صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ

تروولوور یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Posted On: 10 MAR 2021 12:04PM by PIB Delhi

         

ونکّم !

திருவள்ளுவர் பல்கலைகழகத்தின் பதினாராவது வருடாந்திர பட்டமளிப்பு விழாவில் உங்கள் அனைவருடன் இருப்பதில் பெருமகிழ்ச்சி அடைகிறேன்.

(تروولور یونیورسٹ کے 16 ویں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں  آپ  سب سے مل کر  مجھے  خوشی ہوئی ہے) آپ جیسے نوجوان اسکالرز کے درمیان پہنچنا ہمیشہ میرے لئے باعث مسرت رہا ہے۔ آج  جن طلبا کو  ڈگریاں دی جارہی ہیں، ان سبھی کو میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس یونیورسٹی کا نام  ایک عظیم سنت  شاعر  اور مفکر کے نام پر رکھا گیا جن کا   تمام انسانیت کی بہبود کے دائمی پیغام کی وجہ سے احترام کیا جاتا ہے۔ آیئے ہم تروولوور کی یاد کو سلام کریں۔  آیئے ہم  ان کی عظیم تعلیمات کو  اختیار کرنے کا بھی  عزم کریں۔  ان کورلز کو  آپ اپنی تعلیم اور زندگی کا  ضروری حصہ بنائیں۔

اس سرزمین پر کھڑا ہونا میرے لئے فخر کی بات ہے، جہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے طاقت کے سامنے  پہلا چیلنج پیش کیا گیا تھا۔ 1806 کی ویلور  سپاہی بغاوت ہماری تحریک آزاد کا ایک پیش خیمہ تھی  تروولوور یونیورسٹی کے  سولہویں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مہمان خصوصی  بننا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔

جب بھی میں نے تمل ناڈو کا دورہ کیا،  میرا سامنا  یہاں کی شان و شوکت کی روایت سے ہوا۔تمل ناڈو  زراعت میں جتنا زرخیز ہے، اتنا ہی ادب میں بھی ہے۔ یہ ایسا منفرد مقام ہے جہاں  پر  انجینئرنگ  کے ابتدائی شاہکار  گرانڈ انیکٹ، جو کہ  دنیا کا  قدیم ترین باندھ ہے اور سنچائی کا نظام ہے۔ اس باندھ کی تعمیر تھنجاوور مین دریائے کاویری پر عظیم  چول حکمرانوں نے کرائی تھی جو کہ  قدیم زمانے میں  ہمارے معاشرے میں انجینئرنگ کی مہارت کی ایک مثال ہے۔ علم اور سائنسی رجحان   اس خطے کے عوام  میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ   ایس  راما  نوجن، نوبل انعام یافتہ سی وی رمن اور ایس چندر شیکھر کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ اس خطے کی معروف شخصیات کی فہرست بہت طویل ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ واحد ہندوستانی گورنر جنرل سی راج گوپالا چاری اور ان کے بعد  آنے والی دو اہم شخصیات آر وینکٹ رمن اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام   کا تعلق اسی سرزمین  ہے۔

پیار طلبا،

تروولوور کے  یہ دانش مندانہ الفاظ آپ کا اصول ہونا چاہیے கண்ணுடையர் என்பவர் கற்றோர் اس کا مطلب ہے ’’عالموں کےچہرے پر ہی آنکھیں ہوتی ہیں، جبکہ  جاہلوں کے پاس تو  دو رسوائی کے ذرائع ہی ہوتے ہیں‘‘۔

