وزیراعظم کا دفتر

سپریم کورٹ کے زیر اہتمام یوم آئین کی تقریبات میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 NOV 2021 9:35PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی۔ 26  نومبر

نمسکار !

چیف جسٹس این وی رمنا جی، جسٹس یو یو للت جی، وزیر قانون جناب کرن رجیجو جی، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ جی، اٹارنی جنرل جناب کےکے وینوگوپال جی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب وکاس سنگھ جی، اور ملک کے عدالتی نظام سے وابستہ خواتین و حضرات!

آج صبح میں مقننہ اور عاملہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا۔ اور اب میں عدلیہ سے وابستہ آپ تمام دانشوروں  کے درمیان ہوں۔ ہم سب کے مختلف کردار، مختلف ذمہ داریاں، اور کام کرنے کے مختلف طریقے بھی  ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا عقیدہ ، تحریک اور توانائی کا منبع ایک ہی ہے –  ہمارا آئین! مجھے خوشی ہے کہ آج یوم آئین  کے موقع پر اس تقریب کی شکل میں ہمارے اجتماعی جذبے کا اظہار ہو رہا ہے، جس سے ہماری آئینی عزائم کو تقویت مل رہی ہے۔ اس کام سے وابستہ تمام لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

معززین،
آزادی کے لیے جینے مرنے والے لوگوں نے جو خواب دیکھے تھے ، ان خوابوں کی روشنی میں  اور ہندوستان کی ہزاروں سال کی عظیم روایت کو پروان چڑھاتے ہوئے ، ہمارے آئین سازوں نے ہمیں آئین دیا۔ سینکڑوں سال کی غلامی نے ہندوستان کو بہت سی مشکلات میں مبتلا کر دیا تھا۔ کسی عہد میں سونے کی چڑیا کہا جانے والا ہندوستان ، غربت، بھوک اور بیماری سے نبرد آزما تھا۔ اس پس منظر میں ملک کو آگے لے جانے میں آئین ہمیشہ ہماری مدد کرتا رہاہے۔ لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جو ممالک تقریباً ہندوستان کے ساتھ ہی آزاد ہوئے، وہ آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ یعنی ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، ہمیں مل کر ہدف تک پہنچنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے آئین میں شمولیت پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت رہی ہے کہ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد محرومی  کا شکار ہونے پر مجبورہے ۔ وہ کروڑوں لوگ، جن کے گھروں میں بیت الخلاء تک نہیں تھا، کروڑوں لوگ جو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی اندھیرے میں گزار رہے تھے، وہ کروڑوں لوگ جن کی زندگی میں سب سے بڑی جدوجہد گھر کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے تھی،  ان کی مشکلات، ان کے درد کو سمجھ کر، ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اپنے آپ کو نچھاور کر دینا ، میں آئین کا حقیقی احترام سمجھتا ہوں۔ اور اس لیے آج مجھے اطمینان ہے کہ ملک میں آئین کی اس بنیادی روح کے مطابق اخراج کو شمولیت میں تبدیل کرنے کی بھاگیرتھ مہم تیز رفتاری سے جاری ہے۔ اور اس کا جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے،اسے بھی  ہمیں سمجھنا ہوگا۔جن  2 کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آج اپنا پختہ مکان ملا ہے ،جن  8 کروڑ سے زیادہ غریب خاندانوں کو اجولا اسکیم کے تحت مفت گیس کنکشن ملا ہے،جن 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کا  بڑے سے بڑے اسپتال میں مفت علاج کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یقینی بنایا گیا، جن کروڑوں غریبوں کو پہلی باربیمہ اور پنشن جیسی بنیادی سہولتیں ملی ہیں، ان غریبوں کی زندگی کی بہت سی پریشانیاں کم ہوئی ہیں، یہ اسکیمیں ان کے لیے بڑا سہارا بن گئی ہیں۔ اسی کورونا  کے دوران، پچھلے کئی مہینوں سے 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت اناج کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ حکومت پردھان منتری غریب کلیان اَن یوجنا پر 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرکے غریبوں کو مفت اناج دے رہی ہے۔ ابھی کل ہی ہم نے اس اسکیم کو اگلے سال مارچ تک بڑھا دیا ہے۔ ہمارے جو رہنما اصول ہیں – "شہریوں، مردوں اور عورتوں کو یکساں طور پر، مناسب ذریعہ معاش کا حق حاصل ہے"وہ اسی جذبے کے عکاس ہیں۔ آپ سب یقین کریں گے کہ جب ملک کا عام آدمی، ملک کا غریب، ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہوتا ہے، جب اسے برابری اور یکساں مواقع ملتے ہیں، تو اس کی دنیا یکسر بدل جاتی ہے۔ جب ریہڑی ، ٹھیلے ، پٹری والا شخص بھی بینک کریڈٹ کے نظام میں شامل ہوتا ہے، تب اسے قوم کی تعمیر میں حصہ لینے کا احساس ہوتا ہے۔ جب عوامی مقامات، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات معذور افراد کو ذہن میں رکھ کر بنائی جاتی ہیں، جب انہیں آزادی کے 70 سال بعد پہلی بار عام اشاروں کی زبان ملتی ہے، تو ان میں خود اعتمادی کا احساس جاگتا ہے۔ جب خواجہ سراؤں کو قانونی تحفظ ملتا ہے، خواجہ سراؤں کو پدم ایوارڈ ملتا ہے، تو سماج اور  آئین کے تئیں ان کا بھی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ جب تین طلاق جیسی برائی کے خلاف سخت قانون بنتا ہے تو آئین کے تئیں ان بہنوں اور بیٹیوں کا اعتماد مزید  مضبوط ہوتا ہے جو ہر طرح سے ناامیدہوچکی ہوتی  تھیں۔

