وزارت اطلاعات ونشریات

کہانیاں ایسی ہونی چاہئیں جن سے ناظرین کو تحریک ملے، ایک اچھی کہانی  زندگی کے معمے اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ہی ہوتی ہے: افی 52 ماسٹر کلاس میں معروف اسکرین رائٹر سیب جان ایڈاتھٹّل


کہانیاں  لائنیر ہوتی ہیں، اسکرین پلے  نان لائنیر ہوسکتے ہیں؛ اسکرین پلے اسکرین پر  ایک آڈیو ویژول کہانی سنانے کے لئے محض ایک ڈیزائن ہوتا ہے؛ ایڈا تھٹّل

Posted On: 26 NOV 2021 12:41PM by PIB Delhi

اچھی کہانیاں  وہ ہوتی ہیں جو ہمیں تحریک دیتی ہیں۔ ماسٹر اسکرین رائٹر  سیب جان ایڈا تھٹّل کا کہنا ہے کہ کہانیاں  ناظرین کو تحریک دینے والی ہی ہونی چاہئیں۔  انہوں نے کہا ’’ کہانی اس وقت تک دلچسپ نہیں ہوتی جب تک کہ وہ  ایسی بات کہے جو ہم پسند کرتے ہیں اور اسے باآسانی سمجھ لیتے ہیں۔ یہ  کرداروں کے سفر کے بارے میں اور ان کی جدو جہد کے بارے میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر  اگر کہانی  اس طرح چلتی ہے کہ  ’میں  ایک گلاب سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے میں نے ایک گلاب سے شادی کرلی‘۔ کیا یہ دلچسپ ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ اس لئے کہانی زندگی کے معمے اور اس کے مختلف بحرانوں کے بارے میں ہی  ہوتی ہے‘‘۔ایڈا تھٹّل گزشتہ روز 25 نومبر 2021 کو  اسکرین رائٹنگ سے متعلق ایک ماسٹر کلاس سے خطاب کررہے تھے، جس کا انعقاد  20 سے 28 نومبر 2021 تک  گوا میں چلنے والے  انٹرنیشنل فلم فیسٹول آف انڈیا کے 52 ویں ایڈیشن کے دوران کیا گیا۔ماسٹر کلاس میں  گوا میں  افی کے نمائندوں  نے ذاتی طور پر  بھی شرکت کی اور  https://virtual.iffigoa.org/ پر فیسٹول کے ورچوئل پلیٹ فارم پر  دیکھنے والے  ورچوئل نمائندوں نے آن لائن بھی شرکت کی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/1-1N1TW.jpg

 

چانکین اور گونا جیسی فلموں میں اپنے کام کے لئے معروف  ایڈا تھٹل جنوبی ہند کے  ممتاز اسکرین پلے رائٹر ہیں۔ افی میں انہوں نے  نوجوان اور  خواہش مند  فلم سازوں سے خطاب کیا اور  کہانی سنانے کے فن کے بارے میں  انہیں بہت سے  گُر سکھائے اور  آئیڈیاز سے واقف کرایا۔

انہوں نے  کہانی سنانے کے عمل کے بارے میں  اپنے گہرے مشاہدات  سے واقف کرایا اور  بتایا کہ  اس سے ناظرین  کو باندھے رکھنے میں کس طرح مدد ملتی ہے۔ انہوں نے کہا ’’جب آپ ایک کہانی کے کرداروں  کو لکھتے ہیں تو ان سے تعلق اور تجسس کرداروں میں دلچسپی پیدا کرتا ہے اور  ناظرین کو باندھ لیتا ہے۔ناظرین  رائٹرس کے  کرم فرما ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی  آپ کو بھی ایسی تخلیق کرنی ہوتی ہے جو ان کو  قائل کرسکے‘‘۔

انہوں نے بتایا کہ  ماضی کی یادیں بھی کرداروں کے فروغ کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ’’ہم سبھی سامان لیکر چلتے ہیں۔ اس سے  ہمارے کرداروں کی تشکیل ہوتی ہے۔ ایک اچھی کہانی سنانے کےلئے  ماضی کی ایک اچھی یاد داشت کی تخلیق ضروری ہے‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/1-2LZ16.jpg

