وزیراعظم کا دفتر

مالیاتی خدمات کے شعبے میں بجٹ کے نفاذ پر ویبینارمیں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 FEB 2021 3:04PM by PIB Delhi

مالیاتی شعبے سے وابستہ آپ تمام ساتھیوں کو نمسکار!! آپ  سب بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ اس سال کے بجٹ میں مالیاتی شعبے میں متعدد بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ بینکنگ ہو، نان بینکنگ ہو یا انشورنس، ہم نے اس بجٹ میں مالیاتی شعبے کے ہر پہلو کو مضبوط بنانے کے لیے لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ آپ اس کی بھی ایک جھلک دیکھتے ہیں  کہ ہم سرکاری شعبے کے اداروں کو کس طرح مضبوط کریں گے اور نجی شعبے کی شرکت کی توسیع کیسے کریں گے۔ اب بجٹ کے بعد یہ مکالمہ اس لیے اہم ہے کہ سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو ان تمام باتوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ حکومت کی ترجیح، حکومت کا عزم، آپ کو معلوم ہونا چاہیے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آپ کی تجاویز، آپ کا خدشات و اشکالات  بھی حکومت کے علم میں پوری طرح ہونے چاہئیں۔ 21 ویں صدی میں ہمیں ملک کو جس رفتار سے آگے لے کر جانے کی کوشش کرنا ہے اس میں آپ کا فعال تعاون بہت ضروری ہے اور اس لیے آج کی بات چیت میری نظر میں دنیا کی جو صورتحال ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت اہمیت کا حامل  ہے۔

دوستو،

ملک کے مالیاتی شعبے کے بارے میں حکومت کا وژن بالکل واضح ہے۔ اس میں اگر مگر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملک میں کوئی بھی ڈپازیٹر  ہو یا کوئی بھی سرمایہ کار، دونوں  کو بھروسا اور شفافیت کا تجربہ ہویہی  ہماری اولین ترجیح ہے۔ جیسے جیسے ملک کا مالیاتی نظام چلتا ہے، اگر یہ  کسی ایک چیز پر قائم ہے تو وہ ہے بھروسا ۔ بھروسا اپنی کمائی کی سلامتی  کا ، بھروسا سرمایہ کاری کے پھلنےپھولنے اور ملک کی ترقی کا۔ بینکاری اور غیر بینکاری کے شعبے کے پرانے طریقے اور پرانے نظام قدرتی طور پر بڑی تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔ اور ہمارے لیے بھی تبدیلی لازمی ہوگئی ہے۔ دس سے 12 سال قبل اگریسیو قرض دینے کے نام پر ملک کے بینکاری شعبے کو،  مالیاتی شعبے کو کس طرح نقصان پہنچایا گیا تھا، آپ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ملک کو غیر شفاف کریڈٹ کلچر سے نکالنے کے لیے یکے بعد دیگرہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ آج این پی اے کو قالین کے نیچے دبانے کے بجائے ایک دن کا این پی اے بھی رپورٹ کرنا ضروری ہے۔

دوستو،

حکومت  یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ کاروبار میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ ہر کاروبار کامیاب ہو اور جیسا وہ چاہیں ویسے نتائج آئیں یہ ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ بھی کبھی یہ سوچتے  ہیں  کہ میرا بیٹا یا میرے خاندان کا کوئی فرد یہ بنے۔ کون چاہتا ہے کہ میرا بیٹا ایسا نہ کرے ، پھر بھی کبھی کبھی حسب خواہش نتیجے نہیں آتے۔ یہ باتیں حکومت سمجھتی ہے۔ اور یہ ممکن نہیں ہے اور ہر کاروباری فیصلے کے درپردہ نیت خراب  نیت ، بدارادہ ہے، خود غرضی ہے، ایسا تصور کم سے کم ہماری حکومت کی نہیں ہے۔ ایسے میں صحیح ارادوں کے ساتھ لیے گئے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہونا سرکار کی ذمہ داری ہے ہو اور ہم یہ کام کر رہے ہیں اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ اور میں مالیاتی شعبے کے تمام لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں۔ صحیح ارادوں کے ساتھ کیے گئے کام، آپ کے ساٹح کھڑا ہونے کے لہے میں ہمیشہ تیار ہوں ۔ آپ یہ لکھ کر رکھیں۔ دیوالیہ پن کوڈ جیسے میکنزم نے آج قرض دہندگان اور قرض داروں کو بھروسا دیا ہے۔

