تعاون کی وزارت

امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں کی قومی کانفرنس (اے آر ڈی بی) میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی

Posted On: 16 JUL 2022 6:30PM by PIB Delhi

نو دہائی قبل جب زرعی اور دیہی ترقیاتی بینک قائم کئے گئے تھے تب زراعت قدرت اور قسمت پر منحصرتھی، زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں نے زراعت  کی کایا پلٹ اسے قسمت کی بجائے محنت پر مرکوز بنادیا

ہمارے پاس امداد باہمی سیکٹر پر ایک متحد ہ ڈیٹا بیس دستیاب نہیں ہے اور جب تک کوئی ڈیٹا بیس نہیں ہے، اس شعبے کی توسیع کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور توسیع اسی وقت ہو سکتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ کہاں پھیلانا ہے۔ جناب نریندر مودی کی قیادت میں امداد باہمی کی وزارت کوآپریٹو سیکٹر کا ڈیٹا بیس تیار کررہی ہے

جناب نریندر مودی کی قیادت میں تعاون کی وزارت پی اے سی ایس کو کثیر جہتی بنانے کی سمت کام کر رہی ہے، اور ہم نے بحث کے لیے ماڈل بائی لاز بھی ریاستوں کے ساتھ شیئر کیے ہیں

کوآپریٹیو کے پھیلاؤ کو بڑھاتے ہوئے ہم 80-70 سال پرانے قوانین کو تبدیل کرکے پی اے سی ایس میں نئی ​​سرگرمیاں شامل کر رہے ہیں

صرف امداد باہمی کا سیکٹر  ہی ملک کے 70 کروڑ غریبوں کو ترقی کے عمل میں شامل کرکے شراکت داروں میں تبدیل کر سکتا ہے

بہت سے بینکوں نے اصلاحات کیں لیکن وہ اصلاحات صرف بینکوں تک ہی محدود رہیں، ان کا فائدہ پورے شعبے کو نہیں مل سکا، بینک مخصوص اصلاحات اس شعبے کو نہیں بدل سکتیں، اگر اس شعبے میں اصلاحات لائی جائیں تو کوآپریٹو سیکٹر خود بخود مضبوط ہوگا

زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں کو صرف بینکنگ کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ان کا ہدف بھی ہونا چاہیے کہ بینکوں کو جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا، اس کی تکمیل ہو

اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام بینکوں کے ممبران کو اس شعبے کے بہترین طریقوں پر بھی بات کرنی چاہیے۔ اگر بینکنگ سیکٹر میں نیا تنوع لانے کے لیے کسی قسم کی اصلاحات یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو امداد باہمی کی وزارت کے دروازے آپ کے لیے 24x7کھلے   ہوئےہیں

اے آر ڈی بی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بینکنگ تک محدود نہ رکھیں بلکہ  وہ دیہات میں کسانوں کے ساتھ بات چیت کریں اور انہیں اس بات سے آگاہ کریں کہ کس طرح زراعت کو بڑھایا جائے، پیداوار میں اضافہ کیا جائے، زراعت کو آرام دہ بنایا جائے اور کسان کو خوشحال بنایا جائے

نبارڈ کے مقاصد اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب ان کے پاس موجود ایک ایک پیسہ دیہی ترقی اور زراعت میں فنانس اور ری فنانس کے لیے استعمال کیا جائے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم زرعی شعبے کے اندر طویل مدتی فنانس،بنیادی ڈھانچے اور مائیکرو آبپاشی کو فروغ نہیں دیتے

آزادی کے بعد 70 برسوں میں 64 لاکھ ہیکٹیئر اراضی قابل کاشت بنی لیکن پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت گزشتہ 8 برسوں میں 64 لاکھ ہیکٹیئر زرعی اراضی میں اضافہ ہوا اور زرعی برآمدات پہلی بار 50 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کرگئیں۔ یہ کسانوں کی بہبود کے تئیں جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت کی ہمدردی کا نتیجہ ہے

بھارت 394 ملین ایکڑ اراضی کے ساتھ زرعی سرگرمیوں میں دنیا میں دوسرے مقام پر ہے اور اگر ہم اس اراضی کو آبپاشی کے نظام سے جوڑ دیں تو ہمارے کسان ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کی خوراک کی فراہمی کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں

