صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

ڈاکٹرہرش وردھن نے ڈبلیو ایچ او ایگزیٹوبورڈ کے 148ویں اجلاس کی صدارت کی


2020کو وڈ ویکسین کا سال تھا ، 2021وہ سال ہوگا جس میں ہم اس ویکسین کو پوری دنیا کے سب سے ضرورت مند افراد تک دستیاب کرانے کے چیلنج کا سامنا کریں گے

امریکہ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او میں شرکت جاری رہنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیاگیا

ڈاکٹرہرش وردھن نے 2030کے ٹیکہ کاری سے متعلق ایجنڈے کے لئے متفقہ حمایت پرکہا‘‘ویکسین کے دائرے میں مسلسل توسیع کی جانی چاہیئے ، خاص طورپر کمزورطبقات تک اسے پہنچاناچاہیئے اور عدم مساوات میں کمی ہونی چاہیئے

Posted On: 27 JAN 2021 11:00AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،27جنوری:صحت وخاندانی بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹرہرش وردھن نے کل ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ ڈبلیو ایچ او کے ایگزکیوٹیو بورڈ کے 148ویں اجلاس کی ڈجیٹل طورپر صدارت کی ان کی اختتامی کلمات درج ذیل ہیں ۔

ایکسی لینسیز، سرکردہ مندوبین ، میرے ساتھی نائب صدراوراجلاس کی روداد اعلیٰ سطح پرپیش کرنے والے ریپوریٹو ر، ڈائرکٹرجنرل ، علاقائی ڈائرکٹرصاحبان ، قابل احترام ساجھیداروں ، خواتین وحضرات !

میں آپ سبھی کا تہہ دل سے اظہارتشکرکرکے شروعات کرناچاہتاہوں ، ڈبلیو ایچ اور کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے 148ویں اجلاس کو بہت مفید اورکامیاب بنانے کی غرض سے پوری قوت اورعزم کے ساتھ اس میں شرکت کررہے ہیں ۔

میں تمام کثیراوقات والے خطوںمیں ایک بڑے ایجنڈے کے ساتھ عملدرآوری میں درپیش بندشوں سے نمٹنے اوروہ بھی ورچول طریقے سے نمٹنے کے لئے تمام رکن ممالک کا شکریہ اداکرناچاہتاہوں ۔ ڈبلیو ایچ او کے لئے آپ میں سے کئی کی جانب سے وسیع حمایت کے اظہارکے لئے بھی میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے تاکہ ہم مکمل طورپر اپنے کام میں مصروف رہیں اوران لوگوں کی زندگیوں پراثرانداز ہوں جنھیں اس کی سب س ےزیادہ ضرورت ہے ۔

مجھے اس بات سے حوصلہ ملا ہے کہ ہم سب پالیسی سے متعلق ایک خاکہ تیارکرنے پررضامند ہیں اور دنیا میں ہرقسم کی مشکلات کے باوجود جن کا ہم سامنا کررہے ہیں ہم زبردست پیش رفت کررہے ہیں ۔

میری اس حقیقت سے بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ ہم سب اس بات پررضامندہیں کہ ہمیں مزید اصلاحات اورصورت حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب سے کمزور رکن ملکوں کے عوام کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لاسکیں ۔

مجھے سب سےزیادہ اس بات سے حوصلہ ملاہے کہ نازک حالات کے باوجودجن کاسامنا ہم سب کو اس سب سے سے سنگین انسانی بحران کے دورمیں ورچوئل طریقے سے کرناپڑرہاہے ، ایک ایسے وقت کہ جب ہم سب سمجھ رہے ہیں کہ آئندہ دودہائیوں میں صحت سے متعلق بہت سے اہم چیلنج پیش آنے والے ہیں ، ہم نے ایک نئے عزم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی غرض سے ایک مشترکہ موقف اختیارکیاہے اور اس بات کو یقین دہانی کی ہے کہ کوئی بھی اورواقعہ کوئی بھی ہمیں دنیا بھرمیں سبھی کے لئے طبی دیکھ بھال کی دستیابی کی جانب پیش قدمی کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

