وزیراعظم کا دفتر

بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن  عالمی ڈیری سربراہ ملاقات 2022 کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 12 SEP 2022 1:45PM by PIB Delhi

اترپردیش کے ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، مرکزی کابینہ میں میرے معاون جناب پروشوتم روپالا جی، دیگر وزراء حضرات، اراکین پارلیمنٹ، بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن کے صدر پی برجالے جی، آئی ڈی ایف کی ڈی جی کیرولین ایمنڈ جی، یہاں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات!

مجھے خوشی ہے کہ آج ڈیری کے شعبہ سے وابستہ دنیا بھر کے ماہرین اور اختراع کار بھارت میں یکجا ہوئے ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں  الگ الگ ممالک سے تشریف لائے تمام معززین کا بھارت کے کروڑوں مویشیوں کی جانب سے، بھارت کے کروڑوں شہریوں کی جانب سے، بھارت سرکار کی جانب سے تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ ڈیری شعبہ کی قوت نہ صرف دیہی معیشت کو رفتار فراہم کرتی ہے، بلکہ یہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی روزی روٹی کا بھی اہم وسیلہ ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ سربراہ ملاقات، خیالات، تکنالوجی، مہارت اور ڈیری شعبہ سے وابستہ روایات کی سطح پر ایک دوسرے کی معلومات میں اضافہ کرنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گی۔

ساتھیو،

آج کی اس تقریب کا اہتمام ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب بھارت نے اپنی آزادی کے 75 برس مکمل کر لیے ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ آج کے اس اہتمام سے، بھارت کے 75 لاکھ سے زائد ڈیری کاشتکار بھی تکنالوجی کے توسط سے اس پروگرام میں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی سربراہ ملاقات کے لیے اور اس میں آخری میل تک استفادہ کنندگان ہمارے ایسے ہی کاشتکار بھائی بہن ہوتے ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں اپنے کاشتکار ساتھیوں کا بھی خیرمقدم کرتا ہوں، انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

پشو دھن اور دودھ سے وابستہ پیشہ بھارت کی ہزاروں برس قدیم ثقافت کا جزو لاینفک رہا ہے۔  ہماری اس وراثت نے بھارت کے ڈیری شعبہ کو کچھ خصوصیات کے ساتھ مضبوط کر دیا ہے۔ اس سربراہ اجلاس میں دیگر ممالک سے جو ماہرین آئے ہیں، میں ان کے سامنے ان خصوصیات کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

ساتھیو،

دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ، بھارت میں ڈیری شعبہ کی اصل طاقت چھوٹے کاشتکار ہیں۔بھارت کے ڈیری شعبہ کی شناخت ’’ماس پروڈکشن‘‘ سے زیادہ ’’پروڈکشن بائے ماسیز‘‘ کی ہے۔ بھارت میں ڈیری شعبہ سے وابستہ بیشتر کاشتکاروں کے پاس یا تو ایک مویشی ہے، 2 مویشی ہیں یا تین مویشی ہیں۔ ان ہی چھوٹے کاشتکاروں کی محنت اور ان کے پشو دھن کی وجہ سے آج بھارت پوری دنیا میں سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ آ ج بھارت کے 8 کروڑ سے زائد کنبوں کو یہ شعبہ روزگار بہم پہنچاتا ہے۔ بھارت کے ڈیری شعبہ کی یہ انفرادیت آپ کو کہیں اور شاید ہی کبھی مل جائے۔ آج عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں اس کا ذکر میں اس لیے بھی کر رہا ہوں، کیونکہ دنیا کے دیگر غریب ممالک کے کاشتکاروں کے لیے یہ ایک بہترین کاروباری نمونہ بن سکتا ہے۔

