وزیراعظم کا دفتر

گلوبل بدھسٹ سمٹ، دہلی میں وزیر اعظم کے افتتاحی خطاب کا متن

Posted On: 20 APR 2023 1:39PM by PIB Delhi

نمو بدھائے!

پروگرام میں موجود مرکزی کابینہ کے ممبر جناب کرن رجیجو، جی کشن ریڈی جی، ارجن   رام میگھوال جی،     میناکشی لیکھی جی،   انٹرنیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن کے سیکریٹری جنرل، ملک و بیرن ملک سے یہاں آئے اور ہمارے ساتھ جڑے تمام محترم بھکشو صاحبان، دیگر صاحبان، خواتین و حضرات!

گلوبل  بدھسٹ سمٹ کے اس پہلے انعقاد میں آپ سب دنیا کے کونے کونے سے آئے ہیں۔ بدھ کی اس سرزمین کی روایت ہے –‘اتیٹھی دیو بھوہ‘!یعنی مہمان ہمارے لئے دیوتا کے جیسے ہوتے ہیں،لیکن بھگوان بدھ کے خیالات کو جینے والی اتنی شخصیتیں جب ہمارے سامنے ہوں، تو حقیقی طورپر بدھ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔کیونکہ بدھ فرد سے آگے بڑھ کر ایک بودھ(احساس)ہیں۔بدھ جسم سے آگے بڑھ کر ایک سوچ ہیں۔ بدھ تخلیق سے آگے بڑھ کر ایک فکر ہے اور بدھ کی یہ فکر لافانی ہے، مسلسل ہے۔ یہ سوچ امر ے۔ یہ بودھ  ناقابل فراموش ہے۔

اسی لیے، آج اتنے الگ الگ ممالک سے، اتنے الگ الگ جغرافیائی ثقافتی پس مظر سے لوگ یہاں ایک ساتھ موجود ہیں۔ یہی بھگوان  بدھ کی وہ وسعت ہے، جو پوری انسانیت کو ایک دھاگے پروتی ہے۔ ہم تصور کرسکتے ہیں ، دنیا کے الگ الگ ممالک سے بدھ کے کروڑوں ماننے والوں کی یہ صلاحیت جب ایک ساتھ کوئی عہد لیتا ہے، تو اس کی توانائی کتنی لامحدود ہوجاتی ہے۔

جب اتنے سارے لوگ دنیا کے بہتر مستقبل کے لئے ایک خیال کے ساتھ کام کریں گے، تو مستقبل یقینی طور سے عظیم ہی ہوگا اور اسی لئے مجھے یقین ہے، پہلی گلوبل بدھسٹ سمٹ اس سمت میں ہم تمام  مماک کی کوششوں کے لئے ایک مؤثر پلیٹ فارم کی تعمیر کرے گی۔میں اس انعقاد کے لئے ہندوستان کی وزیر ثقافت اور انٹرنیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن کو دل سے مبارکباددیتا ہوں۔

ساتھیوں،

اس سمٹ   سے میرے روحانی   لگاؤ   کی ایک اور وجہ ہے۔ میری پیدائش گجرات کے جس وڈنگر مقام ہوئی ہے، اس مقام   کا بودھ دھرم سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ وڈنگر سے بودھ مذہب سے جڑے متعدد آثار قدیمہ کے شواہد ملے ہیں۔ کبھی بودھ مسافر ہین سانگ نے بھی وڈنگر کا دورہ کیا تھا اور  یہاں پر میں نے جو نمائش دیکھی ، جن چیزوں کی اس میں نمائش کی گئی ہے، وہ تمام چیزیں تفصیل سے یہاں رکھی ہوئی ہیں اور اتفاق دیکھئے کہ میری  پیدائش وڈنگر میں ہوئی ہے اور کاشی ک امیں ممبر پارلیمنٹ ہوں اور وہیں سارناتھ بھی واقع  ہے۔

ساتھیوں،

گلوبل بدھسٹ سمت کی میزبانی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب  ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75سال پورے کئے ہیں، ہندوستان اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ اس امرت کال میں ہندوستان کے پاس اپنے مستقبل کے لئے وسیع اہداف بھی ہیں اور دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے نئے عہد بھی ہیں۔ ہندوستان نے آج مختلف ایشوز پر دنیا میں نئی پہل کی ہیں اور اس میں ہماری بہت تحریک بھگوان    بدھ ہی ہیں۔

