وزیراعظم کا دفتر

لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر


 وزیراعظم کے جواب کا متن

Posted On: 10 FEB 2021 11:44PM by PIB Delhi

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

میں راشٹر پتی جی کے حوصلہ افزا خطاب پر شکریہ کی تحریک کی بحث میں شریک ہونے کے لئے اور صدر جمہوریہ  جی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کچھ باتیں پیش کروں گا۔ راشٹر پتی جی کاخطاب بھارت کے 130 کروڑ شہریوں کے عزم  اور طاقت کے مترادف ہے۔ مشکل اور نا مساعد دور میں بھی یہ ملک کس طرح  سے اپنا راستہ چنتا ہے، راستہ طے کرتا ہےاور راستے پر حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہے۔ یہ ساری باتیں تفصیل سے راشٹر پتی جی نے اپنے خطاب میں کہی ہیں۔ ان کا ایک ایک لفظ ملک کے لوگوں میں ایک نیا اعتماد پیدا کرنے والا ہے اور ہر کسی کےدل میں ملک کے لئے کچھ کرنے کی تحریک پیدا کرنے والا ہے اور اس لئے ہم جتنا ان کا شکریہ اداکریں اتنا کم ہے۔ اس ایوان میں بھی 15 گھنٹے سے زیادہ بحث ہوئی ہے۔ رات کو 12-12  بجے تک ہمارے سبھی معزز ممبران پارلیمنٹ نے اس شعور کو بیدار رکھا ہے۔ بحث کو نتیجہ خیز اور با معنی بنایا ہے۔ اس بحث میں حصہ لینے والے سبھی معزز ارکان کا میں تہہ دل سے ادا کرتا ہوں۔ میں خاص طور سے اپنی خاتون ممبران پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس بحث میں اُن کی حصہ داری بھی زیادہ تھی۔ فکر کی دھار بھی تھی، ریسرچ کر کے باتیں رکھنے کی اُن کی کوشش تھی اور اپنے آپ کو اس طرح سے تیار کرکے انہوں نے اس ایوان کو مالا مال کیا ہے۔ بحث کو مالامال کیا ہے اور اس لئے ان کی یہ تیاری، ان کی دلیل اور ان کی سمجھ بوجھ اس کے لئے میں خاص طور سے خاتون ممبران پارلیمنٹ کا استقبال اور شکریہ ادا کرتاہوں۔

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ہندوستان آزادی کے 75ویں سال میں ایک طرح سے ہم ابھی دروازے پر دستک دے ہی رہے ہیں۔ 75 سال کا پڑاؤ ہر ہندوستانی کےلئے فخر کا ہے اور آگے بڑھنے کےتیوہار کا بھی ہے اور اس لئے سماجی بندوبست میں ہم کہیں پر بھی ہوں، ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں، سماجی، اقتصادی نظام میں ہمارا  مقام کہیں پر بھی ہو، لیکن ہم سب نے مل کر کے آزادی کے اس تیوہار سے ایک نئی تحریک حاصل کر کے ، نئے عزائم لے کر کے 2047، جب ملک آزادی کے 100سال منائے گا۔ ہم اس 100سال کے ہندوستان کے آزادی کے سفر کے 25 سال ہمارے سامنے ہیں۔ ان 25 سال کو ہمیں  ملک کو کہاں لے جانا ہے، دنیا میں اس ملک کی موجودگی کہاں کرنی ہے، یہ عزم ملک کے ہر باشندے کے دل میں ہو۔یہ ماحول کا کام اس احاطے کا ہے، اس مقدس زمین کا ہے، اس پنچایت کا ہے۔

 

عزت مآب اسپیکر صاحب،

ملک جب آزاد ہوا اور آخری برٹش کمانڈرتھے وہ یہاں سے جب گئے توآخر میں وہ یہ کہتے رہتے تھے کہ ہندوستان کئی ملکوں کا براعظم ہے اور کوئی بھی اسے ایک قوم کبھی نہیں بنا پائے گا۔ یہ اعلانات ہوئے تھےلیکن ہندوستان کے لوگوں نے اس اندیشے کو ختم کیا۔جن کے دل میں اس طرح کے شکوک و شبہات تھےاس کو ختم کر دیااور ہم اپنے ذریعہ معاش، اپنی ثقافتی یکجہتی، اپنی روایات آج دنیا کے سامنے ایک قوم کی  شکل میں کھڑے ہیں ا ور دنیا کے لئے امید کی کرن بن کے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ 75 سال کے ہمارے سفر میں ہوا۔ کچھ لوگ یہ کہتے تھے ‘ انڈیا وازاے میریکل ڈیموکریسی’ ، یہ وہم بھی ہم نے توڑا ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں، ہماری سانس میں اس طرح سے بنی ہوئی۔ ہماری ہر سوچ، ہر پہل، ہر کوشش، جمہوریت کے جذبے سے پُر رہتی ہے۔ اس بات کو ہم نے کئی چناؤ آئے، کئی اقتدار میں تبدیلی ہوئی، بڑی آسانی سے اقتدار منتقل ہوئے اور تبدیل شدہ نظام اقتدار کو بھی سب  نے دل سے تسلیم کر کے آگے بڑھایا۔

 

75سال کا یہ سلسلہ رہا ہے اور اس لئے جمہوری قدروں کے لئےاور ہم  تنوع سے بھرپور ملک ہیں۔ سیکڑوں زبانیں، ہزاروں بولیاں، طرح طرح کے ملبوسات، کیا کچھ نہیں ہے تنوع سے  بھرا ہوا۔ اس کے باوجود ہم نے ایک ہدف، ایک راہ یہ کر کے دکھایا ہے۔ آج جب ہم ہندوستان کی بات کرتے ہیں، تو فطری طور پر سوامی وویکانند جی نے جو بات کہی تھی، اس کو میں ضروریاد کرنا چاہوں گا۔ وویکا نند جی نے کہا تھا کہ  ‘ ایوری نیشن ہیز اے میسیج ٹو ڈلیور اے مشن ٹو فُلفِل اے ڈسٹنی ٹو ریچ’، یعنی ہر قوم کے پاس ایک پیغام ہوتا ہے، جو اسے پہنچانا ہوتا ہے۔ ہرقوم کا ایک مشن ہوتا ہے، جواسے حاصل کرنا ہوتا ہے، ہر قوم کا ایک مقدر ہوتا ہے، جہاں اسے پہنچنا ہوتا ہے۔ کورونا کے درمیان ہندوستان نے جس طرح سے اپنے آپ کو سنبھالا اور دنیا کو سنبھلنے میں مددکی، ایک طرح سے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ جن جذبات کو  لے کر کے، جس تہذیب کو لے کرکے وید سے وویکا نند تک ہم پلے بڑھے ہیں، وہ ہیں سروے بھونتو سُکھِن، یہ سروے بھونتو سکھن، سروے سنتو نرامیا۔

 

یہ کورونا دور میں ہندوستان نے اس کو کر کے دکھایا ہے اور ہندوستان نے ایک خودکفیل  ہندوستان کی شکل میں جس طرح سے ایک کے بعد ایک ٹھوس قدم اٹھائے ہیں اور عوام نے اٹھائے ہیں۔ لیکن ہم اُن دنوں کو یاد کریں کہ جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تھی، دو عالمی جنگ نے دنیا کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ انسانیت، انسانی اقدار، بحران کا شکار تھی۔ ہاں مایوسی چھائی ہوئی تھی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد پوسٹ ورلڈ وار ایک دنیا میں ایک نیا آرڈر نیو ورڈ آرڈر اس نےشکل اختیار کی۔ امن کی راہ پر چلنے کا حلف لئے، فوج نہیں تعاون، اس منتر کولے کر کہ دنیا کے اندر تصور مضبوط ہوتےگئے ہیں۔ یو این کا قیام عمل میں آیا، انسٹی ٹیوشنز بنے، طرح طرح کے میکانزم تیار ہوئے ، تاکہ دنیا کو پوسٹ ورلڈ وارکے بعد ایک بہتر طریقے سے امن کی سمت میں لے جایا جائے۔ لیکن نتیجہ کچھ اور نکلا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں امن کی بات ہر کوئی کرنے لگا۔ پوسٹ ورلڈ وار امن کی باتوں کے بیچ بھی ہر کوئی جس کی طاقت تھی اپنی فوجی طاقت بڑھانے لگا۔ ورلڈ وار کےپہلے دنیا کے پاس جو فوجی طاقت تھی۔ یو این کے بعد وہ فوجی طاقت کئی گنا بڑھ گئی۔ چھوٹے موٹے ملک بھی فوجی طاقت کی مسابقت میں آنے لگ گئے۔امن کی بات بہت ہوئی لیکن حقیقی بات کو دنیا کوتسلیم کرنا ہوگا کہ فوجی طاقت کی طرف بڑی بڑی طاقتیں زوروشور سے چل پڑیں۔ جتنے اختراع ہوئے، تحقیق ہوئی، وہ اسی دور میں ہوئی، فوجی طاقت کےلئے، پوسٹ کورونا بھی ایک نیا ورلڈ آرڈر نظر آ رہا ہے۔ پوسٹ کورونا کے بعد دنیا میں ایک نیا رشتوں کا ماحول شپ لے گا۔    

 

ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم ورلڈ وار کے بعد ایک خاموش تماشائی کے طور پر بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھتے رہےاور اپنے آپ کو کہیں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے، تو کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے لئے وہ دوربھی ویسا ہی تھا، لیکن آج پوسٹ کورونا جو نیا ورلڈ آرڈر تیار ہوگا اور ہونا ہی ہے۔ کس طرح کا ہوگا، کیسا ہوگا، کون اس کو انیشیئٹ کرے گا، وہ تو وقت بتائےگا، لیکن دنیا نے جس طرح سےبحران کو جھیلا ہے۔دنیااس پر سوچنے کے لئے مجبور ہوئی ہے اور ہونا ہے۔ ایسی حالت میں ہندوستان دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان ایک کونے میں گزارہ نہیں کر سکتا ہے۔ ہمیں بھی ایک مضبوط  پلیئر کے طور پر ابھرنا ہوگا۔ لیکن صرف آبادی کی بنیاد پر ہم  دنیا میں اپنی مضبوطی کا دعویٰ نہیں کر پائیں گے۔وہ ایک طاقت ہے، لیکن محض اتنی طاقت سے نہیں چلتا ہے۔ نئے ورلڈ آرڈر میں ہندوستان کو اپنی جگہ بنانے کے لئے ہندوستان کو مضبوط ہونا پڑے گا، اہل ہونا پڑے گا اور اس کا راستہ ہے آتم نربھر بھارت۔ آج فارمیسی میں ہم آتم نربھر ہیں۔ ہم دنیا  کی فلاح کے کام آتے ہیں۔ ہندوستان جتنا آتم نربھر بنے گا اور جس کی رگوں میں سروے بھونتو سکھن کا منتر جڑا ہوا ہے، وہ جتنا اہل ہوگا، انسانیت کی فلاح کے لئے دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے ایک بہت بڑارول ادا کر سکے گا اور اسی لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم آتم  نربھر بھارت، اس تصور پر زور دیں اور ہم یہ مان کر چلیں، یہ کسی نظام حکومت کا تصورنہیں ہے، یہ کسی سیاسی رہنما کا تصور نہیں ہے۔ آج ہندوستان کے ہر کونے میں ووکل فار لوکل ، ووکل فار لوکل سنائی دے رہا ہے اور لوگ ہاتھ لگاتے دیکھتے ہیں لوکل۔ یہ عزت نفس  کا جذبہ آتم نربھر ہندوستان کے لئے بہت کام آ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی سوچ ، ہماری پالیسیاں، ہمارے فیصلے ہندوستان کوآتم نربھر بنانے کے لئے جو بھی ضروری تبدیلی ہو، اس تبدیلی کی طرف ہونی چائے، یہ میرا خیال ہے۔

 

