ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
بھارت نے یو این ایف سی سی سی کے روبرو اپنی طویل المدت کم اخراج والی ترقیاتی حکمت عملی پیش کی
Posted On:
14 NOV 2022 4:46PM by PIB Delhi
بھارت نے جماعتوں کی 27ویں کانفرنس (سی او پی 27) کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے روبرو اپنی طویل المدت کم اخراج والی ترقیاتی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا۔ طویل المدت کم اخراج والی ترقیاتی حکمت عملی کا آغاز ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر شری بھوپندر یادو کے ذریعہ کیا گیا تھا جو 6 سے 18 نومبر 2022 کے دوران شرم الشیخ ، مصر میں منعقد ہو رہی سی او پی 27 میں بھارتی وفد کی قیاد ت کر رہے ہیں۔
حکمت عملی کے اہم نکات ہیں:
1۔ توانائی سلامتی کو خاطر خواہ اہمیت دیتے ہوئے توجہ قومی وسائل کے دانشمندانہ استعمال پر مرتکز ہوگی۔ حجری ایندھنوں سے دیگر ایندھنوں کی جانب منتقل ہونے کے پہلو کو ایک منصافانہ متوازن، ہمہ گیر اور کلی شمولیت والے انداز میں زیر غور لایا جائے گا۔
قومی ہائیڈروجن مشن جس کا آغاز 2021 میں کیا گیا تھا، اس کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کو ایک سبز ہائیڈروجن ہب یا مرکز بنایا جائے ۔ تیز رفتاری سے جس سبز ہائیڈروجن پیداوار کی توسیع ہوئی ہے، اس کے ذریعہ ملک میں الیکٹرو لائیزر مینوفیکچرنگ صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور 2023 تک اس کی نیوکلیئر صلاحیت میں 3 گنا کے بقدر کا اضافہ وہ چند دیگر سنگ ہائے میل ہیں جنہیں بجلی کے شعبہ کی مجموعی ترقی کے ساتھ حاصل کیا جانا ہے۔
2۔ حیاتیاتی ایندھنوں کا افزوں استعمال خصوصاً پیٹرول میں ایتھنول کی آمیزش، برقی موٹر گاڑیوں کے رواج کو مہمیز کرنا اور سبز ہائیڈروجن ایندھن کا افزوں استعمال جیسے پہلوؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ نقل و حمل کے شعبہ میں کم کاربن پیدا ہوگا۔ بھارت خواہش رکھتا ہے کہ برقی موٹر گاڑیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ 2025 تک ایتھنول کی آمیزش کو بڑھا کر 20 فیصد تک کر دیا جائے اور مسافر اور مال بھاڑا نقل و حمل کے لیے ایک مضبوط انداز میں تغیر رونما ہو۔
3۔ جہاں ایک جانب شہری کرن جاری رہے گا اور یہ فی الحال ہمارے نسبتاً کم بنیاد والے رجحان میں ایک مضبوط پہلو کا حامل عنصر ہے، مستقبل میں ہمہ گیری اور موسمیات کے لحاظ سے لچکدار شہری ترقی کے معاملے میں اسمارٹ سٹی پہل قدمیوں، شہروں کی مربوط منصوبہ بندی تاکہ تمام تر نئے پہلوؤں کو اختیار کرنے کے معاملے میں مرکزیت حاصل رہے اور توانائی اور وسائل کی اثر انگیزی میں اضافہ جیسے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، مؤثر سبز عمارت ضوابط وضع کرنے ہوں گے اور اختراعی پیمانے پر ٹھوس اور رقیق فضلہ انتظام کرنا ہوگا۔
