وزیراعظم کا دفتر

وارانسی میں کاشی تمل سنگمم کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 19 NOV 2022 7:00PM by PIB Delhi

 

ہر ہر مہادیو!

ونکم کاشی۔

ونکم  تمل ناڈو۔

اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب  دھرمیندر پردھان جی ، جناب  ایل مروگن جی ، سابق مرکزی وزیر پون رادھا کرشنن جی ، دنیا کے مشہور موسیقار اور راجیہ سبھا کے رکن الیاراجا جی ، بی ایچ یو کے وائس چانسلر سدھیر جین، آئی آئی ٹی مدراس کے ڈائریکٹر پروفیسر کاما کوٹی جی، دیگر تمام معززین اور تمل ناڈو سے میری کاشی  میں تشریف لائے تمام معزز مہمانوں، خواتین و حضرات،

دنیا کے قدیم ترین زندہ  جاوید شہر کاشی کی مقدس سرزمین پر آپ سب کو دیکھ کر آج میں بہت خوش ہوں، میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ میں آپ سب کو کاشی، مہادیو کے شہر، کاشی تمل سنگمم میں دل سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ سنگموں  کو ہمارے ملک میں بڑی شان اور اہمیت دی گئی ہے۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے سنگم سے لے کر افکار و نظریات، علم و سائنس اور معاشرت و ثقافت تک ہر سنگم کو ہم نے منایا ہے۔ یہ جشن دراصل ہندوستان کے تنوع اور خصوصیات کا جشن ہے۔ اور اس لیے کاشی تمل سنگمم  اپنے آپ میں خاص اور  منفرد ہے۔ آج ایک طرف ہماری  ثقافتی راجدھانی کاشی ہے جو پورے ہندوستان  کو اپنے آپ میں سمیٹے ہو ئے ہے اور دوسری طرف ہندوستان کی قدیم اور فخر کا مرکز ہمارا تمل ناڈو اور تمل ثقافت ہے۔ یہ سنگم بھی گنگا اور جمنا کے سنگم کی طرح مقدس ہے۔ اس میں لامحدود امکانات اور استعداد  ہیں جتنے گنگا جمنا میں ہیں ۔ میں اس تقریب کے لیے کاشی اور تمل ناڈو کے تمام لوگوں کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ملک کی وزارت تعلیم اور حکومت اتر پردیش کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایک ماہ کے اس جامع پروگرام کو عملی شکل دی ہے۔ بی ایچ یو اور آئی آئی ٹی مدراس جیسے اہم تعلیمی ادارے بھی اس میں تعاون کر رہے ہیں۔ خاص طور پر میں کاشی اور تمل ناڈو کے اسکالرز اور طلباء کو مبارکباد دیتا ہوں۔

 