اس بحث کے اندر تقریباً سبھی معزز اراکین نے کورونا پر بات کی ہے۔ ہمارے لئے اطمینان کا باعث ہے، فخر کا باعث ہے کہ کورونا کی وجہ سےکتنی بڑی مصیبت آئے گی، یہ جو دنیا میں قیاس آرائی کی جا رہی تھی، بہت بڑے بڑے ایکسپرٹ نے اندازے لگائے تھے۔ ہندوستان میں بھی ایک خوف کا ماحول پیدا کرنے کےلئے حتی الامکان کوشش بھی ہوئی تھی  اور ایک اَن نون اینیمی تھا، تو یقین سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔یقین کے ساتھ کوئی کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ایک ایسے اَن نون اینیمی کے خلاف لڑنا تھا اور اتنا بڑا ملک، اتنی گھنی آبادی والا ملک، اتنے کم بندوبست والا ملک، دنیا کو شک ہونافطری بات  بھی تھی، کیونکہ دنیا کے بڑے بڑے ملک کورونا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے۔ تب ہندوستان کیسے ٹِک پائے گا، اب ہندوستان ایک بار حالت خراب ہو گئی، تو دنیا کو کوئی نہیں بچا پائے گا، یہ اندازہ بھی لوگ لگا رہے تھے۔ ایسے میں یہ 30 کروڑ  عوام کی اس ڈسپلن، ان کی لگن، اس نے آج ہمیں بچا کے رکھا ہے۔ کریڈٹ گوز ٹو130کروڑ ہندوستانی اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئے۔ ہندوستان کی پہچان بنانے کے لئے  یہ بھی ایک موقع ہے۔ ہم آپ کو کوستے رہ کر کہ کہیں دنیا ہمیں تسلیم کرے، یہ کبھی ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ہم گھر میں بیٹھ کر کے اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے، خامیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن یقین کے ساتھ دنیا کے سامنے جانے کا تجربہ بھی رکھیں گے۔ تب جا کرکے دنیا ہمیں تسلیم کرے گی۔ اگرآپ اپنے بچوں کو گھر میں نہیں تسلیم  کرتے ہو اور چاہوگے محلے میں بچہ تسلیم کرے، کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ دنیا کا اصول ہے اور اس لئے ہمیں اس بات کو کرنا چاہئے۔

 

جناب منیش تیواری جی نے ایک بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ بھگوان کی کِرپا ہےکورونا میں ہم بچ گئے۔ میں اس بات سے ضرور کچھ کہنا چاہوں گا۔ یہ بھگوان کی ہی کرپا ہے، جس کی وجہ سے دنیا اتنی بڑی ہِل گئی، ہم بچ گئے۔ بھگوان کی کرپا ہے۔ کیونکہ وہ ڈاکٹرز، وہ نرس بھگوان کی شکل میں آئے تھے۔ کیونکہ وہ ڈاکٹرس وہ نرس اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کوشام کو گھر لوٹوں گا، کہہ کر کے جاتے تھے۔ 15-15 دن لوٹ نہیں سکتے تھے۔ وہ بھگوان کا روپ لے کر کہتے تھے، ہم کورونا سے جیت پائے، کیونکہ یہ ہمارے صفائی ملازمین موت اور زندگی کا کھیل ان کے لئے بھی تھا، لیکن جس مریض کے پاس کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ میرا صفائی ملازم وہاں جا کر کے اس کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتا تھا، بھگوان کا روپ سے صفائی کارکن کے روپ میں آیا تھا۔ کوئی ایمبولینس چلانے والا ڈرائیور پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کو پتہ تھا میں جس کولے کر کے جا رہا ہوں، وہ کورونا پازیٹیو ہے، وہ ایمبولینس کا ڈرائیور بھگوان کے روپ میں آیاتھا اور اس لئے بھگوان کا روپ ہی تھا، جس نے ہمیں بچایا ہے، لیکن بھگوان الگ الگ روپ میں آیاتھا اور جتنی ہم ان کی تعریف کریں، جتنا ہم ان کا قصیدہ پڑھیں گے، ملک کی کامیابی کا قصیدہ پڑھیں گے۔ ہمارے اندر بھی ایک نئی طاقت پیدا ہوگی۔ کئی وجوہات سے جن لوگوں کے اندر مایوسی پھیل چکی ہے، ان کو بھی کہتا ہوں کہ کچھ پل کے لئے 130 کروڑ عوام کی اس جرأت کو یاد کیجئے۔ آپ کے اندر بھی توانائی آ جائے گی۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

یہ کورونا دور ایسا کسوٹی کا سبب تھا، جس میں سچی کسوٹی تب ہوتی تھی، جب بحران ہوتا ہے۔ عام طور پر بہت جلد ذہن میں نہیں آتا ہے۔ دنیا بڑے بڑے ملک کورونا میں جو ہوا، وہ تو ہے، لیکن انہوں نے ہر ایک نے طے کیا کہ وہ اپنے  شہریوں کو براہ راست پیسے پہنچائیں گے تاکہ اس بحران کی گھڑی میں ان کے شہریوں کو مدد ملے۔ آپ کو جان کر  تعجب ہوگا ، دنیا کے بہت سارے ملک اس کورونا، لاک ڈاؤن، کرفیو، اندیشوں، اس ماحول کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی خزانے میں پاؤنڈ اور ڈالر کے ڈھیر ہونے کے باوجود بھی اپنے شہریوں تک نہیں پہنچاپائے۔ بینک بند، پوسٹ بند، نظام بند، کچھ نہیں کر پائے۔ ارادہ تھا، اعلانات بھی ہوئے، یہ ہندوستان ہے کہ جواس کورونا  دور میں بھی تقریباً 75 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کو راشن پہنچا سکتا ہے۔ 8 مہینے تک راشن پہنچا سکتا ہے۔ یہی ہندوستان ہے، جس نے جن دھن، آدھار اور موبائل کے ذریعے 2 لاکھ کروڑ روپے اس دور میں لوگوں تک پہنچا دیا اور بدقسمتی دیکھئے جو آدھار، جو موبائل، یہ جن دھن اکاؤنٹ اتنا غریبوں کے کام آیا، لیکن کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ آدھار کو روکنے کے لئے کون لوگ کورٹ گئے تھے، کون لوگ سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے۔ میں کبھی کبھی حیران ہوں اور آج میں اس بات کو بار بار کہوں گا ، ادھیکش جی مجھے معاف کرنا، مجھے ایک منٹ کی مہلت دینے کے لئے، میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں ، اس ایوان میں کبھی کبھی لا علمی بھی بڑی مصیبت پیدا کرتی ہے۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

ٹھیلے والے ، ریہڑی پٹری والے لوگ اس کورونا دور میں ان کو رقم ملی، ان کو پیسے ملے، یہ ان کے لئے کیاگیا اور ہم کرپائے۔ عزت مآب اسپیکرصاحب ہماری معیشت اس دور میں بھی ہم نے ریفارم کا سلسلہ جاری رکھا اور ہم اس ارادے سے چلے کہ ہندوستان جیسی معیشت کو ابھارنے کے لئے ، باہر لانے کے لئے ہمیں کچھ اہم قدم اٹھانے پڑیں گے اور آپ نے دیکھا ہوگا، پہلے دن سے ہی کئی طرح سے ریفارم کے قدم ہم نے اٹھائے اور اس کا نتیجہ ہے، آج ٹریکٹر ہو، گاڑیاں ہوں، اس کی ریکارڈ سیل ہو رہی ہے۔ آج جی ایس ٹی کا کلیکشن ایور ہائی ایسٹ ہوا ہے۔ یہ سارے اعداد و شمار ہماری معیشت میں جوش بھر رہے ہیں، یہ دکھا رہا ہے کہ نئے جوش کے ساتھ ہندوستان کی معیشت ابھر رہی ہے اور دنیا کے جو لوگ ہیں، انہوں نے یہ اندازہ بھی لگایا ہے کہ تقریبا 2 ڈیجٹ والی نمو ضرور ہوگی۔ دو ڈیجٹ گروتھ کے امکانات سبھی پنڈتوں نے ظاہر کئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس کی وجہ  سے اس بحران کے  دور میں بھی مصیبتوں کے بیچ سے بھی لوگوں کو امیدکے مطابق ملک ترقی کر ے گا۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

اس کورونا دور میں تین زرعی قوانین بھی لائے گئے۔ یہ زرعی اصلاحات کا سلسلہ انتہائی ضروری ہے، بہت ہی اہم ہے اور برسوں سے جو ہمارا زرعی سیکٹر چیلنج محسوس کر رہا ہے، اس کو باہر لانے کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی اور کرنے کی سمت میں ہم نے ایک ایمانداری سے کوشش کی ہے، جو آئندہ چیلنجز، جن کو کئی ماہرین نے کہا ہوا ہے، کوئی میرے الفاظ نہیں ہیں، زرعی سیکٹر کے ان چیلنجز کو ہمیں ابھی سے ڈیل کرنا پڑے گا اور اس کو کرنے کے لئے ہم کوشش کی ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ یہاں پر جو بحث ہوئی اور خاص طور سے جو ہمارے کانگریس کےساتھیوں نے بحث کی، میں یہ تو دیکھ رہا تھا کہ وہ قانون کے کلر پر تو بہت بحث کر رہے تھے، بلیک ہے کہ وائٹ ہے، بلیک ہے کہ وائٹ ہے، اچھا ہوتا اس کے کنٹینٹ پربحث کرتے ، اچھا ہوتا اس کے انٹینٹ پر بحث کرتے تاکہ ملک کے کسانوں کو بھی صحیح چیز پہنچ سکتی تھی اور مجھے یقین ہے کہ دادا نے بھی تقریر کی اور مجھے لگتا ہے کہ دادا تو بہت مشق کرکے آئے ہوں گے، بہت اچھی بات بتائیں گے لیکن وہ زیادہ تروزیراعظم اور ان کے ساتھی  بنگال میں  یاترا کیوں کر رہے ہیں، کیسے کر رہے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، اس میں لگے رہے۔ تو دادا کے علم سے ہم اس بار محروم رہ گئے۔ خیر چناؤ کے بعد اگر آپ کے پاس موقع ہوگا، تو یہ کتنی اہم ریاست ہے، اس لئے تو ہم کر رہے ہیں۔ ہاں، آپ لوگوں نے اس کو کتنا پیچھے چھوڑ دیاہم تو اس کو اہمیت دینا چاہتے ہیں۔ ہم ایک بات سمجھیں، جہاں تک تحریک کا سوال ہے، دہلی کے باہر ہمارے جو کسان بھائی بہن بیٹھے ہیں، جو بھی غلط تصورات قائم کئے گئے ہیں، جو افواہیں پھیلائی گئیں، اس کے شکار ہوئے ہیں۔ میری تقریر کےبعد سب کیجئے آپ، آپ کو موقع ملا تھا، آپ تو ایسے الفاظ ان کےلئے بول سکتے ہیں، ہم نہیں بول سکتے۔ ہمارے جناب کیلاش چودھری جی نے اور دیکھئے میں کتنی سیوا کرتا ہوں آپ کی، آپ کو جہاں رجسٹر کروانا تھا ہوگیا۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

احتجاج کر رہے سبھی کسان ساتھیوں کے جذبات کا یہ ایوان بھی اور یہ سرکار بھی احترام کرتی ہے، احترام کرتی رہے گی اور اس لئے سرکار کے سینئر وزرا ، جب یہ مظاہرہ پنجاب میں تھا تب بھی اور بعد میں بھی، لگاتار ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کسانوں کے تئیں احترام کے ساتھ کر رہے ہیں۔ احترام کے جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے اور جب پنجاب میں تحریک جاری تھی، اس وقت بھی ہوئی ہے۔ دہلی ّآنے کے بعد ہوئی ، ایسا نہیں ہے۔ بات چیت میں کسانوں کے اندیشے کیا ہیں، انہیں تلاش کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان سے لگاتار کہا گیا کہ ہم ایک-ایک مسئلے پر بات چیت کریں  گے۔ نریندر سنگھ تومر جی نے اس سلسلے میں تفصیل سے بتایا بھی ہے۔ راجیہ سبھا میں تو کلاز بائی کلاز بحث کرنے کے لئے کہا ہے اور ہم مانتے ہیں کہ اگر اس میں کوئی کمی ہو اور حقیقت میں کسان کا نقصان ہو، تو بدل دینے میں کیا جاتا ہے جی۔ یہ ملک عوام کےلئے ہے۔ اگر کوئی فیصلہ کرتے ہیں، تو کسانوں کے لئے ہے، لیکن ہم انتظار کرتے ہیں، ابھی بھی انتظار کرتے ہیں کہ وہ اگر  کوئی چیز اسپیسفک بتاتےہیں او راگر وہ کنونسنگ ہے، تو ہمیں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس لئے ہم جب شروع میں، وہ جب پنجاب میں تھے، یہ آرڈیننس کے ذریعے ہی تینوں قانون نافذ کئے گئے تھے۔ بعد میں پارلیمنٹ میں منظور ہوئے۔ قانون نافذ ہونے کے بعد نہ ملک میں کوئی منڈی بند ہوئی ہے، قانون نافذ ہونے کے بعد نہ کہیں ایم ایس پی بند ہوئی ہے۔ یہ سچائی ہے، جسے ہم چھپا کر باتیں کرتے ہیں، جس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں، ایم ایس پی کی خرید بھی بڑھی ہے اور قانون نئے بننے کے بعد بڑھی ہے۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

