وزیراعظم کا دفتر

تیز پور یونیوسٹی ، آسام کے 18ویں جلسہ تقسیم اسناد میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 22 JAN 2021 1:46PM by PIB Delhi

نمسکار،

آسام کےگورنر پروفیسر جگدیش مکھی جی، مرکزی وزیر تعلیم جناب رمیش پوکھریا ل نشنک جی ،آسام کے وزیرا علیٰ جناب سربانند سونووال جی ، تیز پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر وی کے جین جی ، دیگر فیکلٹی اور تیز پور یونیورسٹی کے ہونہار باصلاحیت میرے پیارے طلبا ،آج 1200سے زیادہ طلبا کیلئے زندگی بھر یاد رکھنے والا لمحہ ہے۔آپ کے اساتذہ ۔پروفیسرس ، آپ کے والدین کیلئے بھی آج کا دن بہت اہم ہےاور سب سے بڑی بات کہ آج سے آپ کے کئر یئر کے ساتھ تیزپور یونیورسٹی کا نام ہمیشہ کیلئے جوڑ گیا ہے۔آپ آج جتنا خوش ہیں اتنا ہی میں بھی ہوں ، آج آپ  مستقبل کو لیکر جتنی امیدوں سے لبیرز ہیں اتنا ہی میرا آپ سب پر اعتماد ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ نے تیز پور میں رہتے ہوئے ، تیزپوریونیورسٹی میں جو سیکھا ہے وہ آسام کی ترقی کو ، ملک کی ترقی کو رفتار عطا کرے گا ۔

ساتھیو،

اس اعتمادکے تئیں وجوہات بھی ہیں۔ پہلی وجہ تیز پور کا یہ تاریخی مقام ،اس کی دیو مالائی تاریخ سے حاصل ہونے والی تحریک دوسری ۔تیز پور یونیورسٹی میں آج جو کام کررہے ہیں ، جو مجھے بتایا گیا ہے وہ بہت جوش جگاتا ہے۔تیسری وجہ مشرقی بھارت کی اہلیت پر یہاں کے لوگوں ، یہاں کے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر ، تعمیر قوم کی کوششوں پر صرف میرا ہی نہیں ملک کا بھی غیر متزلزل یقین ہے۔

ساتھیو،

ابھی ایوارڈ اور تمغات تفویض کرنے سے پہلے جو یونیورسٹی اینتھم گا گیا ہے ، اس میں پنہا ںجذبہ تیز پور کی عظیم تاریخ کو سلام کرتا ہے۔میں اس کی کچھ سطور دوہرانا چاہتا ہوں اور اس لئے دوہرانا چاہتاہوں کیو نکہ یہ آسام کے وقار ،بھارت رتن بھوپین ہزاریکا کی تخلیق ہیں انہوں نے لکھا ہے ‘‘اگنی گڑراستھاپتیہ ،کلیا بھو مورال سیتو نرمان ،گیان جیوترمیہ ،سیہی استھانتے بیراجسے تیز پور ، وشو ودیالیہ ،’’یعنی جہاں اگنی گڑر جیسا فن تعمیر ہو ، جہاں کالیا۔ بھومورا پل ہو،جہاں گیان کی جیوتی ہوایسے مقام پر واقع ہے تیز پور یونیورسٹی ۔ ان سطور میں بھوپین دا نے اتنا کچھ بیان کردیا ہے ۔اگنی گڑھ ،راجکمارانرودھ ۔راجکماری اوشا بگوان شری کرشن سے مربوط تاریخ ،اہم آہوم سورما کالیا۔بھومورا پھوکن کی دوراندیشی ،علم کا خزانہ ،یہ تیز پور کی تحریک ہیں بھوپین دا کے ساتھ ہی جیوتی پرساد اگروال،بشنو پرساد رابھا جیسی عظیم شخصیات تیز پور کی شناخت رہی ہیں آ پ ان کے میدان عمل میں ، وطن مالوف  میں پڑھے ہیں اور اس لئے آپ پر فخر کا جذبہ ہونا چاہئے اور وقار کی وجہ سے خود اعتمادی سے مالا مال آپ کی زندگی ہوگی یہ فطری بات ہے۔

