وزیراعظم کا دفتر

من کی بات کی 81 ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن (26.09.2021)

Posted On: 26 SEP 2021 11:43AM by PIB Delhi

نئی دہلی۔ 26  ستمبر        میرے پیارے ہم وطنو! آپ جانتے ہیں کہ مجھے ایک اہم پروگرام کے لیے امریکہ جانا  پڑ رہا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ  امریکہ جانے سے پہلے 'من کی بات' ریکارڈ کردوں ۔ ستمبر میں جس دن  'من کی بات' ہے اسی تاریخ کو ایک اور اہم دن ہوتا ہے۔ ویسے  تو ہم لوگ بہت سارے دن یاد رکحتے ہیں ، مختلف قسم کے دن مناتے بھی ہیں ، اور اگر اپنے گھر میں جوان بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، اگر ان سے پوچھیں گے تو سال بھر کے کون سے دن کب آتے ہیں ، آپ کو مکمل فہرست بتادیں گے ، لیکن ایک اور دن ایسا ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ دن ایسا ہے جو ہندوستان کی روایات کے عین مطابق ہے۔ صدیوں سے جن روایات سے ہم وابستہ ہیں ان سے جوڑنے والا ہے ۔ یہ ہے 'ورلڈ ریور ڈے' ہے یعنی 'ندیوں کا عالمی دن '۔

ہمارے یہاں کہا گیا ہے

"پبنتی ندیہ ، سوے – میو نامبہ:

یعنی ندیاں اپنا پانی خود نہیں پیتیں ، بلکہ عطیہ دیتی ہیں۔ ہمارے لیے ندیاں ایک طبعی شئے نہیں  ہے، ہمارے لیے ندی ایک زندہ اکائی ہے اور اسی لیے ہم ندیوں کو ماں کہتے ہیں۔ خواہ ہمارے کتنے ہی تہوار ہوں ، جشن ہو، امنگ ہو، یہ سب ہماری ماؤں کی گود میں ہی ہوتے ہیں۔

آپ سب جانتے ہیں کہ جب ماگھ کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے ملک میں بہت سے لوگ پورا  ایک مہینہ ماں  گنگا یا کسی اورندی کے کنارے کلپ واس کرتے ہیں۔ اب تو یہ روایت نہیں رہی ، لیکن پہلے زمانے میں ایک روایت تھی کہ اگر ہم گھر میں نہاتے ہیں تو ندیوں کو یاد رکھنے کی روایت آج بھلے ہی ختم ہو گئی ہو یا بہت کم  رہ گئی ہو لیکن ایک بہت بڑی روایت تھی جو صبح سویرے ہی غسل کرتے وقت ہی وسیع ہندوستان کا سفر کرا دیتی تھی ، ذہنی سفر! ملک کے کونے کونے سے جڑنے کے لیے ایک ترغیب بن جاتی تھی۔ اور وہ کیا تھا ، ہندوستان میں غسل کرتے وقت ایک  شلوک پڑھنے کی روایت رہی ہے-

گنگے چا جمنا چیو گوداوری سرسوتی۔

نرمدے سندھو کاویری جلے اسمن سنیدھم کورو

پہلے ہمارے گھروں میں خاندان کے بزرگ اس شلوک کو بچوں کے لیے یاد کرواتے تھے اور اس سے ہمارے ملک میں  نیدیوں کے تئیں یقین بھی پیدا ہوتا تھا۔ وسیع و عریض ہندوستان کا ایک نقشہ ذہن میں نقش ہوجاتا تھا۔ ندیوں سے ربط قائم ہوتاتھا۔ جس ندی کو ماں کے طور پر ہم جانتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، جیتے ہیں  اس ندی کے تئیں ایک یقین کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک سنسکار کا  عمل تھا۔