4۔ بھارت کا صنعتی شعبہ نمو کے مضبوط راستے پر گامزن رہے گا۔ آتم نربھر بھارت اور میک ان انڈیا کے تناظر میں؛ کم کاربن والی ترقی کی جانب تغیر اس شعبہ میں ایسا ہونا چاہئے جس سے سلامتی توانائی متاثر نہ ہو،توانائی تک رسائی اور روزگار پر بھی برا اثر نہ پڑے۔ توجہ اس بات پر مرکوز ہوگی کہ کارکردگی، حصولیابی اور تجارت (پی اے ٹی) اسکیم، قومی ہائیڈروجن مشن، تمام متعلقہ اعمال اور امور کے معاملے میں بڑے پیمانے پر برق کاری کو رواج دے کر توانائی اثر انگیزی پر توجہ مرکوز رکھی جائے، مواد جاتی اثر انگیزی اور ری سائیکلنگ کو بھی ذریعہ بنایا جائے جن کے ذریعہ مدور معیشت کو توسیع حاصل ہو اور مختلف شعبوں کے بارے میں جہاں مشکلات درپیش ہوں، متبادل تلاش کیے جائیں۔ یہ شعبے فولاد، سیمنٹ، ایلومینیم اور دیگر پر مشتمل ہوں گے۔
5۔ بھارت کے پاس گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جنگلاتی اور شجرکاری کے احاطے میں اضافہ کرنے کا ایک مضبوط ریکارڈ رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے اعلیٰ اقتصادی نمو بھی حاصل کی ہے۔ بھارت میں جنگل میں لگنے والی آگ کے معاملات عالمی سطحوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں، جبکہ اس کے جنگلات اور شجرکاری کا احاطہ سی او 2 اخراج کے15 فیصد مضر اثرات کو 2016 میں جذب کر رہے تھے۔ بھارت جنگلات اور شجرکاری احاطہ کے معاملے میں 2030 تک اپنی این ڈی سی عہد بندگی کو 2.5 سے بڑھا کر 3 بلین ٹن تک پہنچانے کے راستے پر گامزن ہے اور یہ اضافی طور پر کاربن کو ٹھکانے لگانے کا ذریعہ ہوگا۔
6۔ کم کاربن والی ترقیات پر مبنی راستے کی جانب تغیر اور پیش قدمی کے نتیجہ میں متعدد لاگتیں جن کا تعلق نئی تکنالوجیاں، نئے ڈھانچے وضع کرنے سے ہے، نیز دیگر لاگتوں سے ہے، اس میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ جہاں ایک جانب متعدد تخمینے دستیاب ہیں، تاہم ہر مطالعہ میں ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ تمام تر تخمینے عام طور پر 2050 تک کھربوں ڈالروں کے بقدر ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ذریعہ موسمیاتی سرمایہ فراہمی کی تجویز ایک اہم کردار ادا کرے گی اور اس لیے ضروری ہے کہ اسے ترقی دی جائے یعنی عطیات اور رعایتی قرضوں کی شکل میں ان کی فراہمی میں اضافہ کیا جائے۔ ان کے پیمانے، دائرے اور رفتار کو مہمیز کیا جائے۔ غالب طور پر یہ تمام کام عوامی وسائل سے انجا م پائیں گے۔ یہ تمام تر امور یو این ایف سی سی سی کے اصولوں کے مطابق انجام پائیں گے۔
پیرس معاہدے کے آرٹیکل 4، پیراگراف نمبر 19 میں کہا گیا ہے کہ تما م تر متعلقہ پارٹیوں کو اپنے مشترکہ تاہم اختلاف پر مبنی ذمہ داریوں اور اپنی اپنی صلاحیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، گیس اخراج ترقیات حکمت عملیوں کے معاملے میں طویل المدت کم گرین ہاؤس گیس اخراج سے متعلق خاکہ وضع کرنے اور ایک دوسرے تک اس کی ترسیل کرنے کی کوشش کر نی چاہئے اور یہ تمام کام مختلف قومی صورتحال کے مطابق انجام پانا چاہئیں۔
