وزارت خزانہ

حکومت 6.4 فیصد کے مالیاتی خسارے کے ہدف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن


اپریل سے نومبر 2022 تک مجموعی ٹیکس ریونیو میں 15.5فیصد کا سال بہ سا ل  اضافہ

مالی سال 2023 کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں جی ایس ٹی ریونیو کے طور پر 13.40 لاکھ کروڑروپے جمع کئے گئے

جی ایس ٹی ٹیکس دہندگان کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ کر 1.4 کروڑ ہو گئی

اپریل- دسمبر 2022 کے دوران جی ایس ٹی کی مجموعی وصولی میں 24.8 فیصد سالانہ اضافہ

اپریل-نومبر 2022 کے دوران براہ راست ٹیکسوں میں 26فیصدکی  سال بہ سال نمو درج کی گئی

مالی سال 2023 میں کیپٹل اخراجات میں جی ڈی پی کے 1.7 فیصد کے طویل مدتی اوسط میں 2.9 فیصد کا اضافہ

حکومت کا  قرضہ جوکہ مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کا  59.2 فیصد تھا، مالی سال 22 میں سے کم ہوکر 56.7 فیصد ہوگیا

جی ڈی پی کے تناسب میں عام سرکاری قرض میں زیادہ تر ممالک  میں ہونے والے  کافی اضافہ کےمقابلے 2005 سے  3فیصد کا معمولی اضافہ

Posted On: 31 JAN 2023 1:49PM by PIB Delhi

آج پارلیمنٹ میں خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیرمحترمہ نرملا سیتا رمن  کے ذریعہ  پیش کئےگئے اقتصادی جائزے 23-2022  میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے مالیاتی خسارے میں جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر بتدریج کمی، حکومت کی طرف سے تیار کیے گئے مالیاتی راستے کے مطابق، محتاط مالی انتظام کا نتیجہ ہے جس کو  گزشتہ دو سالوں کے دوران کئے جانے والے  زبردست ریونیو کلیکشن  سے تقویت ملی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00141J8.jpg

 جائزے  کے مطابق مالیاتی خسارہ مالی سال 23 میں جی ڈی پی کے 6.4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ روایتی بجٹ تصورات میں  عالمی غیر یقینی صورتحال  کے دوران سہارا دینے کا کام کیا ہے۔مالیاتی کارکردگی میں  یہ لچک اقتصادی سرگرمی کی بحالی اور اور ریونیو کی شاندار وصولی کی  وجہ سے آئی ہے۔

مجموعی ٹیکس ریونیو

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی ٹیکس ریونیو میں اپریل سے نومبر 2022 تک سال بہ سال 15.5 فیصد اضافہ درج کیا گیا ۔اور سال بہ سال بنیاد پر ریاستوں کو تفویض کے بعد مرکز کوموصول ہونے والے  خالص ٹیکس ریونیو میں 7.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جی ایس ٹی کی شروعات اور اقتصادی  لین دین کی ڈیجیٹلائزیشن جیسی ڈھانچہ جاتی اصلاحات سے معیشت کو زیادہ رسمی شکل دی گئی ہے اور اس وجہ سے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی ہے اور ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح محصولات میں جی ڈی پی کی شرح نمو سے بہت زیادہ رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔

اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2022 میں کارپوریٹ اور ذاتی انکم ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے براہ راست ٹیکسوں میں سالانہ بنیادوں پر 26 فیصد اضافہ ہواہے۔ جائزے  میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023 کے پہلے آٹھ مہینوں کے دوران اہم براہ راست ٹیکسوں میں دیکھی جانے والی  شرح نمو ان کے طویل مدتی اوسط سے بہت زیادہ تھی۔

جائزے میں بتایا گیا  ہے کہ اپریل سے نومبر 2022 تک  زیادہ درآمدات  کی وجہ سے کسٹمز کی وصولی میں 12.4 فیصد کا سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ اپریل سے نومبر 2022 تک سال بہ سال  بنیاد پر ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی میں 20.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

زبردست جی ایس ٹی کلیکشن

جی ایس ٹی ٹیکس دہندگان کی تعداد 2022 میں 70 لاکھ سے بڑھ کر 1.4 کروڑ ہوگئی۔ اپریل سے دسمبر 2022 تک جی ایس ٹی کی مجموعی وصولی  13.40 لاکھ کروڑ  روپےتھی۔ اس طرح  1.5 لاکھ کروڑ روپے کی اوسط ماہانہ وصولی کے ساتھ 24.8فیصد کا سال بہ سال اضافہ ہوا ہے۔جائزے  میں مزید کہا گیا ہے کہ جی ایس ٹی کی وصولی میں بہتری ،جی ایس ٹی چوروں اور فرضی بلوں کے خلاف چلائی گئی ملک گیر مہم اورشرح کو معقول بنانے  و  الٹا ڈیوٹی ڈھانچہ درست کرنےجیسی   نظامی تبدیلیوں کی وجہ سےآئی ہے۔