ساتھیوں،

ہمارے رشیوں  نے کہا ہے - 'ایکو اہم بہو سیام '! یعنی ایک ہی شعور، مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہم اس فلسفے کو کاشی اور تمل ناڈو کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ کاشی اور تمل ناڈو دونوں ثقافت اور تہذیب کے لازوال مراکز ہیں۔ دونوں علاقے دنیا کی قدیم ترین زبانوں جیسے سنسکرت اور تمل کے مراکز ہیں۔ کاشی میں بابا وشوناتھ ہیں اور تمل ناڈو میں بھگوان رامیشورم کا آشیرواد ہے۔ کاشی اور تمل ناڈو، دونوں شیومئے ہیں، دونوں شکتی مئے  ہیں۔ ایک اپنے آپ میں کاشی ہے، تو  تمل ناڈو میں دکشن کاشی ہے۔ 'کاشی-کانچی' کی شکل میں، دونوں کی سپتپوریوں میں اپنی اپنی اہمیت ہے۔ کاشی اور تمل ناڈو دونوں موسیقی، ادب اور فن کے شاندار ذرائع بھی  ہیں۔ کاشی کا طبلہ اور تمل ناڈو کا تنومائی ۔ اگر کاشی میں بنارسی ساڑھی دستیاب ہے تو تمل ناڈو کا کانجیورم سلک پوری دنیا میں مشہور ہے۔ دونوں ہندوستانی روحانیت کے سب سے بڑے آچاریوں  کی جائے پیدائش اور کام کی جگہ ہیں۔ کاشی بھکت تلسی کی سرزمین ہے اور تمل ناڈو سنت تروولاور کی عقیدت کی سرزمین ہے۔ آپ اسی توانائی کو کاشی اور تمل ناڈو کے مختلف رنگوں میں زندگی کے ہر شعبے میں، زندگی کے ہر جہت میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی تمل شادی کی روایت میں کاشی یاترا کا ذکر ملتا ہے۔ یعنی کاشی یاترا تمل نوجوانوں کی زندگی کے نئے سفر سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ تمل دلوں میں کاشی کے لیے لازوال محبت ہے، جو نہ ماضی میں ختم  ہوئی  اور نہ ہی مستقبل میں کبھی ختم ہوگی۔ یہ 'ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت ' کی روایت ہے، جسے ہمارے آباؤ اجداد نے جیا تھا اور آج یہ کاشی تمل سنگمم ایک بار پھر اس کی  شان کو آگے بڑھا رہا ہے۔

 

ساتھیوں،

 

تمل ناڈو نے کاشی کی تعمیر اور کاشی کی ترقی میں بے مثال تعاون کیا ہے۔ تمل ناڈو میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن بی ایچ یو کے سابق وائس چانسلر تھے۔ بی ایچ یو آج بھی ان کے تعاون کو یاد کرتا ہے۔ تمل نسل کے مشہور ویدک اسکالر جیسے  جناب  راجیشور شاستری کاشی میں رہے۔ انہوں  نے رام گھاٹ پر سانگ وید ودیالیہ قائم کیا۔ اسی طرح کاشی کے لوگ شری پٹا بھی  رام شاستری کو بھی یاد کرتے ہیں جو ہنومان گھاٹ میں رہتے تھے۔ اگر آپ کاشی کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ہریش چندر گھاٹ پر "کاشی کامکوٹیشور پنچایتن مندر" ہے، جو ایک تمل مندر ہے۔ کیدار گھاٹ پر ایک 200 سال پرانا کماراسوامی مٹھ اور مارکنڈے  آشرم بھی ہے۔ تمل ناڈو کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں ہنومان گھاٹ اور کیدار گھاٹ کے آس پاس رہتی ہے، جنہوں نے نسل در نسل کاشی کے لیے بے مثال تعاون کیا ہے۔ تمل ناڈو کی ایک اور عظیم شخصیت، عظیم شاعر شری سبرامنیم بھارتی جی، جو ایک عظیم  مجاہد آزادی بھی تھے، بھی کاشی میں کتنے عرصے تک مقیم رہے۔ یہیں انہوں  نے مشن کالج اور جین نارائن کالج میں تعلیم حاصل کی۔ وہ کاشی سے اس طرح جڑےکہ کاشی ان  کا حصہ بن گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی مقبول مونچھیں بھی یہاں رکھی تھیں۔ ایسی بہت سی شخصیات، اتنی روایات، کتنے ہی عقائد نے کاشی اور تمل ناڈو کو قومی اتحاد کے دھاگے سے جوڑا ہے۔ اب بی ایچ یو نے سبرامنیم بھارتی کے نام سے ایک چیئر  قائم کرکے اپنے فخر میں اضافہ کیا ہے۔

ساتھیوں،

 