ساتھیوں،

آپ سب واقف ہیں کہ بدھ کا راستہ ہے-پری یکتی،  پٹی پتّی اور پٹی ویدھ۔ یعنی تھیوری،  پریکٹس اور ریئلائزیشن۔ پچھلے 9برسوں میں ہندوستان ان تینوں ہی نکتوں پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے بھگوان بدھ کے اقدار کی مسلسل  تشہیر کی ہے۔   ہم نے بدھ کی تعلیمات کو عام  لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک وقف         جذبے کے ساتھ کام کیا ہے۔

ہندوستان اور نیپال میں بدھ سرکٹ کا فروغ ہو، سارناتھ اور کشی نگر جیسے  مذہبی مقامات کی احیاء کی کوشش ہو،  کشی نگر انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہو،  لمبنی     میں    ہندوستان  اور  آئی بی سی  کے تعاون سے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر فار بدھسٹ کلچر اینڈ ہیریٹیج کی تعمیر ہو، ہندوستان  کے ایسے ہر کام میں  ’پٹی پتّی‘ کی تحریک شامل ہے۔ یہ بھگوان بدھ کی تعلیمات کا ہی ایک عمل ہے کہ ہندوستان دنیا کے ہر انسان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے۔ دنیا کے الگ الگ ممالک میں امن مشن ہوں یا ترکیے کے زلزلہ جیسی قدرتی آفات۔ ہندوستان اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ ہر بحران کے وقت انسانی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ’مم بھاؤ‘ سے کھڑا ہوتا ہے۔ آج ہندوستان کے 140کروڑ لوگوں کے اس جذبے کو دنیا دیکھ رہی ہے، سمجھ رہی ہے اور تسلیم بھی کررہی ہے۔میں مانتا ہوں انٹرنیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن کا یہ پلیٹ فارم اس جذبے کو نئی وسعت دے رہا ہے۔ یہ ہم سب ، ہم خیال اور ایک جیسا دل رکھنے والے ملکوں کو ایک خاندان کی شکل میں بودھ دھم اور   امن کی توسیع کے نئے مواقع دے گا۔ موجودہ چیلنجوں کو ہم کس طرح سے ہینڈل کرتے ہیں، اس پر  گفتگو اپنے آپ میں نہ  صرف وقت کی ضرورت ہے، بلکہ دنیا کے لئے اس میں امید کی کرن بھی شامل ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہے کہ مسائل سے حل کا سفر ہی بدھ کا سفر ہے۔ بدھ نے محل اس لئے نہیں چھوڑا تھا ، کیونکہ انہیں کوئی دکھ تھا۔ بدھ نے محل، شاہی ٹھاٹ باٹ اس لئے چھوڑا تھا، کیونکہ ان کے لئے دستیاب تمام سہولتوں کے بعد بھی دوسروں کی زندگی میں دکھ تھا۔ اگر ہمیں دنیا کو سکھی بنانا ہے، تو اپنی ذات سے باہر نکل کر دنیا،   محدود سوچ کو چھوڑ کر اجتماعیت کا یہ بدھ منتر ہی واحد راستہ ہے۔ ہمیں ہمارے آس پاس غریبی کو جھیل رہے لوگوں کے بارے میں سوچنا ہی ہوگا۔ ہمیں وسائل کے فقدان میں گرفتار ممالک کے بارے میں سوچنا ہی ہوگا۔ایک بہتر اور مستحکم دنیا کے قیام کے لئے یہی ایک راستہ ہے، یہی ضروری ہے۔ آج یہ  وقت کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کی، ہر ملک کی ترجیح ، اپنے ملک کے مفاد کے ساتھ ہی، دنیا کے مفاد کی بھی ہو، ’گلوبل ورلڈ انٹرسٹ‘بھی ہو۔