ڈس انویسٹمنٹ

اقتصادی جائزے 23-2022 میں کہا گیا ہے "مالی سال 2023 کے لیے 65,000 کروڑ روپے کی بجٹ کی رقم میں سے48 فیصد رقم  18 جنوری 2023 تک جمع ہو چکی ہے عالمی وبا سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال، جغرافیائی سیاسی تنازعات اور اس سے منسلک خطرات نے حکومت کے ڈس انویسٹمنٹ  سے متعلق منصوبوں اور  گزشتہ تین سال کے نشانوں کےامکانات  کے سامنے چیلنجز کھڑے کئے ہیں۔

جائزے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے نئی پبلک سیکٹر انٹرپرائز پالیسی اور اسیٹ مونیٹائزیشن کی حکمت عملی کو نافذ کرکے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی نجکاری اور اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

کیپیٹل اخراجات

جائزے کے مطابق مالی سال 2022 میں  مرکزی حکومت کےکیپیٹل اخراجات میں جی ڈی پی کے طویل مدتی اوسط 2.5فیصد سے  تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے ۔ مالی سال 2023 میں اس میں مزیدجی ڈی پی کے  2.9 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ جس  سے گزشتہ سالوں میں حکومتی اخراجات کے معیار میں بہتری کا پتہ چلتا ہے۔

جائزے میں بتایا گیاہے  کہ مالی سال 23 کے لیے 7.5 لاکھ کروڑ روپے کے کیپٹل اخراجات کا بجٹ تھا  جس میں اپریل سے نومبر 2022 کے دوران  59.6 فیصد سے زیادہ خرچ کیا گیا ہے۔اس مدت کے دوران سال بہ سال کیپٹل اخراجات کی شرح میں  60 فی صد کا ااضافہ ہوا جو کہ  مالی سال 2016 سے مالی سال 2020 تک کی اسی مدت کے دوران درج کئے گئے 13.5 فیصد کی طویل مدتی اوسط نموسے زیادہ ہے۔ مالی سال 2022 میں سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے لیے 1.5 لاکھ کروڑ روپے، ریلوے کے لیے 1.20 لاکھ کروڑروپے، دفاع کے لیے 0.7 لاکھ کروڑ روپے اور ٹیلی کمیونیکیشن کے لیے 0.3 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ اسے ایک انسداد سائیکلیکل مالیاتی ٹول کو مضبوط کرنے کی مجموعی مانگ  کے طور پر سمجھا گیا جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور دیگر شعبوں کو فروغ ملا۔

تمام سمتوں سے کیپیکس کو بڑھانے پر زور دینے کے لیے، مرکز نے طویل مدتی سود سے پاک قرضوں اور کیپیکس سے منسلک اضافی قرض لینے کے انتظامات کی شکل میں ریاستوں کے سرمائے کے اخراجات کو بڑھانے کے لیے کئی مراعات کا اعلان کیا۔

ریونیو  اخراجات

مرکزی حکومت کےمحصولاتی اخراجات کو مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کے 15.6 فیصد سے کم کرکے مالی سال 22 کے پرویزنل ایکچوئل  (پی اے) میں جی ڈی پی کے 13.5 فیصد پر لایا گیا تھا۔ یہ کمی سبسڈی کے اخراجات میں کمی کی وجہ سے ہوئی جسے مالی سال 2021 میں جی ڈی پی  کے 3.6فیصد سے مالی سال 2022 کے پی اے میں جی ڈی پی کے  1.9فیصد پر لایا گیا۔ اسے مالی سال 2023 میں جی ڈی پی کے 1.2 فیصد تک کم کرنے کے لیے مزید بجٹ بنایا گیا تھا۔ تاہم  جغرافیائی سیاسی تنازعات کے اچانک پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں خوراک، کھاد اور ایندھن کی بین الاقوامی قیمتیں بڑھ گئیں۔ جس کے نتیجے میں اپریل سے نومبر 2022 تک سبسڈیز پر اخراجات کے  بجٹ کا تقریباً 94.7 فیصد استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس طرح   اپریل سے نومبر 2022 تک محصولات کے اخراجات میں سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں درج کی گئی نمو سے زیادہ ہے۔

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے  کہ عالمی وباکے پھیلنے کے بعد وصولی  کے تناسب کے طور پر سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوا۔ تاہم، درمیانی مدت میں جیسا کہ ہم مالیاتی راستے پر آگے بڑھتے ہیں، محصولات میں تیزی،  تیز رفتار اثاثہ جات کی مونیٹائزیشن، کارکردگی کے فوائد، اور نجکاری سے عوامی قرضوں کی ادائیگی میں مدد ملی، اس طرح سود کی ادائیگیوں میں کمی آئے گی اور دیگر ترجیحات کے لیے مزید رقم جاری ہوگی۔