یہ شورشرابہ، یہ آواز، یہ رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہو رہی ہے اور سوچی سمجھی حکمت عملی یہ ہے کہ جو جھوٹ پھیلایا ہے، جو افواہیں پھیلائی ہیں، اس کا پردہ فاش ہو جائے گا۔ سچائی وہاں پہنچ جائے گی، تو ان کا ٹکنا محال ہو جائے گا اور اس لئے شورشرابہ کرتے رہو، جیسا باہر کرتےتھے، ایسا اندر بھی کرتے رہو، یہی کھیل چلتا رہا ہے، لیکن اس سے آپ کبھی بھی آپ لوگوں کا اعتماد حاصل نہیں کر پائیں گے، یہ مان کر چلو۔ عزت مآب  اسپیکر صاحب،آرڈیننس کے بعد اور پارلیمنٹ میں قانون بننے کے بعد کسی بھی کسان سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پہلے جو حق ان کے پاس تھے، جو نظام ان کے پاس تھے، اس میں سے کچھ بھی اس نئے قانون نے چھین لیا ہے کیا؟ اس بات، اس کا جواب کوئی دیتا نہیں ہے، سب کچھ ویسے کا ویسا ہی، وہ ہے پرانا ہے۔ کیا ہوا ہے، ایک اضافی متبادل نظام ملا ہے، وہ بھی کیا کمپلسری ہے۔ کسی قانون کی مخالفت تو تب معنی رکھتی ہے کہ جب وہ کمپلسری ہو۔ یہ تو آپشنل ہے۔ آپ کو مرضی پڑے جہاں جانا ہے جائیے، آپ کو مرضی پڑے وہاں لے جانا ہے، وہاں جائیے۔ جہاں زیادہ فائدہ ہو، وہاں کسان چلا جائے، یہ بندوبست کیا گیا ہے اور اس لئے ادھیر رنجن جی اب زیادہ ہو رہا ہے۔ ادھیر رنجن جی پلیز اب زیادہ ہو رہا ہے۔ ۔۔۔اب زیادہ ہو رہا ہے۔میں آپ کا رسپیکٹ کرنے والا انسان ہوں اور میں نے پہلے کہہ دیا، آپ نے جتنا کیا، یہاں رجسٹر ہو گیا اور بنگال میں بھی ٹی ایم سی سے زیادہ پبلسٹی آپ کو مل جائے گی۔۔۔بابا کیوں اتنا۔ ہاں دادا، دیکھو میں نے بتا دیا ہے، فکر نہ کرو، بتا دیا ہے۔ ادھیر رنجن جی پلیز، پلیزادھیر رنجن جی۔ اچھا نہیں لگتا ہے، میں اتنا احترام کرتا ہوں، آپ آج ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ایسا نہ کریئے۔ ارے بھائی حد سے زیادہ کیوں کر رہے ہیں۔

 

یہ جو ہے قانون، ادھیکش جی، کسی کوبھی مجبور نہیں کرتا ہے، ایسا قانون ہے۔  ان کے لئے آپشن ہے اور جہاں آپشن ہے، وہاں  احتجاج کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں بنتی ہے۔ ہاں، ایسا کوئی قانون، جو ایسے مسلط کر دیا ہو، اس کےلئے  احتجاج کی وجہ بنتی ہے اور اس لئے میں کہتا ہوں، لوگوں کو میں دیکھ رہا ہوں، احتجاج کا ایک نیا طریقہ ہے۔ کیا طریقہ ہے، احتجاجی مظاہرین جو ہوتے ہیں، وہ ایسے طریقے نہیں اپناتے۔ آندولن جیوی ہوتے ہیں، جو ایسے طریقے اپناتے ہیں اور وہ کہتے ہیں، ایسا ہوا، تو ایسا ہوگا، ایسا ہوگا، تو ایسا ہوگا۔ارے بھائی ! جو کچھ ہوا ہی نہیں، جو ہونا نہیں ہے، اس کا خوف پیدا کر کے اور پچھلے کئی برسوں سے مسلسل سپریم کورٹ کا ایک ججمنٹ آ جائے، کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور ایک دم سے طوفان کھڑا کر دیا جائے، آگ لگا دی جائے ملک میں۔ یہ جو طور طریقے ہیں، وہ طور طریقے جو بھی جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں، جو بھی عدم تشدد میں یقین رکھتے ہیں، ان سب کے لئے  باعث تشویش ہونا چاہئے۔ یہ سرکار کی تشویش کا نہیں، ملک کی تشویش کا موضوع ہونا چاہئے۔ پلیز بعد میں، بعد میں، بعد میں وقت ملے گا آپ کو۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

پرانی منڈیوں پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے، اتنا ہی نہیں اس بجٹ میں ان منڈیوں کو جدید بنانے کے لئے، ان کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کےلئے مزید بجٹ کابندوبست کیا گیا ہے اور اس بجٹ کے ذریعے سے عزت مآب اسپیکر صاحب، یہ جو ہمارے فیصلے ہیں، ‘‘ سرو جن ہتھائے-سرو جن سکھائے’’ کے جذبے کے ساتھ ہی کئے گئے ہیں۔ عزت مآب  اسپیکر صاحب،اس ایوان کے ساتھ ہی اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کانگریس اور کچھ پارٹیوں نے بڑے زوروشور سے بات اپنی کہی، لیکن  جو باتیں انہیں کہنی چاہئے، بھائی یہ نہیں یہ۔۔۔توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا اسٹڈی کر کے آئے ہیں، اتنا ہی نہیں، جو لوگ یہ کہتے ہیں ۔۔۔میں حیران ہوں، پہلی بار ایک نئی دلیل آئی ہےکہ اس ایوان میں  کہ بھائی ہم نے مانگا نہیں تھا، تو دیاکیوں؟پہلی بات ہے کہ لینا نہ لینا آپ کی مرضی ہے، کسی نے کسی کے گلے میں نہیں ڈالا ہے۔ آپشنل ہے، ایک نظام ہے اور ملک بہت بڑا ہے۔ ہندوستان کے کچھ کونے میں اس کا فائدہ ہوگا، ہو سکتا ہے کسی کو نہ بھی ہو، لیکن یہ کمپلسری نہیں ہے اور اس لئے مانگا اور دینے کا مطلب نہیں ہوتا ہے، لیکن میں پھر بھی کہنا چاہتا ہوں ، اس ملک میں عزت مآب اسپیکر صاحب ، جہیز کے خلاف قانون بنے، اس ملک میں کبھی کسی نے مانگ نہیں کی تھی ، پھر بھی ملک کی ترقی کےلئے قانون بنا تھا۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،ٹرپل طلاق، اس کے خلاف قانون بنے، یہ کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن ترقی پسند سماج کےلئے ضروری ہے ، اس لئے قانون ہم نے بنائے ہیں۔ ہمارے یہاں بچوں کی شادی پر روک –کسی نے مانگ نہیں کی تھی قانون بناؤ، پھر بھی قانون بنے تھے، کیونکہ ترقی پسند سماج کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ شادی کی عمر بڑھانے کے فیصلے- کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ وہ فیصلے بدلنے پڑتے ہیں۔ بیٹیوں کو حق دینے کی بات- کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن سماج کے لئے ضروری ہوتا ہے، تبدیلی کے لئے ضروری ہوتا ہے، تو قانون بنتے ہیں۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

ہم یہ مانتے تھے کہ ہندوستان کی بہت پرانی پارٹی کانگریس پارٹی، جس نے تقریبا 6 دہائی تک اس ملک میں حکومت کی۔ یہ پارٹی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ پارٹی کا راجیہ سبھا کا طبقہ ایک طرف چلتا ہے اور پارٹی کا لوک سبھا کا طبقہ دوسری طرف چلتا ہے۔ ایسی منقسم پارٹی، ایسی کنفیوز پارٹی، نہ خود کا بھلا کر سکتی ہے، نہ ملک کے مسائل کے حل کے لئے کچھ سوچ سکتی ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے؟کانگریس پارٹی راجیہ سبھا میں بھی، کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر راجیہ سبھا میں بیٹھے ہیں، لیکن وہ ایک انتہائی خوش اسلوبی اور امنگ کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، تفصیل سے بحث کرتے ہیں، اپنی بات رکھتے ہیں اور یہی کانگریس پارٹی کا دوسرا طبقہ۔۔۔اب وقت طے کرے گا۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

ای پی ایف پنشن اسکیم-ہمیں معلوم ہے، کبھی کبھی ایسے کیسیز میں یہ سامنے آیا، جب 2014 کے بعد میں یہاں بیٹھا، کسی کو پنشن 7روپے مل رہی تھی، کسی کو 25 روپے، کسی کو 50 روپے، کسی کو 250 روپے۔۔۔یہ ملک میں چلتا تھا۔ میں نے کہا، بھائی ان لوگوں کو آٹو رکشہ میں وہ پنشن لینے جانے کا خرچ اس سے زیادہ ہوتا ہوگا۔ کسی نے مانگ نہیں کی تھی، کسی مزدور یونین نے مجھے  درخواست نہیں دی تھی، عزت مآب اسپیکر صاحب، اس میں اصلاح کرکےکم از کم ایک ہزار روپے ہم نے دینے کا فیصلہ کیا تھا، کسی نے مانگ نہیں کی تھی، لیکن ہم نے پردھان منتری سمان ندھی یوجنا کے تحت ان کو ہم نے رقم سامنے سے دینا شروع کیا۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،کوئی بھی جدید سماج کے لئے تبدیلی بہت ضروری ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے، جس طرح سے اس دور میں احتجاج ہوتا تھا، لیکن راجہ رام موہن رائے جی جیسی عظیم شخصیت، ایشور چندر ودیا ساگر جی جیسی عظیم شخصیت، جیوتیباپھولے جیسی عظیم شخصیت، باباصاحب امبیڈکر۔۔۔کتنے بے شمار نام ہیں، انہوں نے سماج کے سامنے، روایت کے برعکس سماجی اصلاح کا بیڑا اٹھایا تھا، نظام بدلنے کے لئے بیڑا اٹھایا تھا، اب کبھی بھی کسی نے جو ذمہ داریاں لینی ہوتی ہیں، ایسی چیزوں کی شروع میں مخالفت ہوتی ہے، جب بات سچ تک پہنچتی ہے، تو لوگ اس کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں اور ہندوستان اتنا بڑا ملک ہے، کوئی بھی فیصلہ صد فیصد سبھی کو قابل قبول ہو، ایسا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ ملک تنوع سے بھرپور ہے۔ کسی ایک جگہ پر وہ بہت زیادہ فائدہ مند ہوگا، کسی جگہ پر کم فائدہ ہوگا، کسی جگہ پر شائد جو پہلے کے فوائد ہوں، ان سے بھی محروم کرتا ہوگا، لیکن ایسا تو اتنے بڑے ملک میں بندوبست نہیں ہو سکتا کہ ہم اس میں کوئی ۔۔۔لیکن ایک لارجر انٹریسٹ۔۔۔ملک میں فیصلے جو ہوتے ہیں، لارجر۔۔۔سرو جن ہتائے، سروجن سکھائے فیصلے ہوتے ہیں اور اس تعلق سے ہم کام کرتے ہیں۔

 