کاشی تمل سنگمم کا یہ انعقاد  اس وقت ہو رہا ہے جب ہندوستان اپنی آزادی کے امرت کال میں داخل ہو چکا ہے۔ امرت کا ل میں ہمارے عزائم  پورے ملک کے اتحاد اور متحد ہ کوششوں سے پوے  ہوں گے ۔ ہندوستان وہ قوم ہے جس نے 'سن وو منانسی جانتام '، یعنی  'ایک دوسرے کے ذہن کو جاننا' کے منتر کا احترام کرتے ہوئے ہزاروں سالوں سے قدرتی ثقافتی اتحاد کو جیا ہے۔ ہمارے ملک میں صبح اٹھنے کے بعد 'سوراشٹر ےسومناتھم' سے لیکر  'سیتو بندھے تو رامیشم' تک 12 جیوترلنگوں کو یاد کرنے کی روایت ہے۔ ہم اپنے دن کا آغاز ملک کے روحانی اتحاد کو یاد کرکے کرتے ہیں۔ ہم غسل کرتے ہوئے اور پوجا کرتے ہوئے منتر پڑھتے ہیں – گنگے چا یمونے چیو گوداوری سرسوتی۔ نرمدے سندھو کاویری جلے اسمین سنیدھیم کورو۔ یعنی گنگا، جمنا سے لے کر گوداوری اور کاویری تک تمام دریا ہمارے جل  میں نواس کریں۔ یعنی ہم ہندوستان کے سبھی  دریاؤں میں نہانے کا احساس کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہمیں اس روایت کو مضبوط کرنا تھا، ہزاروں سال کے  اس ورثے کو۔ اسے ملک کے اتحاد کا دھاگہ بنانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے لیے زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ کاشی تمل سنگم آج اس عزم کے لیے ایک پلیٹ فارم بن جائے گا۔ اس سے ہمیں اپنے فرائض کا احساس ہوگا، اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کی توانائی ملے گی۔

 

ساتھیوں،

 

ہندوستان کی شکل کیا ہے، جسم کیا ہے، وشنو پران کا  ایک اشلوک ہمیں بتاتا  ہے، جو کہتا ہے- اترم یت سمندرسیہ ہیمادریشچیو دکشنم۔ ورشم تاد بھارتم نام بھارتی یترا سنتی:۔ یعنی ہندوستان جس میں ہمالیہ سے لے کر بحر ہند تک تمام تنوع اور خصوصیات شامل ہیں۔ اور ان کا ہر بچہ ہندوستانی ہے۔ اگر ہمیں ہندوستان کی ان جڑوں کا تجربہ کرنا ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود شمال اور جنوب کتنے قریب ہیں۔ سنگم تمل ادب  میں ہزاروں میل دور بہنے والی گنگا کا گورو گان  کیا گیا تھا ، وارانسی کے لوگوں کی تمل متن کلیتوگئے  میں تعریف کی گئی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے تروپوگل کے ذریعے ایک ساتھ بھگوان موروگا اور کاشی کی شان  ایک ساتھ گائی تھی ۔جنوب کا کاشی  کہے جانے والےتین کاشی کو قائم کیا تھا ۔

 

ساتھیوں،

 