اپنے قیام سے تقریباً دو دہائیوں کی قلیل مدت میں  آپ کی یونیورسٹی ملک کی  ایک قابل احترام یونیورسٹی کے طور پر ابھری ہے۔ یہ ایک ممتاز ادارہ بن کر چمکی ہے اور  طلبا کو معیاری تعلیم فراہم کرارہی ہے۔ اس کے طلبا میں بہت سے  معاشی اور تعلیم اعتبار سے پسماندہ خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔  ان میں  ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کا تعلق سماجی اعتبار سے محروم طبقات سے ہے۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ اس یونیورسٹی  کے 65 فیصد طلبا خواتین ہیں۔ہماری بیٹیاں اور بہنیں روکاوٹوں کو پار کرکے تمام شعبوں میں کامیابی حاصل کررہی ہیں۔ یہ اس بات سے بھی واضح ہے کہ آج  تعلیمی مہارت کے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے  66 طلبا میں 55 خواتین شامل  ہیں۔ اسی طرح  آج جن 217 اسکالرز  کو  ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی ہے ان میں سے  100 خواتین ہیں۔ اپنے میڈل اور ڈگری حاصل کرنے کے لئے اسٹیج پر آنے والے  10 طلبا میں سے میں نے دیکھا ہے کہ 9 لڑکیاں ہیں یعنی  لڑکیوں کو آج 90 فیصد میڈل دیئے گئے۔ اس سے بھارت کے شاندار مستقبل کی جھلک ملتی ہے۔ جب ہماری خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو  اس سے نہ صرف ان کا مستقبل محفوظ ہوگا بلکہ پورا ملک  محفوظ ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ  وائس چانسلر ڈاکٹر تھاما رئی سیلوی ، سندرم  کی نگرانی میں  یہ یونیورسٹی  اس سے بھی اونچائیاں حاصل کرے گی۔

یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ  بھارت  کا اعلی تعلیم کا نظام  وسعت پاکر  دیہی اور  محروم طبقات کی خدمات کررہا ہے۔ اس عمل میں  یہ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تعلیمی نظام بن گیا ہے۔ لیکن ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے۔ اگر ہمیں بلندیوں پر پہنچانا ہے تو ہمیں  گنوائے ہوئے وقت  کی بھرپائی کرنی چاہئے۔

برطانوی حکمرانی سے قبل  بھارت کا تعلیمی نظام بہت مالا مال تھا۔ گاندھی جی نے اسے ایک خوبصورت درخت قرار دیا تھا جس کو  اصلاح کے نام پر برٹش حکمرانوں نے کاٹ دیا تھا ہمیں ابھی ان زبردست  تبدیلیوں سے پوری طرح  ابھرنا ہے اور اپنی وراثت پھر سے حاصل کرنی ہیں۔

خواتین و حضرات۔

قومی تعلیمی پالیسی 2020  اس سمت میں  ایک سوچا سمجھا اور افیصلہ کن قدم ہے۔آموزش کو  ذاتی ترقی کا ایک حصہ  بنانے کے ساتھ ساتھ  اس کو  معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق بناتے ہوئے بچوں اور نوجوانوں  کی تعلیم کا یہ ایک جامع وژن ہے۔اس مقصد کے لئے  ہماری قدیم وراثت کے شاہکاروں اور بہترین جدید  آموزش کو  یکجا کیا گیا ہے ۔ اس میں اخلاقی تعلیم اور  ہندوستانی ثقافتی  کی بیداری پر زور دیا گیا ہے۔ ایسے نظام سے نکلنے والا طالب علم  میں زیادہ خود اعتمادی ہوگی  اور  وہ مستقبل کے چیلنجوں کو پورا کرنے کے لئے بہتر طریقے سے تیار بھی ہوگا۔

اس کے علاوہ نئی پالیسی میں ایک خوشحال اور خود کفیل ملک کی تعمیر کے لئے  ضروری باتوں کا بھی  ملحوظ رکھا گیا ہے۔اس کے لئے اعلی تعلیمی نظام کو  انصاف پسندی، مہارت  سے مرصع کرنا چاہیے اور بااختیار باننا چاہیے۔ نئی تعلیمی پالیسی ان مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش ہے۔ سر سی  وی رمن نے کہا تھا  کہ علی تعلیمی اداروں کو ملک کو  علم کی توسیع اور اقتصادی ترقی کی جانب لے جانا چاہیے۔مختصراً اسی بات پر نئی پالیسی میں زور دیا گیا ہے۔

