وزیراعظم کا دفتر

صحت اور طبی تحقیق کےموضوع پر پوسٹ بجٹ ویبینار سے وزیراعظم کےخطاب کامتن

Posted On: 06 MAR 2023 12:10PM by PIB Delhi

نمسکار جی!

ساتھیو،

جب ہم ہیلتھ کیئر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اسے پری کووڈ ایرا اور پوسٹ پینڈیمک ایرا کی تقسیم کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ کورونا نے پوری دنیا کو دکھایا اور سکھایا ہے کہ جب اتنی بڑی آفت آتی ہے تو خوشحال ممالک کے ترقی یافتہ نظام بھی منہدم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی توجہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ہیلتھ کیئر پر مبذول ہوگئی ہے، لیکن ہندوستان کا نقطہ نظر صرف ہیلتھ کیئر تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کر فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم نے دنیا کے سامنے ایک وِژن رکھا ہے -  ’ایک زمین ایک صحت‘(ون ارتھ – ون ہیلتھ)، یعنی جانداروں کے لیے، چاہے وہ انسان ہوں، جانور ہوں، پودے ہوں، ہم نے سب کے لیے ایک مکمل حفظان صحت کی بات کی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ سپلائی چین کتنی اہم ہو گئی ہے۔ جب وبا اپنے عروج پر تھی تب  ادویات، ویکسین، طبی آلات جیسی زندگی بچانے والی چیزیں بدقسمتی سے کچھ ممالک کے لیے ہتھیار بن چکی تھیں۔ گزشتہ برسوں کے بجٹ میں ہندوستان نے ان تمام موضوعات پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ بیرونی ممالک پر ہندوستان کا انحصار کم سے کم ہو۔ اس میں آپ تمام حصص داروں  کا بہت بڑا کردار ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک، ہندوستان میں صحت کے حوالے سے ایک مربوط نقطہ نظر، ایک طویل مدتی نقطہ نظر کا فقدان تھا۔ ہم نے صحت کی دیکھ بھال کو صرف وزارت صحت تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ’ہول آف دی گورنمنٹ ‘کے نقطہ نظر پر زور دیا ہے۔ ہندوستان میں علاج کو سستا بنانا ہماری حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے۔ آیوشمان بھارت کے تحت 5 لاکھ روپے تک مفت علاج کی یہ سہولت دینے کے پیچھے ہمارے ذہن میں یہی احساس ہے۔ اس کے تحت تقریباً 80 ہزار کروڑ روپے، جو ملک کے کروڑوں مریضوں کے علاج کے لیے خرچ ہونے تھے، خرچ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ ابھی کل یعنی 7 مارچ کو ملک جن اوشدھی دیوس منانے جا رہا ہے۔ آج ملک بھر میں تقریباً 9000 جن اوشدھی کیندر ہیں۔ ان مراکز پر دوائیں بازار سے بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ غریب اور متوسط ​​طبقے کے خاندانوں نے صرف دوائیں خریدنے میں تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے بچائے ہیں۔ یعنی اب تک صرف 2 اسکیموں سے ہمارے ہندوستان کے شہریوں کے 1 لاکھ کروڑ روپے بچ گئے ہیں۔

ساتھیو،

سنگین بیماریوں کے لیے ملک میں اچھے اور جدید ہیلتھ انفراسٹرکچر کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ حکومت کی بڑی توجہ اس بات پر بھی ہے کہ لوگوں کو ان کے گھروں کے قریب ٹیسٹنگ کی سہولتیں اور ابتدائی طبی امداد کے لیے بہتر سہولیات میسر ہوں۔ اس کے لیے ملک بھر میں 1.5 لاکھ صحت اور تندرستی مراکز (ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹرس ) تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان مراکز میں ذیابیطس، کینسر اور دل کی سنگین بیماریوں کی اسکریننگ کی سہولت موجود ہے۔ پی ایم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تحت صحت کے اہم انفراسٹرکچر کو چھوٹے شہروں اور قصبوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے شہروں میں نئے اسپتال بن رہے ہیں، صحت کے شعبے سے متعلق ایک پورا ایکو سسٹم بھی تیار ہو رہا ہے۔ اس میں بھی ہیلتھ انٹرپرینیورز، سرمایہ کاروں اور پیشہ ور افراد کے لیے بہت سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