دوستو ، جب ہم اپنے ملک میں ندیوں کی شان کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو قدرتی طور پر ہر کوئی ایک سوال اٹھائے گا اور سوال اٹھانے کا حق بھی ہے اور اس کا جواب دینا ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ کوئی بھی سوال پوچھے گا کہ بھائی آپ ندی کے اتنے گیت گا رہے ہیں ، ندی کو ماں کہہ رہے ہیں ، تو یہ ندی آلودہ کیوں ہوجاتی ہے؟ ہمارے شاستروں میں تو ندیوں کو تھوڑا سا آلودہ کرنا بھی غلط کہا گیا ہے۔ اور ہماری روایات بھی اس طرح رہی ہیں ، آپ  تو جانتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان کا مغربی حصہ خصوصا گجرات اور راجستھان ، وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔ کبھی کبھی قحط پڑتا ہے۔ اب اس لیے وہاں کی معاشرتی زندگی میں ایک نئی روایت پروان چڑھی ہے۔ جیسے گجرات میں بارش کی  شروعات  ہوتی ہے تو گجرات میں جل– جیلانی اکادشی مناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں ، جسے ہم 'کیچ دی رین' کہتے ہیں ،وہ  وہی بات ہے جو پانی کے ایک ایک بوند کو خود میں سمیٹنا، جل – جیلانی ۔ اسی طرح سے بارش کے بعد بہار اور مشرقی حصوں میں چھٹ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ چھٹ پوجا کو دیکھتے ہوئے ندیوں کے کنارے ، گھاٹوں کی صفائی اور مرمت کی تیاری شروع کر دی گئی ہوگی۔ ہم ندیوں کی صفائی اور انہیں آلودگی سے پاک کرنے کا کام سب کی کوشش اور سب کے تعاون سے ہی کر سکتے ہیں۔ 'نمامی گنگے مشن' بھی آج  آگے بڑھ رہا ہے ، لہذا تمام لوگوں کی کوشش ، ایک طرح سے ، عوامی بیداری ، عوامی تحریک،  اس کا بہت بڑا کردار ہے۔

دوستو ، جب ندی کی بات ہو رہی ہے ، ماں گنگا کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور بات کی جانب بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ بات جب 'نمامی گنگے' کی ہو رہی ہے تو آپ کا دھیان ایک بات کی طرف ضرور گئی ہوگی  اور ہمارے نوجوانوں کا دھیان تو یقینا گیا ہوگا۔  آج کل ایک خاص ای - آکشن ، ای نیلامی جاری ہے۔ یہ الیکٹرانک نیلامی ان تحائف کے لیے منعقد کی جا رہی ہیں جو لوگوں نے مجھے وقتا فوقتا دیے ہیں۔ اس نیلامی سے جو رقم آئے گی وہ 'نمامی گنگے' مہم کے لیے وقف ہے۔ آپ جس اپنائیت کے جذبے سے مجھے تحفے دیتے ہیں، اسی جذبے کو یہ مہم اور مضبوط کرتی ہے۔

دوستو ، ملک بھر میں ندیوں کو از سرنو  زندہ کرنے کے لیے ، پانی کی صفائی کے لیے حکومت اور سماجی تنظیمیں مسلسل کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ آج سے نہیں ، یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکے ہیں۔ اورہندوستان کے کسی بھی گوشے سے جب ایسی خبریں میں سنتا ہوں تو ایسا کام کرنے والوں کے تئیں نہایت احترام کا جذبہ میرے دل میں بیدار ہوتا اور میرا بھی دل کرتا ہے کہ وہ باتیں آپ کو بتاؤں۔ آپ دیکھئے تمل ناڈو کے ویلور اور ترووناملائی اضلاع کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ یہاں ایک ندی بہتی ہے ، ناگاندھی۔ اب یہ ناگاندھی برسوں پہلے خشک ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے ، وہاں پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی تھی۔ لیکن ، وہاں کی خواتین نے اپنی ندی کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایاکہ وہ اپنی ندی کو دوبارہ زندگی کریں گی۔ پھر کیا تھا ، انہوں نے لوگوں کو جوڑا ، عوامی شراکت سے نہریں کھودیں ، چیک ڈیم بنائے ، ریچارج کنویں بنائے۔ دوستو ، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج وہ ندی پانی سے بھر گئی ہے۔ اور جب ندی پانی سے بھر جاتی ہے ، تودل میں بہت سکون محسوس کرتا ہے ، میں نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔

آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ جس سابرمتی ندی کے کنارے مہاتما گاندھی نے سابرمتی آشرم بنایا تھا وہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ سابرمتی ندی خشک ہوچکی تھی۔ ایک سال میں چھ سے آٹھ مہینے تک پانی نظر نہیں آتا تھا ، لیکن نرمدا ندی اور سابرمتی ندی کو جوڑ دیا ، لہذا اگر آپ آج احمد آباد جائیں گے تو سابرمتی ندی کا پانی ذہن کو شاداب  کردیتا ہے۔ اسی طرح بہت سے کام جیسے تمل ناڈو کی ہماری یہ بہنیں کر رہی ہیں ، ملک کے مختلف گوشوں میں چل رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری مذہبی روایت وابستہ سے کئی سنت ، گرو ہیں ، وہ اپنے روحانی سفر کے ساتھ ساتھ پانی کے لیے ندی کے لیے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں ، بہت سے لوگ ندیؤں کے کنارے شجر کاری مہم چلا رہے ہیں۔ تو کہیں ندیوں میں بہنے والا گندا پانی روکا جا رہا ہے۔

دوستو ، جب ہم آج 'ورلڈ ریور ڈے' منا رہے ہیں ، میں اس کام کے لیے وقف ہر ایک کی ستائش کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن ہر ندی کے قریب رہنے والے لوگوں سے ، اہل وطن سے اپیل کروں گا کہ ہندوستان کےگوشے گوشے میں سال میں ایک بار تو ندی کا تہوار منانا ہی چاہیے۔

میرے پیارے ہم وطنو ، کبھی بھی چھوٹی بات کو چھوٹی چیز کو چھوٹی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں بعض اوقات بڑی بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں اور اگر مہاتما گاندھی کی زندگی پر ہم نظر ڈالیں تو ہم ہر لمحہ محسوس کریں گے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی ان کی زندگی میں کتنی اہمیت تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بڑے بڑے عزائم کو کیسے انہوں نے سچ کر دکھایا تھا۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح صفائی مہم نے تحریک آزادی کو ایک مستقل توانائی دی تھی۔ یہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے صفائی کو ایک عوامی تحریک بنانے کا کام کیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے صفائی کو آزادی کے خواب سے جوڑ دیا  تھا۔ آج ، کئی دہائیوں کے بعد ، صفائی کی تحریک نے ایک بار پھر ملک کو ایک نئے ہندوستان کے خواب سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اور یہ ہماری عادات کو بدلنے کی بھی مہم بن رہی ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صفائی صرف ایک پروگرام ہے۔ صفائی نسل در نسل سنسکار منتقلی کی ذمہ داری ہے اور جب صفائی کی مہم نسل در نسل چلتی ہے تو پھر پورا معاشرہ زندگی میں صفائی کی فطرت بن جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ سال دو سال ، ایک حکومت سےدوسری حکومت  تک کے لیےایسا موضوع نہیں ہے ، نسل در نسل ، ہمیں صفائی کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ، بغیر تھکے ، بغیر رکے بڑی عقیدت کے ساتھ مسلسل جڑے رہنا ہے اور صفائی کی مہم کو جاری رکھنا ہے۔ اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ صفائی مہم قابل پرستش باپو کو اس ملک کا ایک بڑا خراج تحسین ہے اور یہ خراج تحسین ہمیں ہر بار پیش کرتے رہنا ہے ، اسے مسلسل  کرتے رہنا ہے۔

دوستو ، لوگ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی صفائی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتا  ہوں اور شاید اسی لیے ہمارے ایک 'من کی بات' سننے والے جناب رمیش پٹیل جی نے لکھا ہے ، ہمیں باپو سے سیکھتے ہوئے اس آزادی کے "امرت مہوتسو" میں معاشی صفائی کا بھی عہد لینا چاہیے۔ جس طرح بیت الخلاء کی تعمیر نے غریبوں کے وقار میں اضافہ کیا ، اسی طرح معاشی صفائی ستھرائی غریبوں کے حقوق کو یقینی بناتی ہے ، ان کی زندگی آسان بناتی ہے۔ اب آپ جانتے ہیں کہ جن دھن کھاتوں کے حوالے سے ملک نے ایک  مہم شروع کی ۔ اس کی وجہ سے ، آج غریبوں کو ان کے واجب الادا پیسے براہ راست ان کے کھاتے میں مل رہے ہیں ، جس کی وجہ سے آج بدعنوانی جیسی رکاوٹوں میں  بہت حد تک کمی آ گئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ معاشی صفائی میں ٹیکنالوجی بہت مدد کر سکتی ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج گاؤں دیہات میں بھی فن ٹیک یو پی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کرنے کی سمت میں عام انسان بھی شامل ہو رہے ہیں ، اس کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ میں آپ کو ایک  اعداد و شمار بتاتا ہوں، آپ کو فخر ہوگا ، گزشتہ اگست کے مہینے میں یو پی آئی کے ذریعہ ایک ماہ میں 355 کروڑ ٹرانزیکشن ہوئے ، یعنی تقریبا 350 کروڑ سے زائد ٹرانزیکشنز ، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں 350 کروڑ سے زائد مرتبہ ڈیجیٹل لین دین کے لیے یو پی آئی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آج ، اوسطا 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیجیٹل ادائیگی یو پی آئی کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت میں شفافیت آ رہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اب فن ٹیک کی اہمیت بہت بڑھ رہی ہے۔