ساتھیو،

ہمارا ملک اس سال اپنی آزادی کے 75ویں برس میں داخل ہورہا ہے۔ سینکڑوں برسوں کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے آسام کے بے شمار لوگوں کا تعاون ہے۔ جو اس وقت تھے،انہوں نے ان کی آزادی کیلئے زندگی دےدی ،اپنی جوانی کھپادی،اب آ پ کو نئے بھارت کیلئے ، آتما نربھر بھارت کیلئے جی کر دکھا نا ہے زندگی کو با معنی کر کے دکھانا ہے۔اب سے لیکر بھارت کی آزادی کے 100برس پورے ہونے تک ، یہ 25۔26سال آپ کی زندگی کے بھی سنہری برس ہیں آپ تصور کیجئے 1920۔21میں جو جوان ، جو بیٹی آپ کی عمر کی ہوگی ، آج آپ جس عمر کے ہیں، 1920۔21 کے عہد میں وہ کیا خواب دیکھتے ہوں گے وہ اپنی کن باتوں کیلئے زندگی ڈھالتے ہوں گے، کن باتو ں کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو کھپاتے ہوں گے اگر تھوڑا سا یاد کریں 100سال قبل آپ کی عمر کے لوگ کیا کرتے تھے تو آج آئندہ کیلئے آپ کو کیا کرنا ہے ، یہ سوچنے میں دیر نہیں لگے گی یہ آپ کیلئے سنہری وقت ہے تیز پور کا نور پورے بھارت میں ، پوری دنیا میں پھیلا ہے۔ آسام کو ، شمال مشرق کو نمو کی نئی بلندیوں پر لے جانے کیلئے  ہماری حکومت آج جس شمال مشرق کی ترقی میں مصروف عمل ہے جس طرح کنکٹی وٹی،تعلیم ، صحت ہر شعبہ میں کام ہورہا ہے اس کیلئے آپ کیلئے متعدد امکانات فراہم ہورہے ہیں ان امکانات کا پورا فائدہ اٹھایئے۔ آپ کی کوششیں یہ بتاتی ہیں کہ آپ میں صلاحیتیں بھی ہیں نئی فکر ،نئے عمل کی اہلیت بھی ہے۔

ساتھیو،

تیز پور یونیورسٹی کی ایک شناخت اپنے اختراعی مرکز کیلئے بھی ہے ۔ آپ کی بنیادی سطح کی اختراعات ، مقامی اشیا کے استعمال پر اصرار کو بھی نئی رفتار ، نئی طاقت دیتے ہیں یہ اختراعات مقامی مسائل کو سلجھانے میں کام آرہے ہیں ، جس  سے ترقی کے نئے راستے کھل رہے ہیں اب جیسے مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کے شعبہ کیمیاوی سائنس نے پینے کے پانی کو صاف کرنے کیلئے کم قیمت والی آسان ٹکنالوجی پر کام کیا ہے ۔اس کا فائدہ آسام کے متعدد گاؤوں کو ہورہا ہےبلکہ مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اب یہ نئی ٹکنالوجی چھتیس گڑھ، اڈیشہ میں ،بہار میں ،کرناٹک اور راجستھان جیسی ریاستوں تک بھی پہنچ رہی ہے،مطلب آپ کی یہ شہرت اب پھیل رہی ہے بھارت میں اس طرح کی ٹکنالوجی کی ترقی سے ہر گھر پانی پہنچانے کا جل جیون مشن کا جو خواب ہے اسے بھی تقویت حاصل ہوگی۔