میں نے اس سے پہلے بھی یہ بات کی ہے اوراب ایک بارپھراسے دہراتاہوں ۔ جیسا کہ موجودہ عالمی وباء جیسے سبھی چیلنجز ایک مشترکہ اقدام کے متقاضی ہیں کیونکہ یہ مشترکہ خطرات میں جن کے لئے مشترکہ ذمہ داری اوراقدام کی ضرورت ہے اورحقیقت میں یہ مشترکہ ذمہ داری رکن ملکوں کے ہمارے اتحاد جو ڈبلیو ایچ او پرمشتمل ہے ، کاکلیدی فلسفہ بھی ہے ۔

میں نے اس ہفتے جو آپ سب کے درمیان یہ عزم دیکھا ہے اس سے مجھے اپنی اس عظیم تنظیم پربہت فخرہوتاہے ۔

لگ بھگ ایک سال پہلے کووڈ -19کو ایک عالمی وباقراردیئے جانے کے بعد سے ، ہم نے اپنی اجتماعی کوششوں کے ساتھ اس بیماری کے خلاف زبردست لڑائی کی ہے تاکہ اس کے پھیلاو پرقابوپایاجاسکے ۔ بیماری کو دورکیاجاسکے اور اموات کو کم سے کم کیاجاسکے ۔

مجھے رکن ممالک کا شکریہ اداکرنے دیجئے کہ اس بیماری سے متعلق رجحانات میں زبردست بے رابطگی کے باوجود ، ہم پیش  بندی کے اقدامات، سرگرم اور مربوط حکمتعملی اختیارکرکے اس وباکو ختم کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ہم سب کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ ایک بار پھرہم ان جانباز مردوں اورخواتین کے لئے ایک بارپھر احترام کااظہارکریں جنھوں نے اس وباکے دوران خود کوقربان کردیااورجواب بھی لگن اوربے لوث جذبے کےساتھ اس بیماری کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

پچھلا سال 2020، سائنس کا سال رہاہے ، جب کووڈ -19عالمی وباکی وجہ سے پیداسنگین بحران کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیادپر بہترین کام کئے گئے ۔ صورتحال بڑے عالمی تال میل قائم کرنے کے تقاضے کررہی تھی تاکہ سائنس داں اپنی مہارت کامظاہرہ کرسکیں ۔

اس مقصد کے لئے حکومتوں ، کاروباری اداروں اور مخیّرتنظیموں نےآپس میں مل کے وسائل دستیاب کرانے شروع کئے ۔ اس لئے یہ محض سائنس کے شعبے میں پیش رفت نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی اشتراک اورتال میل کی بھی ایک بڑی حصولیابی ہے جس سے بڑے پیمانے پرفائدے ہوئے ۔

اس عالمی وباکی سب سے بڑی کامیابی ٹیم ورک رہی اورلوگوں نے انفرادی شان سے پہلے درست نتائج کو اہمیت دی۔ حفظان صحت سے متعلق تنظیموں نے  درحقیقت ، ایک معنی خیزمقصد کو پورا کرانے پرتوجہ مرکوز کی چاہے یہ ایک پورے ملک میں ، ایک پورے براعظم میں یاپوری دنیامیں ہو۔

ہمارے سائنس دانوں اورحفظان صحت سے متعلق افراد نے دکھادیاہے کہ ہم کسی بھی آزمائش کاسامنا کرسکتے ہیں ، علاج معالجہ سے متعلق بہترین معیاربرقرار رکھ سکنے میں اوریہ اعتاد قائم کرسکتے ہیں کہ رفتارکا مطلب معیارمیں کمی نہیں ہے ۔

میراذاتی طورپرہمیشہ یہ خیال رہاہے کہ حفظان صحت سے متعلق ہمارے اشتراک کے فائدوں کو برابر تقسیم کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں دنیا میں ہرایک کو دستیاب کراناچاہیے اورہمیں ایک زیادہ عدم مساوات والی دنیا نہیں کرنی چاہیئے ۔

صحت کی عالمی تنظیم کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے صدرنشین کی حیثیت سے میں اس پہلو کے بارے میں ملکوں سے بات کررہاہوں ، ایجنسیوں ، ہمارے سائنس دانوں اورمخیّر اداروں کو فنڈ فراہم کررہاہوں ۔ ہرشخص نے عہد کیاہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ یہ 2020کا نہترین نتیجہ ہے ۔

