امور داخلہ کی وزارت
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیر، جناب امت شاہ نے آج وگیان بھون، دہلی میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف) کے زیر اہتمام آفات سے نمٹنے کے لیے صلاحیت سازی - 2022 کی سالانہ کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی
2016 میں، ملک کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے این ڈی ایم اے کی این ڈی ایم پی اسکیم کا آغاز کیا؛ یہ ملک میں تیار کیا گیا پہلا آفات سے متعلق قومی منصوبہ ہے اور سیندائی ڈیزاسٹررسک ریڈکشن فریم ورک ، 2015 سے 2030 تک کے تمام پیرامیٹرز سے میل کھاتا ہے
پہلی بار حکومت کے تمام اداروں، محکموں کے افقی اور عمودی انضمام کا منصوبہ بنایا گیا، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے
اس پلان میں، 2016 میں، 11 آفات شامل کی گئی تھیں اور 2019 میں 17 آفات شامل کی گئی تھیں
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مختلف قسم کی آفات پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور ہم نے آفات سے ہونے والی اموات کی تعداد کو کم کیا ہے؛ یہ ہماری بڑی کامیابی ہے
وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت کی طرف سے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں اور ریاستی حکومتوں نے بھی بہت اچھا جواب دیا ہے
प्रविष्टि तिथि:
07 APR 2022 5:25PM by PIB Delhi
قدرتی آفات کے انتظامیہ کو، وزیر اعظم کی سربراہی میں این ڈی ایم اے، تمام وزرائے اعلیٰ کی سربراہی میں ایس ڈی ایم اے اور ایک مکمل مربوط نقطہ نظر کے ساتھ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اعتماد کے ساتھ نافذ کیا ہے۔
ڈیزاسٹر ریسپانس کا کام صرف وسائل یا تحقیقی مقالوں سے نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے ان لوگوں کی صلاحیت کو اور بہتر کرنا بہت ضروری ہے جو انھیں زمینی سطح پر بروئےکار لاتے ہیں
بہت سی ایجنسیوں کو، ایک دوسرے کے کردار کی وضاحت کے ساتھ، مل کر کام کرنا ہوتا ہے، اگر کسی ایک کے کردار میں بھی کوئی خلا ہے، تو اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت وضع کئے بغیر، ڈیزاسٹر رسپانس کا کام زمینی سطح تک ٹھیک سے نہیں ہو سکتا
شاذ و نادر ہی کسی تنظیم نے، اپنے قیام کے بعد سے، اتنے قلیل عرصے میں، 130 کروڑ کی آبادی والے اتنے وسیع ملک کے لوگوں میں اپنے کام سے اعتماد پیدا کیا ہے اور بھروسہ کمایا ہے۔
اگر ملک میں کہیں بھی، کسی بھی علاقے میں کوئی آفت آتی ہے اور لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ ایسڈی آر ایف کے ساتھ این ڈی آرایف بھی کام کےلئےآیا ہے، تو ان کی آدھی پریشانی ختم ہو جاتی ہے
کئی واقعات کے دوران، این ڈی آر ایف نے موقع پر ہی جوابی کارروائی کی ہے اور جان و مال کو بچایا ہے جس سے لوگوں کا بھروسہ مضبوط ہوا ہے
این ڈی آر ایف نے بھی، دنیا بھر میں ڈیزاسٹر ریسپانس اور ڈیزاسٹر ریسپانس سیکٹر میں کام کرنے والی تنظیموں میں ایک مقام حاصل کیا ہے اور یہ ملک کے لیے بڑے فخر کی بات ہے
یہاں تک کہ کئی بار پڑوسی ممالک کا دورہ کرکے، انسانیت کے نقطہ نظر سے، این ڈی آر ایف نے، ان کی مدد کی ہے اور دنیا کو ہندوستان کا پیغام پہنچایا ہے۔
ہندوستان میں، 2000 سے 2022 کے درمیان، مختصر وقت میں، ہم ایک کامیاب مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ ہندوستان میں طویل عرصے کے بعد ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے کے لیے یہ سنہری دور مانا جائے گا
این ڈی آر ایف کی شاندار کوششوں کی وجہ سے، آج ہم نے 20 سال سے بھی کم عرصے میں، ایک طویل سفر طے کیا ہے
نوے کی دہائی سے پہلے، ہمارے پاس ریلیف پر مبنی نقطہ نظر تھا، جان و مال کو بچانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور یہ منصوبہ کا حصہ نہیں تھا
اب ہم نے جانوں اور املاک کو بچانے کے سائنسی پروگرام پر بہت زیادہ کام کیا ہے، جس کی بنیاد ابتدائی وارننگ، فعال روک تھام، تخفیف اور پیشگی تیاری پر مبنی ہے
