 DEC 2023 2:46PM by PIB Delhi
ہندوستان میں ایک نئے ہندوستان کے وژن کے ساتھ خواتین کی ترقی سے خواتین کی زیرقیادت ترقی کی طرف تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، جہاں خواتین تیز رفتار اور پائیدار قومی ترقی میں برابر کی شراکت دار ہیں۔
ہندوستان اس وقت دنیا کے ان 15 ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایک خاتون سربراہ مملکت ہے۔ عالمی سطح پر، ہندوستان میں مقامی حکومتوں میں منتخب خواتین کے نمائندوں کی مطلق تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں عالمی اوسط سے 10 فیصد زیادہ خواتین پائلٹس ہیں۔ عالمی سطح پر، انٹرنیشنل سوسائٹی آف ویمن ایئر لائن پائلٹس کے مطابق، تقریباً 5 فیصد پائلٹس خواتین ہیں۔ ہندوستان میں خواتین پائلٹوں کا حصہ نمایاں طور پر زیادہ، جو کہ 15 فیصد سے زیادہ ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں لڑکیوں کے مجموعی اندراج کا تناسب (جی ای آر) لڑکوں کے تقریباً برابر ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) میں لڑکیوں/خواتین کی موجودگی 43فیصد ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
معاشرے میں صحت مند صنفی توازن کی پیمائش کرنے والے اہم اشاریوں میں سے ایک ‘پیدائش کے وقت صنفی تناسب (ایس آربی)’ ہے۔ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایچ ایم آئی ایس) کی تازہ ترین رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایس آربی بہتر ہو رہا ہے اور15 پوائنٹس کی خالص تبدیلی کے ساتھ 15-2014سے 23-2022 (عارضی) کے دوران قومی سطح پر 918 سے بڑھ کر 933 ہو گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات نے صنفی تناسب کی بہتری میں کردار ادا کیا ہے، جس میں بچیوں کے تئیں سماجی رویہ کی تبدیلی کے لیے مرکوز نقطہ نظر بھی شامل ہے جس نے پدرانہ ذہنیت میں تبدیلی میں مدد کی ہے جو لڑکیوں کوخاندان اور سماج کے ایک کمزوررکن اور ایک بوجھ تصورکرتی تھی۔ ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ اسکیم نے ذہنیت کی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ گھر کے بڑے فیصلوں میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 (این ایف ایچ ایس 5) کہا گیا ہے کہ آج 88.7فیصد خواتین بڑے گھریلو فیصلوں میں حصہ لیتی ہیں جبکہ پانچ سال پہلے یہ 84فیصد تھا۔
حکومت ہند نے مختلف منصوبہ بندی اور قانون سازی سے متعلق اقدامات کئے ہیں اور مختلف پیشوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے قابل عمل انتظامات کیے ہیں۔ اسکل انڈیا مشن کے تحت خواتین کارکنوں کی ملازمت کو بڑھانے کے لیے حکومت خواتین کے صنعتی تربیتی اداروں، قومی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں اور علاقائی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے نیٹ ورک کے ذریعے انہیں تربیت فراہم کر رہی ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانے اور ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی دفاتر میں خواتین کی نمائندگی کے لیے سب سے بڑی چھلانگ 28 ستمبر 2023 کو حکومت کی جانب سے ناری شکتی وندن ادھینیم، 2023 (106 ویں آئینی ترمیم) ایکٹ، 2023 کا نوٹیفکیشن ہے۔ جس کے تحت لوک سبھا اور قومی راجدھانی خطہ ،دہلی کی این سی ٹی کی قانون ساز اسمبلی سمیت ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں ریزروکی گئی ہیں۔
سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم ) میں خواتین کی شراکت بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ وگیان جیوتی کو 2020 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ 9 ویں سے 12 ویں کلاس تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف اسٹریمز میں لڑکیوں کی کم نمائندگی کو متوازن کیا جا سکے۔ اوورسیز فیلوشپ اسکیم 18-2017 میں شروع ہوئی، جس میں ہندوستانی خواتین سائنسدانوں اور تکنیکی ماہرین کو ایس ٹی ای ایم میں بین الاقوامی تعاون پر مبنی تحقیق کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں ۔ کئی خواتین سائنسدانوں نے ہندوستان کے پہلے مارس آربیٹر مشن (ایم اوایم ) یا منگلیان میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس میں اسپیس ایپلیکیشن سینٹر میں سائنسی آلات کی تعمیر اور جانچ بھی شامل ہے۔
خواتین کے روزگار کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے، حال ہی میں نافذ کردہ لیبر کوڈز میں ، ضابطہ اجرت، 2019، صنعتی تعلقات کا ضابطہ، 2020، پیشہ ورانہ تحفظ، صحت اور کام کے حالات کا ضابطہ، 2020 اور سماجی تحفظ کا ضابطہ، 2020 خواتین کارکنوں کے لیے کام کا سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے متعدد قابل عمل دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔
حکومت نے کام کاجی خواتین کو محفوظ رہائش فراہم کرنے کے لیے ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی اسکیم کو بھی نافذ کیا ہے۔ نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ یا ای این اے ایم زرعی اجناس کے لیے ایک آن لائن ٹریڈنگ پلیٹ فارم ہے، اسکیم ‘‘کسان کال سینٹرز’’ کسانوں کے سوالات کا جواب ان کی اپنی بولی میں ٹیلی فون کال پر دیتی ہے، موبائل ایپلیکیشنز جیسے کسان سوویدھا، ایگری مارکیٹ، نیشنل کراپ انشورنس پورٹل، امنگ (یونیفائیڈ موبائل ایپلیکیشن فار نیو ایج گورننس)۔ یہ ڈیجیٹل اختراعات خواتین کو بازاروں تک رسائی میں درپیش رکاوٹوں پر قابو پانے یا اس کی تلافی کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔
حکومت ہند ‘‘مشن شکتی’’ کو نافذ کرتی ہے جس کے دو اجزاء ہیں، سمبل اور سامرتھیہ۔ ‘‘سنبل’’ کے تحت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، ون اسٹاپ سینٹر، ویمن ہیلپ لائن اور ناری عدالت جیسے اجزاء کام کر رہے ہیں۔ ‘‘سامرتھیہ’’، ذیلی اسکیم کے اجزاء ہیں پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا، شکتی سدن، خواتین کو بااختیار بنانے کا مرکز، سکھی نواس یعنی ورکنگ ویمن ہاسٹل، پالنا، آنگن واڑی کم کریچ۔
کسانوں کی فلاحی اسکیمیں جیسے پردھان منتری کسان سمان ندھی، پردھان منتری کسان مان دھن یوجنا، پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا، پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا، پردھان منتری فصل بیما یوجنا وغیرہ خواتین کسانوں کے لیے ایک سازگار ماحول کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے حکومت زرعی توسیعی خدمات سمیت پیداواری وسائل تک فارم خواتین کی رسائی کو بہتر بنا رہی ہے جس سے دیہی خواتین کی زندگیوں میں مجموعی طور پر بہتری آ رہی ہے۔
نیشنل کوآپریٹو ڈیولپمنٹ کارپوریشن خواتین کوآپریٹیو کی ترقی کے لیے ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ خواتین کی بڑی تعداد کوآپریٹیو میں مصروف اور شامل ہے جو اناج کی پروسیسنگ، روپائی والی فصلوں، تیل کے بیجوں کی پروسیسنگ، ماہی پروری، ڈیری اورمویشیوں ، اسپننگ ملز، ہینڈلوم اور بنائی کے لئے پاور لوم ، انٹیگریٹڈ کوآپریٹو ڈویلپمنٹ پروجیکٹس وغیرہ۔
حکومت کی فلیگ شپ اسکیم دین دیال انتودیا یوجنا –، قومی دیہی ذریعہ معاش مشن (ڈی اے وائی –این آرایل ایم ) کے تحت، تقریباً 90 لاکھ خواتین اپنی مدد آپ گروپس (ایس ایچ جی ) جن میں تقریباً 10 کروڑ خواتین ارکان ہیں، خواتین کومعاشی اعتبارسے بااختیار بنانے کے حوالے سے دیہی منظر نامے کو تبدیل کر رہے ہیں۔
