بھارتی چناؤ کمیشن

انتخابی کمیشن نے 253 آر یو پی پی کو ناکارہ قرار دیا  - کمیشن نے انہیں  سمبل آرڈر ، 1968 کے فوائد سے محروم کیا


مزید 86 غیر موجود آر یو پی پی کو فہرست سے ہٹایا جائے گا اور سمبر آرڈر 1968 کے فوائد ان سے واپس لیے جائیں گے

Posted On: 13 SEP 2022 6:03PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 13ستمبر، 2022/ اندراج شدہ غیر تسلیم شدہ ،سیاسی پارٹیوں  آر یو پی پی  پر لاگو کرنے کے لیے 25 مئی ، 2022 کو شروع کی گئی کارروائی کے سلسلے میں اعلیٰ انتخابی کمشنر جناب راجیو کمار اور انتخابی کمشنر جناب انوپ چندر پانڈے کی قیادت نے آج بھارت کے انتخابی کمیشن نے مزید ایسی سیاسی آر یو پی پی کو فہرست سے خارج کیا ہے جن کا وجود ہی نہیں ہے۔ کمیشن نے مزید 253 ریفنڈ آر یو پی پی کو ناکارہ قرار دیا ہے۔ ضابطوں پر عمل نہ کرنے والی 339 آر یو پی پی کے خلاف اس  کارروائی کے بعد 25 مئی ، 2022 سے اب تک ایسی آر یو پی پی کی تعداد 537 ہو گئی ہے۔

آر پی قانون کی شق نمبر 29 اے کے تحت ہر ایک سیاسی پارٹی  کے لیے یہ قانونی طور پر لازمی ہے کہ وہ اس کے نام ، صدر دفتر ، عہدیداران ، پتے اور پین میں کسی طرح کی تبدیلی سے بلا تاخیر کمیشن کو آگاہ کرے۔  86 آر یو پی پی کو غیر موجود پایا گیا۔ ان پارٹیوں کو ان کی متعلقہ ریاستوں ور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اعلیٰ انتخابی افسروں کے ذریعے موقعے پر پہنچ کر کی گئی تصدیق کے بعد یا متعلقہ آر یو پی پی کے اندرج شدہ پتے پر ڈاک اتھارٹی سے بھیجے گئے خطوط یا نوٹس نہ پہنچ پانے کی رپورٹ کی بنیاد پر غیر موجود پایا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ای سی آئی نے 25 مئی، 2022  اور 20 جون، 2022 کے احکامات کے مطابق 87 آر یو پی پی اور 111آر یو پی پی کو خارج کیا تھا۔  لہذا خارج کی گئی آر یو پی پی کی کل تعداد 284 ہو گئی ہے۔

ضابطوں پر عمل نہ کرنے والی ان  253 آر یو پی پی کے خلاف یہ فیصلہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو 7 ریاستوں ، بہار، دلی ، کرناٹک، مہاراشٹر ، تمل ناڈو، تلنگانہ اور اتر پردیش کے اعلیٰ انتخابی افسروں کی طرف سے موصول ہوئی تھیں۔ ان 253 آر یو پی پی کو ناکارہ قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے انہیں بھیجے گئے خطوط یا نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ اور انہوں نے کسی ریاست کی جنرل اسمبلی یا پارلیمانی انتخاب 2014 اور 2019 کا کوئی ایک بھی انتخاب نہیں لڑا۔ یہ  آر یو پی پی 2015 سے 16 سے زیادہ  قانونی طور پر لازمی تکمیلات کرنے میں ناکام رہیں  اور اب بھی غلطیاں کر رہی ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مندرجہ بالا 253 پارٹیوں میں سے 66 آر یو پی پی  نے سمبل آرڈر 1968 کے پیراگراف 10 بی کے مطابق ایک مشترکہ نشان کے لیے درخواست دی تھی لیکن انہوں نے متعلقہ انتخابات نہیں لڑے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی ریاست کے  مذکورہ قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے سلسلے میں کل امیدواروں کے کم سے کم پانچ فیصد امیدواروں کے لیے ایک حلف نامے کی بنیاد پر آر یو پی پی کو ایک مشترک نشان کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ بغیر انتخابات لڑے تسلیم شدہ اختیارات کے فوائد حاصل کر کے انتخابات سے پہلے سیاسی طور پر دستیاب مقام حاصل کرنے والی اس طرح کی پارٹیوں کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔  اس کی وجہ سے ان سیاسی پارٹیوں کو بھی خارج کر دیا جا تا ہے جو درحقیقت چناؤ لڑ رہی ہوتی ہے نیز اس سے ووٹروں کے لیے شش و پنج کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔

کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اندراج کا ابتدائی مقصد شق نمبر 29 اے میں بتایا گیا ہے جس میں وہ سہولیات اور اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں جو کسی ایسوسی ایشن کو  اُس وقت دیئے جاتےہیں جب اس ایسوسی ایشن کا اندراج ایک سیاسی پارٹی کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ سبھی سہولیات اور اختیارات انتخابی عمل میں مذکورہ شرکت سے براہ راست متعلق ہیں۔ اسی طرح ، رجسٹریشن کی شرائط کے لیے کمیشن کی طرف سے جاری سیاسی پارٹیوں کے اندراج کے لیے 13 (ii) (e) رہنما خطوط میں مندرجہ ذیل بیان کی گئی ہے:

’’کمیشن اعلان کرتا ہے کہ پارٹی کو اس کے رجسٹریشن کے پانچ سال کے اندر اندر انتخابی کمیشن کی طرف سےمنعقد کرایا گیا کوئی نہ کوئی انتخاب لڑنا لازمی ہے۔ اور اس کے بعد اسے انتخاب لڑنا جاری رکھنا چاہیے۔  (اگر پارٹی چھ سال تک لگاتار انتخاب نہیں لڑتی تو پارٹی کو رجسٹرڈ پارٹیوں کی فہرست سےخارج کر دیا جائے گا )۔ ‘‘

۔۔۔

 

                 

ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔                                              

U - 1020



(Release ID: 1859079) Visitor Counter : 138