اگر ہم باہمی تعاون کے جذبے اور اپنے اہداف کو زندہ کرتے ہیں اور ان اہداف کے لیے وقف رہتے ہیں، ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یقیناً آنے والے دنوں میں کوآپریٹیو کا 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کے جناب نریندر مودی کے خواب کو پورا کرنے میں بہت بڑا کردار ہوگا

 

 

 

اُمور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں کی قومی کانفرنس (اے آر ڈی بی) میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر امداد باہمی  اور شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی مرکزی وزیر مملکت جناب بی ایل۔ ورما، سکریٹری، امداد باہمی کی  وزارت، این سی یو آئی کے صدر اور افکو کے چیئرمین جناب  دلیپ سنگھانی، بین الاقوامی امداد باہمی اتحاد- ایشیا بحرالکاہل خطے اور کے آر آئی بی ایچ سی او کے چیئرمین ڈاکٹر چندر پال سنگھ یادو اور کئی دیگر معززین موجود تھے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001OEUM.jpg

 

اس موقع پر ملک کے امداد باہمی کے پہلے مرکزی وزیر نے کہا کہ زرعی ترقی کے لیے کوآپریٹیو کا طول و عرض بہت اہم ہے اور اس کے بغیر ہم کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے وژن کو پورا نہیں کر سکتے ہیں۔ بھارت میں زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں کی تاریخ تقریباً نو دہائی پرانی ہے۔ زرعی قرضے کے دو ستون ہوتے ہیں، مختصر مدتی اور طویل مدتی۔ 1920 سے پہلے زرعی شعبہ مکمل طور پر قدرتی کاشتکاری پر مبنی تھا، جب بارشیں آتی تھیں تو اچھی فصل ہوتی تھی۔ 1920 کی دہائی میں کسان کو طویل مدتی قرضے دینے کا سلسلہ شروع ہوا جس سے کسان کا اپنی اراضی میں زراعت کے لیے بنیادی ڈھانچہ پورا کرنے کا خواب پورا ہوا۔ صرف اور صرف زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں نے ملک کی زراعت کو قسمت کی بجائے محنت  پر مبنی بنانے کے لیے کام کیا۔ اس وقت کوآپریٹو سیکٹر کے اس اقدام نے کسان کو خود کفیل بنانے کی سمت میں ایک بڑی شروعات کی تھی۔ جناب شاہ نے کہا کہ اگر ہم پچھلے 90 سالوں کے اس سفر پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم زراعت اور کاشتکاری کے نظام کی سب سے نیچے کی سطح تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رکاوٹیں بہت ہیں لیکن جب تک طویل المدتی فنانسنگ میں اضافہ نہیں کیا جاتا وزیراعظم کے وژن کے مطابق زرعی ترقی ممکن نہیں ہے۔ بہت سی بڑی ریاستیں ہیں جہاں بینک ٹوٹ چکے ہیں اور اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اضافی فنڈز کو غیر زرعی استعمال کی طرف موڑنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ نبارڈ کے مقاصد اسی وقت پورے ہوتے ہیں جب تمام دستیاب رقم دیہی ترقی اور زراعت پر خرچ کی جائے۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم زراعت میں طویل مدتی فنانس، انفراسٹرکچر اور مائیکرو آبپاشی  کو فروغ نہیں دیتے ہیں ۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002YSY6.jpg

 

جناب امت شاہ نے کہا کہ زرعی اور دیہی ترقیاتی بینکوں کا کام صرف مالی اعانت فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ مزید سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔ اس کام کی توسیع میں جتنی بھی رکاوٹیں ہوں ہمیں راستے تلاش کرنے ہوں گے تب ہی ہم زرعی ترقی کا ہدف حاصل کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف بینکوں کو چلانا چاہیے بلکہ بینکنگ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوآپریٹیو طویل مدتی فنانس کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ نئی کوآپریٹو سوسائٹیاں بنا کر کسانوں کو درمیانہ اور طویل مدتی قرضے فراہم کرنے ہوں گے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003V334.jpg

 