ساتھیو،

پانی کے علاوہ گاؤں میں فضلے کو توانائی میں بدلنے کا جو بیڑا آپ نے اٹھایا ہے اس کا اثر بھی بہت بڑا ہے فصلوں کی باقیات ہمارے کاشت کاروں او رماحولیات ،دونوں کیلئے بہت بڑی چنوتی ہے ۔بایوگیس اور آر گینک فرٹیلائزرسے مربوط ایک سستی اور اثر انگیزی کی حامل ٹکنالوجی کو لیکر جو کام آپ اپنی یونیورسٹی میں کررہے ہیں، اس سے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

ساتھیو،

مجھے یہ بھی جانکاری دی گئی ہے کہ تیز پور یونیورسٹی ،شمال مشرق کا حیاتیاتی تنوع اور مالامال ورثہ کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی مہم چلارہی ہے۔شمال مشرق کے آدیواسی معاشرے کی وہ زبانیں جو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں ، ان کو دستاویز بند کرنا لائق ستائش ہے۔اسی طرح ، سنت شری منت شنکر دیو کی پیدائش کی سرزمین باتاتروتھان میں صدیوں سے پرانی لکڑی پر نقاشی کے ذریعہ بنائے جانے والے نقش و نگار کےفن کا تحفظ ہو ،یا پھر غلامی کے عہد میں لکھی گئی آسام کی کتابوں اور کاغذات کا ڈیجیٹلائزیشن ،آپ واقعی اتنے متعدد مختلف النوع کاموں پر لگے ہوئے ہیں ۔ کوئی بھی سنے گا ، اس کو فخر کا احساس ہوگا کہ اتنا دور ہندوستان کے مشرقی کنارے پر تیز پور میں یہ ریاضت ہورہی ہے آپ واقعی کمال کررہے ہیں ۔

ساتھیو،

میں نے جب اتنا کچھ جانا تو دل میں یہ سوال بھی آیا کہ مقامی موضوعات پر ، مقامی ضروریات پر ،اتنا کام ، اتنی تحقیق کرنے کی تحریک آ پ کو کہاں سے ملتی ہے ؟اس کا جواب بھی تیز پور نیورسٹی کیمپس میں ہی ہے ۔ اب جیسے آپ کے ہوسٹل ، چرائی دیو ، نیلاچل ،کنچن چنگا ، پٹکائی ،دھنسری،سبندھ سری، کوپلی یہ تمام پہاڑوں ،چوٹیوں اور دریاؤں کے نام پر ہیں اور یہ صرف نام نہیں ہیں یہ زندگی کی جیتی جاگتی تحریک بھی ہیں زندگی کے سفر میں ہمیں متعدد مشکلات متعدد پہاڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،کئی دریاؤ ں کو پارکرنا پڑتا ہے یہ ایک بار کا کام نہیں ہوتا آپ ایک پہاڑ چڑھتے ہیں اور پھر دوسرے کی طرف بڑھتے ہیں ہر کوہ پیمائی کے ساتھ آپ کی جانکاری بھی بڑھتی ہے آپ کا تجربہ بھی بڑھتا ہے اور نئی چنوتیوں کو لیکر آپ کا تناظر طے ہوتا ہے اسی طرح دریا بھی ہمیں بہت سکھاتے ہیں دریا کئی معاون دھاراؤں سے مل کر بنتا ہے اور پھر سمندر میں مل جاتا ہے ہمیں بھی زندگی میں علیحدہ علیحدہ شخصیات سے علم حاصل کرنا چاہئے ، سیکھنا چاہئے اور اس سیکھ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنے نصب العین کو حاصل کرنا  چاہئے۔