اگرسال 2020کووڈ ویکسین کی ایجاد کا سال تھا تو2021وہ سال ہوگا جس میں ہم اس دیکسین کو پوری دنیا کے لوگوں اورخاص طورپر سب سے زیادہ ضرورت مند افراد تک اسے دستیاب کرانے کے چیلنج کا سامناکریں گےاوریہاںہمیں ڈبلیو ایچ او کی سطح ایک اہم کردار اداکرنا ہے۔

وباکے خاتمے کی غرض سے ٹیکہ کاری کے پروگرام اورحفظان صحت سے متعلق دیگراہم اقدامات کے بارے میں صحیح معلومات کوعام کرنے اورافواہوں کے خاتمے کے مقصد سے بہت سے متعلقہ فریقوں اورمتاثرکرنے والے نوجوانوں کو شامل کرنے کی اب زیادہ اہمیت ہے ۔

گذشتہ ایک ہفتے میں آپ نے جو کام کیاہے اس سے آئندہ ضروری اختراعات کے لئے سائنس ، یکجہتی شفافیت اورجوابدہی کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی ۔

ہم نے ایک ہفتہ زبردست غوروخوض کیاہے ۔ میں کچھ اہم باتوکا ذکرکرناچاہتاہوں جو ہمارےسامنے پیش ایجنڈے پربہت غوروخوض اور تبادلہ خیال کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں ۔

آپ سب نے معلومات کے تبادلے  اورمربوط اقدامات کی قدرمیں تیزی اور شفافیت برتےکی ضرورت کو اجاگرکیاہے ۔ مفادات اورتشویش کی متبادل شکلیں رونما کے بارے میں تازہ ترین معلومات اورعلاج معالجہ اورویکسین کی تیاری سے متعلق مسلسل تحقیق مستفید تھیں ۔

‘‘دماغی صحت سے متعلق تیاری کوفروغ دینے اورصحت سے متعلق ہنگامی حالات کے لئے سرکاری اقدامات ، کے بارے میں مسودہ کافیصلہ اس سلسلے میں دماغی صحت سے متعلق پہلوؤں کو حل کرنے میں مفید ثابت ہوگا۔

کووڈ -19سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کے حصے کے طورپر گھیرابندی کی حکمت عملی تیارکرنے میں رکن ملکوں اورڈبلیو ایچ او کی انتھک کوششوں کاانڈیپینڈنٹ اوورسائٹ اینڈایڈوائرزی کمیشن (آئی اواے سی ) نے اعتراف کیاہے اوران کی ستائش کی ہے۔ہمارے مفید تبادلہ خیال کی بدولت بلاشہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینے میں مدد ملےگی کہ اس عالمی وبا کے پھوٹ پڑن ےکے بعد سے اس وائرس کے پھیلاؤ ، بیماری اوراموات پرقابوپانے کی غرض سے ہماری کوششوں میں کون سے صحت سے متعلق سرکاری اقدامات میں ہمیں کامیابی ملی اورکیا ہم ناکام رہے ۔

ان سے جوہمیں سبق ملا ہے انھیں ہم مطلوبہ اصلاحات کرتے ،مزید کلیدی صلاحیتیں تیارکرنے صحت سے متعلق معلومات کے نظام کو مستحکم کرنے میں استعمال کرسکتے ہیں ۔

میں ڈبلیوایچ او کے صحت سے متعلق ہنگامی حالات کے پروگرام کے کام کاج سے متعلق میدان عمل ، ملکی ، علاقائی اورہیڈکوارٹرس کی سطحوں پرواضح ذمہ دایوں کے ساتھ ایک سے زیادہ ذمہ دارسیکورٹی تنظیم کے لئے آپ کی سفارشات کی ستائش کرتاہوں ۔