عزت مآب  اسپیکر صاحب،

یہ سوچ کے ساتھ میری مخالفت ہے۔۔۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ مانگا تھاکیا؟ کیا ہم جاگیردارانہ نظام ہیں کیا کہ ملک کے عوام ہمارے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ ان کو مانگنے کے لئے مجبور کریں؟ یہ مانگنے کے لئے مجبور کرنے والی سوچ جمہوریت کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ عزت مآب  اسپیکر صاحب،حکومتیں حساس ہونی چاہئیں، جمہوری طریقے سے عوام کی بھلائی کےلئے حکومت کو ذمہ داریاں لے کر آگے آنا چاہئے اور اس لئے اس ملک کے عوام نے آیوشمان یوجنا نہیں مانگی تھی، لیکن ہمیں لگا کہ غریب کو بیماری سے بچانا ہے، تو آیوشمان بھارت یوجنا لے کر کے جانا ہوگا۔ اس ملک کے غریب نے بینک اکاؤنٹ کے لئے کوئی جلوس نہیں نکالا تھا، کوئی میمورنڈم نہیں بھیجا تھا، ہم نے جن دھن یوجنا کی تھی اور ہم نے اس جن دھن یوجنا سے اس کے کھاتے کھولے تھے۔

کسی نے بھی ، سوچھ بھارت کی مانگ کس نے کی تھی ---لیکن ملک کے سامنے جب سووچھ بھارت لے کرکے گئے تومعاملہ چل پڑا۔کہاں لوگو ں نے کہاتھا میرے گھرمیں بیت الخلاء بناو ---یہ کسی نے مانگانہیں تھا ---لیکن ہم نے دس کروڑگھروں میں بیت الخلاء بنانے کا کام کیاہے ۔مانگا جائے ، تبھی سرکارکام کرے ، وہ وقت چلاگیا، یہ جمہوریت ہے ، یہ سامنت شاہی نہیں ہے ۔ ہم لوگو ں نے لوگوں کے احساسات کو سمجھ کر کے ہم نے سامنے سے دیناچاہیئے ۔ شہریوں کو محتاج بنا کر ہم ان کی  خود اعتمادی کو بڑھانہیں سکتے ۔ ہمیں شہریوں اختیارات دینے کی سمت میں آگے بڑھتے رہنا چاہیئے ۔شہری کو سائل بنانے سے  اس کی خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے ۔ ناگرک میں اہلیت پیداکرنے کے لئے ہماراقدم اس کے اندرخود اعتمادی پیداکرنے کے لئے ہونا چاہیئے ، اورہم  نے اس سمت میں قدم اٹھائے ہیں ، سرکاردادا دادا، ایک منٹ سنودادا ، ارے وہی میں کہہ رہاہوں ، دادامیں وہی کہہ رہاہوں جو نہیں چاہتاہووہ اس کا استعمال نہ کریں ، اس کے پاس پرانی سہولت موجود ہے ۔ یہی آپ سمجھدارلوگوں کو صرف اتنا ہی مجھے سمجھاناہے کہ اس کو نہیں چاہیئے توپرانی سہولت موجود ہے ---پرانی سہولت چلی نہیں گئی ہے ۔

عزت مآب اسپیکرصاحب ،

ایک بات ہم جانتے ہیں ، ہم سب اس بات کو جوٹھہراہواپانی ہوتاہے ، وہ بیماری پیداکرتاہے ، بہتاہواپانی ہے ، جو زندگی کو بھردیتاہے ۔ امنگ سے بھردیتاہے ۔جو چلتاہے چلتارہے ، چلنے دو۔ ارے یارکوئی آئے گا توکرےگا ، ایسے تھوڑی چلتاہے جی ۔ذمہ داریاں لینی چاہیئں ۔ ملک کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنے چاہیئں ، اسٹیٹس کو –ملک کو تباہ کرنے میں اس ذہنیت نے بھی بہت بڑاکرداراداکیاہے ۔ دنیا بدل رہی ہے ، کب تک ہم اسٹیٹس کو ، اسٹیٹس کو ، اسٹیٹس کو ---ایسے ہی کرتے رہیں ۔ میں توسمجھتاہوں کہ صورت حال بدلنے والی نہیں ہے اوراس بنا پر ملک کی نوجوان نسل زیادہ انتظار نہیں کرسکتی ہے ۔

لیکن آج میں ایک واقعہ سناناچاہتاہوں اوراس سے ضرورہمارے دھیان میں آئے گاکہ اسٹیٹس کو کے سبب ہوتاکیاہے ۔ یہ تقریبا 50-40سال پرانے واقعہ کی داستان ہے ۔ میں نے کبھی کسی سے سناتھا ، اس لئے اس کی تاریخ واریخ میں ادھراُدھرہوسکتاہے ،لیکن جو میں نے سناتھا وہ میری یادداشت میں ہے ، وہ میں بتارہاہوں ۔ 60کے عشرے میں تمل ناڈومیں ریاست کے ملازموں کی تنخواہ بڑھانے کے لئے کمیشن بیٹھاتھا اور ریاست کے کرمچاریوں کی تنخواہ بڑھے ، یہی اس کمیشن کا کام تھا۔ اس کمیٹی کے چیئرمین کے پاس ایک لفافہ آیا۔ ٹاپ سیکریٹ لفافہ تھا۔انھوں نے دیکھا تواس کے اندرایک عرضی تھی ۔ اس میں لکھاتھا ، جی میں بہت سال سے سسٹم میں کام کررہاہوں ۔ ایمانداری سے کام کررہاہوں لیکن میری تنخواہ نہیں بڑھ رہی ہے ، میری تنخواہ بڑھائی جائے ۔یہ اس نے خط لکھاتھا، توچیئرمین نے اس خط لکھنے والے کولکھا ، بھئی تم کون ہو ، تمہاراعہدہ کیاہے ،وغیرہ ۔تو اس نے پھردوسراجواب لکھا کہ میں سرکارمیں جو چیف سکریٹری کا دفترہے وہاں سی سی اے کے عہدے پرہوں ۔ سی سی اے کے عہدہ پرمیں کام کررہاہوں ۔ توان کو لگاکہ یہ سی سی اے کیاہوتاہے ، کچھ پتہ توہے نہیں ،یہ سی سی اے کون ہوتاہے ؟توانھوں نے دوبارہ خط لکھا کہ بھئی ہم نے تو یہ سی سی اے لفظ کہیں دیکھا نہیں ، پڑھانہیں ، یہ ہے کیا۔ ہمیں بتاوتو۔تواس نے کہاکہ صاحب میں مجبور کہ 1975کے بعد ہی اس کے بارے میں ذکرکرسکتاہوں ،ابھی نہیں کرسکتا۔توچیئرمین نے ان کولکھا کہ پھرایساکروبھئی ، 1975کے بعد جو بھی کمیشن بیٹھے وہاں جانا۔ میراسرکیوں کھارہے ہو؟تواس کو لگاکہ یہ تومعاملہ بگڑگیا ---اسے لگا کہ ان کا کہناٹھیک ہے ۔کہنے لگا میں بتادیتاہوں کہ میں کون ہوں ۔ تواس نے ان کو خط لکھ کربتایاکہ صاحب میں سی سی اے کے عہدے پرکئی برسوں سے کام کررہاہوں اور وہ بھی چیف سکریٹری کے دفترمیں ۔ اوراس نے بتایاکہ سی سی اے کا مطلب ہوتاہے چرچل سگاراسسٹنٹ ۔یہ ہے وہ سی سی اے کا عہدہ جس پرمیں کام کرتاہوں اوریہ سی سی اے جو تھا اس کا کام تھااس کی فکر کرناکہ وہ سگاران کو ٹھیک ٹھیک پہنچی کہ نہیں پہنچی ۔ اور صرف اسی کام کے لئے یہ عہدہ تخلیق کیاگیاتھا، جس میں سگارکی سپلائی ہوتی تھی ۔1945میں وہ چناو ہارگئے لیکن وہ عہدہ بدستوررہااورسپلائی بھی جاری رہی ۔ ملک آزاد ہوگیا ۔ملک کے آزاد ہونے کے بعد بھی ، محترم اسپیکر صاحب ، یہ عہدہ بدستورقائم رہا۔ چرچل کو سگریٹ پہنچانے کی ذمہ داری والاایک عہدہ چیف سکریٹری کے دفترمیں بدستورتھا۔اور اس پرکام کرنے والے ہیں ، اپنے لئے کچھ تنخواہ ملے ، کچھ پرموشن ملے کی غرض کو سامنے رکھ کر یہ خط لکھاتھا۔

اب دیکھئے ،ایسااسٹیٹس کو ---اگرہم تبدیلی نہیں لائیں گے ، سہولیات کو دیکھیں گے نہیں تو اس سے بڑی مثال اورکیاہوسکتی ہے ۔ میں جب وزیراعلیٰ بنا تو ایک رپورٹ آتی تھی کہ آج کوئی غبارہ نہیں آیا اورکوئی پرچے نہیں پھینکے گئے ۔یہ سب شاید دوسری جنگ عظیم میں شروع ہواہوگا۔ ابھی بھی وہ چلتاتھا۔ یعنی ایسی چیزیں ہمارے نظام میں گھسی ہوئی ہیں ۔ ہمیں لگتاہے بھائی ، ہم ربن کاٹیں گے ، دیاجلائیں گے ، فوٹونکل جائے گی ، ہماراکام ہوگیا ۔ ملک ایسے نہیں چلتاہے جی ۔ ہمیں  ذمہ داری کے ساتھ ملک میں تبدیلی کے لئے ہرقسم کی کوشش کرنی ہے ۔ غلطیاں ہوسکتی ہیں ، لیکن ارادہ نیک ہو توانجام بھی اچھاسامنے آتاہے ۔ ہوسکتاہے ایک آدھ میں کچھ نہ ملے ۔آپ دیکھئے ، ہمارے ملک میں ایک وقت تھا ، کسی کو اپنا سرٹیفیکٹ سرٹیفائی کرنا ہو، تو کارپوریٹرکونسل ، اس کے گھرکے باہر صبح لائن لگ جاتی تھی اورجب تک وہ ٹھپہ نہ مارے ---اورمزہ ہے کہ وہ نہیں مارتاتھا ---ایک لڑکا باہربیٹھاہوتاتھا ---وہ سکہ ماردیتاتھا.....اوریہ سب چل رہاتھا ۔میں نے کہابھائی اس کا کیامطلب ہے ...ہم بھروسہ کرکے ملک کے شہری پر...میں نے آکرکے ان سارے طورطریقوں کو ختم کردیا، ملک کے لوگوں کو فائدہ ہوا ۔ہمیں تبدیلی کے لئے کام کرناچاہیئے ، اصلاحات کے لئے کام کرنا چاہیئے ۔

اب ہمارے یہاں انٹرویوہوتے تھے ۔میں ابھی بھی حیران ہوں جی ۔ ایک شخص دروازے میں اندرداخل ہوتاہے ۔ تین لوگوں کی پینل بیٹھی ہے ...اس کا موڈ دیکھتے ہیں ، نام بھی پوراپوچھتے نہیں ، تیسرے یوں نکل جاتاہے ۔اوروہ انٹرویوکا ل ہوتا ہے اورپھرآرڈردیئے جاتے ہیں ۔ہم نے کہابھئی کیامطلب ہے ، اس کی جو تعلیم اوراس کی کوالیفیکیشن ہے ، اس کو سارے کو اکٹھاکرو ، میرٹ کی بنیاد پر کمپیوٹرسے پوچھو ، وہ جواب دے دیگا ۔یہ تیسرے اورچوتھے زمرے کے لوگوں کے لئے انٹرویوکی کیابھیڑلگارکھی ہے ۔ اورلو گ کہتے تھے کہ بھئی سفارش کے بنا نوکری نہیں ملے گی ...ہم نے ختم کردیا۔میں سمجھتاہوں کہ ملک میں ہم چیزوں کو بدلیں ۔ بدلنے میں ناکامی کے ڈرسے اٹک کررہنا، یہ کبھی بھی کسی  کا بھلا نہیں کرتاہے ۔ ہمیں بدلاو کرنے چاہیئں اوربدلاو کرنے کی کوشش ہم کرتے ہیں ۔

