اقلیتی امور کی وزارتت

اقلیتی امور کی وزارت کا اختتام سال پر جائزہ


سال 2014-15 سے 2021-22 کے دوران کل 4,43,50,785 پری میٹرک اسکالرشپ (52.24 فیصد خواتین سمیت ) دی گئیں

57,06,334 پوسٹ میٹرک اسکالرشپ (55.91 فیصد خواتین سمیت ) اور 10,02,072 میرٹ-کم-مینس اسکالرشپ (37.81 فیصد خواتین سمیت )  کو منظوری دی گئی

سال 2022 میں پردھان منتری وکاس یوجنا کے تحت مختلف سرگرمیاں شروع کی گئیں

قومی اقلیتی ترقیاتی   و مالیاتی کارپوریشن نے اپنے قیام سے اب تک 14,12,425 خواتین مستفیدین کو قرض فراہم کیا ہے

حکومت نے 2021-22 میں 15ویں مالیاتی کمیشن سائیکل یعنی مالی سال 2021-22 سے 2025-26 تک اس کی ترمیم شدہ شکل میں پی ایم جے وی کے کو جاری رکھنے کی منظوری دی ہے

23 جنوری 2022 کو موجودہ سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل نو ایک سال کی مدت یعنی 4 فروری 2022 سے 3 مارچ 2022 تک کے لیے کی گئی

سعودی عرب میں حج 2022 کا کامیاب انعقاد، 79,200 ہندوستانی عازمین حج (1796 محرم کے بغیر خواتین سمیت  ) نے دو سال کے وقفے کے بعد حج ادا کیا

پہلی بار حج کمیٹی آف انڈیا کے تمام عازمین حج کو مرکزیہ میں رہائش فراہم کی گئی

Posted On: 16 DEC 2022 3:19PM by PIB Delhi

اقلیتی امور کی وزارت کا قیام سال 2006 میں اقلیتی برادریوں کو بااختیار بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ان برادریوں میں جین، پارسی، بدھسٹ، سکھ، عیسائی اور مسلمان شامل ہیں۔ یہ وزارت ہماری قوم کے کثیر نسلی ، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر  مذہبی کردار کو مضبوط کرنے کے لیے ایک  سازگار  ماحول بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا مشن مثبت کارروائی اور جامع ترقی کے ذریعے اقلیتی برادریوں کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے، تاکہ  ہر شہری کو تعلیم، روزگار، معاشی سرگرمیوں میں اقلیتی برادریوں کی مساوی شرکت کی سہولت اور ان کی ترقی کے تعلق سے ایک   متحرک قوم کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا موقع حاصل ہو  ۔

اسکالرشپ اسکیمیں

اقلیتی امور کی وزارت نوٹیفائیڈ  اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو تعلیمی  طور پر بااختیار بنانے کے لیے تین اسکالرشپ اسکیمیں چلا رہی ہے- (i) پری میٹرک اسکالرشپ، (ii) پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اور (iii) میرٹ کم مینس پر مبنی اسکالرشپ۔

اسکالرشپ اسکیموں کی شفافیت کو بہتر بنانے کے لیےسال 2016-17 کے دوران  اسکالرشپ کی توسیع کے لیے اقلیتی امور کی وزارت سمیت  مرکزی حکومت کی مختلف وزارتوں کے لیے نیشنل اسکالرشپ پورٹل 2.0 کا ایک نیا اور نظر ثانی شدہ ورژن شروع کیا گیا تھا ۔ اس وزارت کی مذکورہ بالا تین اسکالرشپ اسکیمیں این ایس پی 2.0 پورٹل پر دستیاب ہیں۔ یہ وظائف طلباء کے بینک کھاتوں میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کے ذریعے منتقل کیے جاتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی آدھار نمبر دستیاب ہے، طلباء کے بینک کھاتوں کو جوڑ دیا جاتا ہے اور اسکالرشپ کو ایسے کھاتوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