پردھان منتری آواس یوجنا یا وزیر اعظم ہاؤسنگ اسکیم کے تحت منظور کیے گئے تقریباً 4 کروڑ گھروں میں سے زیادہ تر خواتین کے نام پر ہیں۔ اس سب نے مالیاتی فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت میں اضافہ کیا ہے۔ ‘ووکل فار لوکل’ کا خواتین کو بااختیار بنانے میں اہم رول ہے، کیونکہ زیادہ تر مقامی مصنوعات کااختیار خواتین کے ہاتھ میں ہے۔
حکومت نے مسلح افواج میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے انتظامات کیے ہیں جیسے کہ لڑاکا پائلٹس جیسے جنگی کرداروں میں خواتین کو مستقل کمیشن دینا، نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) میں خواتین کے داخلے کی اجازت، سینک اسکولوں میں لڑکیوں کا داخلہ، وغیرہ۔ ہندوستانی فضائیہ (آئی اے ایف ) میں تمام شاخوں اورا سٹریمس میں خواتین افسران شامل کی گئی ہیں۔ آئی اے ایف نے پہلی بار اگنی پتھ اسکیم کے تحت خواتین کو اگنی ویروایو کے طور پر دیگر عہدوں میں شامل کیا ہے۔ اس وقت 154 خواتین امیدوار زیر تربیت ہیں۔ حکومت نے خواتین پر مبنی مختلف اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جن سے سرکاری خدمات میں مزید خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ ان میں، دوسری باتوں کے ساتھ، چائلڈ کیئر لیو (سی سی ایل ) کے دوران ہیڈ کوارٹر چھوڑنا اور غیر ملکی سفر پر جانا، بچوں کی دیکھ بھال کے لئے معذورخاتون ملازمین کے لئے 3000 @ Rs ماہانہ خصوصی بھتہ ۔ آل انڈیا سروس آف نارتھ ایسٹ کیڈر کی خواتین افسران کے لیے خصوصی امداد، مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والی خواتین سرکاری ملازمین کو 90 دن تک کی چھٹی، خواتین کے لیے مسابقتی امتحان سے فیس کی چھوٹ، ایک ہی اسٹیشن پر شوہر اور بیوی کی پوسٹنگ وغیرہ شامل ہے ۔ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو خواتین بس ڈرائیوروں، کنڈکٹروں اور ٹورسٹ گائیڈوں کی تعداد بڑھانے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت نے تمام ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پولیس اہلکاروں کی کل تعداد میں خواتین کی نمائندگی کو 33 فیصد تک بڑھانے کے لیے مشورے بھی جاری کیے ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) نے ہندوستان کی تمام شیڈیولڈ ایئر لائنز اور بڑے ہوائی اڈوں کے آپریٹرز کو 2025 تک انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے 25)میں حصہ لینے کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے جو کہ صنعت میں وسیع تنوع اور شمولیت کا منصوبہ ہے جس کا مقصد سینئرعہدوں پرموجودہ میٹرکس کے مقابلے میں 25 فیصد تک خواتین کی تعداد بڑھانا یا2025تک کم سے کم 25فیصد نمائندگی رکھنا ہے ۔
ایئرپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (اے اے آئی ) نے ایئرٹریفک کنٹرول، فائرسروسز ، ایئرپورٹ آپریشنزجیسی تنظیم کے کام کاج کے لیے بنیادی طور پر حساس ڈومینز میں خواتین کی شرکت کو قابل بنایا ہے ۔اے اے آئی کے ذریعے براہ راست بھرتی کے عمل میں خواتین امیدواروں کو فیس میں مزید چھوٹ دی گئی ہے۔
عوامی زندگی میں خواتین کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں پہلی بار 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 81 خواتین لوک سبھا کی ممبر منتخب ہوئیں۔ پنچایتی راج اداروں میں 1.45 ملین یا 46فیصد سے زیادہ خواتین منتخب نمائندے ہیں (33فیصد کی لازمی نمائندگی کے مقابلے)۔ ہندوستان کے آئین میں 73ویں اور 74ویں ترمیم (1992) نے خواتین کے لیے پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں میں ایک تہائی نشستیں محفوظ کی تھیں۔
یہ اطلاع خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی۔
*********
U.NO.2368
(ش ح۔ف ا ۔ع آ)
(Release ID: 1986171)
Visitor Counter : 268