ساتھیو،

بھارت کے ڈیری شعبہ کی اس خاصیت کو ایک اور انفرادیت سے زبردست حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ڈیری شعبہ کی دوسری خصوصیت ہے، بھارت کا ڈیری کوآپریٹیو نظام۔ آج بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو کا ایک ایسا زبردست نیٹ ورک ہے، جس کی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ یہ ڈیری کوآپریٹیو ادارے ملک کے دو لاکھ سے زائد مواضعات میں، تقریباً دو کروڑ کاشتکاروں سے دن میں دو مرتبہ دودھ جمع کرتے ہیں، اور اسے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ اس پورے عمل میں بیچ میں کوئی بچولیا نہیں ہوتا، اور صارفین سے جو پیسہ ملتا ہے، اس کا 70 فیصد سے زائد کاشتکاروں کی جیب میں ہی جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اگر میں ریاست گجرات کی بات کروں تو یہ سارے پیسے راست طور پر خواتین کے بینک کھاتوں میں جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اتنا زیادہ تناسب کسی دیگر ملک میں نہیں ہے۔ اب تو بھارت میں ہو رہے ڈجیٹل انقلاب کی وجہ سے ڈیری شعبہ میں زیادہ تر لین دین تیز رفتار سے ہونے لگا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کا ڈیری کو آپریٹیو مطالعہ ، ان کے بارے میں معلومات، ڈیری شعبہ میں تیار کیا گیا ڈجیٹل ادائیگی نظام، دنیا کے بہت سے ممالک کے کاشتکاروں کے بہت کام آسکتا ہے۔

اس لیے بھارت کے ڈیری شعبہ کی ایک اور بڑی طاقت ہے، ایک اور انفرادیت ہے، ہمارے دیسی جانوروں کی، بھارت کے پاس گایوں کی، بھیسوں کی جو دیسی نسلیں ہیں، وہ دشوارترین موسم میں بھی زندہ رہنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ میں آپ کے سامنے گجرات کی بنّی بھینس کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ بنّی بھینس کچھ کے ریگستان اور وہاں کے حالات کی ایسی عادی ہوگئی ہیں کہ دیکھ کر کئی مرتبہ حیرانی ہوتی ہے۔ دن میں شدید دھوپ ہوتی ہے، بہت گرمی ہوتی ہے، کڑک دھوپ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بنّی بھینس رات کے کم درجۂ حرارت میں گھاس چرنے کے لیے نکلتی ہیں۔ غیر ممالک سے آئے ہمارے ساتھیوں کو  یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ اس وقت بنّی بھینس کے ساتھ کوئی اس کا رکھوالا، اس کا کاشتکار اس کے ساتھ نہیں ہوتا ہے، وہ گاؤوں کے قریب بنے چارہ گاہوں میں خود ہی جاتی ہیں۔ ریگستان میں پانی کم ہوتا ہے، اس لیے بہت کم پانی میں بھی بنّی بھینس کا کام چل جاتا ہے۔ بنّی بھینس رات میں 10-10، 15-15 کلو میٹر دور جاکر گھاس چرنے کے بعد بھی صبح اپنے آپ گھر چلی آتی ہے۔ ایسا بہت کم سننے میں آتا ہے کہ کسی کی بنی بھینس کھو گئی ہو یا غلط گھر میں چلی گئی ہو۔ میں نے آپ کو صرف بنی بھینس کی ہی مثال دی ہے، لیکن بھارت میں مرّاہ، مہسانہ، جعفرآبادی، نیلی روی، پنڈھر پوری جیسی بھینس کی متعدد نسلیں آج بھی اپنے اپنے طریقہ سے نشو و نما پا رہی ہیں۔ اسی طرح گائے ہو، اس میں گیر گائے، سہی وال، راٹھی، کانکریج، تھاپرکر، ہریانہ، ایسی ہی متعدد گایوں کی نسلیں ہیں، جو بھارت کے ڈیری شعبہ کو منفرد بناتی ہیں۔ بھارتی نسل کے یہ بیشتر جانور، موسمی حالات سے ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں اور موسم سے موافقت بھی رکھتے ہیں۔

ساتھیو،

 