(i) پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم: پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم مرکزی زمرہ کی ایک   اسکیم ہے۔ وہ طلباء جنہوں نے پچھلے امتحان میں 50 فیصد نمبر یا اس کے مساوی گریڈ حاصل کیا ہے اور  جن کے والدین کی سالانہ آمدنی 1 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہے، وہ  اس کے اہل ہیں۔ اس کے تحت طالبات کے لیے 30 فیصد اسکالرشپ مختص ہے۔ 2014-15 سے 2021-22 کے دوران کل 4,43,50,785 اسکالرشپ (52.24 فیصد خواتین سمیت ) کو منظوری دی گئی ہے۔

(ii) پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم: یہ ایک ٹیکنیکل / پروفیشنل ڈپلومہ کورسز  سمیت  درجہ  گیارہ  سے ایم فل / پی ایچ ڈی  سطح تک کی  پڑھائی  کے لیے دی جانے والی مرکزی زمرہ کی ایک   اسکیم ہے۔  وہ طلباء جنہوں نے پچھلے سال کے فائنل امتحان میں 50 فیصد نمبر یا اس کے مساوی گریڈ حاصل کیا ہے اور جن کے والدین/سرپرست کی سالانہ آمدنی 2 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہے وہ اس اسکالرشپ کے اہل ہیں۔ اس اسکیم کے تحت  تجدید   کے علاوہ ہر سال 5 لاکھ نئے اسکالرشپ دیے جائیں گے۔ اس میں تقریباً 30 فیصد وظائف لڑکیوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 2014-15 سے 2021-22 کے دوران کل 57,06,334 اسکالرشپ (55.91 فیصد خواتین سمیت ) کو منظوری دی گئی ہے۔

(iii) میرٹ-کم-مینس  پر مبنی اسکالرشپ: میرٹ-کم-مینز پر مبنی اسکالرشپ اسکیم ایک مرکزی زمرہ   کی  اسکیم ہے۔ اس کے تحت، مجاز  اتھارٹی کی طرف سے تسلیم شدہ اداروں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطحوں پر پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں۔ اس اسکیم کا  اہل ہونے کے لیے، ایک طالب علم کا کسی بھی مجاز  اتھارٹی کے ذریعے تسلیم شدہ  تکنیکی یا پیشہ ورانہ ادارے میں داخلہ  ہونا  چاہیے۔ مسابقتی امتحان کے بغیر داخلہ لینے والے طلباء کی صورت میں، انہیں 50 فیصد سے کم نمبر حاصل نہیں ہونے  چاہئے۔ ساتھ ہی، تمام ذرائع سے والدین/ سرپرستوں کی سالانہ آمدنی 2.50 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس اسکیم کے تحت تجدید کے علاوہ ہر سال 60,000 تازہ اسکالرشپ فراہم کرنے کی تجویز ہے۔ اس اسکیم کے تحت 30 فیصد اسکالرشپ لڑکیوں کے لیے مختص ہیں۔ اس میں پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز کے لیے 85 اداروں کی فہرست دی گئی ہے۔ ان اداروں میں داخلہ لینے والے اقلیتی برادریوں کے اہل طلباء کو مکمل کورس فیس کی واپسی کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں میں زیر تعلیم طلباء کو ہر سال کورس کی فیس کی مد میں 20,000 روپے واپس کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال منتخب طلبہ کو 10,000 روپے (ہاسٹل میں رہنے والوں کے لیے) اور 5,000 روپے (ڈے اسکالرز کے لیے) کے مینٹی نینس الاؤنسز بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ 2014-15 سے 2021-22 کے دوران کل 10,02,072 اسکالرشپس (37.81 فیصد خواتین سمیت ) کو منظوری دی گئی ہے۔