دوستو ، جس طرح باپو نے صفائی کو آزادی سے جوڑا تھا ، اسی طرح کھادی کو آزادی کی پہچان بنا دیا گیاتھا۔ آج  آزادی کے 75 ویں سال میں ، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں ، آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی تحریک میں جو وقار کھادی نے حاصل کیا تھا ، آج ہماری نوجوان نسل کھادی کو وہ شان دے رہی ہے۔ آج کھادی اور ہینڈلوم کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب دہلی کے کھادی شوروم نے ایک دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ 2 اکتوبر کو قابل پرستش باپو کی سالگرہ پر  ہم سب ایک بار پھر ایک نیا ریکارڈ بنائیں۔ آپ اپنے شہر میں جہاں بھی کھادی ، ہینڈلوم ، ہینڈ کرافٹ بکتا ہو اور دیوالی کا تہوار سامنے ہے ، تہواروں کے موسم کے لیے کھادی ، ہینڈلوم ، کاٹیج انڈسٹری سے متعلق آپ کی ہر خریداری 'ووکل فار لوکل ' اس مہم کو مضبوط بنانے کے لیے ہو، پرانے سارے ریکارڈ توڑنے والی ہو۔

دوستو ، امرت مہوتسو کے اس دور میں ملک میں آزادی کی تاریخ کی ان کہی کہانیوں کو عوام تک پہنچانے کی ایک مہم بھی چل رہی ہے اور اس کے لیے ابھرتے ہوئے مصنفوں کو ، ملک اور دنیا کے نوجوانوں سے اپیل کی گئی تھی۔ اب تک 13 ہزار سے زائد افراد نے اس مہم کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے اور وہ بھی 14 مختلف زبانوں میں۔ اور میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ 20 سے زائد ممالک میں کئی غیر مقیم ہندوستانیوں نے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ایک اور بہت دلچسپ جانکاری ہے ، تقریبا 5000 سے زائد نئے ابھرتے ہوئے مصنفین جنگ آزادی کی کہانیاں تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے، جو غیر معروف ہیرو ہیں، جو گمنام ہیں تاریخ کے صفحات میں جن کے نام نظر نہیں آتے، ایسے غیر معروف جانباز وں پر ، موضوع پر ان کی زندگی پر ، ان کے واقعات پر کچھ لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے ، یعنی ملک کے نوجوانوں نے تہیہ کر لیا ہے، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو بھی ملک کے سامنے لائیں گے ، جن کا گزشتہ 75 سالوں میں کوئی ذکر تک نہیں ہواہے۔ تمام سننے والوں سے میری گزارش ہے کہ تعلیم کی دنیا سے وابستہ ہر ایک سے میری درخواست ہے۔ آپ بھی نوجوانوں کو ترغیب دیں ۔ آپ بھی آگے آئیں اور مجھے پختہ یقین ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو میں تاریخ لکھنے کا کام کرنے والے لوگ تاریخ بنانے والے بھی ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو ، ہم سب سیاچن گلیشیر کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہاں سردی اتنی خوفناک ہے کہ اس میں رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دور دور تک برف ہی برف اور پیڑ پودوں کا تو نام  نشان نہیں ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک بھی جاتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے سیاچن کے اس ناقابل رسائی علاقے میں 8دیویانگ لوگوں کی ٹیم نے  جو حیرت انگیز کام کیے ہیں،وہ  ہر ہم وطن کے لیے فخر کی بات ہے ۔ اس ٹیم نے سیاچن گلیشیر کی 15 ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پر واقع 'کمار پوسٹ' پر اپنا جھنڈا لہرا کر عالمی ریکارڈ بنادیا ہے۔ جسمانی چیلنجوں کے باوجود بھی ، ان دیویانگوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ پورے ملک کے لیےباعث ترغیب ہیں اور جب آپ اس ٹیم کے ارکان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی میری طرح ہمت اور حوصلے سے بھر جائیں گے۔ ان جانباز دیویانگوں کے نام ہیں - مہیش نہرا ، اتراکھنڈ کے اکشت راوت ، مہاراشٹر کے پشپک گوانڈے، ہریانہ کے اجے کمار ، لداخ کے لوبسانگ چوسپل ، تمل ناڈو کے میجر دوارکیش ، جموں و کشمیر کے عرفان احمد میر اور ہماچل پردیش کے چونجین انگمو۔  سیاچن گلیشیر کو فتح کرنے کا یہ آپریشن ہندوستانی فوج کے خصوصی دستوں  کے رضاکاروں کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے۔ میں اس ٹیم کی اس تاریخی اور بے مثال کامیابی کے لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کے "Can Do Culture"، "Can Do Determination" ، "Can Do Attitude"  کے ساتھ ہر چیلنج سے نمٹنے کے جذبے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

