سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ہمالیائی گلیشیر طاس کے علاقوں کی سیٹلائٹ پر مبنی صحیح وقت پر نگرانی سے سیلاب کی قبل از وقت وارننگ کے نظام کو مضبوط کرکے آفات کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے

Posted On: 20 APR 2021 12:06PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 20  اپریل2021

ہمالیائی گلیشیر طاس کے علاقوں کی سیٹلائٹ پر مبنی ریل ٹائم یعنی صحیح نگرانی سے خطے میں سیلاب کے جوکھم کو سمجھنے میں بہتر مدد ملے گی اور جلد سیلاب کی وارننگ نظام کو اطلاع میں بھی مدد مل سکے گی، جس سے آفات کو روکنے اور انسانی زندگی بچانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ یہ بات ایک حالیہ مطالعہ میں کہی گئی ہے۔

آئی آئی ٹی کانپور کے سائنسدانوں کی جانب سے کئے گئے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ یہ گلیشیر جھیل کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب کے دوران انسانی زندگیوں کے نقصان کو کم کرنے کے لئے مستقبل کی حکمت عملی ہونی چاہئے۔ آئی آئی ٹی کانپور کے ایسوسیٹ پروفیسر پروفیسر اندر سیکھرسین اور ڈاکٹر تنجو شکلا کی جانب سے بھارت سرکار کے سائنس وٹکنالوجی کے محکمے کے تعاون سے کیے گئے مطالعہ کو بین الاقوامی جریدے ’سائنس‘ میں بھی شائع کیاگیا ہے۔

آب وہوا میں تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت اور بہت زیادہ بارش ہونے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ مناسب طور پر کہا گیا ہے کہ زمین کو تھرڈ پول یعنی ہمالیائی خطہ اس پلینٹ کے پولر خطوں کے باہر سب سے بڑے برف ماس کا ٹھکانہ ہے۔

ہمالیہ میں گلیشیرس یعنی برف کے پہاڑ تیز رفتار سے پگھل رہے ہیں اور نئی جھیلیں بن رہی ہیں اور یہ اپنے وجود کو وسعت دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور انتہائی زمین پر گرتی ہوئی برفباری کے واقعات خطے کو مختلف قدرتی خطرات کی طرف تیزی سے مائل کریں گے۔ نیز تباہ کن برف کے پہاڑ کے پگھلنے سے جھیل کے پھٹنے کی صورت میں سیلاب لائیں گے۔

تباہ کن برف کے پہاڑ کے پگھلنے سے جھیل کے پھٹنے کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یا تو ایک گلیشیر میں بنی جھیل کے موہانے پر بنے قدرتی ڈیم ٹوٹتے ہیں یا پھر ان جھیلوں کی پانی کی سطح میں اچانک تیزی سے بڑا بھاری اضافہ ہونے کے بعد پانی کناروں کو توڑ کر نیچے والے قصبوں میں بھیانک تباہ کن آفات میں بدل جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال 2013 میں دکھائی دی تھی جب ایک برفانی تودے شمالی ہندوستان میں برفیلے پہاڑ کے ڈھیر میں بنی چورا باڑی جھیل کو توڑ دیا تھا جس سے اچانک آئے تیز پانی کے طوفان کے ساتھ بہنے والی بڑی بڑی چٹانوں اور ملبے نے نیچے کی ندی وادی میں پہنچ کر تباہی مچائی تھی۔ اس کے نتیجے میں 5 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ آب وہوا میں تبدیلی کے ساتھ پورے ہمالیائی خطے میں آئے دن واقعات رونما ہوسکتے ہیں اور ان کے اثرات میں اضافہ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ حالانکہ ہمالیائی خطے کی مشکل اور چیلنج سے بھری وادیوں میں موبائل رابطے کے باقاعدہ طور پر نہ ہونے کے سبب اس خطے میں سیلاب کی قبل از وقت وارننگ دینے والے نظام کے فروغ کو لگ بھگ ناممکن کیا ہوا ہے۔

اپنے حالیہ مطالعہ میں ان سائنس دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑی خطے کے جھرنوں میں پگھلنے والے پانی میں اضافہ سے سب سے زیادہ اثر نہ پڑے گا کہ جون، جولائی اور اگست کے مانسون سیزن کے دوران بادل پھٹنے کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ البتہ خشک سیزن کے دوران گنگا دھولی گنگا کی معاون ندی میں اچانک پگھلنے والے پانی میں اضافہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اب اس ٹائم فریم یعنی وقت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

اوپری دھولی گنگا طاس میں ہوئی تباہی کو بھاری بارش کی صورتحال سے زمین پر گرتی ہوئی برف باری کے واقعات جیسے برفیلے طوفان چٹان کے کھسکنے سے جوڑا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر غیر نشان زد وجوہات سے بھی جوڑا جارہا ہے۔ حقیقت میں اس خطے کی خطرناک قدرتی اور رجحانات کو سمجھنے کے لئے یہاں کی ندیوں میں برف پگھلنے کے بعد اچانک سے بھاری پانی کا طوفان بڑھ جانے کے سبھی ممکنہ چھوٹے بڑے عوامل کا تعین کرنا نہایت اہم ہوجاتا ہے۔

آئی آئی ٹی کانپور کے سائنسدانوں کی ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ مستقبل میں گلیشیر جھیل کے پھٹنے سے سیلاب (جےی ایل او ایف) جیسے واقعات میں کمی لانے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سیٹلائٹ پر مبنی نگرانی مرکزوں کے نیٹ ورک تیار کرنا شامل ہونا چاہئے تاکہ جی ایل او ایف خطرات پر حقیقی وقت کے ڈیٹا مل سکیں۔

اس مطالعے کے مصنفین نے آگے تفصیل سے یہ کہا ہے کہ نگرانی کرنے والے آلات کو سیٹلائٹ سے جوڑنے سے اس خطے میں دور دراز کے ان مشکل علاقوں میں نہ صرف ٹیلی میٹر مدد مل سکے گی جہاں ابھی بھی سیالولر نیٹ ورک ہے ہی نہیں، بلکہ وادیوں ،چوٹیوں اور تیکھی کھڑی ڈھلانوں جیسے موبائل نیٹ ورک سے پاک شکل مقامات میں زیادہ سے زیادہ مواصلات کے وسائل پہنچ پائیں گے۔


https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001N95H.jpg

...............................................................

            ش ح،ح ا، ع ر

                                                                                                                U-3853


(Release ID: 1713338) Visitor Counter : 252