دوستو،

عام گھرانوں کی کمائی کا تحفظ، غریبوں کو سرکاری فوائد کی موثر اور لیکج سے پاک فراہمی، ملک کی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کا فروغ، یہ سب چیزیں ہماری ترجیح ہیں۔ اس شعبے میں پچھلے برسوں میں جو بھی اصلاحات کی گئی ہیں وہ ان تمام اہداف کی عکاسی کرتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی شمولیت ہو، سب سے بڑی ڈیجیٹل شمولیت ہو، براہ راست فائدے کا اتنا بڑا میکنزم ہو یا چھوٹے بینکوں کا انضمام، کوشش صرف یہ ہے کہ بھارت کے مالیاتی شعبے کو مضبوط  تر بنایا جائے، یہ متحرک ہو ، فعال ہو ۔ اس بجٹ میں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اس وژن کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔

دوستو،

اس سال ہم نے سرکاری شعبے کی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی میں مالیاتی شعبہ بھی شامل ہے۔ ہماری معیشت میں اب بھی بینکاری اور بیمہ کے بہت سارے امکانات موجود ہیں۔ ان امکانات کے پیش نظر ہم نے اس بجٹ میں بھی متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ 2  سرکاری بینکوں کی نج کاری ہو، انشورنس میں ایف ڈی آئی کو 74 فیصد تک تک کرنا ہو، یا ایل آئی سی کا آئی پی او لانے کا فیصلہ ہو، یہ ایسے ہی کچھ اقدامات ہیں۔

دوستو،

ہماری یہ مسلسل کوشش ہے کہ جہاں ممکن ہو نجی کاروبار کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بینکاری اور انشورنس میں سرکاری شعبے کی موثر شراکت داری ابھی ملک کی بڑی ضرورت ہے۔ غریبوں اور محروموں کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ سرکاری شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے ایکویٹی سرمائے کے انفیوژن پر زور دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نیا اے آر سی ڈھانچہ بھی بنایا جا رہا ہے جو بینکوں کے این پی اے کا خیال رکھے گا۔ یہ آر سی  ان قرضوں کو پھر توجہ سے حل کرتے رہیں گے۔ اس سے سرکاری شعبے کے بینکوں کو تقویت ملے گی اور ان کے قرض دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

دوستو،

اسی طرح  بنیادی ڈھانچے اور بعض صنعتی منصوبوں کے کی ترقی کے لیے ایک نیا ترقیاتی مالیاتی ادارہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ قدم بنیادی ڈھانچے اور صنعتی منصوبوں کی طویل مدتی فنانسنگ  کی ضروریات کے پیش نظر اٹھایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ خود مختار ویلتھ فنڈز، پنشن فنڈز اور انشورنس کمپنیوں کو بھی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کارپوریٹ بانڈ مارکیٹ کے لیے لانگ ٹرم بانڈ جاری کرنے کے لیے نئی بیک اسٹاپ سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

دوستو،

آتم نربھر بھارت کی تعمیر کے لیے بھی اس جذبے پر مضبوطی سے عمل کیا جارہا ہے۔ آتم نربھر بھارت صرف بڑی صنعتوں یا بڑے شہروں سے نہیں بنے گا۔ آتم  نربھر بھارت کے لیے گاؤں ، چھوٹے شہروں کے  چھوٹے کاروباری افراد، عام بھارتیوں کی محنت کا تعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آتم نربھر بھارت کسانوں، زرعی مصنوعات کو بہتر بنانے والی اکائیوں سے ہوگا۔ ہمارے اسٹارٹ اپس سے ہمارے ایم ایس ایم ای سے آتم نربھر بھارت بنایا جائے گا۔ اور آتم نربھر بھارت کی ایک بڑی پہچان ہمارے اسٹارٹ اپ، ہمارے ایم ایس ایم ای ہوں گے۔ اس لیے کورونا دور میں ایم ایس ایم ای کے لیے خصوصی منصوبے تشکیل دیے گئے۔ ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقریباً 90 لاکھ کاروباری اداروں کو 2.4 ٹرلین روپے کا کریڈٹ ملا ہے۔ ایم ایس ایم ای اور اسٹارٹ اپ کی حمایت کرنا، ان تک کریڈٹ فلو کو بڑھانا ، آپ بھی اسے ضروری تصور کرتے ہیں۔ حکومت نے متعدد اصلاحات کرکے ان کے لیے زراعت، کوئلے اور خلا جیسے کئی شعبے کھول دیے ہیں۔ اب ملک کے مالیاتی شعبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں ان امنگوں کی نشاندہی کرکے انہیں آتم نربھر بھارت کی طاقت بنائیں۔