دوستو ، آج ملک میں معذور افراد  کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مجھے اتر پردیش میں ہو رہی ایسی ہی ایک کوشش One Teacher, One Call کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ بریلی میں یہ انوکھی کوشش مختلف معذور بچوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے۔ اس مہم کی قیادت ڈبھورا گنگا پور کے ایک اسکول کی پرنسپل دیپ مالا پانڈے جی کر رہی ہیں۔ کورونا کے دوران اس مہم کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں بچوں کا داخلہ ممکن ہوا بلکہ 350 سے زائد اساتذہ بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ اساتذہ گاؤں گاؤں جا کر معذور بچوں کو پکارتے ہیں ، ان کی تلاش کرتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی اسکول میں ان کے داخلے کو یقینی بناتے ہیں۔ میں معذور افراد کے لیے دیپ مالا جی اور ساتھی اساتذہ کی اس عظیم کاوش کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ تعلیم کے میدان میں اس طرح کی ہر کوشش ہمارے ملک کا مستقبل سنوارنے والی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم لوگوں کی زندگی کی حالت یہ ہے کہ ایک دن میں سینکڑوں بار لفظ کورونا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے ، سو سالوں میں آئی سب سے بڑی عالمی وبا ، کووڈ 19 نے ہر ہم وطن کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آج حفظان صحت اور تندرستی کے بارے میں تجسس اور آگاہی میں بھی  اضافہ ہوا ہے۔ روایتی طور پر ہمارے ملک میں ایسی قدرتی مصنوعات وافر مقدار میں دستیاب ہیں جو کہ تندرستی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اوڈیشہ کے کالا ہانڈی کے نندول میں رہنے والے پتایت ساہو جی ، برسوں سے اس علاقے میں ایک انوکھا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر دواؤں کے پودے لگائے ہیں۔ یہی نہیں، ساہو جی نے ان دواؤں کے پودوں کو دستاویزی شکل بھی دی ہے۔مجھےرانچی کے ستیش جی نے ایک خط کے ذریعہ ایسی ہی ایک جانکاری شیئر کی ہے۔ ستیش جی نے میری توجہ جھارکھنڈ کے ایک ایلو ویرا گاؤں کی طرف مبذول کرائی ہے۔ رانچی کے قریب ہی دیوری گاؤں کی خواتین نے منجو کچھپ جی کی قیادت میں برسا زرعی اسکول سے ایلو ویرا کی کاشت کی تربیت لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایلو ویرا کی کاشت شروع کی۔ اس کاشتکاری سے نہ صرف صحت کے شعبے میں فائدہ ہوا بلکہ ان خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ کووڈ وبائی مرض کے دوران بھی انہیں اچھی آمدنی حاصل ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سینیٹائزر بنانے والی کمپنیاں ان سے براہ راست ایلو ویرا خرید رہی تھیں۔ آج تقریبا چالیس خواتین کی ایک ٹیم اس کام میں شامل ہے۔ اور کئی ایکڑ میں ایلو ویرا کی کاشت کی جاتی ہے۔ اوڈیشہ  کے پتایت ساہو جی ہوں یا پھر دیوری میں خواتین کی یہ ٹیم ، انہوں نے زراعت کو صحت کے شعبے سے جس طرح جوڑا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔

دوستو ، آنے والے 2 اکتوبر کو لال بہادر شاستری جی کا  بھی یوم پیدائش ہے۔ ان کی یاد میں یہ دن ہمیں زراعت میں نئے تجربات کرنے والوں کے بارے میں بھی سکھاتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے شعبہ میں اسٹارٹ اپ کو فروغ دینے کے لیے میڈی ہب ٹی بی آئی کے نام سے ایک انکیوبیٹر گجرات کے آنند میں کام کر رہا ہے ۔ میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ سے وابستہ اس انکیوبیٹر نے بہت کم وقت میں 15 کاروباری افراد کے کاروباری خیال کی تائید کر چکی ہے۔ اس انکیوبیٹر کی مدد حاصل کرنے کے بعد ہی سودھا چیبرولو جی نے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ ان کی کمپنی میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے اورانہیں پر  وہ جدید جڑی بوٹیوں کی تشکیل کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک اور کاروباری سبھاشری جی نے اسی میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ انکیوبیٹر سے بھی مدد لی ہے۔ سبھاشری جی کی کمپنی ہربل روم اور کار فریشر کے میدان میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک ہربل ٹیرس گارڈن بھی بنایا ہے جس میں 400 سے زیادہ دواؤں کی جڑی بوٹیاں ہیں۔

دوستو ، وزارت آیوش نے بچوں میں دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے پودوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے ایک دلچسپ پہل کی ہے اور اس کا بیڑا اٹھایا ہے، ہمارے پروفیسر آیوشمان جی نے ۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ سوچیں کہ پروفیسر آیوشمان کون ہیں؟ دراصل پروفیسر آیوشمان ایک مزاحیہ کتاب کا نام ہے۔ اس میں مختلف کارٹون کرداروں کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ایلوویرا ، تلسی ، آملہ ، گیلوے ، نیم ، اشواگندھا اور برہمی جیسے صحت مند دواؤں کے پودوں کی افادیت بتائی گئی ہے۔

دوستو ، آج کے حالات میں جس طرح پوری دنیا میں دواؤں کے پودوں اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے ، اس میں ہندوستان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ماضی میں ، آیورویدک اور جڑی بوٹیوں کی مصنوعات کی برآمد میں نمایاں اضافہ  دیکھنے کو ملا ہے۔

میں سائنسدانوں ، محققین اور اسٹارٹ اپ کی دنیا سے وابستہ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسی مصنوعات پر توجہ دیں ، جو نہ صرف لوگوں کی تندرستی اور قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ ہمارے کسانوں اور نوجوانوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوی ہیں۔