معززین،
سب کا ساتھ-سب کا وکاس، سب کا وشواس-سب کا پریاس، یہ آئین کی روح کا سب سے طاقتور مظہر ہے۔ آئین کے لیے وقف حکومت ، ترقی میں کوئی امتیاز نہیں کرتی اور ہم نے یہ کر کے دکھایا ہے۔ آج غریب ترین غریبوں کو معیاری انفراسٹرکچر تک وہی رسائی مل رہی ہے جو کبھی وسائل رکھنے والے لوگوں تک محدود تھی۔ آج لداخ، انڈمان اور نکوبار، شمال مشرق کی ترقی پربھی ملک  اتنی ہی توجہ مرکوز کیے ہوا ہے جتنا کہ دہلی اور ممبئی جیسے میٹرو شہروں پرہے۔ لیکن اس سب کے درمیان میں آپ کی توجہ ایک اور بات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ آپ نے یہ بھی تجربہ کیا ہوگا کہ جب حکومت کسی ایک طبقہ کے لیے، کسی ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے لیے کچھ کرتی ہے تو بڑی اعتدال پسند کہلاتی ہے، اس کی بہت ستائش کی جاتی ہے کہ  دیکھیں کہ ان کے لیے کچھ کیا لیکن میں حیران ہوں ،کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کوئی حکومت ایک ریاست کے لیے کچھ کرے ، جس سے ریاست کا بھلا ہو تو بہت ستائش ہوتی ہے۔ تاہم جب حکومت سب کے لیے کرتی ہے ، ہر شہری کے لیے کرتی ہے، ہر ریاست کے لیے کرتی ہے، تو اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ حکومت کی اسکیموں سے ہر طبقہ، ہر ریاست کو یکساں طور پر کس طرح فائدہ پہنچایا جا رہا ہے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ پچھلے سات سالوں میں ہم نے ترقی کو بلا امتیاز، تعصب کے بغیر، ہر فرد، ہر طبقے اور ملک کے ہر کونے تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس سال 15 اگست کو، میں نے غریبوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں کے بارے میں بات کی اور اس کے لیے ہم مشن موڈ پر کام بھی کر رہے ہیں۔ سروجن ہتائے، سروجن سکھائے، اس منتر کے ساتھ کام کرنے کی ہماری کوشش ہے۔آج اس سے ملک کی تصویر کس طرح بدلی ہے یہ ہمیں حالیہ قومی فیملی صحت سروے رپورٹ میں بھی نظر آتے ہیں۔  اس رپورٹ کے بہت سے حقائق اس نکتے کو ثابت کرتے ہیں کہ جب نیک نیتی کے ساتھ کام کیا جائے، درست سمت میں پیشرفت کی جائے اور پوری قوت کو یکجا کر کے مقصد کے حصول کی کوشش کی جائے تو یقینی طور پر خوش آئند نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ صنفی مساوات کی بات کریں تو اب مردوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے ہسپتال میں زچگی کے مزید مواقع دستیاب ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے زچگی کی شرح اموات اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی آرہی ہے۔ بہت سے دوسرے اشارے ایسے ہیں جن پر ہم بحیثیت ملک بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان تمام اشاریوں میں ہر فیصد پوائنٹ میں اضافہ صرف ایک اعداد و شمار نہیں ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کروڑوں ہندوستانیوں کو حقوق حاصل ہو  رہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ عوام کو فلاح عامہ سے متعلق اسکیموں کا بھرپور فائدہ ملے، انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کو وقت پر مکمل کیا جائے۔ کسی بھی وجہ سے غیر ضروری تاخیر شہری کو اس کے حق سے محروم رکھتی ہے۔ میں گجرات سے ہوں اس لیے سردار سروور ڈیم کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ سردار پٹیل نے ماں نرمدا پر اس طرح کے ڈیم کا خواب دیکھا تھا۔ پنڈت نہرو نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ کئی دہائیوں سے زیر التواء رہا۔ ماحولیات کے نام پر تحریک میں پھنسا رہا ۔ اس پر فیصلہ لینے سے عدالت ہچکچا تی رہی ۔عالمی بینک نے بھی اس کے لیے رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اسی نرمدا کے پانی کی وجہ سے کچھ میں ترقی کا کام ہوا، آج کچھ ضلع ہندوستان کے تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں سے ایک ہے۔ کچھ تو ایک طرح سے ریگستان جیسا علاقہ ہے،لیکن تیزی سے ترقی کرنے والے خطے میں اس کی جگہ بن گئی۔ کسی زمانے میں صحرا کے طور پر جانا جانے والا کچھ، اپنی نقل مکانی کے لیے جانا جاتا تھا، آج زرعی برآمدات کی وجہ سے اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ اس سے بڑا گرین ایوارڈ اور کیا ہو سکتا ہے۔

