وزیراعظم کا دفتر

وزیراعظم نے نئی دلی میں منائے جا رہے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے پروگرام سے خطاب کیا


سی وی سی کے لیے  کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کے نئے پورٹل کا افتتاح کیا

‘‘ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے یقین اور اعتماد ضروری ہیں’’

‘‘پچھلے کی سرکاروں نے نہ صرف عوام کا بھروسہ کھویا بلکہ وہ عوام پر بھروسہ کرنے پر بھی ناکام رہے ’’

‘‘ہم گذشتہ آٹھ سالوں سے کمی اور دباؤ کے سسٹم کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان کے فرق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے’’

‘‘بدعنوانی سے نمٹنے کے تین بنیادی طریقے ٹکنالوجی، سروس سیچوریشن اور آتم نربھرتا ہیں’’

‘‘ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ہمیں ایک ایسا انتظامی ایکو سسٹم تیار کرنا ہوگا جس میں بدعنوانی کی کوئی جگہ نہ ہو’’

‘‘کوئی ایسا طریقہ تیار کریں جس میں محکموں کی درجہ بندی زیر التوا بدعنوانی کے معاملوں پر کی جائے اور متعلقہ رپورٹس کو ماہانہ یا سہ ماہی بنیاد پر شائع کیا جائے’’

‘‘کسی بھی بدعنوان شخص کو سیاسی یا سماجی حمایت حاصل نہیں ہونی چاہیے’’

‘‘کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بدعنوانی ثابت ہونے پر جیل ہو جانے کے باوجود بدعنوان لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایسی حالت ٹھیک نہیں ہے’’

‘‘بدعنوان اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنے والے سی وی سی جیسے اداروں کو دفاعی ہونے کی ضرورت نہیں ہے’’

‘‘اگر آپ پوری ایمانداری سے کارروائی کرتے ہیں تو پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے’’

Posted On: 03 NOV 2022 12:55PM by PIB Delhi

وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی کے وگیان بھون میں سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کے ذریعے منائے جا رہے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے پروگرام سے خطاب کیا اور سی وی سی کے نئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم پورٹل کا افتتاح کیا۔

مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ویجیلنس بیداری ہفتے کی شروعات سردار پٹیل کی سالگرہ کے ساتھ ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘سردار پٹیل کی پوری زندگی ایمانداری ، شفافیت اور ان اقدار  پر مبنی پبلک سروس سسٹم کی تعمیر کے لیے وقف تھی۔ ’’ وزیراعظم نے کہا کہ بیداری اور محتاط رہنے کی یہ مہم انہیں اصولوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویجیلنس بیداری ہفتہ کی یہ مہم  بدعنوانی سے پاک بھارت کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے  چلائی جا رہی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ہر ایک شہری کی زندگی میں  اس کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے بھروسہ اور اعتماد ضروری ہیں۔ حکومت پر عوام کے بھروسہ سے لوگوں کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وزیراعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پچھلی سرکاروں نے نہ صرف عوام کا بھروسہ کھایا بلکہ وہ عوام پر بھروسہ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ بدقسمتی سے بدعنوانی ، استحصال اور وسائل کے اوپر کنٹرول کی طویل مدتی غلامی کو آزادی کے بعد زیادہ مضبوطی حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے اس ملک کی کم از کم چار نسلوں کو بری طرح نقصان پہنچا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہمیں آزادی کا امرت کال میں اس برسوں پرانے طریقے کو پوری طرح تبدیل کرنا ہوگا۔ ’’

لال قلعہ کی فصیل سے بدعنوانی کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی اپنی اپیل کو یاد کرتے ہوئے  وزیراعظم نے کہا کہ بدعنوانی کی دو وجہیں ہیں جو لوگوں کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں یعنی بنیادی سہولیات کی کمی اور حکومت کی طرف سے غیرضروری دباؤ۔ انہوں نے کہا کہ لمبے عرصے سے بنیادی سہولیات  اور مواقع کی  اس کمی کو جان بوجھ کر زندہ رکھا گیا اور اس فرق کو مزید بڑا ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے ایک غیر صحت مند مقابلے کی شروعات ہوئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا تھا۔ اسی کی وجہ سے بدعنوانی کا ایکو سسٹم تیار ہوا ۔ کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدعنوانی کا سب سے برا اثر غریبوں اور متوسط طبقوں کو ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ ‘‘اگر غریب اور متوسط طبقہ بنیادی ضروریات پر اپنی توانائی صرف کرنے لگے تو یہ ملک کیسے ترقی کرے گا؟  اسی لیے ہم گذشتہ آٹھ سالوں سے کمی اور دباؤ کے اس سسٹم کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔  اس کے لیے تین طریقے اپنائے گئے ہیں : ٹکنالوجی میں پیش رفت، بنیادی خدمات کو سیچوریشن کی سطح تک پہنچانا  اور آخر میں آتم نربھرتا کی طرف کوچ کرنا۔ ’’

ٹکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں وزیراعظم نے پی ڈی ایس کو ٹکنالوجی سے جوڑنے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے کروڑوں فرضی مستفیدین کو ہٹانے میں مدد ملی اور ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر  (ڈی بی ٹی) کو اپنانے سے دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئی۔ اسی طرح شفاف ڈیجیٹل لین دین  کا طریقہ اپنانے اور  جی ای ایم کے ذریعے شفاف سرکاری خریداری کی وجہ سے بہت بڑا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

بنیادی سہولیات کو سیچوریشن کی سطح تک لے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی سرکاری اسکیم کا ہر ایک حقدار تک پہنچنا اور سیچوریشن کے مقاصد کو حاصل کرنے سے معاشرے میں تفریق کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بدعنوانی کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہر ایک اسکیم کی ڈلیوری کے لیے حکومت کے ذریعے اپنائے گئے سیچوریشن کے اصول کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے پانی کے کنکشن ، پکا مکان، بجلی کا کنکشن اور گیس کے کنکشن کی مثالیں پیش کیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی سامانوں پر  حد سے زیادہ انحصار  بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔  انہوں نے دفاعی شعبے میں آتم نربھرتا حاصل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کا ذکر کیا اور کہا کہ گھوٹالے کے تمام امکانات اب اس لیے ختم ہو رہے ہیں کیونکہ بھارت اب خود ہی دفاعی ساز و سامان ، رائفل سے لے کر جنگی طیارے اور مسافر بردار طیارے بنانے لگا ہے۔

سی وی سی کو ایک ایسا ادارہ قرار دیتے ہوئے جو شفافیت کو یقینی بنانے میں ہر ایک کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، وزیراعظم نے اپنی  پچھلی بار کی ‘احتیاطی ویجیلنس’ کی درخواست  کو یاد کیا اور اس سمت میں سی وی سی کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے ویجیلنس کمیونٹی سے اپنے آڈٹ اور جانچ کو جدید بنانے کے بارے میں سوچنے کو بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘بدعنوانی کے خلاف حکومت جس قسم کی قوت ارادی کا مظاہرہ کر رہی ہے ویسی ہی قوت ارادہی کا مظاہرہ تمام محکموں میں نظر آنا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ہمیں ایک ایسا انتظامی ایکو سسٹم تیار کرنا ہوگا جہاں بدعنوانی پر زیرو ٹالرینس ہو۔ ’’

وزیراعظم نے ایک ایسے سسٹم کے بارے میں سوچنے کے لیے کہا جہاں بدعنوانی سے متعلق تادیبی کارروائیاں مقررہ مدت کے اندر مشن موڈ میں مکمل ہو جائے۔ انہوں نے جرائم کے معاملوں کی لگاتار نگرانی کرنے کا بھی مشورہ دیا اور ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے کی اپیل کی جہاں محکموں کی درجہ بندی ، بدعنوانی کے زیر التوا  معاملوں کی بنیاد پر کی جائے اور متعلقہ رپورٹس ماہانہ یا سہ ماہی کی بنیاد پر شائع کی جائیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ویجیلنس کلیئرینس کے عمل کو ٹکنالوجی کی مدد سے مکمل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شکایات کے ڈیٹا کی آڈیٹنگ کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ محکمے میں بدعنوانی کی جڑوں تک پہنچا جا سکے۔