پی ایم وکاس

اقلیتی امور کی وزارت (ایم او ایم اے) نے پردھان منتری وراثت کا سموردھن   (پی ایم وکاس) اسکیم کا تصور کیا ہے۔ یہ وزارت کی پانچ موجودہ اسکیموں  یعنی  سیکھو  اور کماؤ (ایس اے کے)، استاد، ہماری دھروہر، نئی روشنی اور نئی منزل کو ضم کرتا ہے  ۔ پردھان منتری وکاس کا مقصد ایک خاندان پر مبنی نقطہ نظر کو اپنانا ہے، جس میں کاریگر خاندانوں، خواتین، نوجوانوں اور مختلف طور پر معذور افراد پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ تمام اقلیتی برادریوں کے استفادہ کنندگان کو نشانہ بنایا گیا  ہے ۔اس  اسکیم کو چار اجزاء میں لاگو کرنے کا منصوبہ ہے:

• ہنر اور تربیتی جزو

• کریڈٹ اسسٹنس کے ساتھ لیڈرشپ اور انٹرپرینیورشپ کمپونینٹ

• اسکول چھوڑنے والوں کے لیے تعلیمی جزو، اور

• وزارت کی پی ایم جے وی کے اسکیم کے ساتھ شراکت میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا جزو

سال 2022 میں اس اسکیم کی اہم سرگرمیاں:

• 11 اکتوبر 2022 کو  نئی دہلی   میں واقع وگیان بھون  میں لڑکیوں کے لیے غیر روایتی ذریعہ معاش میں ہنر پر قومی کانفرنس – ’بیٹی بنے کشل‘  میں اقلیتی امور  کی وزارت ، خواتین و اطفال بہبود کی وزارت   اور فروغ  ہنر مندی  و  صنعت کاری کی وزارت نے سہ فریقی  مفاہمت نامہ (ایم او یو)  پر دستخط کیے۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد تینوں وزارتوں کے فعال تال میل اور ہم آہنگی کے ذریعے اقلیتی برادریوں کی نوجوان لڑکیوں تک پی ایم وکاس کی مہارت اور قیادت کی رسائی کو بہتر بنانا ہے۔

• کاریگروں کی ورکشاپ کے کچھ حصے ذیل میں دکھائے گئے ہیں:

سیکھو اور کماؤ (ایس اے کے)

اقلیتوں کے لیے ’سیکھو اور کماؤ‘ اسکیم  پلیسمنٹ سے مربوط فروغ ہنر مندی کی ایک اسکیم ہے،جسے اقلیتی امور کی وزارت نے ستمبر 2013 میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد اقلیتی نوجوانوں (14-45 سال کی عمر کے گروپ میں) کی ہنر مندی  کو مختلف جدید/روایتی مہارتوں میں اپ گریڈ کرنا ہے۔

اس اسکیم کو اب نئی مربوط پردھان منتری وکاس یوجنا میں ایک جزو کے طور پر ضم کر دیا گیا ہے۔

سال 2022 میں  انجام  دی  گئی دیگر سرگرمیاں:

.iاقلیتی امور کی وزارت ہولیسٹک نیوٹریشن (پوشن ابھیان)  کے لیے وزیر اعظم کی جامع اسکیم کے قومی ایجنڈے میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہے۔ وزارت نے اس اقدام کے تحت تقریباً 8 لاکھ خواتین مستفیدین تک رسائی حاصل کی ہے۔

.ii ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ (اے کے اے ایم) اور ’وبھاجن  وبھیشیکا  اسمرتی دوس ‘ میں ایک شراکت دار   وزارت کے طور پر، محکمے نے پروجیکٹ پر عمل درآمد کرنے والی تمام ایجنسیوں (پی آئی اے) کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ ان تمام ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اقدامات کو مقبول بنائیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اپنی سرگرمیوں کو فروغ دیں۔

.iii قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) نے وزارت کے تحت ایک خود مختار ادارے کے طور پر اپنے قیام کے بعد سے اب تک 14,12,425 خواتین مستفیدین کو قرض فراہم کیا ہے۔

استاد

استاد (روایتی فنون لطیفہ میں ہنر اور تربیت کی اپ گریڈیشن کا فروغ  ) اسکیم کا باقاعدہ آغاز 14 مئی 2015 کو کیا گیا۔ اس کا مقصد اقلیتوں کے روایتی فنون/ دستکاری کے بھرپور ورثے کو محفوظ رکھنا ہے۔ ہنر ہاٹ کو اس اسکیم کے ایک جزو کے طور پر 2016-17 سے نافذ کیا گیا ہے۔

