وزیراعظم کا دفتر

وزیر اعظم کا قوم کے نام خطاب کا متن

Posted On: 07 JUN 2021 7:49PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی۔ 07 جون          میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار! کو رونا کی دوسری لہر سے ہم ہندوستانیوں کی لڑائی جاری ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی طرح، ہندوستان بھی اس لڑائی کے دوران بہت درد سے گذرا ہے۔ ہم میں سے کئی لوگوں نے اپنے عزیزوں کو، اپنے واقف کاروں کو کھویا ہے۔ ایسے سبھی کنبوں کے ساتھ میری پوری ہمدردی ہے۔ ملک

ساتھیوں،
گذشتہ سو سالوں میں آئی یہ سب سے بڑی وبا ہے، مصیبت ہے۔ اس طرح کی وبا جدید دنیا نے نہ دیکھی تھی، نہ تجربہ کیا تھا۔ اتنی بڑی عالمی وبا سے ہمارا ملک کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑا ہے۔ کووڈ اسپتال بنانے سے لیکر آئی سی یو بیڈکی تعداد بڑھانی ہو، ہندوستان میں وینٹلیٹر بنانے سے لیکر ٹیسٹنگ لیب کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تیار کرنا ہو، کووڈ سے لڑنے کے لیے گذشتہ سوا سال میں ہی ملک میں صحت کا ایک نیا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔ دوسری لہر کے دوران اپریل اور مئی کے مہینے میں ہندوستان میں میڈیکل آکسیجن کی مانگ میں ناقابل تصور اضافہ ہوا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنی مقدار میں میڈیکل آکسیجن کی ضرورت کبھی بھی محسوس نہیں کی گئی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جنگی پیمانے پر کام کیا گیا۔ حکومت کی سبھی مشینری لگی۔ آکسیجن ریل چلائی گئی، فضائیہ کے طیاروں کو لگایا گیا، بحریہ کو لگایا گیا۔ بہت ہی کم وقت میں مائع میڈیکل آکسیجن کی پیداوار کو 10 گنا سے زیادہ بڑھایا گیا۔ دنیا کے ہر کونے سے لایا گیا اور جہاں کہیں سے بھی، جو کچھ بھی دستیاب ہو سکتا تھا اسے حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اسی طرح ضروری دواؤں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا گیا، غیر ملکوں میں جہاں بھی دوائیاں دستیاب ہوں ، وہاں سے انہیں لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

ساتھیوں،
کو رونا جیسے غیر مرئی اور روپ بدلنے والے دشمن کے خلاف لڑائی میں سب سے مؤثر ہتھیار، کووڈ پروٹوکول ہے، ماسک، دو گز کی دوری اور باقی سارے احتیاطی تدابیر پر عمل در ہی ہے۔ اس لڑائی میں ویکسین ہمارے لیے حفاظتی ڈھال کی طرح ہے۔ آج پوری دنیا میں ویکسین کے لیے جو مانگ ہے، اسکے مقابلے میں تیار کرنے والے ملک اور ویکسین بنانے والی کمپنیاں بہت کم ہیں، معدودے چند ہیں ۔ تصور کیجئے کہ ابھی ہمارے پاس ہندوستان میں تیار ویکسین نہیں ہوتی تو آج ہندوستان جیسے عظیم ملک میں کیا ہوتا؟ آپ پچھلے 50-60سال کی تاریخ دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ ہندوستان کو بیرون ممالک سے ویکسین حاصل کرنے میں دہائیاں لگ جاتی تھی۔ بیرون ممالک ویکسین کا کام پورا ہو جاتا تھا تب بھی ہمارے ملک میں ٹیکہ کاری کا کام شروع بھی نہیں ہو پاتا تھا۔ پولیو کی ویکسین ہو، اسمال پوکس، جسے گاؤں میں ہم چیچک کہتے ہیں۔ چیچک کی ویکسین ہو، ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ہو، انکے لیے ہم وطنوں نے دہائیوں تک انتظار کیا تھا۔ جب 2014 میں ہم وطنوں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا تو ہندوستان میں ٹیکہ کاری کا کوریج، 2014 میں ہندوستان میں ٹیکہ کاری کا کوریج صرف 60 فیصد کے ہی آس پاس تھا۔ اور ہماری نظر میں یہ بہت تشویش کی بات تھی۔ جس رفتار سے ہندوستان کا ٹیکہ کاری پروگرام چل رہا تھا، اس رفتار سے، ملک کو صد فیصد ٹیکہ کاری کوریج کا ہدف حاصل کرنے میں قریب قریب 40 سال لگ جاتے۔ ہم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے 'مشن اندردھنش' کو لانچ کیا۔ ہم نے طے کیا کہ مشن اندردھنش کے ذریعہ جنگی پیمانے پر ٹیکہ کاری کی جائے گی  اور ملک میں جسکو بھی ویکسین کی ضرورت ہے اسے ویکسین دینے کی کوشش ہوگی۔ ہم نے مشن موڈ میں کام کیا، اور صرف 5-6 سال میں ہی ٹیکہ کاری کوریج 60 فیصد سے بڑھکر 90 فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ 60 سے 90،یعنی ہم نےٹیکہ کاری کی رفتار بھی بڑھائی اور دائرہ بھی بڑھایا۔