ساتھیوں،

یہ بات ہر کسی کے لئے قابل قبول ہے کہ آج کا یہ وقت اس صدی کا سب سے چیلنجنگ وقت ہے۔ آج ایک طرف، مہینوں سے دو ملکوں میں جنگ چل رہی ہے، تو وہیں دنیا اقتصادی عدم استحکام سے بھی گزر رہی ہے۔ دہشت گردی اور مذہب شدت پسندی جیسے خطرات  انسانیت کی روح پر چوٹ کررہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی جیسا چیلنج پوری انسانیت کے وجود پر آفت بن کر منڈلارہا ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں، ایکولوجی تباہ ہورہی ہے، نسلیں غائب ہورہی ہیں، لیکن ان سب کے درمیان ہمارے آپ جیسے کروڑوں لوگ بھی ہیں، جنہیں بدھ میں اعتقاد ہے، ہر ذی روح کی فلاح میں یقین ہے۔یہ امید، یہ یقین ہی اس زمین کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جب یہ امید متحد ہوگی،تو بدھ کا دھم دنیا کا یقین بن جائے گا، بدھ کا احساس انسانیت  کی یقین بن جائے گا۔

ساتھیوں،

جدید دنیا کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس کا حل سینکڑوں برس پہلے بدھ کے اُپدیشوں میں ہمیں حاصل نہ ہوا ہو۔ آج دنیا جس جنگ اور انتشار سے متاثر ہے، بدھ نے صدیوں پہلے اس کا حل دیا تھا۔بدھ نے کہا تھا –جین ویرن پسوتی، دکھن، سیتی پراجیتو، اُپسنتو، سکھن سیتی، ہتو جے پراجیہ، یعنی کامیاب دشمنی کو جنم دیتی ہے اور ہارا ہوا شخص بھی دکھ کی نیند سوتا ہے۔ اس لیے، ہار-جیت، لڑائی –جھگڑا انہیں چھوڑ کر ہی ہم سکھی ہو سکتے ہیں۔بھگوان بدھ نے جنگ سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بتایا ہے۔ بھگوان بدھ نے کہا ہے-نہی ویرین ویرانی، سمّن تیدھ اُداپن، اویرین چہ سمّنتی، ایس دھمّو سنتنو۔ یعنی دشمنی سے دشمنی ختم نہیں ہوتی۔ دشمنی نہ کرنے سے ختم ہوتی ہے۔بھگوان بدھ کا وچن ہے –سکھا سنگھس سامگّی، سمگّان تپو سکھو۔ یعنی وفاق کے درمیان اتحاد سے ہی سکھ ملتا ہے۔ سب لوگوں کے ساتھ، مل جل کر رہنے ہی میں سکھ ہے۔

ساتھیوں،

ہم دیکھتے ہیں، آج اپنے خیالات، اپنی اعتماد کو دوسروں پر تھوپنے کی سوچ دنیا کے لئے بہت بڑا بحران بن رہی ہے۔لیکن بھگوان بدھ نے کیا کہا تھا۔ بھگوان بدھ نے کہا تھا-اتّان میو پٹھمن، پتی روپے نیویسے یعنی کہ پہلے خود صحیح اخلاق اختیار کرنا چاہئے، پھر دوسرے کو نصیحت دینی چاہئے۔ جدید عہد میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواہ گاندھی جی ہو ں یا پھر دنیا کے دوسرے قائدین، انہوں نے اسی اُصول سے تحریک حاصل کی۔لیکن ہمیں یاد رکھنا ہے کہ بدھ صرف اتنے پر ہی نہیں رکے تھے۔انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا تھا-اپّ دیپو بھوہ یعنی یہ جو آگے کاجملہ ہے وہی تو سب سے بڑے بنیاد ہے۔ اَپّ دیپو بھوہ ، یعنی اپنی روشنی خود بنو۔ آج لاتعداد سوالات کا جواب بھگوان بدھ کی اس نصیحت میں موجود ہے۔ اس لئے کچھ سال پہلے، اقوام متحدہ میں نے فخر کے ساتھ کہا تھا کہ ہندوستان نے دنیا کو یودھ نہیں بدھ دیا ہے۔ جہاں بدھ کی رحم دلی ہو، وہاں ٹکراؤ نہیں اشتراک ہوتا ہے، بدامنی نہیں ، امن ہوتا ہے۔

