وزیراعظم کا دفتر

‏سمبائیوسس یونیورسٹی، پونے کی گولڈن جوبلی تقریبات کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن‏

Posted On: 06 MAR 2022 5:09PM by PIB Delhi

نمسکار!

مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، جناب دیویندر پھڑنویس جی، اس یونیورسٹی کے بانی صدر جناب سبھاش دیسائی جی، پروفیسر ایس بی مجومدار جی، پرنسپل ڈائریکٹر ڈاکٹر ودیا یرویدیکر جی، تمام فیکلٹی ممبران، معزز مہمان اور میرے نوجوان دوستو!

آج آپ سرسوتی کے دھام جیسی ایک تپ بھومی میں ہیں جس کی سنہری اقدار اور سنہری تاریخ ہے، اس کے ساتھ ایک ادارے کے طور پر سمبائیوسس اپنی گولڈن جوبلی کے مقام پر پہنچا ہے۔ ایک ادارے کے اس سفر میں کتنے ہی لوگ حصہ ڈالتے ہیں، بہت سے لوگوں کی اجتماعی حصہ داری ہوتی ہے۔

جن طلبہ نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے وژن اور اقدار کو اپنایا ہے، اپنی کام یابی سے سمبائیوسس کو پہچان دلائی ہے، ان سب کا اس سفر میں اتنا ہی بڑا تعاون ہے۔ میں اس موقع پر تمام پروفیسروں، تمام طلبہ اور تمام طلبائے قدیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اس سنہری تقریب سے 'آروگیہ دھام' کمپلیکس شروع کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔ میں اس نئی شروعات کے لیے پورے سمبائیوسس خاندان کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

میرے نوجوان دوستو،

آپ ایک ایسے ادارے کا حصہ ہیں جس کی بنیاد بھارت کے بنیادی خیال 'وسودھیوا کٹومبکم' پر تعمیر کی گئی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سمبائیوسس ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں 'وسودھیوا کٹومبکم' پر ایک علیحدہ سے کورس بھی چلایا جارہا ہے۔ علم کا وسیع پھیلاؤ ہو، علم کو ایک خاندان کے طور پر پوری دنیا سے جوڑنے کا ذریعہ بنایا جائے، یہ ہماری روایت ہے، یہ ہماری ثقافت ہے، یہ ہمارا ورثہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ روایت ہمارے ملک میں اب بھی زندہ ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سمبائیوسس میں دنیا کے 85 ممالک کے 44,000 سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی اپنی ثقافتوں کا اشتراک کرتے ہیں۔ یعنی بھارت کا قدیم ورثہ آج بھی جدید اوتار میں آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو،

آج اس ادارے کے طلبہ اس نسل کی نمائندگی کر رہے ہیں جس کے سامنے لامحدود مواقع موجود ہیں۔ آج ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم آج ہمارے ملک میں ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا، میک ان انڈیا اور سیلف ریلائنٹ انڈیا جیسے مشن آپ کی امنگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ آج کا بھارت پوری دنیا کو جدت طرازی کے ساتھ بہتر بنا رہا ہے اور متاثر کر رہا ہے۔

پونے میں رہنے والے آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح بھارت نے کورونا ویکسین کے حوالے سے پوری دنیا کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت آپ یوکرین بحران کے وقت یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بھارت آپریشن گنگا چلا کر اپنے شہریوں کو جنگ زدہ خطے سے بحفاظت نکال رہا ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک کو ایسا کرنے میں بہت سی دقتوں کا سامنا ہورہا ہے۔ تاہم یہ بھارت کا بڑھتا ہوا رسوخ ہے کہ ہم وہاں سے ہزاروں طلبہ کو اپنے وطن واپس لاسکے ہیں۔

ساتھیو،

آپ کی نسل خوش قسمت ہے کہ اسے پچھلی دفاعی اور منحصر نفسیات کے نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن اگر یہ تبدیلی ملک میں آئی ہے تو اس کا پہلا کریڈٹ بھی آپ سب کو جاتا ہے، ہمارے نوجوانوں کو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اب آپ ان شعبوں میں دیکھ رہے ہیں جہاں ملک نے پہلے اپنے پاؤں پر چلنے کا سوچا بھی نہیں تھا، ان شعبوں میں اب بھارت عالمی رہ نما بننے کی راہ پر گام زن ہے۔