مجھے اس بات کی بھی اتنی ہی تشویش ہے کہ زیادہ مقدارمیں فنٖ فراہم کرنے کے لئے ایک لچکدار اور قابل اعتماد نظام ہوناچاہیئے ۔ میں آپ میں سے کئی کے ذریعہ پیش کئے گئے اس نکتہ کی بھی ستائش کرتاہوں جس میں آئی اواے سی کے ساتھ ساتھ رکن ملکوں کے کام کاج نگرانی سے متعلق صلاحیت اورنظام کی نگرانی کے بارے میں ہے اورجن کو مزید مستحکم بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔

عالمی پیمانے پرتیاریوں کی نگرانی سے متعلق بورڈ نے ‘دنیا خطرے میں ’سے ‘دنیا بدنظمی میں ’ کو اجاگرکرتے ہوئے  ایک غیرتیاردنیا میں نظام اورفنڈ کی فراہمی میں ناکافی صورتحال کی طرف اشارہ کیاہے ۔ جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں ملکوں کے مابین باہمی اشتراک اوریکجہتی کو صحت سے متعلق ہنگامی حالات کی تیاری اوراقدامات کے نظام میں مسلسل سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیئے ۔ اس سلسلے میں ڈھانچہ میں بروقت اصلاحات اورکثیرجہتی بین حکومتی نظام کے کام کاج کی ضرورت ہے تاکہ آج کی دنیا کی حقیقتوں کی عکاسی کی جاسکے ۔

یہ ظاہر ہے کہ  عالمی ادارہ صحت کو استحکام بخشنے اور اس میں اصلاح کی کوششیں فطری طور پر اس کے رکن ممالک کی قیادت میں کی جانی چاہئیں اور مالی فراہم کے حوالے سے گہرے غوروخوض کے بعد فیصلے کئے جانے چاہئیں ۔

سکریٹریٹ کے ذریعہ فراہم کردہ کمیشن کے کام پر اپ ڈیٹ کے نتیجے میں جنسی استحصال کے انسداد کے متعلق زبردست تبادلہ خیال ہوا تھا۔ تعمیلی شراکت داروں کے بین اداراتی گروپ کے ساتھ مل کر ڈبلیو ایچ او جنسی استحصال کے معاملے میں اپنے زیرو ٹولرینس کے طریقہ کار میں مزید بہتری لارہا ہے جس میں رپورٹنگ، تفتیشی نظام اور متاثرین کا تحفظ شامل ہے۔ اس ضروری شعبے میں اجتماعی خدمت کو تقویت بخشنے کے لئے چند رکن ممالک کے ذریعہ اسپانسر کئے گئے ایک فیصلے کے مسودے کو منظوری دی گئی ۔

میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگوں نے ڈبلیو ایچ او سے وابستہ امیدوں اور اس ادارے کی عمل آوری کی صلاحیت کے درمیان جو بے ربطی ہے اس کو اجاگر کیا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ کووڈ۔19 کے اثر کی وجہ سے بڑھتی ہوئی پیچیدہ صورتحال  اور ایک واضح روڈ میپ کے لئے تبدیلیاں لانے والی پہل کے مطالبے کے تناظرمیں عالمی صحت اسمبلی کے سامنے نتائج کے فریم ورک کے عمل اور پروگرام بجٹ کی درخواستیں رکھی گئیں۔

امریکی صدر کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر انتھونی فوسی نے بائیڈن- ہیرس انتظامیہ کی طرف سے ایکزکٹیو بورڈ  کو خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عالمی ادارہ صحت کا رکن برقرار رہے گا اور اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرے گا نیز اپنے تعاون مراکز کا استعمال کرتے ہوئے ہر سطح پر تکنیکی تعاون جاری رکھے گا۔انہوں نے عالمی وبا سے لوگوں کی صحت کو محفوظ بنانے کے لئے ڈبلیو ایچ او کے قائدانہ کردار کا اعتراف کیا جس کے تحت سائنس دانوں اور محققوں  کو یکجا کرکے ویکسین کے ذریعہ علاج اور تشخیص کے طریقوں کے فروغ کو رفتار دی گئی ہے۔ اس کےعلاوہ رکن ممالک کو باخبر رکھنے کے لئے تازہ ترین واقعات پر بھی نظررکھی گئی۔

ڈاکٹر فوسی کے اس پیغام کے ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او کے ایکزکٹیو بورڈ کا 148 واں اجلاس تاریخ کا حصہ بن گیا۔