اُمور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ قرضوں کی وصولی کے ساتھ ساتھ تیزی سے قرضے بھی فراہم کرنے ہوں گے۔ خدمات کو بھی بڑھانا ہو گا، سیراب شدہ زمین کا فیصد، پیداوار، پیداوار بڑھانے، کسانوں کو خوشحال بنانے اور کسانوں میں بیداری لانے کے لیے بات چیت کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کوآپریٹو میں صرف کسی ادارے میں عہدہ رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی شخص اپنے دور میں کیا کرسکتا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس کے لیے یہ خدمات 1924 سے شروع کی گئی ہیں۔ بینکوں نے تین لاکھ سے زیادہ ٹریکٹروں کی مالی امداد کی ہے، لیکن ملک میں 8 کروڑ سے زیادہ ٹریکٹر ہیں۔ ہم نے 13 کروڑ کسانوں میں سے تقریباً 5.2 لاکھ کسانوں کو درمیانہ اور طویل مدتی مالی امداد دی ہے۔ بینکوں کی جانب سے بہت سی نئی اصلاحات کی گئی ہیں جو کہ خوش آئند ہیں لیکن بینک مخصوص اصلاحات نہیں ہونے چاہئیں، وہ پورے سیکٹر کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بینک اچھا کام کرتا ہے تو یہ وفاق کا کام ہے کہ وہ تمام بینکوں کو اس بارے میں آگاہ کرے اور اسے آگے لے جائے۔ بینک مخصوص اصلاحات سیکٹر کو تبدیل نہیں کر سکتیں لیکن اگر سیکٹر میں اصلاحات ہوں گی تو سیکٹر خود بخود بدل جائے گا اور اگر سیکٹر بدلے گا تو کوآپریٹو بہت مضبوط ہو جائے گا۔ کوآپریٹیو کے کام میں کنویں، پمپ سیٹ، ٹریکٹر، زمین کی ترقی، باغبانی، پولٹری، فشریز جیسے بہت سے شعبے شامل ہیں اور ان کو وسعت دینا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں انہیں آگے بڑھانا ہے، جس مقصد کے ساتھ ایک کوآپریٹو یونٹ قائم کی گئی تھی ، تمام بینکوں کے ممبران جو آج اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں، انہیں اس شعبے کے بہترین طور طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کرنا چاہیے، اگر بینکنگ سیکٹر میں نیا تنوع لانے کے لیے کسی بھی قسم کی اصلاحات یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو امداد باہمی کی وزارت کے دروازے آپ کے لیے 24 گھنٹے ساتوں دن کھلے ہیں۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004Y4X2.jpg

 

جناب امت شاہ نے کہا کہ خاص طور پر زرعی مالیات میں، خواہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، ملک ایک طرح سے مفلوج ہو چکا ہے۔ بہت سی جگہوں پر سرگرمی اچھی طرح سے چل رہی ہے، لیکن بہت سی ریاستوں میں یہ بہت بکھری ہوئی ہے۔ ہمیں اسے دوبارہ زندہ کرنا ہے اور بے بس کسان جو کہ پریشانی کا شکار ہو چکا ہے،انہیں  کوآپریٹو سیکٹر کے ذریعے مناسب امداد فراہم کر کے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ سرمائے کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمارا مالیاتی نظام اور ہمارا بنیادی ڈھانچہ گر چکا ہے، انہیں دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور ہر اسٹیٹ بینک کو اپنی ریاست میں ایسے شعبوں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہوں گا کہ نبارڈ کو بھی اس سمت میں توسیع کا ایک شعبہ بنانا چاہئے تاکہ وہ کسان جو درمیانی اور طویل مدتی فنانس چاہتے ہیں وہ مالیات حاصل کر سکیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ادارہ جاتی کوریج کو مناسب بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ طویل مدتی فنانس ہمیشہ مختصر مدت کے فنانس سے زیادہ ہونا چاہیے۔ تب ہی شعبہ ترقی کرے گا۔ طویل مدتی  فنانس جتنا زیادہ ہوگا،نظام اتنا ہی بہتر ہوگا اور مختصرمدتی  فنانس خود بخود بڑھے گا۔ 25 سال پہلے ہمارے پاس طویل مدتی فنانس کا 50 فیصد حصہ تھا اور 25 سال بعد یہ حصہ 25 فیصد پر آ گیا ہے، ہمیں اس ترقی کی فکر کرنی چاہیے۔ آسام، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، اڈیشہ میں پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ اس وقت صرف 13 ریاستوں میں زرعی اور دیہی ترقیاتی بینک حکومت کی توقعات کے مطابق چل رہے ہیں۔