موبائل مینوفیکچرنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کچھ سال پہلے تک، ہمارے لیے موبائل مینوفیکچرنگ، اور کتنے ہی الیکٹرانکس سازو سامان کے حصول کا مطلب ایک ہی تھا - درآمد کرنا! انھیں دنیا میں کہیں سے بھی لائیں۔ دفاعی شعبے میں ہم کئی دہائیوں سے یہ مان کر چل رہے تھے کہ ہم تبھی کچھ کر سکتے ہیں جب دوسرے ممالک ہمیں کچھ دیں گے۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ بھارت موبائل مینوفیکچرنگ میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔

سات سال پہلے بھارت میں صرف 2 موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیاں تھیں، آج 200 سے زائد مینوفیکچرنگ یونٹس اس کام میں مصروف ہیں۔ بھارت جو دفاع میں دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا، اب دفاعی برآمد کنندہ بن رہا ہے۔ آج ملک میں دو بڑی دفاعی راہداریاں تعمیر کی جارہی ہیں جہاں سب سے بڑے جدید ہتھیار بنائے جائیں گے، ملک کی دفاعی ضروریات کو پورا کریں گے۔

دوستو،

آزادی کے 75 ویں سال میں ہم ایک نئے بھارت کی تعمیر کے نئے نشانوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس امرت کال کی قیادت ہماری نوجوان نسل کو کرنی ہوگی۔ آج سافٹ ویئر انڈسٹری سے لے کر ہیلتھ سیکٹر تک، اے آئی اور اے آر سے لے کر آٹو موبائلز اور ای وی تک، کوانٹم کمپیوٹنگ سے لے کر مشین لرننگ تک، ہر شعبے میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ملک میں جیو اسپیشیل سسٹم، ڈرون سے لے کر سیمی کنڈکٹر اور خلائی ٹیکنالوجی تک مسلسل اصلاحات ہو رہی ہیں۔

یہ اصلاحات حکومت کا ریکارڈ بنانے کے لیے نہیں ہیں، ان اصلاحات نے آپ کو مواقع فراہم کیے ہیں۔ اور میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اصلاحات آپ کے لیے ہیں، نوجوانوں کے لیے ہیں۔ چاہے آپ تکنیکی شعبے میں ہوں، مینجمنٹ کے شعبے میں ہوں، یا طبی شعبے میں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام مواقع جو پیدا ہو رہے ہیں وہ صرف اور صرف آپ کے لیے ہیں۔

آج جو حکومت ملک میں ہے، وہ ملک کے نوجوانوں کی طاقت، آپ کی طاقت پر بھروسا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کے لیے یکے بعد دیگرے بہت سے شعبے کھول رہے ہیں۔ ان مواقع سے بہت فائدہ اٹھائیں، انتظار نہ کریں۔ آپ اپنے اسٹارٹ اپ شروع کریں، ملک کے چیلنجز، مقامی مسائل، ان کا حل یونیورسٹیوں سے آنا چاہیے۔ انھیں نوجوانوں کے ذہنوں سے نکلنا چاہیے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کسی بھی شعبے میں ہوں، جس طرح آپ اپنے کیریئر کے لیے نشانے مقرر کرتے ہیں، آپ کے ملک کے لیے کچھ نشانے ہونے چاہئیں۔ اگر آپ تکنیکی شعبے سے ہیں، تو آپ کی اختراعات، آپ کا کام ملک کے لیے کس طرح کام آسکتا ہے، کیا آپ ایسی مصنوعات تیار کرسکتے ہیں جو گاؤں کے کسان کی مدد کرے، دور دراز علاقوں کے طلبہ کی کچھ مدد کرے!