دوستو،

جیسے جیسے ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے، کریڈٹ فلو  بھی اتنا ہی اہم ہو گیا ہے ۔ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ نئے شعبے، نئے کاروباری افراد کریڈٹ تک کیسے پہنچتے ہیں۔ نئے اسٹارٹ اپس اور فن ٹیک کے لیے نئی اور بہتر مالیاتی مصنوعات بنانے پر توجہ دیں۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے فن ٹیک اسٹارٹ اپس بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور اس شعبے میں ہر امکان کو تلاش کر رہے ہیں۔ کورونا کے دور میں بھی ہمارے فن ٹیکس کا کی حصہ داری بہت زیادہ رہی ہے ۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ اس سال بھی یہ رفتار برقرار رہے گی، اس لیے آپ کو بھی نئے امکانات تلاش کرنا ہوں گے۔ اسی طرح غور کریں کہ ہماری سوشل سیکورٹی کوریج کو عالمگیر بنانے میں آپ کا کردار کیا ہوگا۔ اس سے وابستہ بہتر تجاویز اور حل اس ویبینار سے سامنے آئیں گے، کیونکہ آپ کو اس شعبے کا گہرا تجربہ ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آج آپ کھل کر اپنے خیالات پیش کریں۔ اور مجھے پختہ یقین ہے کہ آج کے منتھن سے جو امرت ابھرکر سامنے آئے  گا   وہ وہ آتم نربھر بھارت کے بھی کام آئے گا ، عوامی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں  میں کام آئے گا اور خود اعتمادی  کو مزید مستحکم کرنے  میں بھی ہوں معاون ہوگا۔

دوستو،

گذشتہ برسوں میں ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال نے نئی انتظامات پیدا کرکے مالی شمولیت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج ملک میں 130 کروڑ لوگوں کے پاس آدھار کارڈ ہیں، 41 کروڑ سے زیادہ ہم وطنوں کے جن دھن کھاتے ہیں۔ ان جن دھن کھاتوں میں سے تقریبا 55 فیصد خواتین ہیں اور تقریبا ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے جمع ہیں۔ کورونا دور میں بھی ان جن دھن کھاتوں کی وجہ سے لاکھوں بہنوں کی براہ راست مدد کرنا ممکن ہوا ہے۔ آج یو پی آئی ہر ماہ اوسطاً 4 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کر رہی ہے اور روپے کارڈ کی تعداد بھی 60 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ آدھار کی مدد سے فوری تصدیق، انڈیا پوسٹ بینک کے وسیع نیٹ ورک، لاکھوں مشترکہ خدماتی مراکز کی تعمیر سے ملک کے دور دراز علاقوں میں مالی خدمات کو پہنچادیا ہے۔ آج ملک میں 2 لاکھ سے زائد بینک دوست آدھار پر مبنی ادائیگی نظام (اے ای پی ایس) ڈیوائسز کی مدد سے دیہات میں لوگوں کے گھر وں تک پہنچ رہے ہیں۔ 25.1لاکھ سے زیادہ ڈاک خانےبھی مدد کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گزشتہ سال اپریل سے جون کے درمیان ان بینک دوستوں نے گاؤں والوں کو اپنے اے ای پی ایس ڈیوائسز سے 53 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا لین دین کرنے میں مدد کی ہے۔ اور ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ کورونا کا وقت تھا جب بھارت میں لاک ڈاؤن نافذ تھا۔

دوستو،

آج بھارت اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ ملک کا تقریباً ہر حصہ کسی نہ کسی طرح ملک کے مالیاتی شعبے میں شامل ہو چکا ہے۔ ملک اب دہائیوں کے مالی اخراج سے باہر آرہا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، اس کا منتر مالیاتی شعبے میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آج غریب ہوں، کسان ہوں،مویشی پرور  ہوں، ماہی گیرہوں، چھوٹے دکاندار ہوں، سب کے لیے کریڈٹ ایکسیس ممکن ہو پایا ہے۔