 

امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ ملک زرعی زمین کی دستیابی میں دنیا میں ساتویں مقام پر ہے اور زرعی سرگرمیوں کے لحاظ سے ہم امریکہ کے بعد دوسرے مقام  پر ہیں۔ اسی لیے نبارڈ کا قیام عمل میں آیا۔ اگر ہم 39.4 کروڑ ایکڑ اراضی کو مکمل طور پر سیراب کر دیں تو بھارتی کسان نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا سے بھوک مٹانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کی آبپاشی کرنی ہے اور پانی کی کمی ہے تو ہمیں مائیکرو آبپاشی نظام کی طرف جانا ہوگا اور اگر ہولڈنگز چھوٹی ہو گئی ہیں تو ہمیں کوآپریٹو سوسائٹیوں کی مدد لے کر انہیں آبپاشی کی سہولت مہیا کرنی ہوگی۔ ان کی درخواست ہے کہ بینکوں کو بحال کیا جائے اور حکومت نبارڈ اور فیڈریشن کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ آنے والے دنوں میں، میں نبارڈ، فیڈریشن اور امداد باہمی کے محکمے کی ایک مشترکہ میٹنگ بھی بلانے جا رہا ہوں کہ کس طرح ہر ریاست میں طویل مدتی مالیات کا ایک مضبوط نظام بنایا جائے۔ اس کے لیے وفاق کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

 

جناب امت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں امداد باہمی کی وزارت  نے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ایک بہت بڑا قدم ابھی اٹھایا گیا ہے کہ تمام پی اے سی ایس کو 2500 کروڑ روپے کی لاگت سے کمپیوٹرائز کیا جائے گا۔پی اے سی ایس  ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینک، اسٹیٹ کوآپریٹو بینک اور نبارڈ   اکاؤنٹنگ کے لیے آن لائن ہوں گے اور اس سے پی اے سی ایس کو شفافیت کے ساتھ چلانے میں مدد ملے گی، اس سے  بہت فائدہ ہو گا۔ ہم نے ٹریننگ کے لحاظ سے بھی ایک کوآپریٹو یونیورسٹی قائم کرنے کا اصولی طور پرفیصلہ کیا ہے۔ اس وقت تمام یونٹس جن کا کاروبار 100 کروڑ روپے سے زیادہ ہے،جی ای ایم پلیٹ فارم پر خرید اری کرسکیں گے۔ اس سے ہماری خریداری بھی سستی ہوگی، شفافیت آئے گی اور بدعنوانی بھی رک جائے گی۔ ملک میں کوآپریٹو ڈیٹا بیس نہیں ہے اور جب تک ڈیٹا بیس نہیں ہے، توسیع کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ہمارے پاس کوئی ڈیٹا بیس نہیں ہے کہ کتنی ساحلی ریاستوں میں ماہی گیروں کی کوآپریٹو سوسائٹیاں نہیں ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ڈیٹا بیس نہیں ہے کہ ملک میں کتنے کوآپریٹیو کام کر رہے ہیں۔ پی اے سی ایس کے فوائد سے کتنے گاؤں محروم ہیں اس کا کوئی ڈیٹا بیس بھی نہیں ہے۔ ہم نے اس ڈیٹا بیس کو بنانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے اور اس کا بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ توسیع اسی وقت ہو سکتی ہے جب کوئی جانتا ہو کہ توسیع کہاں کی جانی ہے۔ حکومت ہند کی امداد باہمی  کی وزارت نے بھی بنیادی کام شروع کر دیا ہے۔ حکومت نے پی اے سی ایس کے ماڈل بائی لاز بھیجے ہیں اور میں کوآپریٹو تحریک  سے وابستہ تمام کارکنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ   پی اے سی ایس کے ماڈل بائی لاز کی تیاری کے لیے اپنے عملی تجربے کے ساتھ اپنی تجاویز ضرور بھیجیں۔ ہم پی اے سی ایس کو ملٹی فنکشنل بنانا چاہتے ہیں۔ گیس کی تقسیم، ذخیرہ کرنے کا کام لے سکتے ہیں، سستے اناج کے لیے دکانیں بھی لے سکتے ہیں، پٹرول پمپ بھی لے سکتے ہیں، ایف پی او بھی بن سکتے ہیں، مواصلاتی مراکز بھی بن سکتے ہیں، نلکوں سے پانی بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بعد ان تمام جہتوں کو شامل کرنے کے لیے ایک نظام بھی بنایا جائے گا۔ لیکن اگر اسے کثیر جہتی، کثیر المقاصد بنانا ہے تو 80-70 سال پہلے بنائے گئے ماڈل بائی لاز کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں ان میں کوآپریٹیو کے عنصر کو کم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہم نے نئی سرگرمیوں کو شامل کرنے کے لیے کام کیا ہے جو پی اے سی ایس میں شامل کی جا سکتی ہیں۔