ساتھیو،

جب آپ اسی طریقہ کار کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو آسام ،شمال مشرق ملک کی ترقی میں اپنا تعاون دے پائیں گے آپ کو دیکھنا ہوگا ، کورونا کے اس دور میں آتم نربھر بھارت ابھیان ہماری گفت و شنید کا اہم حصہ ہوچکا ہے ہمارے خوابوں کے اندر وہ گھل مل گیا ہے ہماری جواں مردی، ہمارے عہد ،ہماری حصولیابیاں ، ہماری کوششیں ، سب کچھ اس کے ارد گرد ہم محسوس کررہے ہیں لیکن آخر یہ تحریک ہے کیا؟آخر بدلاؤ کیا آرہا ہے؟ کیا یہ بدلاؤ صرف وسائل میں ہے؟ کیا یہ بدلاؤ صرف بنیادی ڈھانچوں میں ہے؟کیا بدلاؤ صرف ٹکنالوجی میں ہے؟ کیا بدلاؤ صرف بڑھتی اقتصادی اور کلیدی قوت کا ہے؟ایسے ہر سوال کا جواب ہاں میں ہے لیکن ان میں سے بھی جو سب سے بڑا تغیر ہے وہ ہے جبلت کا،عمل اور رد عمل کے نظریہ کا ہے ۔ ہر چنوتی ،ہر مسئلے سے نمٹنے کا ہمارے نوجوان ملک کا انداز ،دیش کا مزاج اب کچھ ہٹ کر ہے اس کی ایک تازہ مثال تو ہمیں کرکٹ کی دنیا میں نظر آئی ہے آپ لوگوں میں سے  بیشتر نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے آسٹریلیا ٹور کو فالو کیا ہوگا اس ٹور میں کیا کیا چنوتیاں ہماری ٹیم کے سامنے نہیں آئیں؟ہماری اتنی بری ہار ہوئی لیکن اتنی ہی تیزی سے ہم ابھرے بھی اور اگلے میچ میں جیت حاصل کی۔ چوٹ لگنے کے باوجود ہمارے کھلاڑی میچ بچانے کیلئے میدان پر ڈٹے رہے ۔چنوتی بھرے حالات میں بھی مایوس ہونے کی بجائے ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے چنوتی کا سامنا کیا ، نئے حل تلاش کئے کچھ کھلاڑیوں میں تجربہ ضرور کم تھا لیکن حوصلہ اتنا ہی بلند دکھائی دیا ان کو جیسے ہی موقع ملا انہوں نے تاریخ رقم کردی۔ ایک بہتر ٹیم کو اپنی صلاحیت اور مزاج میں جو طاقت تھی اس کے ذریعہ انہوں نے اتنی تجربہ کار ٹیم کو اتنے پرانے کھلاڑیوں کی ٹیم کو شکست دے دی ۔

نوجوان ساتھیو،

کرکٹ کے میدان پر ہمارے کھلاڑیوں کی یہ کارکردگی صرف کھیل کے لحاظ سے ہی اہم نہیں ہے یہ ایک بہت بڑا زندگی کا سبق بھی ہے ۔پہلا سبق یہ کہ ہمیں اپنی اہلیت پر یقین ہونا چاہئے،اعتماد ہوناچاہئے۔دوسرا سبق ہمارے انداز فکر کو لیکر ہے ۔ہم اگر مثبت انداز فکر کو لیکر آگے بڑھیں گے تونتیجہ بھی مثبت ہی آئے گا۔تیسرا اور سب سے اہم سبق ،اگر آپ کے پاس ایک طرف محفوظ نکل جانے  کا متبادل دستیاب ہو اور دوسری جانب دشوار فتح کا متبادل ہو تو آپ کو فتح کا متبادل ضرور کھوجنا چاہئے۔ اگر جیتنے کی کوشش میں کبھی کبھار ناکامی بھی ہاتھ لگے تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔خطرات مول لینے سے ،تجربہ کرنے سے ڈرنا نہیں ہے۔ ہمیں سرگرم اور بے خوف ہونا پڑے گا ہمارے اندر جو ناکامی کا خوف ہوتا ہے ،ہم جو غیر ضروری دباؤ اپنے اوپر لیتے ہیں اس سے جب آپ باہر نکلیں گے تو بے خوف بن کر ابھریں گے بھی ۔