ریاستی حکومت کے مالیات کا جائزہ

ریاستوں کا مشترکہ مجموعی مالیاتی خسارہ (جی ایف ڈی)، جو مالی سال 2021 میں بڑھ کر جی ڈی پی  کا 4.1فیصد ہو گیا تھا، اس کو مالی سال 2022 کے پی اے میں گھٹا کر 2.8فیصد تک لایا گیا ۔ جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر، ریاستوں کے لیے مجموعی جی ایف ڈی- جی ڈی پی کا تناسب مالی سال 2023 میں 3.4فیصد کیا گیا تھا۔ تاہم، اپریل سے نومبر 2022 میں، 27 بڑی ریاستوں کے مشترکہ قرضے سال کے لیے ان کے بجٹ شدہ قرضوں کے 33.5 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ پچھلے تین سالوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستوں کے پاس قرض لینے کی حدیں غیر استعمال شدہ تھیں۔

مالی سال 2022 پی اے  میں ریاستوں کے کیپٹل اخراجات میں 31.7 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ مضبوط آمدنی میں اضافے اور ریاستوں کو پیشگی ادائیگی کئے جانے کے معاملے میں ، مرکز کے ذریعہ فراہم کرائی گئی رقم  جی ایس ٹی معاوضے کی ادائیگی اور سود سے پاک قرضے کی وجہ سے ہوا۔

مرکز کی جانب سے ریاستوں میں منتقلی

ریاستوں کو کل منتقلی جس میں ریاستوں کو منتقل کیے گئے مرکزی ٹیکسوں میں ریاستوں کا حصہ ، مالیاتی کمیشن گرانٹس، مرکزکی اسپانسر شدہ اسکیموں (سی ایس ایس) اور دیگر منتقلی  شامل ہے۔ اس  میں  مالی سال 2019 اور مالی سال 2023 کی بی ای میں اضافہ ہوا ہے۔ مالیاتی کمیشن نے مالی سال 2023 کے لیے 1.92 لاکھ کروڑ مختص کرنے کی سفارش کی تھی۔

بحران کے دوران جی ایس ٹی معاوضے کی ادائیگی

ریاستوں کے لیے جی ایس ٹی معاوضے میں کمی کو پورا کرنے کے لیے، حکومت نے فنڈ سے باقاعدہ جی ایس ٹی معاوضہ جاری کرنے کے علاوہ مالی سال 2021 اور مالی سال 2022 کے دوران 2.69 لاکھ کروڑ روپے کا قرض لیا اور اسے ریاستوں کو منتقل کیا۔ اس کے علاوہ ریاستوں کو سیس کی ادائیگیوں اور ٹیکس کی منتقلی کی قسطوں کو فنڈز تک جلد رسائی دینے کے لیے فرنٹ لوڈ کیا گیا تھا۔ اگرچہ نومبر 2022 تک کل سیس کی وصولی ریاستوں کو پوری ادائیگی کرنے کے لیے ناکافی تھی، لیکن مرکز نے اپنے وسائل سے باقی رقم جاری کی۔

 

ریاستوں کے لیے قرض لینے کی حد میں اضافہ اور اصلاحات کے لیے مراعات

عالمی وبا کے پھیلنے کے بعد سے، مرکز نے ریاستی حکومتوں کی خالص قرض لینے کی حد کو مالی ذمہ داری قانون (ایف آر ایل ) کی حد سے اوپر رکھا ہے۔ اسے مالی سال 2021 میں جی ایس ڈی پی کا 5 فیصد، مالی سال 2022 میں جی ایس ڈی پی کا 4 فیصد اور مالی سال 2023 میں جی ایس ڈی پی کا 3.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا، جس کا ایک حصہ 'ون نیشن ون راشن کارڈ' کے نظام کو نافذ کرنے، کاروبار کرنے میں آسانی کی اصلاحات، شہری مقامی ادارے /یوٹیلیٹی اصلاحات، اور بجلی کے شعبے کی اصلاحات وغیرہ سے جیسی اصلاحات سے منسلک تھا۔  جائزے میں مختلف ریاستوں کی طرف سے ان اصلاحات میں پیش رفت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

 

ریاستوں کے کیپٹل اخراجات کے لیے مرکز کا تعاون

مالی سال 2021 اور مالی سال 2022 میں  ریاستوں کو کیپٹل سرمایہ کاری کے لئے ریاستوں کو خصوصی امداد کی اسکیم کے تحت ریاستی  حکومتو کو پچاس سال کے سود سے پاک قرضے  کے طو ر پر   11,830 کروڑ اور روپے اور 14,186 کروڑ روپے رقم فراہم کرائی گئی۔ سال 2023 کے دوران، ریاستی کیپکس کے منصوبوں کو مزید تقویت دینے کے لیے اسکیم کے تحت مختص رقم کو بڑھا کر 1.05 لاکھ کروڑ کر دیا گیا ہے۔