ساتھیو،

صحت کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ حکومت کی ترجیح انسانی وسائل پر بھی ہے۔ گزشتہ برسوں میں 260 سے زائد نئے میڈیکل کالج کھولے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج میڈیکل گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سیٹوں کی تعداد 2014 یعنی جب ہم اقتدار میں آئے تھے ،کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی ہے ۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک کامیاب ڈاکٹر کے لیے ایک کامیاب ٹیکنیشین بہت ضروری ہے۔ اس لیے اس سال کے بجٹ میں نرسنگ سیکٹر کو وسعت دینے پر زور دیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجوں کے قریب 157 نئے نرسنگ کالج کا افتتاح میڈیکل ہیومن ریسورس کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی مانگ کو پورا کرنے میں بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ساتھیو،

صحت کی دیکھ بھال کو قابل رسائی اور سستی بنانے میں ٹیکنالوجی کا کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ہماری توجہ صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر بھی ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ آئی ڈی کے ذریعے ہم اہل وطن کو بروقت صحت دیکھ بھال کی سہولت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ای سنجیونی جیسی ٹیلی کنسلٹیشن کی کوششوں سے 10 کروڑ لوگوں نے گھر بیٹھے ڈاکٹروں سے آن لائن مشاورت کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اب 5جی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس شعبے میں اسٹارٹ اپس کے لیے بھی کافی امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کی بدولت دواؤں کی ڈیلیوری اور ٹیسٹنگ سے متعلق لاجسٹکس میں انقلابی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس سے یونیورسل ہیلتھ کیئر کے لیے ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی۔ یہ ہمارے کاروباریوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہمارے تاجروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمیں اب کسی بھی ٹیکنالوجی کو درآمد کرنے سے گریز کرنا ہے اور ہمیں خود کفیل بننا ہے۔ ہم فارما اور میڈیکل ڈیوائس کے شعبے میں امکانات کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے ضروری ادارہ جاتی اصلاحات بھی کر رہے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں بہت سی نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ بلک ڈرگ پارک کی بات ہو، میڈیکل ڈیوائس پارک کے نظام کو تیار کرنے کا معاملہ ہو، پی ایل آئی جیسی اسکیموں میں 30 ہزار کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ طبی آلات کا شعبہ بھی گزشتہ چند سالوں میں 12 سے 14 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ آنے والے 2-3 سالوں میں یہ مارکیٹ 4 لاکھ کروڑ تک پہنچنے والی ہے۔ ہم نے مستقبل کی میڈیکل ٹیکنالوجی، اعلیٰ ترین مینوفیکچرنگ اور تحقیق کے لیے ہنر مند افرادی قوت پر کام شروع کر دیا ہے۔ آئی آئی ٹی اور دیگر اداروں میں طبی آلات کی تیاری کی تربیت کے لیے بایو میڈیکل انجینئرنگ یا اسی طرح کے کورسز بھی چلائے جائیں گے۔ اس میں بھی پرائیویٹ سیکٹر کی زیادہ سے زیادہ شرکت کیسے ہو ، انڈسٹری، اکیڈمیاں اور حکومت کے درمیان کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہو اس پر ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔

ساتھیو،

کبھی کبھی آفت خود کو ثابت کرنے کا موقع بھی لے کر آتی ہے۔ فارما سیکٹر نے کووڈ کے دوران یہ دکھایا ہے۔ ہندوستان کے فارما سیکٹر نے جس طرح کووڈ کےدور میں پوری دنیا کا اعتماد حاصل کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ ہماری اس  شہرت، ا س کارنامے اور اس  اعتماد پر  رتّی برابر بھی آنچ نہیں آنی چاہیےبلکہ یہ اعتماد اور زیادہ بڑھناچاہیے ۔ سنٹرز آف ایکسی لینس کے ذریعے فارما میں تحقیق اور اختراع کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ ان کوششوں سے معیشت کو کافی تقویت ملے گی، ساتھ ہی روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ آج اس سیکٹر کی مارکیٹ کا حجم 4 لاکھ کروڑ روپئے ہے۔ اگر ہم اس میں پرائیویٹ سیکٹر اور اکیڈمیا کے ساتھ تال میل کریں تو یہ سیکٹر بھی 10 لاکھ کروڑ کو عبور کر سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ فارما انڈسٹری اس شعبے میں اہم ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کرے اور ان میں سرمایہ کاری کرے۔ حکومت نے تحقیق کو فروغ دینے کے لیے کئی دوسرے اقدامات بھی کیے ہیں۔ حکومت نے نوجوانوں اور تحقیقی صنعت کے لیے کئی آئی سی ایم آر لیبز کھولنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسی طرح کے اور کون سے انفرااسٹرکچر ہیں، جو کھولے جا سکتے ہیں۔