ساتھیو،

حوصلے سے بھرا ہوا ،اپنے اہداف  کے تئیں وقف بھارت صرف کرکٹ کے میدان پر نظر آتا ہے ایسا نہیں ہے آپ بھی تو ایسی ہی ایک تصویر ہیں آپ خود اعتمادی سے ،اپنے آپ پر بھروسے سے مالامال ہیں ۔آپ بندھے ٹکے راستے سے ہٹ کر سوچنے اور چلنے سے ڈرتے نہیں ہیں آپ کے جیسی اسی نوجوان توانائی نے کورونا کے خلاف اپنی لڑائی میں بھی بھارت کو بہت مضبوطی دی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس لڑائی کے آغاز میں ایسے اندیشے جتائے گئے تھے اتنی بڑی آبادی والا بھارت ،وسائل کے فقدان میں کورونا سے تباہ ہوجائے گا لیکن بھارت نے دکھایا کہ عزم محکم اور لچک آپ کے پاس ہے تو وسائل تیار ہوتے دیر نہیں لگتی۔ بھارت نے یہی کیا۔بھارت نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے مصیبت بڑھے اسکا انتظار کرنے کی بجائے ،تیزی سے فیصلے لئے سرگرم ہوکر فیصلے لئے اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت وائرس سے زیادہ موثر طریقہ سے آگے بڑ ھ پایا موثر طریقہ سے لڑ پایا ۔ میڈ ان انڈیا متبادلوں سے ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا۔ اپنے صحتی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا اب ہمارے ٹیکہ سے مربوط تحقیق اور پیداوار کی صلاحیت بھارت کے ساتھ دنیا کے متعدد ممالک کو تحفظاتی حصار کا تیقن فراہم کررہی ہے۔

اگر ہم اپنے سائنسدانوں ،اپنے محققین ،اسکالروں ،اپنے سائنسداں حضرات ، اپنی صنعت کی طاقت پر بھروسہ نہیں کرتے تو کیا یہ کامیابی ممکن ہوپاتی؟اور ساتھیو،صرف صحت کےہی شعبہ میں ہی کیوں ،ہمارا ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ ہی لیجئے۔اگر ہم بھی یہ مان کر بیٹھ جاتے کہ بھارت میں خواندگی کے فقدان میں ، ڈی بی ٹی اور ڈیجیٹل لین دین ممکن نہیں ہے تو کیا کورونا جیسی مصیبت میں حکومت غریب سے غریب تک اتنے موثر طریقہ سے پہنچ پاتی ؟آج جس فینٹک میں ڈیجیٹل شمولیت میں ، ہم دنیا کے سرکردہ ممالک میں شامل ہیں ، وہ کیا کبھی ممکن ہوپاتا ؟آج کا بھارت مسائل کے حل کیلئے تجربات سے بھی نہیں ڈرتا اور بڑے پیمانے پر کام کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔سب سے بڑا بینکنگ شمولیت ابھیان بھارت میں ہورہا ہے ٹوائلیٹ بنانے کا سب سے بڑا ابھیان بھارت میں ،ہر کنبہ کو گھر دینے کا ابھیان بھارت میں ، گھر گھر جل پہنچانے کا ابھیان بھارت میں ۔سب سے بڑی صحت بیمہ اسکیم بھارت میں اور اب سب سے بڑا ٹیکہ کاری ابھیان بھی بھارت میں۔ ان سب کا بہت بڑا فائدہ شمال مشرق کو ہوا ہے آسام کے لوگوں کو ہوا ہے۔ایسے پروگرام تبھی چل سکتے ہیں جب ملک اور سماج خود اعتمادی سے مالامال ہو ، ملک موجودہ صورتحال کو بدلنے کیلئے ،اختراع کرنے کیلئے پوری قوت صرف کررہا ہو۔