وزیراعظم نریندر مودی بدعنوانی پر نظر رکھنے کے کام میں عام شہریوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘بدعنوان شخص چاہے کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو انہیں کسی بھی حالت میں بچایا نہیں جانا چاہیے، اس کی ذمہ داری آپ جیسے اداروں کی ہے۔ کسی بھی بدعنوان شخص کو سیاسی یا سماجی حمایت حاصل نہیں ہونی چاہیے، ہر بدعنوان شخص کو معاشرے کے ذریعے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے، ایسا ماحول بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ تشویشناک صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہم نے ایسا کئی بار دیکھا ہے کہ بدعنوانی ثابت ہونے پر جیل ہو جانے کے باوجود بدعنوان لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ حالت ہندوستانی معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ آج بھی کچھ لوگ قصوروار پائے گئے بدعنوان لوگوں کے حق میں بحث کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں ،  ایسی طاقتوں کو معاشرے کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں آپ کے محکمے کے ذریعے ادا کیے گئے ٹھوس اقدام نے بڑا رول نبھایا ہے۔ ’’

وزیراعظم نے بدعنوان او ربدعنوانی کے خلاف  کارروائی کرنے والے سی وی سی جیسے اداروں کو کہا کہ انہیں کسی بھی طریقے سے دفاعی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی سیاسی ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں عام شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے کےلیے کام کرنا چاہیے۔  وزیراعظم نے کہا کہ  ‘‘جن لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں وہ ان کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ان اداروں سے جڑے افراد کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ لیکن جنتا جناردن بھگوان کا ایک روپ ہے، انہیں سچائی کا علم ہے اور وہ اسے اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ اس لیے وقت آنے پر  وہ  سچائی کے ساتھ  کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے تمام لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے پورا کرنے کےلیے سچائی کے راستے پر چلیں اور زور دیا کہ ‘‘جب آپ ایمانداری سے کام کرتے ہیں تو پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔’’

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے کہا کہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور چنوتیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘مجھے پورا یقین ہے کہ آپ امرت کال میں ایک شفاف اور مسابقتی ایکو سسٹم تیار کرنے میں اپنا اہم کردار نبھاتے رہیں گے۔ ’’ انہوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے مضمون نگاری کے مقابلے کے فاتحین سے بات چیت کرنے پر خوشی کا اظہار کیا  اور مستقبل میں تقریری مقابلے شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کے موضوع پر منعقدہ مضمون نگاری کے مقابلہ کے پانچ  فاتحین میں سے چار لڑکیاں ہیں ، وزیراعظم نے لڑکوں سے اپیل کی کہ وہ بدعنوانی کے خلاف اس لڑائی میں اپنا تعاون بھی دیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘صفائی کی اہمیت تبھی سمجھ میں آتی ہے جب گندگی کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ جب قانون کے دائرۂ اختیار سے باہر کام کرنے والوں کو چیک کرنے کی بات آتی ہے تب ٹکنالوجی کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ ’’ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں جہاں تک ممکن ہو ٹکنالوجی کی مدد لی جانی چاہیے۔

اس موقعے پر پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا ، عملہ اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت  ڈاکٹر جتیندر سنگھ ، کابینہ سکریٹری ، سینٹر ویجیلنس کمشنر جناب سریش این پٹیل اور ویجیلنس کمشنر جناب پی کے سری واستو اور جناب اروند کمار بھی موجود تھے۔

پس منظر

یہ پورٹل شہریوں کو اول تا آخر معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شکایتوں کی تازہ صورتحال کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرنے کی خاطر شروع کیا گیا ہے۔  وہ ‘‘اخلاقیات اور اچھے طور طریقے ’’ پر متعدد تصویری کتابیں ، ‘‘احتیاطی ویجیلنس ’’ کے بہترین طور طریقے کا مجموعہ اور سرکاری خریداری پر  خصوصی شمارہ ‘‘وجیئے وانی’’ کا بھی اجرا کریں گے۔

سی وی سی ، زندگی کے تمام شعبوں میں بیداری کا پیغام پھیلانے کے لیے ہر سال تمام متعلقین کو اکٹھا کرنے کے لیے ویجیلنس بیداری ہفتہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس سال اسے ‘‘ترقی یافتہ ملک کے لیے بدعنوانی سے پاک بھارت ’’ تھیم پر 31 اکتوبر سے 6 نومبر تک منایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے مذکورہ بالا تھیم پر سی وی سی کے ذریعے ملک گیر سطح پر منعقد کیے گئے مضمون نگاری کے مقابلے کے دوران بہترین مضامین لکھنے والے پانچ طلبا کو انعامات سے بھی نوازا۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔ ق ت۔ ت ح۔

U -12180

                          



(Release ID: 1873415) Visitor Counter : 177