ہم نے بچوں کو کئی جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لیے کئی نئے ٹیکوں کو بھی ہندوستان کی ٹیکہ کاری مہم کا حصہ بنا دیا۔ ہم نے یہ اسلئے کیا، کیونکہ ہمیں اپنے ملک کے بچوں کی فکر تھی، غریب کی فکر تھی، غریب کے ان بچوں کی فکر تھی جنہیں کبھی ٹیکہ لگ ہی نہیں پاتا تھا۔ ہم صد فی صد ٹیکہ کاری کوریج کی طرف بڑھ رہے تھے کہ کو رونا وائرس نے ہمیں گھیر لیا۔ ملک ہی نہیں، دنیا کے سامنے پھر پرانے خدشات ابھرنے لگیں کہ اب ہندوستان کیسے اتنی بڑی آبادی کو بچا پائے گا؟ لیکن ساتھیوں،جب نیت صاف ہوتی ہے، پالیسی واضح ہوتی ہے، مسلسل محنت ہوتی ہے، تو نتائج بھی ملتے ہیں۔ ہر خدشات کو درکنار کرکے ہندوستان نے ایک سال کے اندر ہی ایک نہیں بلکہ دو 'میڈ ان انڈیا' ویکسین لانچ کر دی۔ ہمارے ملک نے، ملک کے سائنس دانوں نے یہ دکھا دیا کہ ہندوستان بڑے بڑے ملکوں سے پیچھے نہیں ہے۔ آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو ملک میں 23 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں دی جا چکی ہیں۔

ساتھیوں،
ہمارے یہاں کہا جاتا ہے وشواسین سدّھی: یعنی ، ہماری کوششوں میں ہمیں کامیابی تب ملتی ہے، جب ہمیں سویں پر اعتماد ہوتا ہے۔ ہمیں پورا اعتماد تھا کہ ہمارے سائنس داں بہت ہی کم وقت میں ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔ اسی اعتماد کے باعث جب ہمارے سائنس داں اپنا تحقیقی کام کر ہی رہے تھے تبھی ہم نے لاجسٹک اور دوسری تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پچھلے سال یعنی ایک سال پہلے، پچھلے سال اپریل میں، جب کو رونا کے کچھ ہی ہزار کیس تھے، اسی وقت ویکسین ٹاسک فورس کی تشکیل کر دی گئی تھی۔ ہندوستان میں، ہندوستان کے لیے ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو حکومت نے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ ویکسین بنانے والوں کو کلنیکل ٹرائل میں مدد کی گئی، تحقیق و ترقی کے لیے ضروری فنڈ دیا گیا، ہر سطح پر حکومت ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلی۔