عالیجناب اسپیکرصاحب ،

ہمارے یہاں کھیتی ، ہمارے یہاں کسانی ایک طرح سے ہماری تہذیب ، خصوصی دھارے کاحصہ رہی ہے ۔ ایک طرح سے ہماری تہذیب کے بہاوکے ساتھ ہماری کسانی جڑی ہوئی ہے ۔ ہماری رشیوں نے ، منیوں نے اس پربہت کچھ لکھاہواہے ۔ ہمارے یہاں زراعت کے موضوع پر گرنتھ دستیاب ہیں ۔بہت سارے اعلیٰ درجے کے تجربے بھی ہیں ۔ اورہمارے یہاں راجہ بھی کھیتوں میں ہل چلاتے تھے ۔ جنک راجہ کی بات تو ہم جانتے ہیں ، کرشن بھگوان کے بھائی بلرام کی بات ہم جانتے ہیں ۔ کوئی بھی بڑاکنبہ ہوگا ، ہمارے یہاں کسانی اورکھیتی ...یہ ہمارے جس ملک میں صرف فصلوں کی کھیتی نہیں ہے ۔ ہمارے یہاں زراعت ایک طرح کا معاشرتی زندگی کے کلچر کا حصہ رہاہواہے ۔ اوراسی حصے کو لے کرکے ہم کررہے ہیں اوریہ ہماری تہذیب ہے ۔ ہمارے تہوارہوں ، ہمارے  ہماری جیت ہو، سب چیزیں فصل کاٹنے کے ساتھ جڑی ہوئی رہتی ہیں۔ یہ ہمارے یہاں روایت رہی ہے، ہمارے جتنے لوک گیت ہیں وہ بھی کسانی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں...فصل سے جڑے ہوئے۔ ہمارے تیوہار بھی اسی سے جڑ ے ہوئے ہوتے ہیں اور اسی لیے .... ہمارے ملک کی خاص بات دیکھئے... ہمارے ملک میں کسی کو آشیرواد دیتے ہیں، کسی کو نیک خواہشات دیتے ہیں تو اس کے ساتھ دھن دھیان شبد کا پریوگ کرتے ہیں۔ دھن دھانیہ۔ دھن اور دھانیہ کو ہمارے یہاں الگ نہیں کرتے ہیں۔ صرف دھانیہ بھی نہیں بنتا ہے کچھ شبد ....دھن بھی نہیں ہوتا ہے۔ دھن دھانیہ بولا جاتا ہے  .... ہمارے یہاں دھانیہ کی یہ قیمت ہے.... یہ اہمیت ہے۔ سماج ۔ زندگی کا حصہ ہے اور جو صورتحال بدلتی ہے، ہم نے بھی اس کو پھر سے پٹری پر لانے کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

راجیہ سبھا کے اندر میں نے چھوٹے کسانوں کے سلسلے میں تفصیل سے بات کی ہے۔اب ملک کی 85-80 فیصد آبادی کو .....اسے ہم ناراض رکھ کرکے ملک کا بھلا نہیں کرسکتے۔ہم نے اس کے لئے کچھ سوچنا ہی ہوگا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگااور میں نے گن لیا ہے کہ کسانوں کے نام پر… چھوٹے کسانوں کو کس طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس میں تبدیلی بہت ضروری ہے اور آپ بھی… اگر یہ چھوٹا کسان جاگتا ہے تو آپ کو جواب دینا پڑے گا… میں پوری طرح سے اس بات کو سمجھتا ہوں۔ہمارے یہاں جیسے  جیسے آبادی بڑھ  رہی ہے ، زمین کا ٹکڑا چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔خاندان کے اندر زمین جو ہے ، وہ بٹ جاتی ہے۔چودھری چرن سنگھ جی نے تو ایک جگہ یہ کہا ہے کہ کسان اتنا ..... زمین کی مالیکی  اس کی کم ہورہی ہے کہ ایک صورتحال ایسی آئے گی کہ وہ  اپنے کھیت میں ہی ٹریکٹر کو ٹرن کرنا ہوگا تو نہیں کرپائے گا.....اتنا سا زمین کا ٹکڑا ہوگا.... چودھری چرن سنگھ جی کے شبد ہیں ۔ایسی جب فکر ہماری  عظیم ہستیوں نے ہمارے سامنے کی ہے تو ہمیں بھی تو کچھ نہ کچھ انتظامات کرنے ہوں گے۔

آزادی کے بعد ہمارے ملک میں 28 فیصد زرعی مزدور تھے۔ 10 سال پہلے جو مردم شماری ہوئی  تھی ،  اس  میں  یہ آبادی، زرعی آبادی  28 فیصد سے بڑھ کر 55 فیصد ہوگئی ۔ اب یہ کسی بھی ملک کے لئے پریشانی کی بات ہونی چاہئے کہ 28 سے ہمارے زرعی مزدور 55 فیصد تک پہنچ چکے ہیں اور زمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے ، زراعت سے انہیں جو منافع ملنا چاہئے وہ نہیں ملنے کی وجہ سے اس کی زندگی میں یہ مصیبت آئی ہے   اوروہ مزدوری کرنے پر ، کسی دوسرے کھیت  میں جاکر مزدور کی حیثیت سے کام کرنے پر مجبورہو گیا ۔ بدقسمتی سے ، ہمارے ملک میں زراعت کی ،جوسرمایہ کاری ہونی چاہئے وہ  نہیں ہو رہا ہے۔ حکومت اتنا کچھ کر نہیں  پارہی ہے… ریاستی حکومتیں بھی نہیں کرپارہی  ہیں اور کسان خود بھی نہیں کرپارہا  ہے۔ جو کچھ بھی اس کو نکلتا ہے ....  بچوں کی پرورش اور پیٹ بھرنے میں  اس کا  چلا جاتا ہے اور اسی وجہ سے سرمایہ کاری کی بہت  بڑی ضرورت ہے۔

جب تک ہم سرمایہ کاری نہیں لائیں گے … جب تک ہم اپنی کاشتکاری کو جدید نہیں  کریں گے … جب تک کہ ہم سب سے چھوٹے کسان کے مفاد کے لئےانتظام  نہیں  کریں گے … ہم ملک کے زراعت کے شعبے کو طاقتور نہیں بنا سکتے۔ اور اسی لئے ہمارے کسان خود کفیل بنے  ... اسے اپنی پیداوار فروخت کرنے کی آزادی ملے  ... ہمیں اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے کسان صرف گندم اور چاول… وہاں محدود رہے… اس سے بات  بننے والی  نہیں ہے۔ دنیا میں مارکیٹ کیا ہے ، آج اس کی تحقیق کی جارہی ہے۔ اس قسم کی چیزیں تیار کریں اور وہ چیزیں عالمی منڈی میں فروخت کریں۔ ہندوستان کے تقاضے ہیں… ہمیں باہر سے چیزیں نہ لائیں۔ مجھے یاد ہے   مجھے ... میں بہت پہلے جب یہاں تنظیمی کام کرتا تھا ... مجھے نارتھ پارٹ میں  مجھے فاروق صاب کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ مجھے  ہریانہ کا ایک کسان اپنے کھیت  میں لے گیا۔ اس نے مجھ سے  بڑی درخواست کی تو  میں چلا گیا۔ چھوٹی سی جگہ تھی کی اس کی … ایک ،  ڈیڑھ دو بیگہ شاید زمین ہوگی۔ لیکن بڑی پیشرفت… وہ میرے پیچھے پڑا ، آئیےآئیے ۔ میں نے کہا ، بھائی کیا بات ہے ... تو بولا ایک بار آئیے تودیکھئے ۔ تو میں  گیا اس کے وہاں ۔

تقریبا 30-40 سال پہلے کی بات ہے… 30 سال ہوگئے  ہوں گے۔ انہوں  نے کیا کیا ...  دہلی کے 5 اسٹار ہوٹلوں میں  جوچیزیں سبزیاں  وغیرہ غیر ملکوں سے  لاتے تھے، اس نے ان چیزوں کا مطالعہ کیا ۔  اگرا ن کو  چھوٹے مکئی کی ضرورت ہو ، ان کو  چھوٹے ٹماٹر کی ضرورت ہو ، اب اس نے اپنے  اس چھوٹی سی جگہ میں ، اور محدود ماحول کے اندر لوگوں کی مدد لی ، اور مزہ   ہے کہ  اس کا مال  دہلی کے فائیو اسٹار کے ہوٹلوں میں جانا شروع ہوگیا۔ اپنے ملک کو تھوڑا سا بدلاؤکریں ہم ۔ اب ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اسٹرابیری ،  ہم  زیادہ تر یقین کرتے ہیں کہ ان کا تعلق سرد علاقوں سے ہے۔ میں نے دیکھا کہ کچھ کے صحرا میں اسٹرابیری اگ رہی ہیں ... میں نے دیکھ رہا ہوں  کہ مدھیہ پردیش میں،  اترپردیش کے اندر اسٹرابیری ہو رہی ہیں۔ بندیل کھنڈ میں ... جہاں پانی کی پریشانی ہے ... اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں امکانات موجود ہیں۔ اپنے کسان کی رہنمائی کرکے ، ہم نئی چیزوں کی طرف گامزن ہوں گے۔ میںضرورمانتا ہوں کہ ہمارے ملک کا کسان آگے آئے گا… لیکن اس کو … یہ ٹھیک ہے کہ اس کا تجربہ ایسا ہے کہ اسے ہمت دینی  پڑتی ہے... اس کا  ہاتھ تھامنا پڑتا  ہے… ہاتھ پکڑ کر چلنا  پڑتا ہے۔ اگر وہ چلنا شروع کردے تو وہ کمال کرکے  دکھاتا ہے۔ اسی طرح ، زراعت کے اندر نئی سرمایہ کاری میں جتنا  اضافہ ہوگا ...میرا  یقین ہے کہ روزگار کے مواقع  بھی بڑھنے والے   ہیں۔ اب ہم دنیا میں ایک نئی  ہمیں  مارکیٹ مل سکتی  ہے۔

ہمارے یہاں دیہی معیشت میں بہتری لانے کے لئے ایگرو –بز صنعت کے امکانات بھی بڑھیں گے۔اور اس لئے ہمیں اس پورے علاقے کو خودکفیل بنانے کی سمت میں  ہمیں ضرور کام کرنا چاہئے۔ کئی مشکل صورتحال میں  بھی ہمارے کسان نے ریکارڈ پیداوار کی ہے ۔ کورونا وبا میں  بھی ریکارڈ پیداوار کی ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے کسان کی جو پریشانیاں  ہیں ، وہ کم ہوں ، ان کے سامنے جو چیلنج ہیں، وہ چیلنجوںکو کم کرنے کے لئے ہم کچھ قدم اٹھائیں  اور ان زرعی اصلاحوں  سے ہم اس سمت میں  کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کسانوںکو  ایک برابری کا پلیٹ فارم دے پائیں  ہے، جدید  ٹکنالوجی دے پائیں ... ان کے اندر ایک نئی خوداعتمادی بھر پائیں... اس سمت میں  سنجیدہ سوچ کی بہت ضرورت ہے ۔ پرانی سوچ  ، پرانے خیالات کسانی کا بھلا کرپاتے تو بہت پہلے کرپاتے ۔دوسرے سبز انقلاب کی ہم نے بات کرلی نیز بیٹھ کرکے ہمیں اس کو سوچنا چاہئے ۔سبھی پارٹیاں  ، چاہے اقتدار میں ہوں  یا مخالفت میں... یہ ہم سب کا فرض  ہے اور ہم اکیسویں صدی میں  اٹھارہویں صدی کی سوچ سے ہمارے زرعی شعبے کو ، ہم اس کی سوچ  کو  پورا  نہیں کرسکتے ہیں ۔ اسی کو ہمیں بدلنا ہوگا۔

کوئی نہیں چاہتا ہے کہ ہمارا کسان  غریبی کے چکر میں  پھنسا رہے۔ اس کو زندگی جینے کا حق نہ ملے ۔ میں  مانتا ہوں کہ اس کو منحصر رہنا نہ پڑے....اس کو پرادھین  نہ رہنا پڑے ،سرکاری ٹکڑوں  پر پلنے کے لئے مجبور نہ ہونا پڑے ، یہ ذمہ داری  بھی ہم سب کی ہے اور ذمہ داری کو نبھانا ... ہمارا ان داتا  مضبوط ہو ،  ہمارا ان داتا کچھ نہ کچھ اور زیادہ دیش  کے لئے کرسکے ... اس کے لئے اگر ہم موقع دیں گے تو بہت ساری ....۔