ابھی  تک میں نے آپ کو بھارت کے ڈیری شعبہ کی تین خصوصیات بتائی ہیں، جو اس کی شناخت ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کی قوت ، کوآپریٹیو اداروں کی قوت اور بھارتی نسل کے جانوروں کی قوت مل کر ایک الگ ہی قوت پیدا کرتی ہے۔ تاہم بھارت کے ڈیری شعبہ کی ایک چوتھی انفرادیت بھی ہے، جس کا اُتنا ذکر نہیں ہوتا، جس کو اتنی پہچان نہیں مل پاتی۔ غیر ممالک سے آئے ہمارے مہمان شاید یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ بھارت کے ڈیری شعبہ میں خواتین کی قوت 70 فیصد افرادی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ بھارت کے ڈیری شعبہ کی اصل قوت خواتین ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بھارت کے ڈیری کوآپریٹیو اداروں میں بھی ایک تہائی سے زائد رکن خواتین ہی ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، بھارت میں جو ڈیری شعبہ ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا ہے، جس کی قدرو قیمت دھان اور گیہوں کی مجموعی پیداوار سے بھی زائد ہے، اس کی سب سے بڑی قوت، بھارت کے دیہی علاقوں میں آباد خواتین ہیں، ہماری مائیں ہیں، ہماری بیٹیاں ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات سے جڑے تمام معززین سے بھارت کی ناری شکتی کے اس کردار کو تسلیم کرنے، اسے مختلف عالمی پلیٹ فارموں تک لے جانے کی بھی درخواست کروں گا۔

ساتھیو،

2014 کے بعد ہماری حکومت نے بھارت کے ڈیری شعبہ کی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ آج اس کا نتیجہ دودھ پیداوار سے لے کر کاشتکاروں کی افزوں آمدنی میں بھی نظر آرہا ہے۔  2014 میں بھارت میں 146 ملین ٹن دودھ پیدا ہوتا تھا۔ اب یہ بڑھ کر 210 ملین ٹن تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی تقریباً 44 فیصد کا اضافہ۔ آج پوری دنیا میں دودھ پیداوار 2 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے، جبکہ بھارت میں اس کی رفتار 6 فیصد سے بھی زائد ہے۔ بھارت میں دودھ کی فی کس دستیابی پوری دنیا کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ گشتہ 3-4 برسوں میں ہی بھارت کے چھوٹے کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں ہماری حکومت نے تقریبا 2 لاکھ کروڑ روپئے راست طور پر منتقل کیے ہیں۔ اس کا بہت بڑا حصہ ڈیری شعبہ سے وابستہ کاشتکاروں کے کھاتوں میں بھی گیا ہے۔

ساتھیو،

آج ہماری توجہ ملک میں ایک متوازن ڈیری ایکونظام کی تعمیر پر مرتکز ہے۔ ایک ایسا ایکو نظام جس میں ہماری توجہ دودھ اور اس سے جڑی مصنوعات کی کوالٹی پر تو ہے ہی، ساتھ ہی دوسری چنوتیوں کے حل پر بھی ہے۔ کاشتکاروں کو اضافی آمدنی، غریب کی اختیارکاری، صفائی ستھرائی، کیمیکل سے مبرا کھیتی، صاف ستھری توانائی اور مویشیوں کی نگہداشت، یہ سبھی آپس میں مربوط ہیں۔ یعنی ہم ڈیری شعبہ کو، مویشی پروری کو بھارت کے مواضعات میں سبز اور ہمہ گیر نمو کا بہت بڑا وسیلہ بنا رہے ہیں۔ راشٹریہ گوکل مشن، گوبردھن یوجنا، ڈیری شعبہ کا ڈجیٹائزیشن اور مویشیوں کی آفاقی ٹیکہ کاری، اسی سمت میں ہو رہی کوششیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بھارت میں جو سنگل یوز پلاسٹک کو بند کرنے کی مہم چلائی گئی ہے، وہ ماحولیات کے نقطہ نظر سے تو اہمیت کی حامل ہے ہی، ساتھ ہی  جو بھی ہر ذی روح کے تئیں رحم دلی کا یقین رکھتے ہیں، جو پشو دھن میں، اس کی فلاح میں یقین رکھتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ پلاسٹک مویشیوں کے لیے کتنا خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ گائے اور بھینس کے لیے کتنا خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ وہ سنگل یوز پلاسٹک کو بھی بند کرنے ، ختم کرنے کی ہم نے مسلسل بہت کوششیں کی ہیں۔