خود انحصار ہندوستان پیکیج کے تحت مشن کووڈ تحفظ کے ذریعہ سے بھی انہیں ہزاروں کروڑ رپئے دستیاب کرائے گئے۔ پچھلے کافی عرصے سے ملک لگاتار جو کوشش اور محنت کر رہا ہے، اس سے آنے والے دنوں میں ویکسین کی سپلائی اور بھی زیادہ بڑھنے والی ہے۔ آج ملک میں 7 کمپنیاں، مختلف قسم کی ویکسین کی تیاری کر رہی ہیں۔ تین مزید ویکسین کا ٹرائل بھی ایڈوانس اسٹیج پر چل رہا ہے۔ ویکسین کی دستیابی بڑھانے کے لیے دوسرے ملکوں کی کمپنیوں سے بھی ویکسین خریدنے کے عمل کو تیز کیا گیا ہے۔ ادھر حال کے دنوں میں، کچھ ماہرین کے ذریعہ ہمارے بچوں کے تئیں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سمت میں بھی 2 ویکسین کا ٹرائل تیزی سے چل رہا ہے۔ اسکے علاوہ ابھی ملک میں ایک 'نیزل' ویکسین پر بھی ریسرچ جاری ہے۔ اسے سرنج سے نہ دیکر ناک میں سپرے کیا جائیگا۔ ملک کو اگر مستقبل قریب میں اس ویکسین میں کامیابی ملتی ہے تو اس سے ہندوستان کے ویکسین مہم میں اور زیادہ تیزی آئے گی۔

ساتھیوں،
اتنے کم وقت میں ویکسین بنانا، اپنے آپ میں پوری انسانیت کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اسکی اپنی حدیں بھی ہیں۔ ویکسین بننے کے بعد بھی دنیا کے بہت کم ملکوں میں ٹیکہ کاری شروع ہوئی ، اور زیادہ تر خوشحال ملکوں میں ہی شروع ہوا۔ ڈبلیو ایچ او نے ٹیکہ کاری کے لیے رہنما خطوط جاری کیے ۔ سائنس دانوں نے ٹیکہ کاری کے خد و خال وضع کیے ۔ اور ہندوستان نے بھی جو دیگر ممالک کے بہترین اعمال تھے ، عالم صحت تنظیم کے معیار تھے، اسی بنیاد پر مرحلہ وار طریقے سے ٹیکہ کاری کرنا طے کیا۔ مرکزی حکومت نے وزراء اعلی کے ساتھ ہوئی متعدد اجلاس سے جو مشورے ملے، پارلیمنٹ کے مختلف جماعتوں کے ساتھیوں کے ذریعہ جو مشورے ملے، اسکا بھی پورا دھیان رکھا۔ اسکے بعد ہی یہ طے ہوا کہ جنہیں کو رونا سے زیادہ خطرہ ہے، انہیں ترجیح دی جائیگی۔ اسلئے ہی، صحت کارکنان ، فرنٹ لائن کارکنان ، 60 سال کی عمر سے زیادہ کے شہری ، بیماریوں سے متاثر 45 سال سے زیادہ عمر کے شہری ، ان سبھی کو ویکسین پہلے لگنی شروع ہوئی۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر کو رونا کی دوسری لہر سے پہلے ہمارے فرنٹ لائن کارکنان کو ویکسین نہیں لگی ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچئے، ہمارے ڈاکٹر، نرسنگ سٹاف کو ویکسین نہ لگی  ہوتی تو کیا ہوتا؟ اسپتالوں میں صفائی کرنے والے ہمارے بھائی بہنوں کو، ایمبولینس کے ہمارے ڈرائیور بھائی - بہنوں کو ویکسین نہ لگی ہوتی تو کیا ہوتا؟ زیادہ سے زیادہ صحت کارکنان کی ٹیکہ کاری کی وجہ سے ہی وہ مطمئن ہوکر دوسروں کی خدمت میں مصروف ہو پائے ، لاکھوں ہم وطنوں کی زندگی محفوط کر پاے۔

لیکن ملک میں کم ہوتے کو رونا کے معاملوں کے درمیان ، مرکزی حکومت کے سامنے الگ الگ مشورے بھی آنے لگے، مختلف مطالبات ہونے لگیں۔ پوچھا جانے لگا، سب کچھ حکومت ہند ہی کیوں طے کر رہی ہے؟ ریاستی حکومتوں کو چھوٹ کیوں نہیں دی جا رہی؟ ریاستی حکومتوں کو لاک ڈاؤن کی چھوٹ کیوں نہیں مل رہی؟ One Size Does Not Fit All جیسی باتیں بھی کہی گئیں۔ دلیل یہ دی گئی کہ آئین میں چونکہ صحت خاص طور ریاست کا موضوع ہے، اسلئے اچھا ہے کہ یہ سب ریاستیں ہی کریں۔ اسلئے اس سمت میں ایک شروعات کی گئی۔ حکومت ہند نے ایک وسیع رہنما خطوط تیار کر کے ریاستوں کو دی تاکہ ریاستیں اپنی ضروریات اور سہولت کے مطابق کام کر سکیں۔ مقامی سطح پر کو رونا کرفیو لگانا ہو، مائکرو کنٹینمینٹ زون بنانا ہو، علاج سے جڑیے انتظامات ہوں ، حکومت ہند نے ریاستوں کے ان مطالبات کو تسلیم کیا۔