سردار ولبھ بھائی پٹیل ایک بات کہتے تھے ..وہ کہتے تھے آزادی  حاصل ہونے کے بعد بھی اگر  غلامی کی بو آتی رہے تو آزادی کی خوشبو نہیں  پھیل سکتی ۔جب تک  ہمارے چھوٹے کسان کو نئے اختیارات نہیں ملتے تب تک  مکمل آزادی کی ان کی بات ادھوری رہے گی اور اس لئے بڑا بدلاؤ کر .. کرکے   ہم کو ہمارے ان کسانوں کو ایک لمبے سفر کے لئے تیار کرنا ہوگا اور ہم سب کو مل  کر کرنا ہوگا۔غلط کچھ کرنے کے ارادے سے نہیں ہونا چاہئے، اچھا کرنے کے ارادے سے ہونا چاہئے۔ کسی کی بھلائی کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔

ہماری سرکار نے چھوٹے کسانوں کے لئے ہرقدم  پردیکھیں گے ۔ چھوٹے کسانوںکو ہم نے بیج سے لے کر کہ بازار تک  پچھلے  6 سالوں میں ان کے ایسے  انٹر وینشن  کئے ہیں جو چھوٹے کسان کی مدد کرسکتے ہیں...چھوٹے کسانوں کو لاسکتے ہیں ۔  اب جیسے ڈیری سیکٹر اور کوآپریٹو سیکٹر ....مستحکم بھی ہیں اور اس کا ایک مضبوط اقداری سلسلہ بھی بڑھا  ،بنا  بھی ہے،اب سرکار کی  دخل کم سے کم ہے پھر بھی وہ اپنی مضبوطی  پر آیا ہے۔ ہم  دھیرے دھیرے پھل پھول سبزی کی طرف بدل دے سکتے ہیں اور اس کے بعد  اناج کی طرف دھیان دےسکتے ہیں۔ ہم بہت  طاقتور بناسکتے ہیں ۔ ہمارے پاس ماڈل  ہے .... کامیاب ماڈل ہے ۔ اس کامیاب ماڈ ل کا ہم استعمال کرنا چاہیں  گے۔ ہمیں اسے متبادل بازار دینا چاہئے ۔

دوسرا  اہم کام جو ہم نے کیا ہے .دس ہزار کسانوں کی پروڈیوسر  س  تنظیم .. یہ کسانوں کے لئے ...چھوٹے کسانوں کے لئے ایک بہت  بڑی  طاقت کے روپ میں ابھرنے والے ہیں اور جہاں جہاں  مہاراشٹر میں   خاص استعمال ہوا ہے ایف پی او بنانے کا  ۔ کہیں اور ریاستوں میں  بھی ، کیرالہ میں  بھی کمیونسٹ پارٹی نے کافی تعداد میں ایف پی او بنانے کے کام میں  لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے  کسان اپنا بازار ڈھونڈنے کے لئے  ایک مستحکم طاقت کے روپ میں  ابھرے گا۔ یہ 10000 ایف پی او  بننے کے بعد آپ دیکھنا کہ گاؤں کے اندر کسان چھوٹے ہیں، اس کو بازار کی طاقت کسان ڈیڈی کیٹ کرے گا اور کسان   طاقتور بنے گا یہ میرا پورا یقین ہے ۔ ان ایف پی او کے توسط سے  بینک سے پیسہ بھی مل سکتا ہے ، وہ چھوٹے چھوٹے   ذخیرے کا انتظام کرسکتا ہے  اگر وہ تھوڑی طاقت زیادہ اکھٹا کرے تو وہ چھوٹے چھوٹے کولڈ اسٹوریج بھی بنا سکتا ہے اور ہم نے ایک لاکھ کروڑروپیہ زراعت کے بنیادی ڈھانچے کے لئے طے کیا ہے اور اس کو ہم  خود سہایتا گروپ   یعنی سیلف ہیلپ گروپ ،   ان سیلف ہیلپ گروپ میں  بھی  قریب سات کروڑ  بہنیں جٹی ہیں ۔ گاؤں کی بہنیں   آخر وہ کسان کی بیٹیاں ہوتی ہیں ۔ کسی نہ کسی کھیتی سے جڑے ہوئے خاندان کی بیٹیاں ہوتی ہیں اور  و ہ بھی آج  نیٹ ورک کسانوں کی بھلائی میں  کام آرہا ہے اور کسانی سرگرمیوں  کا سینٹر بنتا جارہا ہے۔اور ان کے ذریعہ بھی  مجھے یاد ہے گجرات میں  بھلساڑ ضلع میں  آدی باسیوں کے پاس زمین بھی کافی اوپر نیچے ہے ،  ان ایون لینڈ  ہے۔او ر بہت چھوٹی زمین ہے ۔ ہم نے ایک پروجیکٹ کیا تھا اور عبدالکلام جی ایک دن  اپنا جنم دن وہاں منانے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے کہا بھائی کوئی پروٹوکول نہیں چاہئے ، میں ان کسانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔بہت کامیاب تجربہ  تھا مہیلائیں کافی کام کرتی تھیں  اس آدی باسی  بیلٹ کے اندر ۔ اور مشرو م ، کاجو  ..وہ  گو ا کی  برابری کا کاجو پیدا کرنے لگ گئی تھی اور انہوں نے مارکیٹ حاصل کیا تھا۔ چھوٹے کسان تھے ،چھوٹی جگہ تھی لیکن  کوشش کی  تو  نتیجہ ملا اور عبدالکلام جی نے  اس بارے میں لکھا بھی ہے۔ انہوں نے آکر کے دیکھا تھا ۔ تو میں کہتا ہوں کہ ہم نے نئے تجربات کی سمت  میں جانا چاہئے۔دال کی ہمارے یہاں مشکل تھی ۔  ہم نے 2014  کے کسانوں کے آگے درخواست کی ۔

اب آپ دیکھئے دال کی ہمارے یہاں مشکل تھی ۔ میں نے 2014 میں آکر کسانوں کےسامنے درخواست کی ، انہوں نے دیش کے اندر ، دال کی مشکلوں سے ہمیں آزادکردیا اور ان کو بازار بھی ملک گیا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل آن لائن –آف لائن  ای- نیم  کے ذریعہ بھی گاؤں کا کسان بھی اپنا مال بیچ رہا ہے۔ ہم نے کسان ریل کا ایک تجربہ کیا۔ او کورونا وبا کے دور کا  فائدہ اٹھاتے ہوئے اور یہ کسان ریل  اور کسان اُڑان  یہ بھی اپنے آپ میں بڑے بازاروں  تک چھوٹے کسان کو پہنچانے کی ایک بہت بڑی مدد ملی ہے۔ایک طرح سے یہ ٹرین جو ہے چلتا پھرتا کولڈ اسٹوریج ہے اور میں ایوان کے اراکین سے ضرور کہنا چاہوں گا کہ کسان ریل کہنے کو تو ایک سامان ڈھونے والا ذریعہ ہے لیکن اس نے دور سے دور گاؤں کے چھوٹے کسان کو کسی اور ریاست کے دوسرے بازار کے ساتھ جوڑدیا۔اب دیکھئے، ناسک سے کسان  مظفر نگر کے بیوپاری سے  جُڑا اور کیا بھیجا ،اس کی طاقت بڑی نہیں تھی ، 30 کلو انار، یہ اس نے وہاں سے اس کسان ریل سے بھیجا اور خرچہ کتنا ہوا ، 124 روپے، اس کو بڑا بازار مل گیا۔ یہ 30 کلواتنی چھوٹی چیز ہے کہ شاید آج کوئی کورئیر والا بھی نہیں لے جاتا لیکن یہ سہولت کی تو یہاں کا کسان وہاں تک جاکر اپنا مال بیچ  پایا۔ اسی طرح سے جو بھی اس کو سہولت ملتی ہے ، وہ جو چاہے  انڈے ، میں  دیکھا ہے کہ انڈے کسی نے بھیجے ہیں اور انڈے بھی اس کو قریب 60 روپے خرچہ ہوا اس کو بھیجنے  کا اور اس کے انڈے پہنچ گئے، وقت پر پہنچ گئے ، اس کا مال بک گیا۔دیوالی میں ،  دیوالی کا ایک کسان 7  کلو اس کی  کیوی ،اس کو اس نے دانا پور بھیجی ۔ بھیجنے کا خرچ  62 روپے ہوا لیکن اس کو  60 کلو کی کیوی کا اچھا بازار ملا اور دوسری ریاست میں جاکر کہ ملا۔ کسان ریل یہ کتنی چھوٹی بات ہے لیکن کتنی بڑی تبدیلی کرسکتی ہے ،  اس کی ہم  مثال دیکھتے ہیں ۔

محترم اسپیکر جی

چودھری چرن سنگھ جی نے ایک کتاب لکھی ہے- ہندوستان کا اقتصادی  منصوبہ  ۔ ہندوستان کا اقتصادی منصوبہ کی کتاب میں چودھری صاحب نے لکھا،  تجویز کیا ہے – سارے ملک کو خوراک دینے کے لئے  ایک ہی علاقہ مان لیا جائے ۔دوسرے الفاظ میں ، ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں لانے جانے پر کوئی پابندی نہ ہو،  یہ چودھری چرن سنگھ جی کتاب کا اقتباس  ہے۔ زرعی اصلاحوں  ، کسان ریل ، منڈیوں کو الیکٹرانک پلیٹ ہو ،  ای –نیم ،  یہ ساری چیزیں  ہمارے دیش کے کسانوں اورچھوٹے کسانوںکو ایک بہت بڑا موقع دینے کی کوششوں سے  ممکن ہورہا ہے۔

محترم اسپیکر جی

جو لوگ اتنی باتیں کرتے ہیں، سرکار اتنے سالوں تک چلائی ہے ۔ میں یہ نہیں مانتا ہوں ان کو کسانوں کی دقت  کا پتہ نہیں تھا یا ان کو سمجھ نہیں تھی۔ پتہ بھی تھا ، سمجھ بھی تھی اور ان کو میں  انہی کی بات آج یاد کرانا چاہتا ہوں ۔  وہ موجود نہیں ہیں  میں جانتا ہوں لیکن ملک کے لئے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ میں  اقتباس  پڑھتا ہوں the state took initiative to amend their state APMC Act in the year 2005 itself providing for direct marketing contract farming setting up of a private market, consumer, farmer markets, e-trading and notified the rules in 2007 to implement the amended provision infact 24 private markets have already come up in the state.