ساتھیو،

احتیاطی حفظان صحت کے حوالے سے حکومت کی کوششوں کا بہت اثر ہوا ہے۔ گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے سووچھ بھارت ابھیان ہو ، دھوئیں سے ہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے اجولا یوجنا ہو، آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لیے جل جیون مشن ہو،  ایسے کئی اقدامات کے آج ملک میں بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اسی طرح غذائیت کی کمی، خون کی کمی بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسی لیے ہم نے نیشنل نیوٹریشن مشن شروع کیا اور اب یہ خوشی کی بات ہے کہ ملٹ یعنی شری انیہ جو کہ ایک طرح سے سپر فوڈ ہے، نیوٹریشن کے لیے، غذائیت کیلئے اہم غذا ہےاور جس سے ہمارے ملک کا ہر گھرانہ فطری طور پر واقف ہے۔ یعنی شری انیہ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ہندوستان کی کوششوں کی وجہ سے اس سال کو اقوام متحدہ کی جانب سے ملٹ (موٹے اناج) کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ پی ایم ماتری وندنا یوجنا اور مشن اندر دھنش جیسے پروگراموں کے ساتھ ہم صحت مند زچگی اور صحت مند بچپن کو یقینی بنا رہے ہیں۔ یوگا ہو، آیوروید ہو، فٹ انڈیا موومنٹ ہو، انہوں نے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے میں مدد کی ہے۔ ہندوستان کی آیورویدک مصنوعات کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان کی کوششوں سے روایتی ادویات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا عالمی مرکز ہندوستان میں ہی بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے میری صحت کے شعبے کے حصص داروں سے اور خاص طور پر آیوروید کے دوستوں سے درخواست ہے کہ ہمیں ثبوت پر مبنی تحقیق کو بہت زیادہ بڑھانا ہوگا۔ صرف نتیجہ کے بارے میں بات کرنا کافی نہیں ہے، ثبوت بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس کے لیے آیوروید کے میدان میں کام کرنے والے کاروباریوں، تحقیقی ساتھیوں کو جوڑنا ہوگا، انہیں آگے آنا ہوگا۔

ساتھیو،

جدید طبی بنیادی ڈھانچے سے لے کر طبی انسانی وسائل تک، ملک میں کی جانے والی کوششوں کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ جو  ملک میں نئی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں، جو نئی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں، ان کے فوائد صرف اہل وطن کے لیے صحت  سہولیات تک محدود نہیں رہیں گے۔ اب دنیا ایک دوسرے سے بہت جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے ہندوستان کو دنیا کا سب سے پرکشش طبی سیاحتی مقام بنانے کا یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ میڈیکل ٹورازم بذات خود ہندوستان میں ایک بہت بڑا شعبہ بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ ملک میں روزگار پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔

ساتھیو،

              

سب کی کوششوں سے، ہم ترقی یافتہ ہندوستان میں صحت اور تندرستی کا ایک ترقی یافتہ ماحولیاتی نظام تشکیل دے سکتے ہیں۔ میں اس ویبینار میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی تجاویز دیں۔ آئیے ہم مقررہ اہداف کے لیے ایک طے شدہ روڈ میپ کے ساتھ بجٹ کو مقررہ مدت میں نافذ کریں، تمام حصص داروں کو ساتھ لے کر چلیں اور اگلے سال کے بجٹ سے پہلے ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دیں۔ اس بجٹ کے عزائم کو زمین پراتارنے کاکام کریں ، اس کیلئے آپ کی تجاویز درکار ہیں۔ اس میں آپ کے گہرے تجربے سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے تجربے، آپ کی ذاتی ترقی کے عزم کو ملکی  عزم کے ساتھ جوڑ کر، ہم اجتماعی قوت سےاور اجتماعی کوشش سے ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔میری آپ کو بہت بہت مبارکباد ۔

شکریہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔م م۔ ع ن۔

U- 2353



(Release ID: 1904508) Visitor Counter : 180