ساتھیوں،
اس سال 16 جنوری سے شروع ہوکر اپریل مہینے کے آخر تک، ہندوستان کا ٹیکہ کاری پروگرام خاص طور پر مرکزی حکومت کی نگہداشت میں ہی چلا۔ سبھی کو مفت ویکسین لگانے کی راہ پر ملک آگے بڑھ رہا تھا۔ ملک کے شہری بھی،نظم و ضبط کی تعمیل کرتے ہوئے، اپنی باری آنے پر ویکسین لگوا رہے تھے۔ اس درمیان ، کئی ریاستی حکومتوں نے پھر کہا کہ ویکسین کا کام ڈیسینٹرلائز کیا جائے اور ریاستوں پر چھوڑ دیا جائے۔ طرح طرح کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ جیسے کہ ٹیکہ کاری کے لیے عمر کی درجہ بندی کیوں کی گئی ؟ دوسری طرف کسی نے کہا کہ عمر کی حد آخر مرکزی حکومت ہی کیوں طے کرے؟ کچھ آوازیں تو ایسی بھی اٹھیں کہ بزرگوں کا ویکسی نیشن پہلے کیوں ہو رہا ہے؟ مختلف طرح کے دباؤ بھی بنائے گئے، ملک کی میڈیا کے ایک طبقہ نے اسے مہم کی شکل میں بھی چلایا۔

ساتھیوں،
کافی غور و خوض کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ ریاستی حکومتیں اپنی طرف سے بھی کوشش کرنا چاہتی ہیں، تو حکومت ہند کیوں اعتراض کرے؟ اور حکومت ہند اعتراض کیوں کرے؟ ریاستوں کے اس مطالبے کو دیکھتے ہوئے، ان کی درخواست کو دھیان میں رکھتے ہوئے 16 جنوری سے جو انتظام چل رہا تھا ، اس میں تجربہ کے طور پر ایک تبدیلی کی گئی ۔ ہم نے سوچا کہ ریاستیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں، انکا جوش و خروش ہے، تو چلو بھئی 25 فیصد کام انہی کو سونپ  دیا جائے، انہی کو دے دیا جائے۔ فطری ہے، یکم مئی سے ریاستوں کو 25 فیصد کام انکے حوالے دیا گیا، اسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنے اپنے طریقے سے کوشش بھی کی۔

اتنے بڑے کام میں کس طرح کی مشکلیں آتی ہیں، یہ بھی انکے دھیان میں آنے لگا، انکو پتہ چلا۔ پوری دنیا میں ٹیکہ کاری کی کیا صورتحال ہے، اسکی سچائی سے بھی ریاستیں متعارف ہوئیں ۔ اور ہم نے دیکھا، ایک طرف مئی میں دوسری لہر ، دوسری طرف ویکسین کے لیے لوگوں کا بڑھتا رجحان اور تیسری طرف ریاستی حکومتوں کی مشکلیں ۔ مئی میں دو ہفتہ گذرتے گذرتے کچھ ریاستیں کھلے من سے یہ کہنے لگیں کہ پہلے والا انتظام ہی اچھا تھا۔ دھیرے دھیرے اس میں کئی ریاستی حکومتیں جڑتی چلی گئیں۔ ویکسین کا کام ریاستوں پر چھوڑا جائے، جو اسکی وکالت کر رہے تھے، انکے خیالات بھی بدلنے لگے۔ یہ ایک اچھی بات رہی کہ وقت رہتے ریاستیں ، از سرنو غور کرنے کے مطالبے کے ساتھ پھر آگے آئے۔ ریاستوں کے اس مطالبے پر، ہم نے بھی سوچا کہ ہم وطنوں کو تکلیف نہ ہو، آسانی سے ان کی ٹیکہ کاری ہو، اسکے لیے یکم مئی کے پہلے والی، یعنی یکم مئی کے پہلے 16 جنوری سے اپریل کے اختتام تک جو انتظام تھا ، پہلے والا پرانا انتظام ، اسے دوبارہ لاگو کیا جائے۔