ساتھیو،

آج جس طرح سے دنیا میں بھارت میں نئی ٹکنالوجی کی ترویج ہورہی ہے ،اس سے  ہر شعبہ میں نئے امکانات پیدا ہورہے ہیں آج ہم بنا برانچ کے بینک ، بنا شوروم کے رٹیل بزنیس ، بنا ڈائننگ ہال کے کلاؤڈ کچن ،ایسے متعدد تجربات کو روزمرہ کی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں ایسے میں یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل کی یونیورسٹی مکمل طور پر ورچوئل ہو اور دنیا بھر سے طلبا اور اساتذہ کسی بھی یونیورسٹی کا حصہ بن سکیں اس طرح کے تغیر کیلئے ہمارے پاس لازمی ریگولیٹری فریم ورک ہونا بہت ضروری ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے توسط سے لگاتار اس کی کوشش کی جارہی ہے اس پالیسی میں ٹکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال ،کثیر شعبہ جاتی تعلیم اور لچک کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔نئی تعلیمی پالیسی ،اعداد و شمار اور اعداد وشمار کا تجزیہ کرنے کیلئے ہمارے تعلیمی نظام پر زور دیتی ہے ۔اعداد و شمار کے تجزیہ کی مدد سے داخلے سے لیکر تدریس اور جانچ پڑتال کا مکمل عمل بہت بہتر ہوجائے گا ۔

مجھے یقین ہے کہ تیز پور یونیورسٹی  ، قومی تعلیمی پالیسی کے ان اہداف کو حاصل کرنے میں اہم کردار اداکرے گی۔  مجھے تیز پور یونیوسٹی کے ٹریک ریکارڈ اور اس کی اہلیت پر پورا بھروسہ ہے اور میں اپنے ساتھیوں کو بطور خاص یہ بات بتانا چاہوں گا کہ جب آپ کی رسمی تعلیم پوری ہوتی ہے تو آپ صرف اپنے مستقبل کیلئے نہیں بلکہ پورے ملک کے مستقبل کیلئے کام کرتے ہیں۔ آپ بس ایک بات یاد رکھیں اگر آپ کا مقصد بلند ہے تو آپ کو زندگی کے نشیب وفراز سے اتنا اثر نہیں لینا ہوگا ۔آپ کی زندگی کے آنے والے 25،26سال آپ کے کئر یئر کے ساتھ ساتھ ملک کے مقدر کو بھی طے  کرنے والے ہیں ۔

مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی ملک کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے ۔2047 ،جب ملک آزادی کا سو سال مناتا ہوگا ، تو یہی 25،30سال کا وقفہ آپ کے تعاون سے ، آپ کی جواں مردی سے ،آپ کے خوابوں سے بھر پور ہوگا۔تصور کیجئے آزادی کی صدی میں آپ کے 25سال کتنا بڑا کردار اداکرنے والے ہیں ۔آیئے ،ساتھیو،اپنے آپ کو ان خوابوں کیلئے بیدار کیجئے ۔چل پڑیں،عہد بندگی کے ساتھ چل پڑیں ،خوابوں کو لیکر چل پڑیں ، حصولیابی کے مقصد سے نکل پڑیں۔دیکھیئے زندگی کامیابی کی ایک ایک بلندی کو پار کرتی جائے گی ۔آ ج  کے اس مقدس موقع پر آپ کے اہل کنبہ کو ،آپ کے اساتذہ کو، آپ کے تمام فیکلٹی اراکین کو، آپ کےخوابوں کو ، سب کو بہت بہت نیک تمانائیں پیش کرتا ہوں۔آخر میں بھی  نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔بہت بہت اظہار تشکر ۔

 

 

 

ش  ح ۔م ن۔ م ش

U-NO.700

 


(Release ID: 1691225) Visitor Counter : 218