دوستو ، روایتی کاشتکاری سے آگے بڑھتے ہوئے ، زراعت میں کیے جا رہے نئے تجربات ، نئے متبادل مسلسل خود روزگار کے نئے ذرائع بنا رہے ہیں۔ پلوامہ کے دو بھائیوں کی کہانی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بلال احمد شیخ اور منیر احمد شیخ نے جس طرح اپنے لیے نئی راہیں تلاش کیں ، وہ نئے ہندوستان کی ایک مثال ہے۔ 39 سالہ بلال احمد جی بہت ہی تعلیم یافتہ ہیں ، انہوں نے کئی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اپنی اعلی تعلیم سے وابستہ تجربات کا استعمال آج وہ زراعت میں اپنا اسٹارٹ اپ بنا کر کر رہے ہیں۔ بلال جی نے اپنے گھر پر ہی ورمی کمپوسٹنگ کا ایک یونٹ لگایا ہے۔ اس یونٹ سے تیار کردہ بایو فرٹیلائزر سے نہ صرف کاشتکاری  میں بہت فائدہ ہوا ہے بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں۔ ہر سال کسانوں کو ان بھائیوں کی اکائیوں سے تقریبا تین ہزار کوئنٹل ورمی کمپوسٹ مل رہا ہے۔ آج اس ورمی کمپوسٹنگ یونٹ میں 15 لوگ بھی  کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد  ان کی اس یونٹ کو دیکھنے کے لیے پہنچ رہی ہے اور ان میں سے بیشتر ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو زراعت کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ کے شیخ برادران نے نوکری کے متلاشی بننے کے بجائے نوکری  کی تخلیق کرنے کا عہد لیا اور آج وہ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک بھر کے لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو ، 25 ستمبر کو ملک کے عظیم سپوت پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کا یوم پیدائش ہے۔ دین دیال جی پچھلی صدی کے عظیم مفکرین میں سےایک  ہیں۔ معاشیات کا ان کا فلسفہ ، معاشرے کو بااختیار بنانے کی ان کی پالیسیاں ، ان کے ذریعہ دکھایا گیا انتودے کا راستہ  آج بھی جتنا موزوں ہے اتنا ہی باعث ترغیب بھی ہے۔ تین سال پہلے ، 25 ستمبر کو ، ان کی سالگرہ کے موقع پرہی  دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم - آیوشمان بھارت یوجنا نافذ کی گئی تھی۔ آج ، ملک کے دو  سوا دو کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ہسپتال میں 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج مل چکا ہے۔ غریبوں کے لیے اتنی بڑی اسکیم دین دیال جی کے انتودیے فلسفے کے لیے ہی وقف ہے۔ اگر آج کے نوجوان ان کے اقدار اور نظریات کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو یہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں ، دین دیال جی نے کہا تھا - "کتنی اچھی اچھی چیزیں ، اچھی اچھی خوبیاں ہیں - یہ سب ہمیں معاشرے سے ہی توحاصل ہوتی ہیں۔ ہمیں معاشرے کا قرض ادا کرنا ہے ، اس طرح  کی سوچ ہونی ہی چاہیے۔ " یعنی دین دیال جی نےسبق  سکھایا کہ ہم معاشرے سے ، ملک سے اتنا کچھ لیتے ہیں ، جو کچھ بھی ہے ، وہ ملک کی وجہ سے ہی تو ہے ، لہذا ملک کے تئیں اپنا قرض کیسے ادا کریں گے، اس سلسلے میں سوچنا چاہیے۔ یہ آج کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔

دوستو ، دین دیال جی کی زندگی سے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننے کا سبق بھی ملتا ہے۔ مخالف سیاسی اور نظریاتی حالات کے باوجود ، ہندوستان کی ترقی کے لیے دیسی ماڈل کے وژن سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج ، بہت سے نوجوان بنے بنائے راستوں سے الگ ہو کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اپنی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ دین دیال جی کی زندگی سے انہیں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے اپیل  کرتا ہوں کہ وہ ان کے بارے میں ضرور جانیں۔

میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم نے کئی موضوعات پر بات چیت کی۔ جیسا کہ ہم بات بھی کر رہے تھے ، آنے والا وقت تہواروں کا ہے۔ پورا ملک مریادا پرشوتم شری رام کے جھوٹ پر فتح کا تہوار بھی منانے جا رہا ہے۔ لیکن اس تہوار میں ہمیں ایک اورجنگ کے بارے میں یاد رکھنا ہے - وہ ہے کورونا کے خلاف ملک کی جنگ ۔ ٹیم انڈیا اس جنگ میں روزانہ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ ٹیکہ کاری میں ، ملک نے ایسے کئی ریکارڈ بنائے ہیں جن پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ہندوستانی کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اپنی باری آنے پر ویکسین تو لگوانی ہی ہے ، لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی اس  حفاظتی دائرے سے باہر نہ رہ جائے ۔ اپنے اردگرد جسے ویکسین نہیں لگی اسے بھی ویکسین سینٹر تک لے جانا ہے۔ ویکسین لگنے کے بعد بھی ضروری پروٹوکول پر عمل کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جنگ میں  ایک بار پھر ٹیم انڈیا اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ ہم اگلی بار کچھ دوسرے موضوعات پر 'من کی بات' کریں گے۔ آپ سب کو ، ہر اہل وطن کو ، تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔

شکریہ۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

U-9399



(Release ID: 1758390) Visitor Counter : 366