ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

سکریٹری ایم او ای ایف سی سی  نےسی او پی 27 میں انڈیا پویلین میں ‘‘پائیدار زندگی کے لئے ٹیکنا لوجی کی ضرورتوں کا جائزہ’’ کے موضوع پر پینل ڈسکشن میں حصہ لیا


ٹیکنالوجی بڑے  صنعت کاروں   تک محدود نہیں رہ سکتی ۔ایم ایس ایم ایز اور اسٹارٹ اپس کو ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال  کی غرض سے مالی وسائل تک رسائی کے لیے فعال کرنے کی ضرورت ہے: سیکریٹری ایم او  ای ایف سی سی

Posted On: 11 NOV 2022 3:00AM by PIB Delhi

سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمہ نے سی او پی 27 کے انڈیا پویلین میں‘‘پائیدار زندگی کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورتوں کا اندازہ’’ پر ایک پینل مباحثے کی میزبانی کی تاکہ مستقبل میں عالمی شہریوں کی پائیدار فلاح کے لیے ٹیکنالوجی کی ضروریات اور ان کو اپنانے کے لیے تشخیص کی نشاندہی کی جا سکے۔ مباحثے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سکریٹری، ماحولیات، جنگلات اور  آب وہوا کی تبدیلی کی وزارت ( ایم او ای ایف سی سی)، محترمہ لینا نندن نے کہا کہ ہندوستان اور دنیا کو آج ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی صرف ان لوگوں تک ہی محدود رہنے والا مسئلہ نہیں ہے جنہیں گرین ہاؤس گیسیز خارج کرنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب اس بارے میں  حقیقت کا ایک عام  احساس اور وسیع تر اور یکساں  خیال  پایا جاتاہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فطرتاً پر مبنی متعدد ایسے واقعات  سامنے آئے ہیں  جن میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ محترمہ لینا نندن نے کہا کہ ہمارے طرز زندگی کو ان چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہماری بات چیت میں  اس بات پر توجہ مرکوز  کئے جانے  کی ضرورت ہے کہ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسے کیسے حاصل کیا جائے۔ سیکرٹری ایم او ای ایف سی سی نے کہا کہ سائنس موجود ہے لیکن اس سائنس اور علم کو اپنی سرگرمیوں میں کس طرح بروئے کار لایا جائے ، اس سلسلے میں کام کئے جانے کی ضرورت ہے۔سڑک کی تعمیر میں ٹیکنالوجیز کے استعمال کے تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے وسیع تنوع کی وجہ سے ہندوستان پر ایک ہی  طرح کی  ٹیکنالوجیز سے استفادے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ٹیکنالوجی کی ضروریات کا اندازہ مختلف ریاستوں کے لیے مختلف ہے۔ خطوں کا تنوع ریاستوں کو ان کے متعلقہ  مسائل کا حل تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ سیکرٹری نے مدور معیشت  کے بارے میں بھی بات کی۔ کم کریں، دوبارہ استعمال کریں، ری سائیکل کریں، بحال کریں اور تجدید کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام‘ آر ’ کو ‘ٹی’ کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے  سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے(ڈی ایس ٹی) پر زور دیا کہ وہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اختراعی حل تلاش کرے۔

سیکرٹری ایم او ای ایف سی سی نے  بڑے کاموں کو آپس میں  تقسیم کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت کو دہرایا اور یہ بھی کہا کہ مالی وسائل  تک رسائی کی وجہ سے ٹیکنالوجی صرف بڑے صنعت کاروں  تک محدود نہیں رہ سکتی۔ ایم ایس ایم ایز اور سٹارٹ اپس کو ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کرنے  کی سمت میں  مالی وسائل تک رسائی کے لیے فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

 سکریٹری  موصوفہ  نے  اپنی بات  کا اختتام  کرتے ہوئے کہا ‘’ہمیں اپنے اقدامات کو  ایک بڑے منظر نامے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے تبھی ایک ملک کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں’’ ۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ٹیکنالوجی انفارمیشن، فورکاسٹنگ اینڈ اسیسمنٹ کونسل(ٹی آئی ایف اے سی) ، پروفیسر پردیپ سریواستو نے ٹی آئی ایف اے سی کے ماحول کو  کاربن کے اثرات سے  پاک کرنے کے اقدامات کے بارے میں بات کی۔ ڈاکٹر راجیش کے آر پاٹھک، سکریٹری، ٹی ڈی بی نے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور کمرشلائزیشن کے بارے میں بات کی اور ڈاکٹر راجیو گرگ، سی ٹی سی این نے تقریب میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے طریقہ کار کے بارے میں بات کی۔  جناب  مینگھنائی وجے سینئر چیف انجینئر، سی ای اے، پروفیسر گیتا رائے ایسوسی ایٹ پروفیسر بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) بھی پینلسٹ میں شامل تھے۔ ڈاکٹر نشا مینڈیرٹا مشیر اور سربراہ، موسمیاتی تبدیلی پروگرام (سی سی پی)، ڈی ایس ٹی بھی بات چیت کے دوران موجود تھیں۔

پس منظر:

موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی تشویش  کا معاملہ ہے اور ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔ آب وہوا کی تبدیلی پر  بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے اپنی 6 ویں  جائزہ  رپورٹ (9 اگست 2021) میں یہ تحقیقی نتائج پیش کئے  کہ موسمیاتی تبدیلی وسیع، تیز اور شدید ہوتی جا رہی ہے اور اگر تمام ممالک کی طرف سے اس کی  روک تھام کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں  نہ کی گئی تو یہ 2040 کے اوائل تک   1.5 ڈگری سیلسئس کی حدسے تجاوز کر سکتی ہے ۔ اس میں تمام اقوام کی طرف سے وسائل پر مطالبات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم آہنگی کی کوششوں کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ پائیداری کے لیے غیر متوازن طلب اور رسد کے منظر نامے میں  مناسب طریقے سے سدھار لایا جاسکے۔

پائیدار زندگی کا تصور مستقبل کی نسلوں کی ضروریات کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر موجودہ ماحولیاتی، سماجی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کا اہل ہے۔ ایک مہذب زندگی، x7 24بجلی، پینے کے پانی، مناسب خوراک اور غذائیت اور ایک پائیدار رہائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج ان بنیادی ضروریات کو پائیدار طریقے سے پورا کرنا ہے۔ یہاں، ٹیکنالوجی اس ماحولیاتی نظام میں پائیداری کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی(ڈی ایس ٹی) نے ٹیکنالوجی انفارمیشن، فورکاسٹنگ اینڈ اسیسمنٹ کونسل(ٹی آئی ایف اے سی) کے تعاون سے مجموعی تھیم ‘ ماحولیات کے لئے  طرز زندگی ’ کے تحت پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا جس میں تعلیمی برادری ، صنعت اور ڈی ایس ٹی اور ٹی آئی ایف اے سی کے سائنسدانوں کو شامل کیا گیا۔ جس کا مقصد ٹیکنالوجی کی ضروریات کی نشاندہی کرنا ہے جن کو پورا کرنے کی  متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو صلاحیت حاصل کرنی ہے۔ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مزید بات چیت کے لیے تمام شعبوں میں ہندوستانی بہترین طور طریقوں کو بھی  اجاگر  کیا گیا۔

*************

 

 

ش ح۔ س ب ۔ رض

U. No.12405


(Release ID: 1875099) Visitor Counter : 124