اسی طرح طبی شعبے میں ، ہمارے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو کیسے مضبوط بنایا جائے، دیہات میں معیاری صحت کی خدمات کیسے دستیاب کرائی جائیں،ن مسائل پر آپ اپنے ٹیک دوستوں کے ساتھ مل کر نئے اسٹارٹ اپ کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ آروگیہ دھام جیسا وژن جو سمبائیوسس میں شروع کیا گیا ہے، پورے ملک کے لیے ایک نمونے کے طور پر بھی کام آسکتا ہے۔ اور جب میں صحت کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ آپ کو اپنی فٹنس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بہت ہنسیں، لطیفے سنائیں، فٹ رہیں اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔ جب ہمارے اہداف کو ذاتی ترقی سے اوپر اٹھ کر قومی ترقی سے جوڑا جاتا ہے تو ملک کی تعمیر میں ہماری حصہ داری کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

ساتھیو،

آج جب کہ آپ اپنی یونیورسٹی کا 50 سالہ یوم تاسیس منا رہے ہیں تو میں سمبائیوسس فیملی سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں ان لوگوں سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں جو یہاں بیٹھے ہیں۔ کیا ہم سمبائیوسس میں ایک روایت کی بنا ڈال سکتے ہیں، ہر سال کو ایک موضوع کے لیے وقف کیا جائے اور یہاں موجود تمام لوگ چاہے کسی بھی شعبے سے ہوں، اپنے باقی کام کے ساتھ ساتھ، ان کے پاس ایک موضوع میں کچھ لگن، کچھ حصہ داری ضرور ہونی چاہیے۔ ابھی سے جب کہ آپ یہاں گولڈن جوبلی منا رہے ہیں، اگلے پانچ سال کے لیے، 2022 کے لیے موضوع کیا ہوگا، 2023 کے لیے موضوع کیا ہوگا، 2027 کے لیے موضوع کیا ہوگا، کیا ہم ابھی سے یہ طے کر سکتے ہیں؟

اب جیسے ایک موضوع میں آپ کو تجویز کرتا ہوں، ضروری نہیں کہ اس موضوع پر عمل کیا جائے، آپ اپنا منصوبہ بنائیں۔ فرض کریں کہ گلوبل وارمنگ ایک موضوع ہے- یہ موضوع لے لیا۔ 2022 کے لیے- ہمارے پورے خاندان کو گلوبل وارمنگ کے ہر پہلو کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس کو سمجھنا چاہیے، اس پر تحقیق کرنی چاہیے، اس پر سیمینار کرنا چاہیے، اس پر کارٹون بنانا چاہیے، اس پر کہانیاں لکھنی چاہئیں، اس پر نظمیں لکھنی چاہئیں، اس پر آلات تیار کرنے چاہئیں۔ یعنی باقی سب کچھ کرتے ہوئے اس موضوع کو ایک اضافی کام کے طور پر لیں۔ لوگوں کو بھی آگاہ کریں۔

اسی طرح ہمارے جو ساحلی علاقے ہیں یا پھر سمندر پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موضوع ہمارے سرحدی علاقوں کی ترقی کا ہوسکتا ہے۔ جو ہمارا آخری گاؤں ہے جو فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ہماری سرحدوں کی سلامتی میں مصروف ہے۔ ایک طرح سے نسل در نسل وہ ہمارے ملک کے محافظ ہیں۔ کیا ہم یونیورسٹیوں کے ذریعے، اپنے خاندان میں، اپنی سرحدی ترقی کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، اس کے لیے یونیورسٹی کے طلبہ کو اس علاقے کا دورہ کرنا چاہیے، وہاں کے لوگوں کے مسائل کو سمجھنا چاہیے اور پھر یہاں آکر تبادلہ خیال کرنا چاہیے، حل تلاش کرنا چاہیے۔

آپ کی یونیورسٹی ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو مستحکم کرتی ہے۔ 'وسودھیوا کٹومبکم' کا یہ خواب بھی اس وقت شرمندہ تعبیر ہوتا ہے جب ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا خواب پورا ہوتا ہے۔ اگر یونیورسٹی میں آنے والے ایک علاقے کے طلبہ دوسرے خطے کی زبانوں کے چند الفاظ سیکھ لیں تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ آپ کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ جب سمبائیوسس کا کوئی طالب علم یہاں سے روانہ ہو تو اسے مراٹھی سمیت بھارت کی 5 دیگر زبانوں کے کم از کم 100 الفاظ ضرور یاد ہوں۔ اسے بعد میں زندگی میں اس کی افادیت کا علم ہوگا۔