ساتھیوں،
آج یہ طے کیا گیا ہے کہ ریاستوں کے پاس ٹیکہ کاری سے منسلک جو 25 فیصد کام تھا، اسکی ذمہ داری بھی حکومت ہنداٹھائے گی۔ یہ انتظام آنے والے 2 ہفتوں میں نافذ کیا جائے گا۔ ان دو ہفتوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں مل کر نئے رہنما خطوط کے مطابق ضروری تیاری کر لیں گی۔ اتفاق ہے کہ دو ہفتوں بعد، 21 جون کو ہی بین الاقوامی یوگا ڈے بھی ہے۔ 21 جون، سوموار سے ملک کی ہر ریاست میں، 18 سال سے زیادہ کی عمر کے سبھی شہریوں کے لیے، حکومت ہند ریاستوں کو مفت ویکسین مہیا کرائےگی۔ ویکسین بنانے والوں سے کل ویکسین پیداوار کا 75 فیصد حصہ حکومت ہند خود ہی خریدکر ریاستی حکومتوں کو مفت دے گی۔ یعنی ملک کی کسی بھی ریاستی حکومت کو ویکسین پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا ہوگا۔ اب تک ملک کے کروڑوں لوگوں کو مفت ویکسین ملی ہے۔

اب 18 سال کی عمر کے لوگ بھی اس میں جڑ جا ئینگے۔ سبھی ہم وطنوں کے لیے حکومت ہند ہی مفت ویکسین دستیاب کرائے گی ۔ غریب ہوں، زیریں متوسط طبقہ ہو ، متوسط طبقہ ہو یا پھر اعلی طبقہ ، حکومت ہندکی مہم میں مفت ویکسین ہی لگائی جائیگی۔ ہاں، جو شخص مفت میں ویکسین نہیں لگوانا چاہتے، پرائیویٹ اسپتال میں ویکسین لگوانا چاہتے ہیں، انکا بھی دھیان رکھا گیا ہے۔ ملک میں بن رہی ویکسین میں سے 25 فیصد ، پرائیویٹ سیکٹر کے اسپتال براہ راست لے پائیں، یہ انتظام جاری رہے گا۔ پرائیویٹ اسپتال، ویکسین کی مقررہ قیمت کے بعد ایک خوراک پر زیادہ سے زیادہ 150 روپئے ہی سروس چارج لے سکیں گے۔ اسکی نگرانی کرنے کا کام ریاستی حکومتوں کے ہی پاس رہے گا۔

ساتھیوں،
ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے پراپیہ آپدں نہ ویتھتے کداچت، ادیوگم انو اچھتی چا پر متہ: یعنی ، جیتنے والے آفت آنے پر اس سے پریشان ہوکر ہار نہیں مانتے، بلکہ ادھم کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، اور صورتحال پر جیت حاصل کرتے ہیں۔ کو رونا سے لڑائی میں 130 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں نے ابھی تک کا سفر آپسی تعاون ، دن رات محنت کرکے طے کیا ہے۔ آگے بھی ہمارا راستہ ہماری محنت اور معاونت سے ہی مضبوط ہوگا۔ ہم ویکسین حاصل کرنے کی رفتار بھی بڑھائیں گے اور ٹیکہ کاری مہم کو بھی اور رفتار دیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ، ہندوستان میں ٹیکہ کاری کی رفتار آج بھی دنیا میں بہت تیز ہے، متعدد ترقی یافتہ ملکوں سے بھی تیز ہے۔ ہم نے جوٹیکنالوجی پلیٹ فارم بنایا ہے –  Cowin اسکی بھی پوری دنیا میں چرچا ہو رہی ہے۔ متعدد ملکوں نے ہندوستان کے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے میں دلچسپی بھی دکھایا ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ویکسین کی ایک ایک ڈوز کتنی اہم ہے، ہر ڈوز سے ایک زندگی جڑی ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت نے یہ انتظام بھی کیا ہے کہ ہر ریاست کو کچھ ہفتوں پہلے ہی بتا دیا جائے گا کہ اسے کب، کتنی خوراک ملنے والی ہے۔ انسانیت کے اس مقدس کام میں اختلافات اور سیاسی تنقید، ایسی باتوں کو کوئی بھی اچھا نہیں مانتا ہے۔ ویکسین کی دستیابی کے مطابق ، پورے ڈسپلن کے ساتھ ویکسین لگتی رہے، ملک کے ہر شہری تک ہم پہنچ سکیں، یہ ہر حکومت ، ہر عوامی نمائندے، ہر انتظامیہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