معززین،
ہندوستان کے لیے اور دنیا کےمتعدد ممالک کے لیے، ہماری کئی نسلوں کے لیے،نوآبادیات کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے  زندگی گزارنا ایک مجبوری تھی۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے پوری دنیا میں نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا، کئی ممالک آزاد ہوئے۔ آج پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو بظاہر کسی دوسرے ملک کی نوآبادی کے طور پر موجود ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت ختم ہو چکی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ذہنیت بہت سی بگاڑ کو جنم دے رہی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے سفر میں ہمیں درپیش رکاوٹوں میں نظر آتی ہے۔جن وسائل سے جن راہوں پر چلتے ہوئے  آج ترقی یافتہ دنیا جس مقام پر پہنچی ہے، آج وہی وسائل ، وہی راستے ترقی پذیر ممالک کے لیے بند کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں اس کے لیے مختلف قسم کی اصطلاحات کا ایک جال بنایا گیا ہے۔ لیکن مقصد ایک ہی رہا ہے - ترقی پذیر ممالک کی ترقی کو روکنا۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اسی مقصد کے لیے ماحولیات کے مسئلے کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہم نے چند ہفتے قبل کوپ – 26 سربراہی اجلاس میں اس کی زندہ مثال دیکھی۔اگر مطلق مجموعی اخراج کی بات کریں تو ترقی یافتہ ممالک نے مل کر 1850 سےاب تک  ہندوستان سے 15 گنا زیادہ اخراج کیا ہے۔ اگر ہم فی کس کی بنیاد پر بات کریں، پھر بھی ترقی یافتہ ممالک نے ہندوستان سے 15 گنا زیادہ اخراج کیا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کا مطلق مجموعی اخراج ہندوستان کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہے۔ اس میں بھی فی کس بنیاد پر امریکہ اور یورپی یونین نے ہندوستان کے مقابلے 20 گنا زیادہ اخراج کیا ہے۔ اس کے باوجود آج ہمیں ہندوستان پر فخر ہے جس کی تہذیب و ثقافت میں ہی فطرت کے ساتھ رہنے کا رجحان ہے جہاں پتھروں میں، درختوں میں اور فطرت کے ہر ذرے میں خدا نظر آتا ہے، جہاں اس کی شکل نظر آتی ہے، جہاں دھرتی کی ایک ماں کے طور پر پوجا کی جاتی ہے، اس ہندوستان کو ماحولیاتی تحفظ کے پیغام سنائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے لیے یہ اقدار صرف کتابی نہیں، کتابی چیزیں نہیں ہیں۔ آج ہندوستان میں  شیروں، ببروں، ڈالفنوں وغیرہ کی تعداد، اور حیاتیاتی تنوع کی کئی اقسام کے پیرامیٹر میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ ہندوستان میں جنگلات کا رقبہ بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان میں غیر استعمال شدہ زمین بہتر ہو رہی ہے۔ ہم نے رضاکارانہ طور پر گاڑیوں کے ایندھن کے معیار میں اضافہ کیا ہے۔ ہم ہر قسم کی قابل تجدید توانائی میں دنیا کے سرکردہ ممالک میں سے ایک ہیں۔ اور پیرس معاہدے کے اہداف کے حصول کے ابتدائی مراحل میں اگر کوئی ہے تو صرف ہندوستان ہی ہے۔ جی 20 ممالک کے گروپ میں بہتر سے بہتر کام کرنے والا کوئی ملک ہے ، تو دنیا نے تسلیم کیا ہےکہ وہ ہندوستان ہے اور پھر بھی ماحول کے نام پر ایسے ہندوستان پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں۔ یہ سب نوآبادیاتی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسی ہی ذہنیت کی وجہ سے اپنے ہی ملک کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ کبھی آزادی اظہار کے نام پر اور کبھی کسی اور چیز کی مدد سے۔ ہمارے ملک کے حالات، ہمارے نوجوانوں کی خواہشات، خوابوں کو جانے بغیر، کئی بار ہندوستان کو دوسرے ممالک کے معیار پر تولنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی آڑ میں ترقی کے راستے بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نقصان ایسے لوگوں کو بھگتنا نہیں پڑتا جو یہ کرتے ہیں۔ اس کا نقصان اس ماں کو بھگتنا پڑتا ہے جس کا بچہ پاور پلانٹ نہ لگنے کی وجہ سے پڑھنے سے قاصر ہے۔ اس کا نقصان اس باپ کو بھگتنا پڑتا ہے جو زیر التواء سڑک منصوبے سے اپنے بچے کو بروقت اسپتال نہیں لے جا پاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ اس متوسط ​​طبقے کے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے جس سے ماحولیات کے نام پر جدید زندگی کی سہولیات اس کی استطاعت سے باہر پہنچا دی  گئی ہیں۔ اسی نوآبادیاتی ذہنیت کی وجہ سے ہندوستان جیسے ملک میں ترقی کے لیے کوشاں ملک میں کروڑوں امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، امنگیں دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ نوآبادیاتی ذہنیت تحریک آزادی میں پیدا ہونے والی قوت ارادی کو مزید مضبوط کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اسے دور کرنا ہی ہوگا۔ اور اس کے لیے، ہماری سب سے بڑی طاقت، ہماری سب سے بڑی تحریک، ہمارا آئین ہے۔