ہنر ہاٹ ایک موثر پلیٹ فارم ہے جہاں ملک بھر کے اقلیتی دستکاروں/ کاریگروں اور ماہرینِ پکوان کو اپنے شاندار دست کاری اور شاندار طریقے سے تیار کردہ دیسی مصنوعات کی نمائش اور مارکیٹنگ کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے کاریگروں، کاریگروں اور متعلقہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں اور ان کے بازار کے روابط کو مضبوط کیا ہے۔ مالی سال 2021-22 کے دوران ،مہاراشٹر کےممبئی   اور اتر پردیش کے  آگرہ میں ہنر ہاٹ کا انعقاد کیا گیا۔

اس کے علاوہ، اقلیتی امور کی وزارت نے استاد اسکیم کے تحت ڈیزائن اقدام ، پروڈکٹ رینج ڈیولپمنٹ ، پیکیجنگ، نمائشوں اور برانڈ کی تعمیر وغیرہ کے لیے مختلف کرافٹ کلسٹرز میں کام کرنے کے لیے قومی سطح پر معروف اداروں کو مشغول کیا ہے۔ ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹیکنالوجی (این آئی ایف ٹی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن (این آئی ڈی) شامل ہیں۔ مالی سال 2021-22 کے دوران مندرجہ ذیل کلسٹرز میں ڈیزائن اور ڈیولپمنٹ ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔

o بلیک پاٹری (سیاہ مٹی کے برتن)، منی پور

o سافٹ اسٹون (نرم پتھر)، وارانسی، اتر پردیش

o ووڈن  کٹلری، اودے گیری، آندھرا پردیش

o ٹلہ کڑھائی، سری نگر، جموں و کشمیر

o  بیدری ویئر، بیدر، کرناٹک

o چنا پٹنہ کھلونے، چننا پٹنا، کرناٹک

o ناگالینڈ ٹیکسٹائل، دیماپور ،ناگالینڈ

o چکن کاری، لکھنؤ، اتر پردیش

 

پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم

پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (پی ایم جے وی  کے) ایک مرکزی اسپانسر ڈ اسکیم ہے۔ اسے اقلیتی امور کی وزارت نافذ کر رہی ہے۔ اس کا نفاذ شناخت شدہ علاقوں میں سماجی و اقتصادی ترقی سے محروم  نشان زد  علاقوں میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق منصوبوں، جو کہ کمیونٹی  اثاثے ہیں، کی ترقی کے مقصد سے کیا جا رہا ہے ۔ حکومت نے 15ویں مالیاتی کمیشن کے دوران یعنی مالی سال 2021-22 سے 2025-26 کے دوران سال 2021-22 میں نظر ثانی شدہ پی ایم جے وی  کے کو جاری رکھنے کو  منظوری دی ہے۔ اس ترمیم شدہ پی ایم جے وی  کے اسکیم کو تمام توقعاتی   اضلاع سمیت پورے ملک میں نافذ کیا  جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت پروجیکٹوں کی منظوری ان علاقوں میں دی جاتی ہے جہاں اقلیتی آبادی کا ارتکاز (15 کلومیٹر کے دائرے میں) 25 فیصد سے زیادہ ہے ۔

اس اسکیم کے تحت سال 2021-22 میں مختلف پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ان میں اسکول کی عمارتیں، رہائشی اسکول، ہاسٹل، آئی ٹی آئی، صحت کے منصوبے جیسے اسپتال، صحت  مراکز، سدبھاؤ منڈپ، کمیونٹی عمارتیں، کھیلوں کے پروجیکٹ جیسے اسپورٹس کمپلیکس، ورکنگ ویمن ہاسٹل وغیرہ شامل ہیں۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اسرو کے نیشنل ریموٹ سینسنگ سینٹر کے ساتھ مل کر اس اسکیم کے تحت بنائے گئے بنیادی ڈھانچے کی جیو ٹیگنگ شروع کردی ہے۔