پیارے طلبا،

آج  کا دن آپ کی زندگی کا  ایک ایسا لمحہ ہے جس پر  فخر کیا جاتا ہے۔ آپ اپنی محنت کے نتیجے میں آج  ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔ آپ سبھی کو اور آپ کے والدین اور اساتذہ کو بھی میری مبارکباد  جنہوں نے  آپ کے لئے اس سفر کو ممکن بنایا۔ درحقیقت  سماج میں آپ کی زندگی کاییہ ایک  مبارک شروعات ہے۔اس کے بعد آپ کو اپنی پسند ، کوششوں اور ذہانت کے بل پر اپنی زندگی میں کامیابی کی  سیڑھی پر چڑھنا ہے۔ آپ میں سے کئی طلبا اعلی تعلیم حاصل کریں گے۔آموزش بلا شبہ زندگی بھر چلنے والا عمل ہے۔ جنتا ہم سیکھتے ہیں، اتنا ہی ہمیں  اپنی لا علمی کی حد کا احساس ہوتا ہے۔ ایک تمل کہاوت میں اس بات کو خوبصورت طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

கற்றது கைமண் அளவு கல்லாதது உலகளவு

 

ہماری آموزش  مٹھی ریت  جیسی ہے  جبکہ   جو کچھ  ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے وہ پوری دنیا جیسا وسیع ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھئے کہ محض تعلیمی  لیاقت ہی آپ کو  ایک اچھا بیٹا یا بیٹی یا اچھا پڑوسی نہیں بنائے گی۔ معاشے میں آپ کے اچھے کاموں سے ہی آپ  کی نیک نامی ہوگی۔ آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ   جو کچھ ہم  کتانوں سے سیکھتے ہیں،  وہ آموزش ہے جبکہ  جو کچھ ہم زندگی سے سیکھتے ہیں وہ   ذہانت ہے۔

آئندہ کیریر کے بارے میں  آپ کی پسند ، آپ کی ہنر مندی اور رجحان سے طے ہوتی ہے۔ میں آپ سے یہ اپیل کروں گا کہ  اپنی مادر وطن کو ذہن میں رکھیں۔ آپ کو اپنے تعلیمی ادارے اور اپنی مادر وطن  کے لئے ممنونیت کے اظہار کے طور پر  اپنے ملک کی ترقی میں تعاون کی کوشش کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ  آپ بھارت کے ایک فرض شناس شہری بنیں گے۔

ہم سبھی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا کی سطح پر  بھارت کا نام روشن کرنے کے لئے  اپنے حصے کا کام انجام دیں اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ ہمارا ملک  اب ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ  دنیا کو یہ بتائے کہ مل جل کر پرامن طریقے سے کیسے رہا جاتا ہےاور قدرت کی نشو ونما کیسے کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے بھارت زیادہ سے زیادہ اقتصادی ترقی  اور  زیادہ  انصاف کی طرف بڑھ رہا ہے، دنیا  ہم سے  مزید سیکھنے کے لئے ہماری طرف  تجسس کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ آپ میں سے ہر ایک میں  بھارت کی اس کہانی کا اگلا باب لکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ضرورت ہے صحیح  خواہش کی  جب آپ اس سلسلے میں اپنے آپ کو پس و پیش میں مبتلا پاتے ہیں تو گاندھی کا مشورہ آپ کی راہ روشن کرے گا۔ انہوں نے کہا تھا ’ زندگی کا ہر لمحہ مفید طریقے سے گزارنے  کا اصول ہی شہریت کے لئے بہترین تعلیم ہے ‘‘۔

خواتین و حضرات،

اس موقع پر  میں یہاں پر موجود تمام طلبا کے  تمام اہل خانہ کی بھی ستائش کرنا چاہتا ہوں۔ میں  اپنے متعلقہ شعبوں میں  مہارت حاصل کرنے میں ان نوجوان دماغوں کو شکل دینے میں  اہم رول ادا کرنے اور تعاون کرنے کے لئے میں یونیورسٹی کے فیکلٹی ارکان اور  نان ٹیچنگ اسٹاف کی بھی ستائش کرتا ہوں۔

آپ سبھی کے روشن مستقبل کے لئے  نیک خواہشات۔ آپ کی مستقبل کی تمام کوششوں میں  میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔

شکریہ،

جے ہند!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

(10-03-2021)

U-2364

                          



(Release ID: 1703928) Visitor Counter : 180