عزیز ہم وطنوں،

ٹیکہ کاری کے علاوہ آج ایک اور بڑے فیصلے سے میں آپ کو واقف کرانا چاہتا ہوں۔ پچھلے سال جب کو رونا کے باعث لاک ڈاؤں لگانا پڑا تھا تو وزیر اعظم غریب کلیان انّ یوجنا کے تحت، 8 مہینے تک 80 کروڑ سے زیادہ ہم وطنوں کو مفت راشن کا انتظام ہمارے ملک نے کیا تھا۔ اس سال بھی دوسری لہر کے باعث مئی اور جون کے لیے اس یوجنا کی توسیع کی گئی تھی۔ آج حکومت نے فیصلہ لیا ہے کہ وزیر اعظم غریب کلیان انّ یوجنا کو اب دیوالی تک آگے بڑھایا جائے گا۔ وبائی امراض کی اس گھڑی میں، حکومت غریب کی ہر ضرورت کے ساتھ، اسکا ساتھی بن کر کھڑی ہے۔ یعنی نومبر تک 80 کروڑ سے زیادہ ہم وطنوں کو، ہر مہینے طے شدہ مقدار میں مفت اناج دستیاب  ہوگا۔ اس کوشش کا مقصد یہی ہے کہ میرے کسی بھی غریب بھائی بہن کو، اسکے کنبے کو، بھوکا سونا نہ پڑے۔
ساتھیوں،
ملک میں ہو رہی ان کوششوں کے درمیان کئی علاقوں سے ویکسین کو لیکر بھرم اور افواہوں کی فکر بڑھاتی ہے۔ اس تشویش کو بھی میں آپکے سامنے ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ جب سے ہندوستان میں ویکسین پر کام شروع ہوا، تبھی سے کچھ لوگوں کے ذریعہ ایسی باتیں کہی گئیں جس سے عام لوگوں کے دلوں میں شکوک شبہات پیدا ہو۔ کوشش یہ بھی ہوئی کہ ہندوستان کے ویکسین بنانے والوں کا حوصلہ پست ہو جائے اور انکے سامنے مختلف قسم کی رکاوٹیں آئیں۔ جب ہندوستان کی ویکسین آئی تو مختلف ذرائع سے شکوک و شبہات کو مزیر بڑھایا گیا۔ ویکسین نہ لگوانے کے لیے مختلف قسم کی دلیلیں عام کی گئیں ۔ انہیں بھی ملک دیکھ رہا ہے۔ جو لوگ بھی ویکسین کو لیکر شکوک پیدا کر رہے ہیں، افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ بھولے بھالے بھائی بہنوں کی زندگی کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ کر رہے ہیں۔

ایسی افواہوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ میں بھی آپ سب سے، سماج کے روشن ضمیر لوگوں سے، نوجوانوں سے گذارش کرتا ہوں،، کہ آپ بھی ویکسین کو لیکر بیداری پیدا کرنے تعاون کریں ۔ ابھی کئی جگہوں پر کو رونا کرفیو میں ڈھیل دی جا رہی ہے، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے درمیان سے کو رونا چلا گیا ہے۔ ہمیں محتاظ بھی رہنا ہے، اور کو رونا سے بچاؤ کے اصولوں کی بھی سختی سے تعمیل کرتے رہنا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے، ہم سب کو رونا سے اس جنگ میں جیتیں گے ، ہندوستان کو رونا سےجیتے گا۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ، آپ سبھی ہم وطنوں کا بہت بہت شکریہ!   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

U-5218



(Release ID: 1725237) Visitor Counter : 348