یہ  جسمانی فاصلہ اور زبان کے  فرق کو توڑنے والا اپناپن  ہی تھا جو  سوامی کمرگوروپر تمل ناڈو سے کاشی آئے اور اسے اپنا  کام کرنے کی جگہ بنایا۔ دھرما پورم آدھنم کے سوامی کمرگوروپر نے یہاں کیدار گھاٹ پر کیداریشور مندر بنایا تھا۔ بعد ازاں ان کے شاگردوں نے کاشی وشوناتھ مندر ضلع تھنجاور میں دریائے کاویری کے کنارے پر قائم کیا۔ منونمنیم سندرنار جی نے تمل ناڈو کا ریاستی گیت  'تمل تائی واڈتو' لکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے گرو کوڈگا نلور سندرار سوامیگل جی نے کاسی کے منیکرنیکا گھاٹ پر کافی وقت گزارا۔ کاشی کا خود منونمنیم سندرنار جی پر کافی اثر تھا۔ رامانوجاچاریہ جیسے سنت، جو تمل ناڈو میں پیدا ہوئے تھے، بھی کاشی سے کشمیر تک ہزاروں میل کا سفر کیا کرتے تھے۔ آج بھی ان کے علم کو ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی، پورا ملک جنوب سے شمال تک سی راجگوپالاچاری کے لکھے ہوئے رامائن اور مہابھارت سے متاثر ہے۔ مجھے یاد ہے، میرے ایک استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ نے رامائن اور مہابھارت ضرور پڑھی ہوگی، لیکن اگر آپ اسے گہرائی سے سمجھنا چاہتے ہیں، تو جب بھی موقع ملے، راجا جی کی لکھی ہوئی رامائن اور مہابھارت پڑھ لیں، تب آپ کو کچھ سمجھ میں آئے گا۔ یہ میرا تجربہ ہے، رامانوجاچاریہ اور شنکراچاریہ سے لے کر راجا جی اور سرو پلی رادھا کرشنن تک، ہم ہندوستان کو جنوبی ہند کے اسکالرز کے ذریعہ ہندوستانی فلسفے کو سمجھے بغیر نہیں جان سکتے، یہ عظیم افراد  ہیں، ہمیں ان کو سمجھنا ہوگا۔

ساتھیوں،

 

آج ہندوستان نے اپنے 'پرائڈ آن ہیریٹیج'  یعنی وراثت پر فخر کو آگے بڑھایا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس کوئی قدیم ورثہ ہے تو وہ ملک اس پر فخر کرتا ہے۔ فخر کے ساتھ دنیا میں اس کی تشہیر کرتا ہے۔ ہم اہرام مصر سے لے کر اٹلی کے کولوزیم اور پیسا کے جھکے ہوئے ٹاور تک ایسی بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس تمل ہے جو دنیا کی قدیم ترین زبان ہے۔ آج تک یہ زبان اتنی ہی مقبول ہے اتنی ہی  زندہ ہے۔ جب دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین زبان ہندوستان میں ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم اس گورو گان  کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہم 130 کروڑ ہم وطنوں کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں اس تمل ورثے کو بچانے کے ساتھ ساتھ اسے مزید مالا مال بنائیں ۔ اگر ہم تمل کو بھولیں گے  تو یہ ملک کا نقصان ہوگا اور اگر ہم تمل کو بندشوں  میں رکھیں گے تو بھی  اس کا نقصان ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہے - ہم  زبان کے اختلافات کو دور کریں، جذباتی اتحاد قائم کریں۔

 

ساتھیوں،

 

میرے خیال میں کاشی  تمل سنگم لفظوں سے زیادہ تجربے کا معاملہ ہے۔ اس کاشی یاترا کے دوران آپ ان کی یادوں سے جڑنے جا رہے ہیں، جو آپ کی زندگی کا سرمایہ بن جائیں گی۔ میرے کاشی کے باشندے آپ کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح کے پروگرام تمل ناڈو اور دیگر جنوبی ریاستوں میں بھی ہوں، ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ وہاں جائیں، ہندوستان کو جئیں ، ہندوستان کو جانیں۔ میری خواہش ہے کہ ، کاشی تمل سنگمم، سے جو امرت نکلے ، اسے نوجوان ریسرچ اور  تحقیق  کے ذریعے آگے بڑھائیں ۔ یہ بیج آگے چل کر  کر قومی یکجہتی کا برگد بنے ۔ قومی مفاد  ہی ہمارا مفاد ہے - 'ناٹو نلنے نمدو نلم '۔ یہ منتر ہمارے ہم وطنوں کی زندگی کا منتر بننا چاہیے۔ اسی احساس کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کے لیے ڈھیروں نیک خواہشات۔

 

بھارت ماتا کی جئے ،

 

بھارت ماتا کی جئے ،

 

بھارت ماتا کی جئے ،

 

شکریہ!

 

ونکم

*****

ش ح ۔م م ۔ م ر

U.No 12723



(Release ID: 1877366) Visitor Counter : 154