ہماری تحریک آزادی کی تاریخ اتنی ثروت مند ہے۔ آپ اس تاریخ کے کسی بھی پہلو کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے بھی کام کرسکتے ہیں۔ ملک کے نوجوانوں میں این ایس ایس، این سی سی کی طرح ہم بھی نئی سرگرمیوں کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں، یہ پورا خاندان بھی مل کر کام کر سکتا ہے۔ پانی کی سلامتی کے موضوع کی طرح زراعت کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا موضوع، مٹی کی صحت کی جانچ سے لے کر غذائی مصنوعات کے ذخیرے اور قدرتی کاشت کاری تک، آپ کے پاس تحقیق سے لے کر آگاہی پیدا کرنے تک بہت سے موضوعات ہیں۔

میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ یہ موضوعات کیا ہوں گے۔ لیکن میں یقینی طور پر کہوں گا کہ ملک کی ضروریات کو حل کرنے کے لیے، ملک کے مسائل کے لیے، آپ کو اپنی موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ ہم سب نوجوان، تمام نوجوان ذہنوں کے ساتھ، اتنا بڑا بنیادی ڈھانچہ ہے، ایک نظام ہے، ہم اس کا کچھ حل دیں۔ اور میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اپنی تجاویز اور تجربات حکومت کے ساتھ بھی شیئر کریں۔ ان موضوعات پر کام کرنے کے بعد آپ اپنی تحقیق، اپنے نتائج، اپنے خیالات، اپنی تجاویز بھی وزیر اعظم کے دفتر کو بھیج سکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ جب یہاں کے پروفیسر، یہاں کی فیکلٹی، یہاں کے طلبہ اس مہم کا حصہ بننے کے لیے اکٹھے ہوں گے تو انھیں بہت شاندار نتائج ملیں گے۔ تصور کریں کہ آپ اس وقت 50 سالہ جشن منا رہے ہیں، جب آپ 75 سالہ جشن منائیں گے، اور 25 برسوں میں 50-50 ہزار ذہنوں نے ملک کے لیے 25 موضوعات پر کام کیا ہوگا، تو آپ ملک کو کتنا بڑا تحفہ دیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سمبائیوسس کے طلبہ کے لیے ہی فائدہ مند ہوگا۔

آخر میں، میں سمبائیوسس کے طلبہ سے ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ اس ادارے میں رہتے ہوئے، آپ نے اپنے پروفیسروں، اساتذہ، اپنے ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ خود آگاہی، اختراع اور جوکھم لینے کی صلاحیت کو ہمیشہ مضبوط بنائے رکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب اس جذبے کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھیں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ 50 سال کے عرصے میں آپ کے پاس ایسا سرمایہ ہے، تجربے کا سرمایہ ہے۔ آپ یہاں تک بہت سے تجربات کے ساتھ آئے ہیں۔ آپ کے پاس ایک خزانہ ہے. یہ خزانہ بھی ملک کے کام آئے گا۔ آپ پھلیں پھولیں اور یہاں آنے والا ہر بچہ اپنا روشن مستقبل بنانے کے لیے اعتماد کے ساتھ باہر جائے۔ یہ آپ کے لیے میری نیک خواہشات ہیں.

میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ مجھے آپ کے درمیان آنے کے بہت سے مواقع ملتے رہتے ہیں، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں جب وزیر اعلیٰ تھا، تب ایک بار آپ کے درمیان آِا تھا۔ آج مجھے دوبارہ اس مقدس زمین پر آنے کا موقع ملا ہے۔ میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اس نئی نسل کے ساتھ گفتگو کا موقع دیا۔

آپ کا بہت بہت شکریہ، ڈھیروں نیک خواہشات!

***

(ش ح - ع ا- ع ر)

U. No. 2285



(Release ID: 1803382) Visitor Counter : 206