سن 1999 کے اوڈیشہ سپر سائیکلون اور 2001 گجرات کے زلزلے میں، ہزاروں لوگ مارے گئےتھے، لیکن آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ چاہے جتنے بھی طوفان آئیں، ہم نے اموات کو ایک فیصد سے بھی کم کر دیا ہے
اب تک 32 رہنما خطوط بنائے گئے ہیں، جن میں سے آٹھ پچھلے ڈھائی سالوں میں بنائے گئے ہیں
سردی کی لہر، زلزلے سے بچاؤ، چھتوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مکان مالکان کے لئے گائیڈ لائن، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ، گرم لہرسے متعلق گائیڈ لائن، چٹانیں کھسکنے کا خطرہ، معذوری سمیت آفات کے خطرے میں کمی، آفات سے متاثرہ خاندانوں کے لیے عارضی گھر؛ ان 8 رہنما خطوط نے 2 سالوں میں اسے ملک کی ریاستوں کو بھیجنے کا کام کیا ہے
ملک کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اس کام کو تیز کرنے، عزت دینے اور اس کام کا اعتراف کرنے کے لیے، سبھاش چندر بوس آپدا پربندھن پرسکار بھی شروع کیا ہے
آزادی کے بعد پہلی بار، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو قومی سطح پر اس طرح کی منظوری ملی ہے اور اس سال 23 جنوری کو ادارہ کے طور پر، این ڈی آر ایف کی 8ویں بٹالین کو، پہلا ایوارڈ دیا گیا ہے
بہت سی ایپس بھی بنائی گئی ہیں، موسم کی ایپ، طوفان، شدید بارش، گرمی اور سردی کی لہر جیسی تمام چیزوں کے لیے دستیاب ہے، میگھ دوت ایپ، کسانوں کے لیے موسم پر مبنی زراعت کے انتظام کے لیے بنائی گئی ہے، دامنی ایپ کو لائٹننگ الرٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے
ان ایپس کو زمینی سطح تک لانے کے لیے کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے، کیونکہ جو الرٹس آتے ہیں وہ بہت درست ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے آتے ہیں
کامن الرٹ پروٹوکول کا بھی بہت فائدہ ہوا ہے اور شمال مشرق میں NESAC این ای ایس ا ے سی کی مدد سے سیلاب کے انتظامیہ،سڑکوں کی صف بندی، پانی کے بہاؤ اور دھارے پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے پانی کے بہاؤ کو روکنا؛ان تمام اقدامات کے ساتھ علاقوں کی بہت اچھی فلڈ میپنگ کی گئی ہے۔
اس تصور اور ان تمام انتباہات کو زمینی سطح تک لے جانے کے لیے، این سی سی، این ایس ایس، ہوم گارڈجیسی ان تمام تنظیموں کو اس سے جوڑنا ہوگا؛ خواتین کے ذاتی مدد گروپس، جو آگاہ ہیں، خاص طور پر گاؤں کی پنچایت، کو بھی اس سے جوڑنا ہوگا
اگر ملک کے کسی چھوٹے سے حصے میں، کوئی آفت آتی ہے تو ہمارا تربیت یافتہ آدمی وہاں موجود ہونا چاہیے، اسے خود این ڈی آر ایف کا کام چاہیے اور جب تک ایس ڈی آر ایف اور این ڈی آر ایف نہیں پہنچیں، اسے حالات کو سنبھالنا چاہیے
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیر، جناب امت شاہ نے آج وگیان بھون، دہلی میں نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف) کے ذریعے آفات سے نمٹنے کے لیے صلاحیت سازی - 2022 کی سالانہ کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر امور داخلہ کے وزیر مملکت جناب نتیا نند رائے، مرکزی داخلہ سکریٹری اور این ڈی آر ایف کے ڈائریکٹر جنرل جناب اتل کروال سمیت کئی معززین بھی موجود تھے۔

اپنے خطاب میں، مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک جامع مربوط نقطہ نظر کے ساتھ، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں، این ڈی ایم اے، تمام وزرائے اعلیٰ کی سربراہی میں، ایس ڈی ایم اے، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اعتماد کے ساتھ زمین سطح تک لے جایا گیا ہے۔ نوے کی دہائی سے پہلے ہمارے پاس ریلیف سنٹرک اپروچ تھا، جان و مال بچانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور یہ منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھا۔ اب ہم نے جانوں اور املاک کو بچانے کے سائنسی پروگرام پر بہت سا کام کیا ہے جس کی بنیاد، ابتدائی وارننگ، فعال روک تھام، تخفیف اور پیشگی تیاری پر مبنی ہے۔ آج دنیا میں ڈیزاسٹر رسپانس کے میدان میں ہم برابری کی بنیاد پر کھڑے ہیں اور کئی شعبوں میں آگے بھی ہیں۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ سال 2016 میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے این ڈی ایم اے کی این ڈی ایم پی اسکیم شروع کی تھی۔ یہ ملک میں تیار کیا گیا پہلا نیشنل ڈیزاسٹر پلان ہے اور سینڈائی ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن فریم ورک 2015 سے 2030 کے تمام پیرامیٹرز سے میل کھاتا ہے۔ پہلی بار حکومت کی تمام ایجنسیوں اور محکموں کے افقی اور عمودی انضمام کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس اسکیم میں، حکومت کو پنچایت، شہری بلدیاتی اداروں اور مختلف سرکاری محکموں کی سطح تک منسلک کیا گیا ہے، جس سے کلکٹر کو نوڈل ایجنسی بنایا گیا ہے۔سن 2016 میں اس پلان میں 11 آفات کو شامل کیا گیا تھا اور 2019 میں اس میں 17 آفات کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتاہے کہ ہم ہر قسم کی آفات پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور ہم نے آفات سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو بہت کم کیا ہے اور یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تباہی سے نمٹنے کا کام صرف وسائل یا تحقیقی مقالے سے ہو سکتا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اسے تہہ تک لے جانے والوں کی صلاحیت کو بڑھانا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سی ایجنسیوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے کردار کی وضاحت کے بغیر، اور اگر کسی کے کردار میں خلا ہے تو اسے پُر کرنے کی صلاحیت حاصل کیے بغیر، ڈیزاسٹر رسپانس کا کام نزمینی سطح تک ٹھیک سے نہیں ہو سکتا۔ اس قسم کی مشق کے ذریعے ریاستوں، اضلاع اور نیچے دیہات تک ایک باہمی تال میل پیدا ہوتا ہے اور آخر کار یہ باہمی تال میل ہی، جان و مال کو تباہی سے بچانے کا سبب بنتا ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ آج ٹکنالوجی اور سائنس کی وجہ سے ہمیں ابتدائی معلومات مل جاتی ہیں، لیکن آفات کا جواب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک آفات کے خطرے والے مقام کو خبردار کرنے کے نقطہ نظر سے، تباہی، جان بچانے کے لیے کارروائی کرنے اور پھر املاک کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئےدرست معلومات کو آخری سطح تک پہنچانے میں پیشہ ورانہ مہارت حاصل نہیں کی جاتی۔ ۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کاموں سے متعلق 5 سے 6 ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کا پروٹوکول اور اس کا عملی تجربہ بھی بہت اہم ہے۔
این ڈی آر ایف کے کام کی تعریف کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ شاید ہی کسی تنظیم نے، اپنے قیام کے بعد سے، اتنے کم وقت میں اپنے کام کے لیے 130 کروڑ آبادی کے اس وسیع ملک کے لوگوں میں اعتماد پیدا کیا ہو۔ ملک میں کہیں بھی، کسی بھی خطے میں کسی بھی قسم کی آفت آتی ہے اور جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ایس ڈی آرایف کے ساتھ این ڈی آرایف بھی آ گیا ہے، تو ان کی آدھی پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اعتقاد، حکومتی سرکلر سے نہیں بلکہ اعمال سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کئی واقعات کے دوران این ڈی آر ایف نے موقع پر ہی جوابی کارروائی کی اور جان و مال کو بچایا، جس کی وجہ سے اس پر اعتماد پیدا ہوا ہے۔ این ڈی آر ایف نے بھی، پوری دنیا میں آفات سے نمٹنے کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں میں، اپنا مقام حاصل کیا ہے اور یہ ملک کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ یہاں تک کہ کئی بار پڑوسی ممالک کا دورہ کرکے، این ڈی آر ایف نے انسانیت کے نقطہ نظر سے ان کی مدد کی ہے اور دنیا کو ہندوستان کا پیغام پہنچایا ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ 2000 سے 2022 تک کا عرصہ ہندوستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے سنہری دور تصور کیا جائے گا۔ بیس سال کے اتنے مختصر عرصے میں ہندوستان میں بہت طویل سفر کے بعد ہم ایک شاندار مقام پر پہنچے ہیں۔ ہمارے ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بھگیرتھ کے بارے میں ہم سب نے سنا ہے کہ وہ گنگا کو زمین پر لائے تھے۔ لیکن آج اگر ہم گنگا کو اتراکھنڈ کی پہاڑیوں سے خلیج بنگال کی طرف جاتے ہوئے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے سائنسی سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیارکیا ہے اور سیلاب کے انتظام کے ساتھ ساتھ پانی کے انتظام کا بھی بڑا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالوں کے بعد بھی جب کوئی شخص بہت اچھی، سائنسی اور محنت سے کوشش کرتا ہے، تو ہم اسے ’’بھگیرتھ پریاس‘‘ کہتے ہیں۔ نوے کی دہائی سے پہلے ہمارے یہاں کوئی سائنسی نظام نہیں تھا۔ آفت کے وقت اس کی دیکھ بھال اور پیسے دینے کا خیال سب سے پہلے آیا اور آفت سے جان و مال کی حفاظت کا تصور ہی نہیں تھا۔ لیکن آج ہم این ڈی آر ایف کے "بھگیرتھ پریاس" کی وجہ سے 20 سال سے بھی کم عرصے میں ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ 1999 کا اوڈیشہ سپر سائیکلون سب نے دیکھا ہے، جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے؛ 2001 میں گجرات کے زلزلے میں ہزاروں لوگ مارے گئے، لیکن آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جتنے بھی طوفان آئے، ہم نے ہلاکتوں کو ایک فیصد سے بھی کم کیا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں اور ریاستی حکومتوں نے بھی اس پر بہت اچھا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اب تک 26 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایس ڈی آر ایف کی تشکیل کی جا چکی ہے۔ این ڈی آر ایف اپنی تشکیل کے وقت ایس ڈی آر ایف کی تربیت میں شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے ملک میں این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف اور پنچایت کی سطح پر انتظام کے شعبے میں یکسانیت لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی، وفاقی ڈھانچے کا احترام کرتے ہوئے حاصل کی ہے۔ اب تک 21000 سے زیادہ ایس ڈی آر ایف اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 32 رہنما خطوط بنائے گئے ہیں جن میں سے آٹھ گزشتہ ڈھائی سالوں میں بنائے گئے ہیں۔ سردی کی لہر، زلزلے سے تحفظ، چھتوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مکان مالکان کے لئے رہنما خطوط، برفانی جھیل کے پھٹنے سے سیلاب، گرم لہرسےمتعلقرہنما خطوط، چٹانیں کھسکنےکا خطرہ، معذوری سمیت آفات کے خطرے میں کمی، آفات سے متاثرہ خاندانوں کے لیے عارضی گھروغیرہ؛ریاستوں میں ان 8 ہدایات پر عمل درآمد کا کام بھی جاری ہے۔ اس کام میں تیزی لانے، عزت دینے اور اس کا اعتراف کرنے کے لیے، ملک کے وزیر اعظم نے سبھاش چندر بوس آپدا پربندھن پرسکار بھی شروع کیا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ آفات سے متعلق انتظامیہ کو قومی سطح پر اس طرح کی منظوری ملی ہے اور اس سال 23 جنوری کو ، ادارے کے طور پر ، این ڈی آر ایف کی آٹھویں بٹالین کو پہلا ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ دیکھنے میں ایک چھوٹی چیز ضرور ہے لیکن مقابلہ اور ایوارڈ حاصل کرنے کی خواہش، بہترین کارکردگی کا باعث بنتی ہے اور اس سے فخر بھی محسوس ہوتا ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ریاستوں نے ، پہلے سے تعیناتی پالیسی کے تحت ، موصول ہونے والی پیشگی معلومات کے مطابق ، فورس کی فعال دستیابی کو یقینی بنانے میں بھی بہت اچھا کام کیا ہے۔جہاں کہیں بھی اطلاع یا انتباہات بھیجے گئے ، ریاستوں نے پہلے سے تعیناتی کے اصول کو نافذ کرنے کے لیے کارروائی کی اور این ڈی آر ایف کی 12 بٹالینیں ہمیشہ ریاستوں اور ایس ڈی آر ایف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہیں۔