ساتھیو،

 

 

 

بھارت کے ڈیری شعبہ کا جتنا بڑا اسکیل ہے، اسے سائنس کے ساتھ جوڑکر مزید توسیع دی جا رہی ہے۔ بھارت،  ڈیری کے شعبے کا سب سے بڑا ڈاٹا بیس تیار کر رہا ہے۔ ڈیری شعبہ سے وابستہ ہر مویشی کی ٹیگنگ ہو رہی ہے۔ جدید تکنالوجی کی مدد سے ہم مویشیوں کی بایومیٹرک شناخت کر رہے ہیں۔ ہم نے اسے نام دیا ہے – پشو آدھار۔ پشو آدھار کے ذریعہ مویشیوں کی ڈجیٹل شناخت کی جا رہی ہے، جس سے ان کی صحت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ڈیری مصنوعات سے وابستہ منڈی کو توسیع دینے میں مدد ملے گی۔

ساتھیو،

آج بھارت کی بڑی توجہ مویشی پالن کے شعبہ میں صنعت کاری کو فروغ دینے پر بھی ہے۔ ڈیری کے شعبہ سے وابستہ چھوٹے کاشتکاروں کی طاقت کو ہم فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنس اور خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے متحد کر رہے ہیں، ان کو بڑی مارکیٹ فورس بنا رہے ہیں۔ اپنی نوجوان صلاحیت کا استعمال ہم زراعت اور ڈیری کے شعبوں میں اسٹارٹ اپ اداروں کے قیام میں بھی کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ بھارت میں گذشتہ 5-6 برس میں زراعت اور ڈیری شعبہ میں ایک ہزار سے زائد اسٹارٹ اپ ادارے قائم ہوئے ہیں۔

ساتھیو،

بھارت کس طرح منفرد کوششیں کر رہا ہے، اس کی ایک مثال گوبردھن اسکیم بھی ہے۔ ابھی ہمارے روپالا جی نے معیشت میں گوبر کی بڑھتی اہمیت کا ذکر کیا تھا۔ آج بھارت میں مویشیوں کے گوبر سے بایوگیس اور بایو – سی این جی بنانے کی ایک بہت بڑی مہم چل رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ڈیری پلانٹس اپنی ضرورت کی زیادہ تر بجلی گوبر سے پوری کریں۔ اس سے کاشتکاروں کو گوبر کا بھی پیسہ ملنے کا راستہ بن رہا ہے۔ اس عمل میں جو نامیاتی کھاد بنتی ہے، اس سے کاشتکاروں کو کھیتی کے لیے ایک راستہ مل جائے گا۔ اس سے کھیتی کی لاگت بھی کم ہوگی اور مٹی بھی محفوظ رہے گی۔ بھارت میں آج قدرتی کھیتی پر بھی غیر معمولی طور پر زور دیا جا رہا ہے، جس میں مویشیوں کا بہت بڑا کردا ر ہے۔

ساتھیو،

میں اکثر کہتا ہوں کہ کھیتی میں ایک فصل کی کاشت ہی حل نہیں ہے، بلکہ تنوع کی بہت ضرورت ہے۔ یہ بات مویشی پالن پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے آج بھارت میں دیسی نسلوں اور مخلوط نسلوں، دونوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سے تبدیلی آب و ہوا سے ہونے والے نقصان کے خطرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