ساتھیوں،

بدھ کا راستہ کا مستقبل کا راستہ ہے، پائیداری کا راستہ ہے۔ اگر دنیا ، بودھ کی تعلیمات پر چلی ہوتی ، تو موسمیاتی تبدیلی جیسا بحران بھی پیدا نہ ہوتا۔ یہ بحران اس لئے پیدا ہوا ، کیونکہ پچھلی صدی میں بعض ممالک نے دوسرے کے بارے میں، آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچنا ہی بند کردیا۔ دہائیوں تک وہ یہ سوچتے رہے کہ فطرت سے اس چھیڑ چھاڑ کا اثر ان پر نہیں ہوگا۔ وہ ممالک اسے دوسروں کے اوپر ہی ڈالتے رہے۔لیکن بھگوان بدھ نے دھم پد میں واضح طور سے کہا ہے کہ جیسے قطرہ قطرہ پانی سے گھڑا بھر جاتا ہے  ، ویسے مسلسل کی گئی غلطیاں تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ انسانیت کو اس طرح محتاط کرنے کے بعد بدھ نے یہ بھی کہا  کہ اگر ہم غلطیوں کی اصلاح کریں ، مسلسل اچھے کام کریں، تو مسائل کا حل بھی ملتے ہیں۔ماؤ-مئینتھ پونیہ اس، نہ من تن آگ –مسّتی، اُد-بندو-نپاتنے، اُد-کُمبھوپی پورتی ، دھیرو پورتی پونئی اس تھوکا تھوکمپی آچنن-یعنی کسی کام کا پھل میرے پاس نہیں آئے گا، یہ سوچ کر نیک کام کو نظر انداز نہ کریں۔ قطرہ قطرہ پانی گرنے سے گھڑا بھر جاتا ہے۔ ایسے ہی تھوڑا تھوڑا نیک کام کرتے ہوئے گنہگار شخص ثواب سے بھر جاتاہے۔

ساتھیوں،

ہر فرد تک ہر کام کسی نہ کسی شکل میں زمین کو متاثر کررہا ہے۔ ہماری لائف اسٹائل چاہے جیسی ہو، ہم جو بھی پہنتے ہوں، ہم جو بھی کھاتے ہوں، ہم جس بھی ذریعے سے سفر کرتے ہوں، ہر بات کا اثر ہوتا ہی ہے، فرق تو پڑتا ہی ہے۔ ہر شخص موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے لڑ بھی سکتا ہے۔ اگر لوگ بیدار ہوکر اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لائیں تو اس بڑے مسئلے سے بھی نمٹا جا سکتا ہے اور یہی تو بدھ کا راستہ ہے۔ اسی جذبے کو لے کر ہندوستان نے مشن لائف کی شروعات کی ہے۔ مشن لائف یعنی لائف اسٹائل فار انوارنمنٹ ۔ یہ مشن بھی بدھ کی تحریکات سے متاثر ہے، بدھ کے خیالات کو آگے بڑھا تا ہے۔

ساتھیوں،

آج بہت ضروری ہے کہ دنیا، خالص صارفیت اور مفاد کی تفسیرات سے نکل کر ’بھوتو سب منگلن‘ کے جذبے کو اپنے اندر اتاریں۔ بدھ کو صرف علامت نہیں، بلکہ عکس بھی بنایا جائے، اسی وقت ’بھوتو سب منگلم‘کے عہد کو عملی شکل دینا ہوگا۔ اس لیے ہمیں بدھ کے قول کو یاد رکھنا ہے –’’ما نیوت، ابھی –ککم‘‘! یعنی ڈو ناٹ ٹرن بیک، گو فارورڈ!ہمیں آگے بڑھنا ہے اور مسلسل آگے بڑھتے جانا ہے۔ مجھے یقین ہے ہم سب ساتھ مل کر اپنے عہدوں کو تکمیلیت کی طرف لے کر جائیں گے۔اسی کے ساتھ آپ سب کو ایک بار پھر ہماری دعوت پر یہاں تشریف لانے کے لئے ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں اور اس دو روزہ غورو خوض کے انسانیت کو نئی روشنی ملے گی، نئی تحریک ملے گی، نیا حوصلہ ملے گا، نئی طاقت ملے گی۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔

نمو بدھائے!

************

 

ش ح۔ج ق۔ن ع

(U: 4326)



(Release ID: 1918391) Visitor Counter : 144