صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

ڈاکٹر بھارتی پوار کا، تجدید شدہ ٹی بی رسپانس کے لئے ڈبلیو ایچ او  سیئر اعلیٰ سطحی میٹنگ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب


’’نمایاں پیش رفت کے باوجود، مجموعی طور  سے  خطے میں، ٹی بی کے خاتمے کی حکمت عملی کے 2020  کے سنگ میل حاصل نہیں ہو سکے اور  اگر  فوری  اصلاحی اقدامات نہ کئے گئے تو 2022 کے احاطہ کرنے والے اہداف  بھی حاصل نہیں ہو سکیں گے‘‘

’’خطے کو احتیاطی ، تشخیصی  اور  علاج معالجے کی خدمات کو  بہتر بنانے کی ضرورت ہے، نیز  ٹی بی سے متاثر ہونے والی آبادی کے مابین  تغذیہ  کی کمی  پر توجہ مرکوز کرنے سمیت  سماجی تحفظ کے اقدامات کو نمایاں طور پر مستحکم کرنے کی بھی ضرورت ہے‘‘

’’نئی تشخیص،  ویکسین اور ادویہ  کی تیاری  کو تیز کرنے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کرنے، مصنوعی انٹلیجنس اور دیگر  اختراعات کو تیز  کرنے کی ضرورت ہے تاکہ  ٹی بی رسپانس میں پیش رفت کی جاسکے‘‘

Posted On: 26 OCT 2021 12:02PM by PIB Delhi

 

صحت اور خاندانی بہبود کی مرکزی وزیر مملکت  ڈاکٹر  بھارتی  پروین پوار نے تجدید شدہ ٹی بی رسپانس کے لئے ڈبلیو ایچ او  سیئر اعلیٰ سطحی میٹنگ کے افتتاحی اجلاس سے آج خطاب  کیا۔


https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0027JRK.jpg

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر مملکت نے  اس حقیقت پر زور دیا کہ  جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں تمام 6  خطوں میں  ٹی بی کی بیماری کا سب سے زیادہ بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ صدیوں سے  اموات کا  بڑا  وسیلہ رہا ہے اور ایک  چھوت والی بیماری سے  اموات کا  دنیا کی  سب سے بڑی وجہ کے طور پر  ایچ آئی وی  / ایڈس کو  پار کر گیا ہے۔ یہ  اموات ،اکثر  اقتصادی طور پر  15  سے 45  سال کے  پیداواری عمر کے گروپ  میں  نوجوان بالغوں کے مابین ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں وسیع  اقتصادی  اور  سماجی  نتائج کا  سامنا  کرنا پڑتا ہے۔ زندگیوں،  پیسے  اور  ختم ہونے والے کام کے  دنوں کے ضمن میں  اکیلی  ٹی بی کا اقتصادی بوجھ  انتہائی  زیادہ ہے‘‘۔

ٹی بی پر کووڈ – 19  کے اثر کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’دنیا  نے  2020  میں کووڈ – 19  وبا کو ابھرتے ہوئے دیکھا، جس میں  انسانی  زندگیوں، معیشتوں اور  صحت کے نظاموں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ صرف  چند ماہ میں ہی اس وبا نے  ٹی بی کے خلاف  کی گئی  سالوں کی پیش رفت کو  پس پشت  ڈال دیا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ البتہ  اس وبا نے ہمیں  بہت سے سبق  بھی دیئے ہیں، جو ٹی بی کے خاتمے کے لئے ہماری کوششوں  میں مدد گار ثابت ہوں گے۔


https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0036T4O.jpg

 

انہوں نے  اُس حوصلہ افزائی کرنے والے سیاسی عہد کو بھی اجاگر کیا ، جس  نے  ٹی بی پروگراموں کے لئے اندرون ملک وسائل کو مختص کرنے میں اضافہ کردیا ہے، جو کہ خاص طور پر ہندوستان اور انڈونیشیا میں سامنے آیا اور جس نے اندرون ملک وسائل سے  2020 کے بجٹ میں 43  فیصد  حصہ مختص کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹی بی کے معاملات  کی خبروں میں 20  سے 40  فیصد کی تخفیف  ہوئی ہے اور خاص طور پر   زیادہ تعداد میں معاملات سامنے آنے سے متعلق پیش رسائی  کی سرگرمیاں، احتیاطی  علاج  اور  نفسیاتی وسماجی معاونت  میں خلل پڑا  ہے۔ مارچ 2017  میں ’’عمل کے لئے صدا‘‘ کے باعث ، ٹی بی کے خاتمے کے تئیں جنوب مشرقی ایشیائی  علاقائی رکن ممالک کے اندر  تجدید شدہ  ٹی بی کی حکمت عملیوں کا نفاذ  کیا جاسکا ہے۔ اس کا اعادہ  مارچ 2018  میں دہلی میں  ٹی بی  کے خاتمے  کی  سربراہ کانفرنس میں کیا گیا تھا، جو کہ  ستمبر  2018  میں اقوام متحدہ کی  اعلیٰ سطحی میٹنگ  (یو این ایچ ایل ایم) کا ایک سلسلہ تھا۔‘‘

مرکزی وزیر مملکت نے  اس حقیقت پر خدشات کا اظہار بھی کیا کہ نمایاں پیش رفت کے باوجود ، مجموعی طور پر خطہ  ٹی بی کے خاتمے کی حکمت عملی کے 2020  کے  سنگ میل حاصل نہیں کر سکا اور اگر  فوری اصلاحی اقدامات نہ کئے گئے تو یہ خطہ  2022   کے احاطہ کرنے والے اہداف  بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے واضح کہا  ’’2023 کے لئے  ہونے والی اقوام متحدہ کی اگلی  اعلیٰ سطحی میٹنگ کے ساتھ ، پیش رفت کا جائزہ لینے  اور ہمارے  جواب کو اسی کے مطابق از سر نو  تشکیل دینے کی فوری ضرورت ہے۔ خطے کو  احتیاطی   تشخیصی  اور  علاج معالجہ کی خدمات کو  بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور  ٹی بی سے زیادہ متاثر  آبادیوں میں  تغذیہ کی کمی پر توجہ مرکوز کرنے سمیت  سماجی  تحفظاتی اقدام کو نمایاں طور پر مستحکم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں  سنجیدگی  اور دور اندیشی کے ساتھ نئی  رسائیاں اپنانی چاہئے اور  متناسب وسائل کے ذریعہ معاونت والے عہد کو مستحکم کرنا چاہئے۔ ہمیں  نئی تشخیصات  ویکسین اور  ادویہ  کی تیاری کو تیز کرنے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، مصنوعی انٹلیجنس اور  دیگر اختراعات کو  استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ  ٹی بی رسپانس میں  اچھی پیش رفت کی جاسکے‘‘۔

اختتامی کلمات میں  انہوں نے  سب سے اپیل کی کہ وہ    اپنے استحکام کو مستحکم کریں اور  یکجا ہو کر  سیاسی عزم  اور وسائل کو  متحرک کریں تاکہ ٹی بی کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کئے جاسکیں۔

عالمی صحت تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر  ٹیڈروس ادھانوم گیبرییسس،  سیئرو ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر  ڈاکٹرسمن رجال، ڈبلیو ایچ او سیئر و کی  علائی ڈائریکٹر پونم کھیتر پال سنگھ بھی  اس میٹنگ میں موجود تھیں۔

 

۰۰۰۰۰۰۰۰

(ش ح- اع- ق ر)

U-12208



(Release ID: 1766560) Visitor Counter : 165