ساتھیو،

ایک اور بڑا خطرہ مویشیوں کو لاحق ہونے والی بیماریوں کا ہے۔ مویشی جب بیمار ہوتا ہے تو یہ کاشتکار کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے، اس کی آمدنی کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مویشیوں کی اہلیت، اس کے دودھ اور اس سے جڑی دوسری مصنوعات کی کوالٹی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے بھارت میں ہم مویشیوں کی عام ٹیکہ کاری پر بھی زور دے رہے ہیں۔ ہم نے عزم کیا ہے کہ 2025 تک ہم صد فیصد مویشیوں کو کھر پکا منھ پکا بیماری اور بروس لاسیس کا ٹیکہ لگائیں گے۔ ہم اس دہائی کے آخر تک ان بیماریوں سے پوری طرح سے نجات حاصل کرنے کا ہدف لے کر چل ر ہے ہیں۔

ساتھیو،

آج آپ کے درمیان بحث کرتے ہوئے میں ڈیری شعبہ کے سامنے آئی سب سے تازہ چنوتی کا بھی ذکر کروں گا۔ گذشتہ کچھ دنوں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں لمپی نام کی بیماری سے پشو دھن کو نقصان ہوا ہے۔ مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت اس پر قابو پانے کی پرزور کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے سائنس دانوں نے لمپی اسکن ڈسیز کا اندرونِ ملک ٹیکہ بھی تیار کر لیا ہے۔ ٹیکہ کے علاوہ جانچ میں تیزی لاکر، مویشیوں کے نقل و حمل پر قابو پاکر اس بیماری کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ساتھیو،

مویشیوں کی ٹیکہ کاری ہو یا پھر کوئی دوسری تکنالوجی، بھارت پوری دنیا کے ڈیری شعبہ میں تعاون دینے کے لیے اور سبھی ممالک سے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔ بھارت نے اپنے خوراک سلامتی معیار پر بھی بہت تیزی سے کام کیا ہے۔ آج بھارت مویشیوں کے شعبہ کے لیے ایسے ڈجیٹل نظام پر کام کر رہا ہے، جو اس شعبہ کی اینڈ ٹو اینڈ سرگرمیوں پر احاطہ کرے گا۔ اس سے اس شعبہ میں اصلاح کے لیے ضروری ٹھیک ٹھیک جانکاری حاصل ہو سکے گی۔ ایسی ہی متعدد تکنالوجیوں  کو لے کر جو کام دنیا بھر میں ہو رہے ہیں، ان کو یہ سربراہ ملاقات اپنے سامنے رکھے گی۔ اس سے جڑی مہارت کو ہم کیسے ساجھا کر سکتے ہیں، اس کے راستے سجھائے گی۔ میں ڈیری صنعت کے عالمی قائدین کو بھارت میں ڈیری شعبہ کو مضبوط بنانے کی مہم میں شامل ہونے کے لیے مدعو کرتا ہوں۔ میں بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن کی بھی ان کے بہترین کام اور تعاون کے لیے ستائش کرتا ہوں۔ آپ سبھی کا، غیر ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا، پھر سے خیرمقدم کرتا ہوں، ان کا استقبال کرتا ہوں اور ایک طویل عرصے کے بعد تقریباً 5 دہائیوں  کے بعد بھارت کو آپ سب کا خیرمقدم کرنے کا موقع حاصل ہوا، آپ سب کے ساتھ تبادلہ خیالات کا موقع حاصل ہوا اور یہاں سے جو غور و فکر سے امرت نکلے گا، وہ ہمارے اِس امرت کال میں ملک کی دیہی زندگی  کے نظام کو ترقی دینے میں، ملک کے پشو دھن کی صلاحیت کو مضبوط بنانے میں اور ملک کے غریب سے غریب تر کی اختیارکاری میں بھی بہت بڑا تعاون دے گا، اسی امید کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ۔

******

ش ح۔ا ب ن۔ م ف

U-NO.10171



(Release ID: 1858769) Visitor Counter : 202