اس کے علاوہ سی او پی 26 جو ماہ نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہوئی تھی، اس نے اپنے فیصلے 1/سی پی .26، منجملہ دیگر باتوں کے (1) پارٹیوں سے گذارش کی تھی کہ جنہوں نے اب تک یعنی سی او پی 27 (نومبر 2022) کے انعقاد تک ایسا نہیں کیا ہے وہ اپنی ایل ٹی – ایل ای ڈی ایس کی مواصلت انجام دیں۔
یہ دستاویز ماحولیات، جنگلات اور موسمیات تبدیلی کی وزارت کےذریعہ منعقدہ وسیع تر مشاورت کے بعد تیار کی گئی ہے جس میں تمام متعلقہ وزارتیں اور محکمے ، ریاستی حکومتوں، تحقیقی اداروں اور مہذب شہری سماج کے اداروں سے صلاح مشورہ بھی کیا گیا ہے۔بھات کا نظریہ درجہ ذیل چار اہم کلیدی نکات پر مبنی ہے جو اس کی طویل المدت کاربن والی ترقیاتی حکمت عملی کا لازمی جزو ہیں:
1۔ بھارت عالمی درجہ حرارت بڑھانے میں بہت کم ذمہ دار رہا ہے، اس نے مجموعی عالمی جی ایچ جی اخراج میں تاریخی تعاون دیا ہے اگرچہ یہاں پوری دنیا کی آبادی کا 17 فیصد حصہ سکونت پذیر ہے، پھر بھی اس کے مقابلے میں اخراج بہت کم رہا ہے۔
2۔ بھارت کے پاس ترقی کے لیے اہم توانائی ضروریات ہیں۔
3۔ بھارت ترقی کے لیے کم کاربن اخراج والی حکمت عملیوں پر عمل کرنے کے لیے پابند عہد ہے اور ان پر قومی صورتحال کے مطابق سرگرمی سے عمل کر رہا ہے۔
4۔ بھارت کو موسمیاتی لچک کے بارے میں خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
موسمیاتی انصاف اور ہمہ گیر اندازِ حیات جیسے دو موضوعات ، اس کے ساتھ ہی ساتھ مساوات اور مشترکہ تاہم تفریق پر مبنی ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں (سی بی ڈی آر –آر سی) کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، جنہیں قومی صورتحال کے مطابق ملحوظ خاطر رکھا جانا ہے، بھارت نے پیرس میں ان پر زور دیا تھا اور یہی تمام امور کم کاربن والی، کم اخراج والے مستقبل کے قلب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسی طریقہ سے، ایل ٹی – ایل ای ڈی ایس کا خاکہ بھارت کے ذریعہ ایک عالمی مساوی شیئر جو کاربن بجٹ سے متعلق ہے کے حق کے مطابق تیار کیا گیا ہے جو موسمیاتی انصاف کے سلسلے میں بھارت کےذریعہ دیے گئے نعرے کے نفاذ کا عملی پہلو ہے۔ اس امر کو لازمی بنانا یقینی ہے کہ انڈیا کے ذریعہ تیز رفتار نمو حاصل کرنے کے معاملے میں قدغنیں نہ لگائی جائیں۔ اس کے اقتصادی تغیر کو نہ روکا جائے، ساتھ ہی ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔
ایل ٹی – ایل ای ڈی ایس کو ایل آئی ایف ای کی تصوریت سے بھی باخبر کیا گیا ہے اندازِ حیات برائے ماحولیات، جس کے لیے پوری دنیا کو اندھا دھندھ اور تخریبی صرفہ سے باقاعدہ طور پر احتراز کرنا ہوگا اور ہر وسیلے کا سوچا سمجھا استعمال کرنا ہوگا۔
آغاز کے موقع پر مرکزی وزیر کی تقریر کی عبارت ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
******
ش ح۔ا ب ن۔ م ف
U-NO.12496
(Release ID: 1875833)
Visitor Counter : 254