 

ایڈا تھٹل کے مطابق  کہانی صرف اسی وقت دیکھی جاسکتی ہے جب ہم  جذباتی طور پر  متحرک ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’جب ہم  کہانی لکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمارا ذہن  ایک خالی صفحے کی طرح ہوتا ہے۔ مسئلہ اس خیال تک پہنچنے کا ہوتا ہے جو ہمیں لکھنا ہے۔ جب ہم جذباتی طور پر  متحرک ہوتے ہیں تو ہم  ایک کہانی لکھ سکتے ہیں اور آخر کار  وہ جذبات  ناظرین کو متاثر کرتے ہیں۔ کہانیوں کی قدر کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ وہ  ناظرین کو  کس طرح   متاثر کرتی ہیں۔ یہ قدر مثبت اور منفی دونوں ہوسکتی ہیں‘‘۔

اس کے لئے  کوئی قانون نہیں ہے، محض اصول ہیں۔ لیکن  ہدایت کاری بھی اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا  ’’کہانی لکھتے وقت  ذہن میں  ہدایت کاری ہونی چاہیے ۔ ہدایت کاری کے بغیر  اکثر یہ ایک  بیکار کوشش ہوتی ہے‘‘۔

انہوں نے  فلمی نمائندوں سے کہا کہ  کہانی لکھنے کا تعلق  محض اچھی زبان سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’’بہت سے  رائٹرز کا خیال ہے کہ  اگر زبان پر آپ  کی اچھی گرفت ہے تو آپ آسانی سے کہانی لکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں کہانی کے علم کی ضرورت پڑتی ہے۔کہانی میں کئی عناصر ہوتے ہیں۔ مثلاً کہانی ، کرداروں  کی مشابہت اور ایک موثر ڈھانچہ‘‘۔

ایڈا تھٹل نے بتایا کہ ’’  اگر آپ زندگی سے فرار کی کوشش کررہے ہیں تو آپ کہانی سے کیسے جڑ جاتے ہیں؟  ہم  کہانیوں کو زندگیوں سے جوڑتے ہیں۔ جب ہم زندگی میں آگے بڑھتے ہیں تو   اس کے بارے میں ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی کہانیوں کے بارے میں نہیں جانتے لیکن جب کوئی کہانی سناتا ہے تو ہم  اس کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم کہانیوں سے تعلق قائم کرتے ہیں‘‘۔

ایڈا تھٹل نے بتایا کہ  کس بنیادی وجہ سے  کہانی اسکرین پلے سے  مختلف ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم مانتے ہیں کہ جب ہم  کچھ سناتے اور لکھتے ہیں تو وہ  کہانی ہوتی ہے لیکن اسکرین پلے کہانیاں نہیں ہوتے۔ اسکرین پلے اسکرین پر  ایک آڈیو ویژول کہانی سنانے کے لئے محض ایک ڈیزائن ہوتا ہے۔ کہانی اور اسکرین پلے میں یہی ایک بنیادی فرق ہے‘‘۔

کہانیاں  لائنیر ہوتی ہیں لیکن اسکرین پلے مختلف  ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’تمام کہانیاں فطری طور پر  لائنیر ہوتی ہیں کیونکہ زندگی بھی لائنیر ہوتی ہے۔ہم  شادی یا موت سے اپنی اپنی زندگی شروع نہیں کرسکتے۔اس لئے  ہماری سنائی یا لکھی ہوئی کہانیوں میں  ایک شروعات ہوتی ہے، ایک درمیان کا حصہ ہوتا ہے اور ایک ایک اختتام۔ لیکن جب ہم اسکرین پلے لکھتے ہیں تو  اس کے لئے نان لائنیر ڈھانچہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ کلاسیکل اسکرین پلے ایک فرسودہ خیال ہے لیکن یہی  اسکرین پلے کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور سب سے کامیاب  پیرایہ ہے‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ا گ۔ن ا۔

U-13324

                          



(Release ID: 1775356) Visitor Counter : 297