اس عمل کو مزید زمینی سطح تک لے جانے کے لیے 350 اضلاع میں آپدا متر اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے کام کیا گیا ہے، جس کا مقصد ایک لاکھ سے زیادہ رضاکاروں کو کام کے لیے تیار کرنا ہے۔ کوئی بھی گاؤں ا یسا نہ چھوڑا جائے جہاں نوجوانوں کا دستہ اس کام کے لیے تربیت یافتہ نہ ہو؛ شہر کا کوئی ایسا وارڈ نہ چھوڑا جائے جہاں نوجوانوں کے دستے کو آفات سے بچاؤ کے تمام شعبے میں تربیت نہ دی گئی ہو۔انھیں محدود کام کرنا ہے لیکن افواہوں کو روکنا، لوگوں کو وقت پر خطرے کے علاقوں سے نکالنا، کچھ بنیادی معلومات دینا اور جب ضرورت پڑتی ہے تو ایس ڈی آر ایف کی جگہ کام کرنا؛ ان تمام چیزوں کو ان کی تربیت میں شامل کیا گیا ہے۔ بہت ساری ایپس بھی تیار کی گئی ہیں۔ موسم کی ایپ ہر چیز جیسے طوفان، شدید بارش، گرمی اور سرمی کی لہر کے لیے پیشگی معلومات کے لیے دستیاب ہے۔ میگھ دوت ایپ کو کسانوں کے ذریعے موسم پر مبنی زراعت کے انتظام کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جب کہ دامنی ایپ لائٹرننگ الرٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ان ایپس کو بنیادی سطح تک پہنچانے کے لیے ایک طریقہ کار ہونا چاہیے کیونکہ جو الرٹس موصول ہوتے ہیں وہ بہت درست ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے ملتے ہیں۔اگر کوئی الرٹ کلکٹر تک پہنچ جاتا ہے لیکن کلکٹر سے گاؤں تک نہیں پہنچتا تو اس الرٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ہم بڑی آفات کے ضمن میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن آسمانی بجلی جیسی آفات میں ، وقت کم ہوتا ہے، اس لیے اپنے نظام کو درست کرنا ہوگا اور یہ حقیقی وقت کی بنیاد پر ہوناچاہیے تاکہ ہمارا الرٹ بروقت اُس علاقے تک پہنچ جائے جہاں آسمانی بجلی گر رہی ہو۔ این ڈی آر ایف کو بھی اس کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ان تمام ایپس کو بنیادی سطح تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ کامن الرٹ پروٹوکول کا بھی بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے اور شمال مشرق میں این ای ایس اے سی کی مدد سے، سیلاب کے انتظام، سڑکوں کی صف بندی، پانی کے بہاؤ اور راستے پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پانی کے بہاؤ کو روکنا چاہیے۔ یقیناً ان تمام اقدامات کے ساتھ، علاقوں کی فیلڈ میپنگ بہت اچھی طرح کی گئی ہے۔ فلڈ میپنگ اب سڑکوں کی تعمیر کے تمام پروگراموں کا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ این سی سی، این ایس ایس، ہوم گارڈ؛ ان تمام تنظیموں کو اس تصور سے منسلک کرنا ہوگا اور ان تمام الرٹس کو بنیادی سطح تک پہنچانا ہوگا۔ خواتین کے کچھ ذاتی مدد کے گروپس، جو کہ آگاہ ہیں، کو بھی اس سے منسلک ہونا پڑے گا جس میں خاص طور پر گاؤں کی پنچایت کو اس سے منسلک ہونے کی ضرورت ہے۔اس کام کے لیے ، تمام لٹریچر مقامی زبانوں میں تیار کرنا ہوگا، ٹریننگ کے ماڈیول بھی مقامی زبان میں بنانے ہوں گے اور مقامی زبانوں سے تیار کئے جانے وا لے تربیت کاروں کو ان کی تربیت فراہم کرنی ہوگی اور انھیں خود کوتیار کرکے،اپنی ریاست میں تربیت فراہم کرنی ہوگی۔ ہمیں بھی اس کے لیے ایک نظام وضع کرنا ہوگا۔ ہمارے پاس رضاکاروں کی دستیابی اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگی جب تک کہ این سی سی، این ایس ایس ، ہوم گارڈس ان سب کو منسلک نہیں کرلیا جاتا اور اس پوری اسکیم کی کامیابی یہ ہے کہ اگر ملک کے کسی بھی چھوٹے سے حصے میں ہمارا کوئی تربیت یافتہ شخص وہاں موجود ہوتا ہے اور وہ خود ہی این ڈی آر ایف کا کام اس وقت تک آلات کو سنبھالنے کے لیے کرتا ہے جب تک کہ ایس ڈی آر ایف اور این ڈی آر ایف کی ٹیمیں حالات کو سنبھالنے کے لیے وہاں نہیں پہنچ جاتی ہیں۔
*****
U.No.3996
(ش ح - اع - ر ا)
(रिलीज़ आईडी: 1814656)
आगंतुक पटल : 178