یہ کس نے کہا تھا؟ یہ اے پی ایم سی قانون بدل دیا ہے،  اس بات کو  کو ن فخرسے کہہ رہاتھا ؟ 24 ایسے بازار بن چکے ہیں،  اس کا  فخر کو ن کررہا تھا؟ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی  کی سرکار کے وزیر زراعت  جناب شرد پوار جی یہ فخر کی بات کررہے تھے۔ اب آج ایک دم سے الٹی بات کررہے ہیں اور اس لئے شک ہوتا ہے کہ  آخر کار آپ  نے کسانوں کو  الجھن میں ڈالنے کے لئے یہ راستہ کیوں چنا ہے؟  ملک کی منڈیاں چل رہی ہیں ،  سینڈیکیٹ کی قیمتوں پر اثر کرنے والے نیکسیس کے بارے جب ان کو پوچھا گیا ،  ان کو ایک سوال پوچھا تھا کہ یہ نیکسس ہے منڈیوں والا ، وغیرہ   کا توکیا کہنا ہے ؟شرد پوار  کا ایک دوسرا جواب ہے وہ بھی  بڑا دلچسپ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کسانوں کے بچاؤ کے لئے تو ایک ہی ایم سی اصلاحات کو پروموٹ کیا جارہا ہے تاکہ کسانوں کو ایک  اے پی ایم سی منڈیوں کا اختیار ملے ۔جب زیادہ بیوپاری رجسٹر ڈ ہوں گے تب  ہلچل بڑھے گی  اور منڈی میں  سانٹھ گاٹھ اس سے ختم ہوگی ،  یہ بات انہوں نے کہی ہے ، اب اس لئے میں سمجھتاہوں کہ ان باتوں کو ہمیں سمجھنا ہوگا ، جہاں ان کی سرکار ہے ، الگ الگ جو سامنے بیٹھے ہیں  متروں کی   انہوں  نے بھی  کم  ماترا میں   اس  زرعی  شعبے میں  اصلا ح کرنے کی کوشش کی بھی ہے اور  ہم تو وہ ہیں  جنہوں  نے 1500 قانون ختم کئے تھے۔ ہم ترقیاتی  سیاست میں  یقین کرتے ہیں ، ہم جارحانہ  سیاست میں  جانا نہیں چاہتے ہیں اور    اس لئے اور بھوجپوری میں  ایک کہاوت  ہے ، کچھ لوگ  ایسے ہیں بھوجپوری میں  کہاوت ہے- نا کھیلب  ،  ناکھیلن دیب ، کھیل بھی  بگاڑت  ۔ نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا میں  کھیل کو بھی بگاڑ کے رکھوں  گا۔

محترم  اسپیکر جی

ملک کا مان بڑھانے میں سبھی کا مجموعی یوگ دان کشمیر سے کنیا کماری تک ، کچھ سے لے کر کاما کھایا تک  ، جب ہر ہندوستانی کا پسینہ لگتا ہے تب جاکر دیش آگے بڑھتا ہے ۔ میں کانگریس کے ساتھیوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ملک کے لئے  عوامی شعبہ ضروری ہے   تو نجی شعبے کی بھی ساجھیداری  بھی  اتنی ہی ضروری ہے ۔سرکار نے   موبائل مینو فیکچر نگ کی حوصلہ افزائی کی  ۔  پرائیویٹ  پارٹیاں آئیں ، مینوفیکچرر آئے ۔ آج غریب سے غریب خاندان  تک اسمارٹ فون پہنچ رہا ہے۔ ٹیلی کام میں   مقابلے کی حوصلہ افزائی کی تو  موبائل پر بات کرنا قریب قریب زیرو ہوگیا اور ڈیٹا بھی دنیا میں سب سے سستا آج ہندوستان میں  ہے۔یہاں تک کہ ہماری  ادویہ کی صنعت ، ہمارے ویکسین  بنانے والے ، کیا یہ سارے سرکاری ہیں کیا ؟  آج انسانیت کے کام اگر بھارت آرہا ہے تو ہمارے اس نجی شعبے کا بھی بہت بڑا رول ہے،  پرائیویٹ صنعت کاروں کا رول ہے اور ہمیں  اپنے دیش کے نوجوانوں  پر بھروسہ ہونا چاہئے ، ہمارے دیش کے نوجوانوں  پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اس  طرح سے کوستے رہیں  گے، ان کو نیچا دکھاتے رہیں گے اور ہم کسی بھی نجی سرگرمی کو جھڑک دیں گے ۔ کوئی زمانہ ہوگا، جب کوئی سرکار  کرے گی۔ اس  زمانے میں  ضرور ی ہوگا ، کیا ہوگا۔

          آج دنیا بد ل چکی ہے ،سماج کی اپنی طاقت ہے ،دیش کے اندر طاقت ہے، ہر ایک کسی کوموقع ملنا چاہئے اور ان  کو اس طرح سے بے ایمان ظاہر کرنا ، ان کے لئے گندی زبان کا استعمال کرنا، یہ ایک کلچر کسی زمانے میں  ووٹ پانے کے لئے کام آیا ہوگا ۔ مہربانی کرکے ہم اور میں  لال قلعہ پر سے بولا  ویلتھ کریئٹر بھی  دیش کو ضرور ی ہوتے ہیں تبھی  تو دولت بانٹیں  گے ، غریب تک دولت  بانٹیں گے کہاں سے ؟ روزگار دیں گے کیسے ؟  اور سب کچھ  بابو ہی یہ کریں  گے ۔ آئی اے ایس  بن گیا مطلب وہ  فرٹیلائزر کا کارخانہ  بھی چلائے گا، آئی ایس ہوگیا تو وہ  کیمیکل کا کارخانہ بھی چلائے گا، آئی اے ایس ہوگیا تو وہ ہوائی جہاز  بھی چلائے گا۔ یہ کون سی بڑی طاقت بناکر رکھ دی ہم نے ؟ بابوؤں کے ہاتھ میں  دیش دے کر ہم کیا کرنے والے ہیں ہمارے بابو بھی تودیش کہ ہیں تودیش کو نوجوان بھی تودیش کا ہے۔ ہم  اپنے دیش کو نوجوانوں کو جتنا زیادہ موقع دیں گے ، مجھے لگتا ہے ان کو اتنا ہی  فائدہ  ہونےوالا ہے۔

 جناب اسپیکر جی

جب حقیقتوں  کی بنیاد پر بات ٹکتی نہیں ہے تو ایسا ہوتا ہے جو ابھی دیکھا ہے ۔ افواہوں  کو ہوا دی جاتی ہے،  یہ ہوجائے گا ، وہ ہوجائے گا اور ماحول یہ آندولن جیوی   پیدا کرتے ہیں۔محترم اسپیکر جی  ، کسان  احتجاج کی  پاکیزگی  اور میں  بہت ذمہ داری کے الفاظ استعمال کررہا ہوں ،  میں کسان آندولن کو پاک مانتا ہوں اور بھارت کی  جمہوریت میں  آندولن کو  اہمیت ہے اور  رہنے والا ہے اور ضروری  بھی ہے لیکن جب آندولن جیوی  پاک آندولن کو اپنے فائدے کے لئے برباد کرنے کے لئے نکلتے ہیں تب  کیا ہوتا ہے؟ کوئی مجھے بتائے ،تین کسان قانونو ں  کی بات ہو اور دنگا باز لوگ جو جیل میں ہیں، جو فرقہ پرست لوگ جو جیل میں ہیں، جو دہشت گرد لوگ جیل میں  ہیں، جو نکسل وادی جیل میں ہیں ، ان کی فوٹو لے کر ان کی آزادی کی مانگ کرنا یہ کسانوں کے آندولن کو ناپاک کرنے کی کوشش ہے  کہ نہیں؟

محترم اسپیکر جی

اس دیش میں ٹول پلازہ سبھی سرکاروں نے منظور  کی ہوئی سہولت ہے ۔ ٹول پلازہ اس ملک میں  سبھی سرکاروں نے کی ہوئی سہولت ہے اور ٹول پلازہ کو توڑنا اس ٹول پلازہ لو قبضہ کرنا ، اس ٹول پلازہ کو نہ چلنے  دینا ،  یہ جو طریقے   چلے ہیں ، وہ طریقے کیا پاک آندولن کو داغدار کرنے کی کوشش ہے کہ نہیں؟ جب پنجاب کی زمین پر  سیکڑوں کی  تعداد  کے اندر جب ٹیلی کام کے ٹاور توڑدئے گئے ، کیا وہ کسان کی مانگ سے منسلک ہیں کیا؟کسان کے  پاک آندولن کو برباد کرنے کا کام آندولن کرنے والے  نے نہیں   ، آندولن  جیویوں نے کیا ہوا ہے اور اس لئے دیش کو  آندولن کاری  اور آندولن جیویوں کے بیچ فرق کرنا بہت ضروری ہے اور ملک کو ان  آندولن جیویوںسے بچانا وہ بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ افواہ  پھیلانا، جھوٹ  پھیلانا ، گمراہ  کرنا  اور دیش کو دبوچ  کرکے رکھ دینا ،دیش بہت بڑا ہے،  ملک کے سامنے   انسانیت کی امیدیں بہت ہیں  اور ان کو لے کر کہ ہمیں  آگے بڑھان ہے اور اس سمت میں  ہم کوشش کررہے ہیں ۔  ملک میں  ایک بہت  بڑا دھڑا  ہے ، یہ دھڑا ان کی ایک پہچان ہے talking the right things یعنی  ہمیشہ صحیح  بات بولنا ۔ صحیح بات کہنے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے لیکن اس دھڑے کو   ایسے لوگوں سے نفرت   -چڑ ہے  ،جو  doing the right things پر چلتے ہیں ۔

یہ فرق  سمجھنے جیسا ہے  talking the right thingsاس کی وکالت کرنے والے جب doing the right things کی بات آتی ہے تو اسی  کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔  یہ چیزوں کو صرف بولنے میں  یقین کرتے ہیں، اچھا کرنے میں ان کابھروسہ ہی نہیں  ہے ، جو لوگ   انتخابی اصلاح کی بات کرتے ہیں ۔ ون نیشن ون الیکشن   ، اس کی جب بات آتی ہے تو مخالفت میں  کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہی لوگ ،  جب جینڈر جسٹس کی بات آتی ہے تو بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں لیکن ٹریپل طلاق ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو مخالفت میں  کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہ ماحولیات کی بات کرتے ہیں  تو پن بجلی یا نیو کلیائی بجلی اس کے سامنے  جاکر کہ جھنڈے لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، ہونا نہیں چاہئے ، اس دیش کے لئے آندولن چلاتے ہیں ،تمل ناڈو کو اس کا بھگتان  بھی کرچکا ہے اسی طرح سے جو دلی میں  پالیوشن کو  لے کر کورٹ  میں  جاکر مقدمہ کرتے ہیں ، اپیل کرتے ہیں ، مفاد عامہ کی درخواست کرتے ہیں ، دلی کو وہی لو گ پرالی جلانے والوں کے  حق میں جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ تب سمجھ میں  نہیں آتا ہے کہ کس طرح سے ملک کو گمراہ کرنے کا ان لوگوں کی  کوشش ہے اور اس  کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہے اور اس کو  دیکھنے کی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ میں دیکھ رہاہوں  یہ 6 سا ل میں  اپوزیشن کے مدعے کس قدر بدل گئے ہیں ۔ ہم بھی کبھی اپوزیشن میں تھے لیکن ہم  جب بھی اپوزیشن میں  تھے،  تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ترقی کے مدعوں کو لے کر  کہ  بدعنوانی کے مدعوں کو لے کر کہ    ہم  ایوان میں  بیٹھے ہوئے لوگوں کو گھیرتے تھے ۔ ہم وہ آواز اٹھاتے تھے ، ہم کوشش کرتے تھے ۔ میں حیران ہوں  ، آج کل ترقی کے مدعے کی چرچا ہی نہیں کرتے ، میں انتظار کرتاہوں کہ ایسے معاملے اٹھائیں تاکہ ہمیں کچھ کرنے کا موقع   ملے کیونکہ ہم کیا کررہے ہیں ، لیکن وہ ہمیں  موقع ہی نہیں دیتے  کیونکہ ان کے پاس ان مدعوں  پر بولنے کے لئے کچھ رہا ہی نہیں  ہے اور اس لئے نہ وہ کتنی سڑکیں  بنیں   پوچھتے ہیں، نہ کتنے پُل  بنے پوچھتے ہیں ، نہ سرحدی   نظم ونسق میں کیا ہوا ہے ، کتنی پٹریاں  بچھی ہیں ، ان سارے موضوعات پر ان کو بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں  ہے۔