قومی کمیشن برائے اقلیت

یہ 1978 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ قومی کمیشن برائے اقلیتی قانون 1992 کے نفاذ کے ساتھ ایک قانونی ادارہ بن گیا۔ اس کے بعد اس کا نام بدل کر قومی اقلیتی کمیشن رکھ دیا گیا۔ پہلا آئینی قومی کمیشن 1993 میں تشکیل دیا گیا تھا۔

این سی ایم ایکٹ، 1992 کے مطابق، اس کمیشن کے کام درج ذیل ہیں:

1. مرکز اور ریاستوں کے تحت اقلیتوں کی ترقی کی پیش رفت کا جائزہ لینا

2. آئین،  پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ کے ذریعہ نافذ کردہ ایکٹ میں فراہم کردہ تحفظاتی تدابیر  کے نفاذ کی نگرانی

3. مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کے موثر نفاذ کے لیے سفارشات پیش کرنا۔

4. اقلیتوں کو ان کے حقوق اور تحفظات سے محروم رکھنے کے حوالے سے مخصوص شکایات کا جائزہ لینا اور ایسے معاملات کو متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھانا۔

5. اقلیتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے پیدا ہونے والے مسائل کا مطالعہ کرنا اور ان کو دور کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔

6. اقلیتوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی سے متعلق امور  کا مطالعہ، تحقیق اور تجزیہ کرنا۔

7. کسی بھی اقلیت کے سلسلے میں مرکزی یا ریاستی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے مناسب اقدامات  کے بارے میں مشورہ دینا۔

8. اقلیتوں سے متعلق کسی بھی معاملے اور خاص طور پر ان کو درپیش مشکلات پر مرکزی حکومت کو وقتاً فوقتاً یا خصوصی رپورٹیں پیش کرنا، اور

9. مرکزی حکومت کے ذریعے بھیجے گئے دیگر معاملات۔

اقلیتی کمیشن نے 18 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے  اقلیتی  کمیشن قائم کیے ہیں۔ان میں   آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، قومی راجدھانی خطہ  (این سی ٹی) دہلی، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور، پنجاب، راجستھان، تلنگانہ، اترپردیش، کیرالہ، تامل ناڈو، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال  شامل ہیں۔

کمشنر برائے لسانی اقلیات:

کمشنر برائے لسانی اقلیات (سی  ایل ایم) کا دفتر آئین کے آرٹیکل 350-بی کے تحت 1957 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میں  سی ایل ایم کو آئین کے تحت ملک میں لسانی اقلیتوں کو فراہم کردہ تحفظات سے متعلق تمام معاملات کا جائزہ لینے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ان معاملات پر ایسی کوتاہیوں کے بارے میں صدر کو رپورٹ کرنا جس کی صدر مملکت ہدایت کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی تمام رپورٹیں صدر کی مرضی سے پارلیمنٹ کے ہر ایوان کے سامنے رکھی جا سکتی ہیں اور متعلقہ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقہ کی انتظامیہ کو بھیجی جا سکتی ہیں۔ سی ایل ایم تنظیم کا ہیڈکوارٹر دہلی میں واقع ہے اور علاقائی دفاتر چنئی اور کولکاتہ میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ، سی ایل ایم لسانی اقلیتوں کو فراہم کردہ آئینی اور قومی سطح  پر متفقہ تحفظاتی تدابیر  کے نفاذ سے متعلق مسائل پر ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔

لسانی اقلیتوں کے لیے آئینی تحفظ

ہندوستانی آئین کے تحت مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو کچھ تحفظات فراہم کیے گئے ہیں۔ آرٹیکل 29 اور 30 ​​اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ان کی الگ زبان، رسم الخط یا ثقافت کے تحفظ اور اپنی پسند کے تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کا انتظام کرنے کے حق کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، آرٹیکل-347 کسی بھی ریاست یا اس کے کسی بھی حصے کی آبادی کے بڑے تناسب سے بولی جانے والی کسی بھی زبان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے لیے صدر کی ہدایت کا التزام  کرتا ہے،  جس کا تعین صدر  جمہوریہ کرتے ہوں ۔ آرٹیکل 350 مرکز یا ریاست کے کسی بھی اتھارٹی کو مرکز/ریاستوں میں استعمال ہونے والی کسی بھی زبان میں شکایات کے ازالے کے لیے پرزینٹیشن دینے کا  اختیار دیتا ہے۔ آرٹیکل 350 اے لسانی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کا التزام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، آرٹیکل 350 بی آئین کے تحت لسانی اقلیتوں کے لیے فراہم کردہ تحفظاتی تدابیر  سے متعلق تمام معاملات کی جانچ کرنے کے لیے لسانی اقلیتوں کے کمشنر کے طور پر نامزد ایک خصوصی افسر کا التزام  کرتا ہے۔

سنٹرل وقف کونسل

مرکزی وقف کونسل ایک قانونی ادارہ ہے جو اقلیتی امور کی وزارت کے انتظامی کنٹرول کے تحت ہے۔ یہ 1964 میں وقف ایکٹ 1954 کی دفعات کے مطابق قائم کیا گیا تھا۔ یہ اوقاف کی انتظامیہ اور ملک میں وقف بورڈ کے کام کاج سے متعلق معاملات کے سلسلے میں مرکزی حکومت کے لیے ایک مشاورتی ادارہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم شدہ شق کے تحت کونسل کے کردار میں کافی توسیع ہوئی ہے۔ اب کونسل کو مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ ریاستی وقف بورڈ کو مشورہ دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس توسیع شدہ مشاورتی کردار کے علاوہ، اب یہ بورڈ کو ہدایات جاری کر رہا ہے کہ وہ کونسل کو اپنی کارکردگی کے بارے میں  رپورٹ کرے۔ یہ ہدایت خاص طور پر ان کی مالی کارکردگی، وقف املاک کے تجاوزات کے سروے، ریوینیو ریکارڈ اور سالانہ اور آڈٹ رپورٹس وغیرہ سے متعلق ہے۔

اس کونسل کے چیئرمین وقف کے انچارج مرکزی وزیر ہوتے  ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت ہند ایکٹ میں متعین مختلف زمروں سے آنے والے اراکین کا تقرر کرتی ہے۔ ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ 20  ہوتی ہے۔ اس وقت مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی مرکزی وقف کونسل کی  بہ اعتبار عہدہ  چیرپرسن ہیں۔ موجودہ کونسل کی تشکیل نو 23 جنوری 2022 کو ایک سال یعنی 4 فروری 2022 سے 03 فروری 2023 تک کی گئی ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کے دفتر یعنی سنٹرل وقف بھون کو نئی دہلی کے پشپ وہار واقع  سیکٹر-6کےساکیت فیملی کورٹ کے بالمقابل منتقل کر دیا گیا ہے۔

درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ، 1955

 یہ درگاہ کے مناسب انتظام اور خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ، جسے عرف عام میں درگاہ خواجہ صاحب، اجمیر کہا جاتا ہے کے بند و بست  کے لیے التزام کرنے سے متعلق  ایک ایکٹ ہے ۔

درگاہ کمیٹی کا کام درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ 1955 اور اس کے بائی لاز 1958 کی دفعات کے مطابق بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ذریعے لوگوں کو خدمت فراہم کرنا ہے۔

حج 2022

سعودی عرب میں حج 2022 کا کامیاب انعقاد کیا گیا ہے۔ اس سال 79,200 ہندوستانی عازمین حج  نے (1796 محرم کے بغیر خواتین عازمین  سمیت )  دو سال کے وقفے کے بعد یعنی 2020 اور 2021 میں حج ادا کیا۔