 

جناب امت شاہ نے کہا کہ امول قدرتی کھیتی کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے بھی بنیادی کام کر رہی ہے۔ ہم نے دستکاری کی مارکیٹنگ کے لیے ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو بنانے کا بھی سوچا ہے۔افکو اور کریبکو اور کو بیجوں میں اصلاحات کی ذمہ داری دی گئی ہے، برآمد کے لیے ایک ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹو ایکسپورٹ ہاؤس بھی قائم کیا جائے گا اور حکومت ہند ایک پہل کر رہی ہے اور 15 اگست سے پہلے ہم اسے زمین پر لے جانے کے لیے کام کریں گے۔ جناب نریندر مودی نے امداد باہمی کی وزارت کے لئے مختص بجٹ  میں بڑے اضافے کو بھی منظوری دی ہے۔

 

جناب امت شاہ نے کہا کہ جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے زراعت کے شعبے میں متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سے، میں یقینی طور پر کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ دھان کی خریداری میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس سے قبل 14-2013 میں 475 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا گیا تھا، آج 896 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا گیا ہے اور فائدہ اٹھانے والے کسانوں کی تعداد 76 لاکھ سے بڑھ کر 1.31 کروڑ ہو گئی ہے۔ گندم کی خریداری میں 72 فیصد اضافہ ہوا ہے، پہلے 251 لاکھ میٹرک ٹن خریدا جاتا تھا اور آج یہ 433 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ کسان کریڈٹ کارڈ، نامیاتی کاشتکاری کو فروغ، قدرتی کھیتی کو فروغ، زراعت کی برآمد پہلی بار 50 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی، پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت صرف 8 سالوں میں 64 لاکھ ہیکٹیئر اراضی میں پہلے کے مقابلے میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے زراعت کے بنیادی ڈھانچے میں حکومت کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح کوآپریٹیو، خاص طور پر زرعی مالیات میں کوآپریٹیو کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ زراعت کی میکنائزیشن بھی شروع ہو چکی ہے، 10000 ایف پی اوز پر تقریباً 6800 کروڑ روپئے کا بجٹ خرچ کیا گیا ہے اور منڈیوں میں ڈیجیٹل لین دین کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔

 

امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت کوآپریٹو سیکٹر کو وسعت نہیں دے سکتی، لیکن صرف کوآپریٹیو ہی اس شعبے کو بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت سہولتیں فراہم کر سکتی ہے لیکن کوآپریٹو کے جذبے کو زندہ کرنے اور اس جذبے کو مستقبل میں پروان چڑھانے کے لیے اس قسم کے کوآپریٹو سیکٹر کو قائم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ حکومت چاہے جتنا بھی پیسہ لگائے، کوآپریٹیو ترقی نہیں کرے گی، لیکن اگر ہم تعاون کے جذبے کو زندہ کریں اور اہداف کے لیے وقف رہیں، اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، تو یقیناً کوآپریٹیو کا جناب نریندر کے 5 ٹرلین ڈالر کی معیشت کےوِژن کی تکمیل میں بڑا رول  ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شعبہ ہے جو ملک کے 70 کروڑ غریبوں کو جامع ترقی کے عمل میں شراکت دار بنا سکتا ہے تو وہ کوآپریٹو سیکٹر ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔م ع۔ع ن

 (U: 7654)

 



(Release ID: 1842101) Visitor Counter : 167