مدرا اسکیم سے ہی پچھلے برسوں کے دوران چھوٹے کاروباریوں کو تقریبا 15 لاکھ کروڑ روپے کا قرض پہنچایا گیا ہے۔ اس میں بھی تقریباً 70 فیصد خواتین ہیں اور 50 فیصد سے زیادہ دلت، محروم، قبائلی اور پسماندہ طبقے کے کاروباری افراد ہیں۔ پی ایم کسان سوندھی اسکیم نے اب تک تقریباً 11 کروڑ کسان گھرانوں کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ 15 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد پہنچائی ہے۔ چند ماہ قبل ہمارے اسٹریٹ وینڈرز کے لیے،  ریڑھی بانوں کے لیے ، پردھان منتری سوندھی یوجنا شروع کی گئی ہے۔ اس طبقے کو ملک کے مالیاتی شعبے میں پہلی بار شامل کیا گیا ہے۔ اب تک تقریبا 15 لاکھ ریڑھی بانوں کو 10000 روپے کا قرض دیا جا چکا ہے۔ یہ صرف ایک بار کی شمولیت نہیں ہے بلکہ ان کی کریڈٹ ہسٹری مستقبل میں بھی انہیں توسیع کرنے میں مدد دے گی۔ اسی طرح تجارت اور پی ایس بی قرضوں جیسے ڈیجیٹل قرض دینے والے پلیٹ فارم  سے ایم ایس ایم ایز کو تیزی سے سستے قرضے حاصل کر پارہے ہیں ۔ کسان کریڈٹ کارڈ جیسی سہولت چھوٹے کسان، مویشی پرور، ماہی گیر کو غیر رسمی قرضوں کے چکر سے تیزی سے نکال رہی ہے۔

دوستو،

اب نجی شعبے کو  بھی کہیں نہ کہیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آپ ہمارے معاشرے کے اس حصے کے لیے اختراعی مالیاتی مصنوعات کیسے نکالتے ہیں، جو ہمارے پاس سیلف ہیلپ گروپ ہیں جن میں مینوفیکچرنگ سے لے کر خدمات تک ہر شعبے میں بہت بڑی صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہ ایسے گروپ ہیں جن کا کریڈٹ ڈسپلن، تجربے سے ہمیشہ بہترین پایا گیا ہے۔ نجی شعبہ ایسے گروپوں کے ذریعے دیہی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے امکانات کو دریافت کر سکتا ہے۔ یہ صرف فلاح و بہبود کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہترین کاروباری ماڈل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

دوستو،

مالی شمولیت کے بعد اب ملک مالیاتی بااختیاری کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگلے 5 برسوں میں بھارت کی فن ٹیک مارکیٹ 6 ٹریلین سے زیادہ ہونے کا تخمینہ ہے۔ فن ٹیک شبے کے اسی امکان کو دیکھتے ہوئے آئی ایف ایس سی گفٹ سٹی میں ایک عالمی معیار کا مالیاتی ہب تعمیر کیا جارہا ہے۔ بھارت میں جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی صرف ہماری آرزو نہیں ہے بلکہ یہ آتم نربھر بھارت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس شعبے میں بنیادی ڈھانچے پر بہت پرعزم اہداف موجود ہیں۔ ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس سرمایہ کاری کو لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہ اہداف پورے مالیاتی شعبے کی فعال مدد سے ہی حاصل ہوسکیں گے۔

دوستو،

ہمارے مالیاتی نظام کو مضبوط بنانے کی خاطر اپنے بینکاری شعبے کو بااختیار بنانے کے لیے  بھی حکومت عہد بستہ ہے۔ اب تک جو بینکاری اصلاحات کی گئی ہیں وہ آئندہ بھی آگے جاری رہیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی جانب سے بجٹ میں اصلاحات اور طے شدہ التزامات کے نفاذ کے بارے میں بامعنی تجاویز ملیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ ملک اور دنیا کے اس خطے کے بڑے بڑے دماغ آج پورا دن اس موضوع پر ہماری رہنمائی کرنے والے ہیں۔ آپ کی ایک بات میری حکومت کے لیے بہت قیمتی ہے۔ آپ  بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ، آگے کے روڈ میپ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں، ہم مل کر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں،  اگر آپ کو کوئی مشکلات درپیش ہیں تو ہم ان پر کیسے قابو پا سکتے ہیں، آپ ذمہ داری لے کر ملک کو آگے بڑھانے میں کیسے حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ان تمام موضوعات کا قابل عمل نکات کے ساتھ ، ایک روڈ میپ کے ساتھ، اہداف کے ساتھ اور وقت کی پابند کے ساتھ، آج کی بحث سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا وقت قیمتی ہے، اس سے بھی زیادہ قیمتی آپ کی تجاویز اور ہمارا عزم ہیں۔ آپ کا بے حد شکریہ!

*************

ش ح ۔ع ا۔ م ف

U. No. 1971

 



(Release ID: 1701174) Visitor Counter : 293