محترم جناب اسپیکر جی

اکیسویں صدی میں بنیادی ڈھانچے کی بہت بڑی اہمیت ہے اور ہندوستان کو آگے جانا ہے تو بنیادی ڈھانچے پرتوجہ دینے کی بہت ضرورت ہے اور آتم نربھر بھار ت کے روڈ  میپ کے لئے  بنیادی ڈھانچے پرتوجہ دینا وقت کی اہم  پکار ہے اور ہم سب کو  اسے  قبول کرنا ہوگا ۔ بنیادی ڈھانچہ مضبوط  ہوگا تبھی  ملک کی رفتار بھی تیز ہونےوالی ہے، اس کی سمتیں  بھی واضح  ہونےوالی ہیں اور اسی لئے ہمیں کوشش کرنا چاہئے اور بنیادی ڈھانچے کا مطلب ہے ،  غریب کے لئے ، اوسط درجے کے طبقے کے لئے،  مختلف نئے  امکانات کو  بنیادی ڈھانچے جنم دیتے ہیں ، نئے مواقعوںکو جنم دیتا ہے ، روزگار کے نئے مواقع لے کر آتا ہے ، معیشت کو کئی گنا کرنے کی اس کی طاقت رہتی ہے اور اسی لئے ہمیں بنیادی ڈھانچے کو بدل دینے کی ضرورت ہے۔بنیادی ڈھانچے  کا مطلبووٹ بینک کا موقع نہیں ہوتا ہے، کاغذ پر اعلان کردینا  کہ یہ روڈ بنے گا، ایک چناؤ جیت لو ۔ دوسری بار جاکر  وہاں سفید پٹی کرلو، دوسرا چنا جیت لو، تیسری بار  جاکر وہاں  تھوڑی مٹی  ڈال دو، چلو یہ  اس کام کے لئے نہیں ہے، یہ سچ مچ میں زندگی بدلنے کے لئے  اقتصادی  صورت حال کو بدلنے کے لئے  انفراسٹرکچر کو ہم نے قوت دینے  کی ضرورت ہے۔ 110 لاکھ  کروڑ روپے کی اسکیم کے ساتھ ہم نے  بجٹ میں  غیر معمولی خرچ کے ساتھ  آگے  بڑھنے کی سمت میں  ہم چل رہے ہیں۔ ملک کے 27 شہروں میں  میٹرو ٹرین ، 6 لاکھ سے زیادہ گاؤوں میں تیز انٹرنیٹ ، بجلی کے شعبے میں ہم  ون نیشن ون گرڈ  اس کنسپٹ کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سولر  پاور سمیت  قابل تجدید توانائی کے معاملے میں آج  دنیا کے پانچ  ٹاپ ملکوں کے اندر ہندوستان  نے  اپنی  جگہ  بنالی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے  سولر اور  ونڈ کی  ہائبرٹ پاور آج  ہندوستان میں دنیا کا سب سے بڑا  بن رہا ہے۔ ترقی سے  ہم ایک نئی تیزی  دیکھ رہے ہیں، نئے پیمانوں پر جارہے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں  نہ برابری ہے، خاص کر  کہ مشرقی بھارت  ، اگر ملک کے  مشرقی بھارت کی ترقی ہمیں اس  حالت میں  لانا  ہوگا تاکہ مغربی ہندوستان کی  جو اقتصادی صورت حال ہے، اس کی برابری فورا کرے ، تو مل کر کے ملک کے اندر ترقی کے امکانات بڑھیں گے اور  اس لئے ہم نے  مشرقی  ہندوستان کی ترقی پر  ہم نے خاص  زور دیا ہے۔ چاہئے گیس  پائپ لائن بچھانے کی بات ہو، چاہے روڈ بنانے کی بات ہو، چاہئے ایئر پورٹ بنانے کی بات ہو، چاہے  ریل بچھانے کی بات ہو، چاہے انٹرنیٹ کنکٹی ویٹی کی بات ہو اور اتنا ہی نہیں آبی گزر گاہوں کے ذریعے  نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کو جوڑنے کی  ایک بہت  بڑی حصہ داری  کی کوشش چل رہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ  ہمارا  یہ فوکس ہے کہ ملک کو ایک  متوازن ترقی کی طرف  لے جانا چاہئے،۔ ملک کے ہر علاقے کا  ایک  بھی علاقہ  پیچھے نہ رہ جائے، اس طرح سے ترقی کے  پیمانوں کو لے کر آگے چلنے کا ہم نے کام کیا ہے اور اس لئے مشرقی ہندوستان پر ہم  مشن  موڈ میں کام کر رہے ہیں۔ درجنوں ضلعوں میں سی این جی ، پی این جی ، سٹی گیس ڈسٹری بیوشن، یہ جال ہم بچھانے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔  گیس پائپ لائن  پہنچنے کے سبب  کھاد کی پیداوار میں بھی بہت تیزی آئی ہے اورکھاد جو  کارخانے بند پڑے تھے، ان کو دوبارہ کھولنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ہم نے گیس انفراسٹرکچر  کے اوپر  زور دیا ہے۔ ہم نے  پائپ لائن کی  طرف  زور دیا ہے۔

قابل احترام اسپیکر جی!

کئی ملکوں سے  ہم سنتے آئے ہیں، ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور لیکن  یہ  ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور کا  کیا ہاتھ تھا، جب ان کو  خدمت کرنے کا موقع ملا تھا، صرف  ایک کلو  میٹر کام ہوا تھا۔ آج تقریبا  600  کلو میٹر  6  سال کے اندر   600 کلو میٹر اور  ایکچوئلی ڈیڈیکٹڈفریٹ  پر کام چلنا شروع  ہو گیا، مال  ڈھونے کا کام شروع ہو گیا اور وہ  سیکشن کام کر رہا ہے۔ یو پی اے کے دور میں بارڈر انفراسٹرکچر  کسی بھی ملک کی  دفاع کے لئے  بارڈر انفراسٹرکچر  بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن  اس کے تئیں  اتنی   مایوسی  کی گئی ، اتنی لاپروائی کی  گئی، ملک کے اندر ہم  ان موضوعات کو پبلکلی گفتگو کر نہیں سکتے، کیونکہ  ملک کی  سلامتی  کے نظریئے سے اچھا نہیں ہے۔ لیکن یہ تشویش کا موضوع ہے کہ ہم نے  کیونکہ  وہاں  لوگ نہیں ہیں، ووٹ نہیں ہیں، ضرورت نہیں لگی، فوجی  آدمی جب جائے گا، جائے گا، دیکھا جائے گا، کیا ہونے والا ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ تھا  اور اتنا ہی نہیں ایک بار  تو  ایک رکشا منتری نے پارلیمنٹ میں کہہ دیا تھا کہ ہم  اس لئے انفراسٹرکچر کرتے ہیں، بارڈر پر تاکہ  کہیں دشمن ملک اس انفراسٹرکچر کا استعمال  نہ کرلے۔ کمال  کے ہو بھائی، یہ سوچ ہے۔ اس  کو بدل کر کے  ہم نے آج قریب قریب جو  توقعات اور اہتمام تھا، اس کا  ایک بہت بڑا  حصہ بارڈ کے اوپر  انفراسٹرکچر کی سمت سے ہم نے پورا کیا ہے۔ ایل اے سی پر  پل  آج میرا  اندازہ ہے کہ قریب  75   کے قریب برج پہلے ہی  وہاں  کام چل رہا ہے، تیزی سے اور  اس لئے کئی  سینکڑوں  کلو میٹر ہم  نے روڈ بنائے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جو کام ہمارے  سامنے  تھا ، قریب قریب 75  فیصد تو  ہم نے  اس  کو پورا بھی کرلیا ہے اور ہم  آگے بھی اس کام کو  جاری رکھیں گے۔ بنیادی ڈھانچے کے  الگ الگ  شعبوں کو  اسی طرح سے  آپ  دیکھئے  اٹل ٹنل ہماچل پردیش میں اس کا  حال کیا تھا۔ اٹل جی کے وقت جس کی  سوچ کی گئی ، اٹل جی کے  جانے کے بعد  کسی نہ کسی  فائلوں میں اٹکا رہا۔

ایک بار چھوٹا سا کام  ہوا  پھر  اٹک گیا، ایسے ہی کرتے کرتے چلا گیا، پچھلے 6 سالوں   کے اندر اس کے پیچھے ہم لگے اور آج اٹل  ٹنل  کام کر رہی ہے۔ ملک کی  فوج  بھی  وہاں سے  آرام سے موو کر رہی ہے ، ملک کے  شہری بھی  موو کر رہے ہیں، جو راستے 6-6  مہینے تک بند ہوتے تھے، وہ آج کام کرنے لگے ہیں اور اٹل ٹنل کام کر رہی ہے۔ اسی طرح  سے میں یہ بات صاف کہنا چاہوں گا کہ جب ملک کے سامنے کوئی چنوتی آتی ہے ، یہ ملک کی  اہلیت ہے۔ ہمارے ملک کی سلامتی  کے دستوں کو  اہلیت  حاصل ہے۔ ملک کو کبھی نیچا دیکھنا پڑے ایسی صورت حال ہمارے فوج کے جوان کبھی  کرنے ہی نہیں دیں گے، کبھی ہونے ہی نہیں دیں گے، میرا پورا یقین ہے۔  آج ان کے ذمے جو بھی ذمہ داری،  جہاں بھی  ذمہ داری ملی ہے بخوبی نبھا رہے ہیں۔ قدرتی نامواقف  حالات کے دوران ہی  بڑی  مستعدی کے ساتھ نبھار ہے ہیں اور ہمیں ہماری فوج کی  سینا  پر فخر ہے۔ ہمارے  ویروں پر فخر ہے۔ ان کی اہلیت پر ہمیں فخر ہے او رملک کی ہمت  کے ساتھ اپنے  فیصلے بھی کرتا ہے اور ہم اس کو  آگے بھی  لے جارہے ہیں۔ میں نے کبھی  ایک غزل سنی تھی، زیادہ تو مجھے  دلچسپی  بھی نہیں ہے، مجھے زیادہ آتا بھی نہیں ہے لیکن اس میں لکھا تھا ، میں  جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں، وہ  غزل آپ کو سناتا ہوں۔ مجھے  لگتا ہے یہ  جو ساتھی چلے گئے، وہ  جن چیزوں  کے اندر جیتے ہیں۔ پلتے ہیں ، وہ وہی سنتے رہتے ہیں اور جو ان کے  کا ل کھنڈوں میں انہوں نے دیکھا ہے، جو ان کے کال کھنڈوں میں انہوں نے کیا ہے، اسی کو وہ  کہتے رہتے ہیں اور اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اب چلنا ہی ہوگا۔ ہمیں بڑی ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا ہی ہوگا اور میں نے کہا  پوسٹ کورونا ایک نیا ورلڈ آرڈر جب ہمارے سامنے آ رہا ہے تو ہندوستان میں کچھ نہیں  بدلے گا کہ ذہنیت چھوڑ دینی ہوگی، یہ تو چلتا ہے، چلتا رہے گا۔ ذہنیت  چھوڑ دینی پڑے گی، 130  کروڑ  ہم وطنوں کی اہلیت  لے کر چل رہے ہیں، مسئلے  ہوں گے، ملینس آف پراپلمس ہیں تو  بلین آف سولوشن بھی ہیں۔ یہ  ملک  طاقت ور ہے اور اس لئے ہم نے  ہماری آئینی  بندوبست پر یقین رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور مجھے  یقین ہے کہ ہم  ان باتوں کو لے کر  آگے چلیں گے۔ یہ بات صحیح ہے کہ مڈل  مین کلچر ختم ہوا ہے لیکن ملک کا مڈکل کلاس ، جو ہے  اس کی بھلائی کے لئے بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے، جس کے  سبب  ملک کو آگے بڑھانے میں اب جو  مڈل کلاس بلک ہے وہ بہت بڑا رول ادا کرنے والا ہے اور  اس کے لئے  ضروری جو بھی قانونی  انتظامات  کرنے پڑے وہ قانونی  انتظامات بھی ہم نے  کئے ہیں۔

قابل احترام اسپیکرجی!

 ایک طرح سے  اعتماد کے ساتھ ایک ترقی کے  ماحول میں ملک کو  آگے لے جانے کی لگاتار کوشش چل رہی  ہے، میں صدر جمہوریہ  ہند  کا دل سے  شکر گزار ہوں کہ  متعدد موضوعات پر  انہوں نے اسے واضح کیا ہے ، جن کا سیاسی ایجنڈا ہے، وہ ان کو  مبارک، ہم ملک کے ایجنڈے کو لے کر کے چلتے ہیں، ملک کے ایجنڈے کو لے کر چلتے رہیں گے۔ میں پھر ایک بار ملک کے کسانوں سے  اپیل کروں گا کہ آیئے  میز پر بیٹھ کر ملک کر مسائل کا حل تلا ش کریں۔ اسی ایک امید کے ساتھ صدر کے خطاب کو صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ!

 

 

********

 

ش ح۔ح ا ۔ق ر،۱ ع، رم، ع ا، س ح

(U: 1399)

 



(Release ID: 1697109) Visitor Counter : 2354