حکومت کے قرض کا پروفائل

آئی ایم ایف نے 2022 میں عالمی حکومت کے قرض کو جی ڈی پی کے 91 فیصد پر پیش کیا، جو کہ وبائی امراض سے پہلے کی سطح سے تقریباً 7.5 فیصد زیادہ ہے۔ اس عالمی پس منظر میں، مرکزی حکومت کی کل ذمہ داریاں مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کے 59.2 فیصد سے مالی سال 2022 میں  گھٹ کر 56.7 فیصد(عارضی)  تک پہنچ گئی ۔

اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کا عوامی قرض کا پروفائل نسبتاً مستحکم ہے اور اس کی خصوصیات کم کرنسی اور شرح سود کے خطرات ہیں۔ مارچ 2021 کے آخر میں مرکزی حکومت کی کل خالص واجبات میں سے، 95.1فیصد ملکی کرنسی میں تھے، جب کہ سوویرین بیرونی قرضے 4.9فیصد تھے، جس سےکم کرنسی کے خطرے کا پتہ چلتا ہے۔ مزید برآں، سوررین  بیرونی قرضہ مکمل طور پر سرکاری ذرائع سے ہے، جو اسے بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ ہندوستان میں عوامی قرض بنیادی طور پر مقررہ شرح سود پر حاصل کیا جاتا ہے، مارچ 2021 کے آخر میں فلوٹنگ اندرونی قرضہ جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد بنتا ہے۔ اس لیے قرض کا پورٹ فولیو شرح سود کے اتار چڑھاؤ سے محفوظ ہے۔

 

عام حکومتی مالیات کو مضبوط کرنا

جی ڈی پی  کے تناسب کے طور پر عام حکومت کی ذمہ داریوں میں مالی سال 2021 کے دوران وبائی امراض کی وجہ سے مرکز اور ریاستوں کی طرف سے اضافی قرض لینے کے باعث بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ تاہم، اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ   یہ تناسب  مالی سال 2022 (آر ای ) میں اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے، جیسا کہ اقتصادی سروے نے مشاہدہ کیا ہے۔ جی ڈی پی  کے فیصد کے طور پر مرکزی  حکومت کےخسارے بھی مالی سال 2021 میں اپنے عروج کے بعد مستحکم ہو ا ہے۔

مثبت شرح سود کی تفاوتی نمو

اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں  حکومت کے ذاتی اخراجات میں اثر سے  براہ راست اور بالواسطہ طور پر نجی کھپت کے اخراجات اور نجی سرمایہ کاری پر ضرب اثر کے ذریعے جی ڈی پی کی نمو کو فروغ دینے کی توقع ہے۔ اعلی جی ڈی پی کی نمو اس طرح درمیانی مدت میں بہتر آمدنی کی وصولی میں سہولت فراہم کرے گی، جس سے ایک پائیدار مالیاتی راستہ ممکن ہوگا۔ مرکزی حکومت  کے قرض سے جی ڈی پی کا تناسب مارچ 2020 کے آخر میں 75.7 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 21 کے وبائی سال کے اختتام پر 89.6 فیصد ہو گیا۔ مارچ 2022 کے آخر تک اس کے جی ڈی پی کے 84.5 فیصد تک گرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ حکومت کے ذاتی اخراجات کی قیادت والی نمو پر زور ، ہندوستان کو شرح سود کی شرح نمو کے فرق کو مثبت رکھنے کے قابل بنائے گا۔ ایک مثبت شرح سود کا فرق، قرض کی سطح کو پائیدار رکھتا ہے۔

اقتصادی جائزے میں واضح کیا گیا ہے کہ 2005 سے 2021 تک مرکزی حکومت  کے قرض اور جی ڈی پی کے تناسب میں تبدیلی، تمام ممالک میں کافی رہی ہے۔ 2005 میں جی ڈی پی کے 81فیصد سے 2021 میں جی ڈی پی کے تقریباً 84فیصد تک ہندوستان کے لیے، یہ اضافہ معمولی ہے ۔ یہ پچھلے 15 سالوں کے دوران لچکدار اقتصادی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جس کی وجہ سے شرح سود میں مثبت فرق پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں، حکومتی قرضہ جی ڈی پی کی سطح تک مستحکم ہوا۔  

تمام ممالک میں 2005 کے مقابلے میں 2021 میں جی ڈی پی کے تناسب میں حکومتوں کے قرض کا موازنہ

.*****

 ش ح۔ا گ۔ ج

UNO-1038



(Release ID: 1895092) Visitor Counter : 222