وزارت اطلاعات ونشریات
’’ جس سے آپ محبت کرتے ہیں اپنے یا اس کے فائدے کے لیے اس کا ساتھ چھوڑ دینے کا تصور میرے لیے ہمیشہ حیرت انگیز رہا ہے‘‘: فلم رادھا کے ڈائریکٹر ،بمل پودار
’’اگرچہ یہ ایک اینی میشن پر مبنی کارٹون فلم ہے تاہم ، ہم اپنی فلم کے ذریعے بالغ ناظرین تک پہنچنا چاہتے تھے‘‘
’’ اینی میشن پر مبنی فیچر فلم بنانے میں وقت اور اخراجات لگتے ہیں، زیادہ فنڈ کی ضرورت پڑتی ہے‘‘
نئی دلی، 22 جنوری: ’’جس سے آپ محبت کرتے ہیں اپنے یا اس کے فائدے کے لیے اس کا ساتھ چھوڑ دینے کا تصور میرے لیے ہمیشہ حیرت انگیز رہا ہے۔‘‘ ڈائریکٹر بمل پودار نے بنگالی اینی میشن کارٹون فلم رادھا کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کہانی کچھ اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی خاطر ہے جو گھر پر ہمارا انتظار کرتے ہیں اور جن کے لیے ہم پیار سے ایسا کرتے رہیں گے۔وہ پاناجی، گوا میں آج 22 جنوری کو ، بھارت کے 51ویں فلم فیسٹیول کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ مذخورہ فلم فیسٹیول کے بھاتی پنورما، غیر فیچر سیکشن میں دکھائی گئی۔ رادھا: دی ایٹرنل میلوڈی ، ایک آزاد فلم ساز کے طور پر ان کی پہلی فلم ہے۔
کولکاتا کے پس منظر میں، فلم رادھا دو لوگوں کے درمیان ایک غیرمرئی رشتے کی کہانی ہے جو کرشن کے لیے رادھا کے انتظار کے مماثل ہے جنھوں نے اسے ورندابن میں چھوڑ دیا تھا۔ یہ ایک پیار اور ایثار کا جذباتی سفر ہے۔ یہ ایک بزرگ خاتون اور ایک نو جوان لڑکے کی کہانی ہے جسے خاتون نے محبت سے پالا پوسا، اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ نوجوان ان سے دور چلاگیا۔ وہ اس سے پورے من سے محبت کرتی ہیں اور لڑکا بھی ہر چیز کے لیے ان ہی سے رجوع کرتا ہے۔ رادھا لڑکے کے لیے سرپرست، دوست اور ماڈل تھی۔ وہ اس کے لیے اپنے خوابوں کی جستجو میں آگے بڑھنے کے لیے تحریک تھی ، جو اس کے چہرے پر خوشی لاتی ہے اور زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بچھڑجانے کے بعد ، دو الگ الگ شہروں میں رہتے ہوئے اب رادھا اس کی ایک جھلک دیکھنے کی منتظر ہے۔
دونوں مرکزی کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، پودار نے کہا: ’’ آپ کے لیے ذاتی زندگی سے کرداروں کو شناخت کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے، جن کے ساتھ آپ رادھا کو جوڑ سکتے ہیں ۔ ‘‘ رادھا بزرگ خاتون کی نمائندگی کرتی ہے جو ایک تنہا خاتون ہے اور آج کے دور میں ہر گھر میں موجود ہوتی ہے، جہاں پر ان کے بچے بہتر مستقبل، کیریئر اور طرز زندگی کی خاطر اپنی جڑوں سے دور چلے جاتے ہیں ۔ ایسا کرنے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، لیکن خاندان کے بزرگ تنہا رہ جاتے ہیں اور ان کے پاس پچھلے دنوں کی بس یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔
پودار، جو اس اینی میشن فلم کے پروڈیوسر، ایڈیٹر اور فوٹوگرافی ڈائریکٹر بھی ہیں، نہیں چاہتے تھے کہ اس فلم کے ناظرین کو صرف بچوں تک محدود کیا جائے۔ ’’اگرچہ یہ ایک اینی میشن پر مبنی کارٹون فلم ہے تاہم ، ہم اپنی فلم کے ذریعے بالغ ناظرین تک پہنچنا چاہتے تھے۔ پراجیکٹ کے آغاز ہی سے ہم جانتے تھے کہ ہمیں بچوں کے بجائے ایک بڑے آڈیئنس کو ٹارگٹ کرنا ہے۔‘‘
پودار نے اس اینی میشن فلم کی شکل میں کرداروں کو بنانے میں درپیش چیلنجوں کے بارے میں خاص طور پر بات کی۔ ’’اینی میشن فلم بنانا وقت طلب ہے۔ رادھا میں مناظر کو باریک تفصیل کے لیے سوچا گیا ہے اور اس کو بنانے میں بہت سارا قیمتی وقت لگانا پڑا ہے۔ ‘‘
بھارت میں اینی میشن فلم انڈسٹری کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈائریکٹر نے کہا: ’’ اب بھی انڈسٹری میں ہمیں بامعنی مواد نہیں ملتا ، اگرچہ بھارت میں فیچر فلم انڈسٹری کافی ترقی کرچکی ہے، تاہم اینی میشن کی انڈسٹری اب بھی اپنے ابتدائی دور ہی میں ہے۔ فلم سازی کا اینی میشن فارمیٹ ملک کے بعض علاقوں میں اٹھ رہا ہے اور مغرب کی طرح اسے پوری طرح ترقی پانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ‘‘
انہوں نے اسے ممکن بنانے کے لیے مزید وسائل کی ضرورت پر بات کی۔ ’’ایک اینی میشن فیچر فلم بنانے میں وقت لگتا ہے اور زیادہ فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔ بے عیب اینی میشن فلم سازی مغرب میں ہوتی ہے؛ تاہم ہمارے پاس ضروری وسائل موجود نہیں ہیں۔‘‘
اپنی فلم کا انتخاب کرنے کے لیے افی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پودار نے کہا: ’’ افی میں ہونا ایک بہت شان دار احساس ہے۔ یہ جان کر ہمیشہ اچھا لگتا ہے کہ آپ کے کام کی ناظرین کے ذریعے تحسین کی جارہی ہے اور وہ اس سے محظوظ ہورہے ہیں۔ پوری افی ٹیم کو اس بحرانی دور میں اتنا بڑا پروگرام منعقد کرنے کے لیے سلام۔ ‘‘
میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’بھارت نے کئی اساطیری اینی میشن فلمیں بنائی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ عصری مسائل اور موضوعات پر بھی اینی میشن فلمیں بنائی جائیں۔‘‘
*************
ش ح ۔ع ا
U۔ No۔ 722
(Release ID: 1691451)
Visitor Counter : 264