معززین،
حکومت اور عدلیہ دونوں نے آئین کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ لہذا، دونوں ہی جڑواں ہیں. یہ دونوں آئین کی وجہ سے  ہی وجود میں آئے ہیں۔ اس لیے، وسیع تر نقطہ نظر سے دیکھیں تو مختلف ہونے کے باوجود بھی  دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

ہمارےیہاں شاستروں میں بھی کہا گیا ہے-

ایکیم بلم سماجسیہ، تت ابھاوے سے دُربل

تسمات ایکیم پرشنسنتی ، دیڑھم راشٹر ہیتوشم:

یعنی کسی معاشرے اور ملک کی مضبوطی اس کے اتحاد اور متحدہ کوششوں میں ہوتی  ہے۔ اس لیے جو لوگ ایک مضبوط قوم کے خیر خواہ ہیں، وہ اتحاد کی ستائش کرتے ہیں، اس پر زور دیتے ہیں۔ ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے یہی اتحاد ملک کے ہر ادارے کی کوششوں میں ہونا چاہیے۔ آج جب ملک امرت کال میں اپنے لیے غیر معمولی اہداف کا تعین کر رہا ہے، دہائیوں پرانے مسائل کا حل تلاش کر رہا ہے اور نئے مستقبل کا عزم کر رہا ہے، تو یہ کارنامہ سب کے ساتھ ہی پورا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک نے آنے والے 25 سالوں میں جب ملک آزادی کی 25ویں صدی کا جشن منائے گا اور اسی لیے 'سب کا پریاس' کی اپیل کی ہے۔ یقیناً اس اپیل میں عدلیہ کا بھی بڑا کردار ہے۔

معززین،

ہماری بحث میں ایک بات بھولے بغیر لگاتار سننے کو ملتی ہے، اسے بار بار دہرایا جاتا ہے یعنی اقتدار کی علیحدگی۔ اقتدار کی علیحدگی کا معاملہ چاہے وہ عدلیہ کا ہو، عاملہ کا یا مقننہ کا، اپنے آپ میں بہت اہم رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آزادی کے اس امرت کال میں، ہندوستان کی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے تک، اس امرت کال میں آئین کی روح کے مطابق اجتماعی عزم کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ملک کا عام آدمی اس سے زیادہ کا مستحق ہے جو اس کے پاس ہے۔ جب ہم ملک کی آزادی کا صد سالہ جشن منائیں گے تو اس وقت کا ہندوستان کیسا ہوگا، اس کے لیے ہمیں آج ہی کام کرنا ہے۔ اس لیے ملک کی امنگوں کی تکمیل کے لیے اجتماعی ذمہ داری کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔ اقتدار کی علیحدگی کی مضبوط بنیاد پر ہمیں اجتماعی ذمہ داری کا راستہ طے کرنا ہے، لائحہ عمل تیار کرنا ہے ، اہداف کا تعین کرنا ہے اور ملک کو منزل تک پہنچانا ہے۔

معزز،
کورونا کے دور نے انصاف کی فراہمی میں ٹیکنالوجی کے استعمال نے نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کے میگا مشن میں عدلیہ شامل ہے۔ 18 ہزار سے زائد عدالتوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا جانا ، 98 فیصد کورٹ کمپلیکس کا وسیع ایریا نیٹ ورک سے منسلک کیا جانا ، جوڈیشل ڈیٹا کی حقیقی وقت میں ترسیل کے لیے نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ کو فعال کیا جانا ، ای کورٹ پلیٹ فارم لاکھوں لوگوں تک پہنچنا، یہ بتاتا ہے کہ آج ٹکنالوجی ہمارے ہمارے نظام انصاف کی اتنی بڑی طاقت بن چکی ہے اور آنے والے وقت میں ہم ایک جدید ترین عدلیہ کو کام کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ وقت بدلتا رہتا ہے، دنیا بدلتی رہتی ہے، لیکن یہ تبدیلیاں انسانیت کے ارتقاء کا ذریعہ بنی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانیت نے ان تبدیلیوں کو قبول کیا، اور ساتھ ہی انسانی اقدار کو برقرار رکھا۔ انصاف کا تصور ان انسانی اقدار میں سب سے زیادہ بہتر تصور ہے۔ اور، آئین انصاف کے اس تصور کا سب سے جدید ترین نظام ہے۔ اس نظام کو متحرک اور ترقی پذیر رکھنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔ ہم سب ان کرداروں کو پوری لگن کے ساتھ نبھائیں گے، اور آزادی کے سو سال سے پہلے ایک نئے ہندوستان کا خواب پورا ہو  گا۔ ہم مسلسل  ان باتوں سے متاثر ہیں، جن  باتوں پر ہمیں فخر ہے اور وہ منتر ہمارے لیے ہے – سنگچدھوں ، سموددھوں، سم وہ منانسی جتنم۔ ہمارے مقاصد یکساں ہوں ، ہمارے ذہن یکساں ہوں اور ہم مل کر ان مقاصد کو حاصل کریں۔ میں اسی جذبے کے ساتھ آج یوم آئین کے اس مقدس ماحول میں آپ سب کو اور اہل وطن کو نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔

بہت بہت شکریہ!  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

U-13343

 



(Release ID: 1775563) Visitor Counter : 251