میں ڈبلیو ایچ او کے ایکزکٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ہندوستان کی طرف سے اس اعلان کا استقبال کرتا ہوں کہ صدر جو بائیڈن کی نئی حکومت ڈبلیو ایچ او سے امریکہ کی علیحدگی کے عمل کو روک دے گی۔ ہمارے لئے یہ احساس بہت سرورانگیز ہے کہ امریکہ وبا کے خلاف عالمی جنگ میں ہمہ جہتی تعاون کے اپنے نئے عزم کے ساتھ  رکن ممالک کے ساتھ  کام کرتا رہے گا۔ جیسا کہ ہمارے ڈائرکٹر جنرل نے کہا ،‘‘ عالمی ادارہ صحت، اقوام کا ایک کنبہ ہے جسے اپنی توسیع کے لئے سب قوموں کی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

میں اس تبادلہ خیال کی بھی تعریف کرتا ہوں جو متعدی امراض کے انسداد اور کنٹرول سے متعلق جنرل اسمبلی کی تیسری اعلیٰ سطحی میٹنگ کے سیاسی اعلامیہ کے تعلق سے منعقد کیا گیا۔ اس گفتگو میں رکن ممالک نے بہت سے امور کا احاطہ کیا جن میں ایک عالمی ایکشن پلان کے ارتقا اور عالمی تعاون کے نظام سے لے کر ذیابیطس اور منھ کی بیماریوں تک معاملات زیربحث آئے۔

رکن ممالک نے  این سی ڈی پر کنٹرول اور کم مالی امداد یافتہ شعبوں میں وسائل کے اضافے کے لئے تمام شعبوں میں تعاون کا مطالبہ کیا۔

صحت عامہ اختراعات اور دانشوارانہ ملکیت کے ایجنڈے اور مجوزہ قرارداد کے حوالے سے عالمی حکمت عملی اور ایکشن پلان پر بھرپور تبادلہ خیال کیا گیا جس میں تحقیق کو استحکام بخشنے  اور معلومات کے تبادلے اور معالجے ، تشخیص اور ویکسین تک رسائی میں بہتری لانے کے حوالے سے اطلاعات وغیرہ پر گفتگو ہوئی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اجتماعی عالمی ترقی کو فروغ دینے کے لئے اختراع اور دانشورانہ ملکیت حقوق سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

مجھے کہنا چاہیے کہ ہمیں اپنے پروگرام ایک ایسی دنیا کو سامنے رکھ کر ترتیب دینے چاہیں جو تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور جس میں شہرکاری اور عالم کاری میں اضافہ ہورہا ہےجو نہ صرف متعدی بلکہ غیر متعدی امراض کا بھی سبب بنتا ہے اس کے علاوہ وباؤں کی شکل میں فطری طور پر صحت عامہ کے لئے خطرہ بھی سامنے آتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حفظان صحت میں سائنس اوراختراع کے یہ فوائد زیادہ تر امیر ممالک ہی کو پہنچ پارہے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ ہمارے رکن ممالک نے صحت کے سماجی اشاریوں سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی  اور سب کے لئے صحت کی اہمیت کو تسلیم کرنے والے مسودہ قرارداد کی حمایت کی۔

ایک سال کے اندر ختم ہونے والی عالمی حکمت عملی اور ایکشن پلان پر غور کرکے بھی بورڈ کو اسی طرح خوشی ہوئی  جس میں ایچ آئی وی ، وائرل ہیپاٹائٹس  اور جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض کے حوالے سے  ڈبلیو ایچ او کا عالمی معذوری ایکشن پلان اور عالمی صحت کے شعبے کی حکمت عملی  شامل ہے۔

بورڈ نے امیونائزیشن ایجنڈا 2030 کا استقبال کیا اور عالمی پیمانے پر صحت عامہ کی حفاظت کے لئے چلائے گئے امیونائزیشن پروگراموں کے لئے مرکزی کردار کو متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ ممبر ممالک نے کووڈ۔19 ویکسن کی جلد اور منصفانہ فراہمی کا بھی مطالبہ کیا جس میں کوویکسین سہولت کے استعمال کی بھی بات کی گئی۔