حج 2022 وبائی امراض کے بعد کے عرصے میں غیر معمولی حالات اور کووڈ پابندیوں کے تحت کیا گیا تھا۔ سعودی وزارت نے نامساعد حالات اور مختصر نوٹس کے باوجود حج 2022 کی تصدیق کردی۔ حج 2022 کے انعقاد کے لیے وزارت اقلیتی امور، وزارت خارجہ، وزارت شہری ہوا بازی، وزارت صحت اور کنبہ  بہبود، حج کمیٹی آف انڈیا اور حج آپریشنز میں شامل دیگر حصص داروں کے درمیان بہترین تال میل اور تعاون کی ضرورت تھی۔ تمام وزارتوں کی فوری اور مربوط کارروائی کے نتیجے میں، تقریباً 45 دنوں کی مختصر مدت میں حج کی تیاریاں مکمل ہوئیں اور عازمین کے لیے حج ویزا حاصل کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

حج 2022 کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:-

1. وبائی امراض کے بعد کے دور میں صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، سعودی عرب نے عازمین حج  کی کل تعداد کو 10 لاکھ تک محدود کر دیا۔ ان میں باہر سے آئے ہوئے 8.5 لاکھ عازمین  شامل تھے۔

2. 65 سال سے کم عمر کے عازمین، جنہیں منظور شدہ کووِڈ ویکسین کے مکمل حفاظتی ٹیکے لگائے گئے تھے،  انہیں اس کے لیے اجازت دی گئی۔

3. اس سے  قبل حج کی تیاریوں سے متعلق کام 5-6 ماہ قبل مکمل کر لیےجاتے  تھے لیکن حج 2022 کے لیے ڈیڑھ ماہ کے مختصر نوٹس پر انتظامات کیے گئے تھے۔

4. حج کا اصل دورانیہ 5 جولائی سے 12 جولائی 2022 کے درمیان تھا۔ لیکن عازمین کی روانگی 24 جون 2022 سے شروع کردی گئی۔ دو طرفہ حج معاہدے پر 20 اپریل 2022 کو دستخط ہوئے تھے۔

5. حج کمیٹی آف انڈیا کے عازمین کے لیے مکہ میں کل 188 عمارتیں کرائے پر لی گئی تھیں۔ یہ عمارتیں بنیادی سہولیات سے آراستہ تھیں۔ اسی طرح عازمین کو  40 نمازیں ادا کرنے کی سہولت فراہم   کرنے کے لیے مدینہ منورہ کے علاقے مرکزیہ میں رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔

6. پہلی بار حج کمیٹی آف انڈیا کے تمام عازمین حج کو مدینہ کے مرکزیہ علاقے میں ٹھرایا گیا ۔ ہر حج کے لیے مرکزیہ علاقے میں کمیٹی کے  عازمین حج کی حصہ داری کو  زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کی جاتی  ہے۔   حرم کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ واضح طور پر زائرین کے لیے ایک ترجیحی انتخاب ہے۔ گزشتہ برسوں میں حج کمیٹی آف انڈیا نے 60 فیصد عازمین حج کے لیے مرکزیہ رہائش کا ہدف رکھا تھا۔ حج 2022 کے لیے، اس سال ویٹ (وی اے ٹی) میں 15 فیصد  کے اضافے اور اضافی 2.5 فیصد نئی رہائش فیس کے باوجود فی  عازم حج 50 سعودی ریال (ایس آر) پر  کمیٹی کے  تمام عازمین کے لیے مرکزیہ میں رہائش کا انتظام کیا گیا ۔ یہ رقم حج 2019 کے مقابلے میں کم ہے۔

7. ہندوستانی عازمین حج کے لیے  عزیزیہ میں ان کی رہائش گاہ  اور   مقامات  حج کے درمیان آرام دہ اور پریشانی سے پاک نقل و حرکت کے لیے نئی بسیں کرائے پر لی گئیں۔

8. پہلی بار مشاعر میٹرو ٹرین کی سہولت حج کمیٹی آف انڈیا کے تمام عازمین کے لیے دستیاب کرائی گئی۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملی کہ حج کے دن حج کمیٹی آف انڈیا کے  کسی  بھی عازم کو  وقت پر عرفات نہیں پہنچنے کا  خطرہ نہ  ہو۔