امراض سے مامونیت ،امراض اور ہلاکتوں سے محفوظ رکھنے والی ویکسین کے حوالے سے ایک کامیاب عالمی  پروگرام ہے اور ڈبلیو ایچ او کو اس ایجنڈے کی موثر تعمیل کے سلسلے میں رکن ممالک کی شہادتوں پر مبنی اور سائنٹفک طریقے سے حمایت کرنی چاہئے اور ویکسین کی تقسیم میں بہتری آنی چاہئے اور  کسی بھی قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ کر اسے مستحق طبقے تک پہنچانا چاہئے ۔

کل ہی ہم نے اینٹی مائکروبیئل مزاحمت  سے متعلق ڈائرکٹر جنرل  کی رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا جس سے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں زبردست مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی اینٹی مائکروبیئل ریزسٹینس ڈویژن  اس خطرے کے مقابلے میں عالمی تاثرات کی پیشوائی کررہی ہے۔حالانکہ کووڈ۔19 نے ان منصوبوں میں کافی خلل اندازی کی ہے۔

میں پریقین ہوں کہ ڈبلیو ایچ او کی رہنمائی میں رکن ممالک اس چیلنج کا مزید مضبوطی سے مقابلہ کریں گے۔

ایک اور متعدی بیماری پولیومائلٹیزجس نے  دنیا کے کچھ حصوں میں تشویش پھیلا دی ہے ، پر بھی کل بات چیت کی گئی تھی۔ ذاتی طور پر میں پولیو کی بیخ کنی کو بھی بہت اہمیت دیتا ہوں۔

1994 میں میں نے پولیو سے پاک بھارت کا خواب دیکھا تھا  ۔ اس وقت دنیا بھر کے پولیو معاملات میں سے 60 فیصد ہندوستان میں تھے۔ بہت سی رضاکارانہ تنظیموں اور ڈبلیو ایچ او کی حمایت کے ساتھ ہم نے 2 اکتوبر 1994 کو نئی دہلی میں پولیو سے پاک بھارت کے سفر کا آغاز کردیا۔ آج ہندوستان میں پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے جس کا آخری معاملہ جنوری 2011 میں سامنے آیا تھا۔ مارچ 2014 میں ڈبلیو ایچ او نے ہندوستان کو پولیو سے پاک ہونے کی سند عطا کی تھی۔

مجھے یقین ہے کہ ڈائرکٹر جنرل کی رپورٹ پر بحث کے دوران جن اقدام کو اجاگر کیا گیا ان پر عمل کرکے ہم جلد ہی ایک پولیو سے پاک دنیا وجود میں لاسکتے ہیں ۔

ایک ورچوئل میٹنگ کا انعقاد کرنے میں آنے والی مشکلات کے باوجود 148 ویں اجلاس کو کامیابی سے چلانے کے لئے میں اپنے ساتھی نائب چیئرمینوں کی طرف سے دی گئی حمایت کی خلوص دل سے ستائش کرتا ہوں۔ جن کے نام  یہ ہیں:۔

عمان کے ڈاکٹر احمد محمد السعیدی ، کینیا کے ڈاکٹر پیٹرک اموتھ ، جرمنی کے مسٹر بیجورن کیومل  اور گیانا کے ڈاکٹر فرینک سی ایس انتھونی۔

ہمیں اس روداد کے تیار کرنے والے ٹونگا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایملیا افوہا امنگو ٹواپولوٹو کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بہت ہی ہمدردانہ تعاون دیا۔

مختصر طور پر پربصیرت بیانات اور تبادلہ خیال سے ایکزکٹیو بورڈ کے ممبر ارکان  اور دوسرے شراکت داروں کی وہ گہری دلچسپی ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے غیرمتوقع وبا اور صحت عامہ کو درپیش دیگر چیلنجوں کے مقابلے میں عالمی تاثرات کو مربوط بنانے میں دکھائی ہے۔

میں اپنے ساتھی یواین اداروں ، بین حکومتی تنظیموں ، شراکت داروں اور غیرسرکاری افراد کے رول کا اعتراف کرتا ہوں اور اس اجلاس کے کامیاب انعقاد کے لئے ان کی دلچسپی اور حمایت کا شکرگزار ہوں۔