9. قونصلیٹ نے 10 ذیلی دفاتر شروع کیے ہیں، جنہیں ’برانچ آفسز‘ کہا جاتا ہے۔  انہیں  ڈیپوٹیشن پر تعینات   ایک ٹیم اور مقامی عملے  پر مشتمل ایک ٹیم کے ذریعے چلائےجاتے ہیں۔ انہیں مکہ مکرمہ میں ہندوستانی عازمین حج کی رہائش گاہ، مدینہ میں 3 برانچ آفس اور جدہ اور مدینہ ہوائی اڈوں پر ہندوستانی عازمین کی خدمت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستانی عازمین حج کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے  ہر برانچ آفس کے قریب ،مکہ مکرمہ میں 10 ڈسپنسریاں، مدینہ میں 3 ڈسپنسریاں اور جدہ ہوائی اڈے پر ایک ڈسپنسری بھی کھولی گئی ۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں دو اسپتال (40 بستروں اور 30 ​​بستروں کے) اور مدینہ منورہ میں 15 بستروں کی ڈسپنسری کھولی گئی۔ ان کا انتظام ہندوستان کے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اہلکاروں کی ایک ٹیم نے کیا۔ اس کے علاوہ حج کے اوقات میں منیٰ میں کیمپ آفس کم ڈسپنسری بھی قائم کی گئی۔

حج 2022 کے دوران ڈیجیٹل اقدامات:-

1. ایک خاص  ٹول فری نمبر، واٹس ایپ نمبر کے ساتھ ساتھ آن لائن شکایات کے ازالے  کا نظام ہندوستانی عازمین کے کسی بھی مسائل یا خدشات کو فوری طور پر دور کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے موجود تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا اور ایپس، خاص طور پر واٹس ایپ، کو ’ڈیجیٹل انڈیا‘ کے لیے وزیر اعظم ہند کے کاغذ کے بغیر دفتر کے وژن کو پورا کرنے کے لیے اندرونی کارروائیوں کے حصے کے طور پر مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔

2. اردو، ہندی، ملیالم اور تمل زبانوں میں ہندوستانی عازمین حج کے لیے ایک تربیتی ویڈیو نے سعودی عرب کی تازہ ترین ہدایات کے حوالے سے عازمین کی واقفیت میں مدد کی۔ اس ویڈیو کو تقریباً 70,000 بار دیکھا گیا۔

3. حج کے عمل سے متعلق روزانہ ویڈیو رپورٹس یوٹیوب چینل پر بنائی اور اپ لوڈ کی گئیں، جنہیں ہندوستان اور سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔

4. عازمین حج کے فائدے کے لیے اس  سفر حج کے آپریشن سے متعلق تمام ڈیٹا کے لیے ایک خاص  موبائل ایپ ’’انڈین حج انفارمیشن سسٹم‘‘ بھی تیار کیا گیا ہے۔ یہ ایپ عازمین میں بہت مقبول تھا  اور اس نے ان کی رہائش گاہوں، منیٰ میں مکتبوں، برانچ آفس وغیرہ پر کسی بھی قسم کی شکایت کودرج  کرنے اور حل کرنے میں ان کی مدد کی۔

5. ہندوستانی عازمین حج کی صحت کی تفصیلات، ان کی بیماریوں، طبی تشخیص، تجویز کردہ ادویات کے ساتھ ساتھ اس کی تقسیم آن لائن او پی ڈی سسٹم ای-مسیحہ (بیرون ملک ہندوستانی حاجیوں کے لیے طبی امداد کا نظام) میں درج کیے گیے۔ یہ آن لائن او پی ڈی سسٹم حج کی مدت کے دوران طبی سہولیات حاصل کرنے والے تمام ہندوستانی عازمین حج کا  ہیلتھ ڈیٹا بیس بنانے اور برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا  ہے۔

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO. 14090



(Release ID: 1885625) Visitor Counter : 220