 مجھے ڈبلیو ایچ او کے کل تینوں سطحی اسٹاف، ہیڈکوارٹرس، ریجنل اور ملکی دفاتر کا ،ان کے خلوص اور فداکارانہ جذبے کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے ۔ آپ کا کام بہت ہی قابل قدر ہے۔

میں ڈائرکٹر جنرل ریجنل ڈائرکٹر جنرلس اور سکریٹریٹ کی ٹیم کا اس توانائی اور دوراندیشی کے لئے شکرگزار ہوں جو انہوں نے رکن ممالک کی حمایت میں ظاہر کی ، نہ صرف ہنگامی تاثرات کی شکل میں بلکہ تمام شعبوں میں ۔

ہم گورننگ باڈیز ، ساتھیوں ، مترجموں اور آئی سی ٹی ٹیم کا ان کی اس زبردست محنت کے لئےشکریہ ادا کرتے ہیں جو انہوں نے ایکزکٹیو بورڈ کے 148 ویں اجلاس کو(جو ورچوئل تھا) کامیاب کرنے کے لئے کی ۔

میں دنیا کے تمام باشندوں کا بھی خلوص دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ایک مجموعی سماج کے تصور کو زندگی بخشنے کے لئے تعاون دیا اور اس بے مثال کرائسس میں مدد کی۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنا سب کچھ ویکسین، ٹسٹ اور علاج معالجوں کے لئے د ےد یا۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔

ان تمام مشکلات کے درمیان جو ہمارے سامنے آئیں ،ایکزکٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے یہ میرے لئے لمحہ فخریہ  تھا  کہ میں نے آپ لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ۔ ا ٓپ کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا  اور آپ کی قیمتی سفارشات کو  اپنے کانوں سے سنا۔

اب جبکہ ہم ایک مضبوط ارادے اور ایک صحت مند ، محفوظ اور خوشحال دنیا کے تصور پر کام کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ، اس تنظیم کے کام کی رہنمائی میں حصہ لینے والے وفود اور شرکا کی تجاویز  اور انپٹس بہت فائدہ مند ثابت ہوں گی۔

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمام رکن ممالک چیلنجوں سے نمٹنے اور حفظان صحت کی خدمات تک رسائی اور اس کی کوالٹی کو بہتربنانے کے لئے اپنی بساط  بھر کوششیں کررہے ہیں۔ لیکن کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس لئے ہمیں اس وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنے ارادوں میں دوگنی مضبوطی پیدا کرنی ہوگی۔

آج کے ماحول میں کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے جب تک سب علاقے محفوظ نہ ہوں۔

ڈبلیو ایچ او کے اس اجلاس میں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کم اور درمیانی درجے کی آمدنی والے ملکوں کو کووڈ-19 کے  موثرٹسٹ ، علاج اور ویکسین تک رسائی حاصل ہو۔

میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو ایک پیش رو کا کردار ادا کرنا چاہیے یعنی اسے جذبے اور ارادے کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ ایک نئی دنیا وجود میں آئے اور اسے اس سے کم پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔

ڈبلیو ایچ او کا ہمارے رکن ممالک کو انقلابی تجربات سے ہمکنار کرنے کا عزم مثالی ہے اور کووڈ کے بعد کی دنیا کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک نئی بصیرت درکار ہے ۔ ایک نئی بصیرت جو اس ناتواں ادارے کو اپنی بھرپور طاقت اور اثرات کو کام میں لانے کی صلاحیت عطا کرے۔

نئے عزائم کے ساتھ جو ہم نے اس ہفتے کئے ہیں ، ہمیں ڈبلیو ایچ او کے کاز کے لئے اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے، اس کو تقویت بخشنے اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے  انتھک محنت کرنے کا عہد کرنا چاہئے۔

انہی الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں اور ڈبلیو ایچ او کے ایکزٹیو بورڈ کے 148 ویں اجلاس کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں ۔

آپ سب کا شکریہ اور نمسکار۔

*************

(ش ح۔ع م۔  س ب  ۔ م ص۔ع آ)

U. No.864

 



(Release ID: 1692648) Visitor Counter : 388