وزارت اطلاعات ونشریات

‘دادا صاحب پھالکےصاحب بصیرت تھے جو ہندوستانی فلم شعبے میں آتم نر بھر تا لے آئے’: نواسے شری چندر شیکھرپوسلکر


‘‘اگر حکومت دادا صاحب پھالکے ایوارڈ نہیں قائم کرتی، تو میرے دادا کا کام اور ان کی حیات  دو صفحات میں سمٹ جاتی’’

‘‘فلمی صنعت کو ان کی حیات  پر فلم بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے

‘‘دادا صاحب پھالکے صاحب بصیرت تھے، جنہوں نے ‘میک اِن انڈیا’کو عام کیا اور ہندوستانی سنیما کے شعبے میں ‘آتم نر بھرتا’لے آئے۔ اپنی فلموں میں انہوں نے ہمیشہ ہی مقامی فنکاروں کو استعمال کیا اور ملکی مقامات کو شامل کرنےاور تکنیکی مدد جو ملک کے اندر دستیاب ہو اسے عام کیا۔ دادا صاحب کی ثابت قدمی، وژن اور حب الوطنی کے نتیجے میں ہندوستانی سنیما کی صنعت آج بلندی پر ہے۔’’یہ بات بابائے  ہندوستانی سنیما  دادا صاحب پھالکے عرف دھندی راج گوبند پھالکے کےنواسے نے پریس انفارمیشن بیوروکی محترمہ شاملا کے وائی، کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران کہی۔جناب چندر شیکھر دادا صاحب  کی بیٹی مالتی کے بیٹے ہیں۔

 

 

گوا کے پنجی میں ہندوستان کے بین الاقوامی فلم فیسٹول کے 51ویں ایڈیشن، جس نے دادا صاحب کو ان کے 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا،  سے الگ بات کرتے ہوئے جناب پوسلکر نے کہا کہ پھالکے خاندان  دادا کی یادگاروں کو زندہ رکھنے کی کوششوں کے لئے  حکومت ہند اور اِفّی (آئی ایف ایف آئی) کا ممنون ہے۔‘‘حکومت کی یہ کوشش ہے کہ نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہے، کیونکہ نئی نسل کو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے ایک انسان نے بہت ہی معمولی وسائل سے فلم سازی کے سفر کا آغاز کیا۔’’

حکومت کی کوششیں  عظیم خراج عقیدت ہیں

دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت ہند 1969ء میں قائم کیا تھا۔جناب پوسلکر نے اس کے لئے حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ‘‘اگر حکومت نے اس طرح کا قدم نہیں اٹھایا ہوتا، تو میرے نانا کا کام اور ان کی حیات  دو صفحات میں سمٹ جاتی، لیکن اب لوگ  انہیں جانتے ہیں اور ہندوستانی سنیما کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کا احترام کرتے ہیں۔’’

اپنے نانا کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے جناب پوسلکر نے مزید کہا کہ یہ احترام  نئی نسل میں بھی پایا جاتا ہے، جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سے ایک انسان نے، ان سہولیات کے بغیر جو آج انہیں حاصل ہے، فلمیں بنائیں اور آنے والی نسلوں کے لئے راہ ہموار کی۔‘‘ان کے پاس پیسے نہیں تھے، کوئی انشورنس پالیسی نہیں تھی۔ انہوں نے میری نانی کے زیورات فروخت کئے اور اپنی فلموں کے لئے ہرچیز خریدی۔میری نانی اور پورے خاندان نے  ان کی بھرپور مدد کی۔

 

 

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح سے  پورا پھالکے خاندان ہندوستانی سنیما کا رہنما جناب پوسلکر نے اپنی ماں کی بتائی ہوئی یادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘میری نانی نے اس وقت نانا کے ہر قدم کی حمایت کی اور درحقیقت نانا نے انہیں اپنی سبھی فلموں کا حصہ بنا لیا تھا۔ انہوں نے انہیں یہ بتایا کہ  کس طرح سے ایک فلم ڈیلوپ اور رول کی جاتی ہے اور کس طرح سے شوٹنگ ہوتی ہے۔اس وقت کوئی ریفلیکٹر نہیں ہوتا تھا۔ انہیں سخت دھوپ میں شوٹنگ کرنی پڑتی تھی، میری نانی  میرے نانا کے ساتھ ایک چٹان کی طرح کھڑی رہتی تھیں۔’’

اپنی نانی کو بھی مزید شناخت دلانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے  جو ان  کے نانا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی رہیں، جناب پوسلکر نے کہا کہ ‘‘میری نانی ، سرسوتی بائی پھالکے کو ایک کامیاب خاتون قرار دیا جاسکتا ہے، جنہوں نے اپنے طریقے سے ہندوستانی سنیما کی گرانقدر خدمات انجام دیں۔’’

دادا صاحب عظیم محب وطن

جناب پوسلکر نے اپنے نانا کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے  مزید کہا کہ ‘‘میرے نانا نہ صرف ایک عظیم صاحب بصیرت  ، بلکہ ایک عظیم محب وطن بھی تھے’’انہوں نے ایک واقع کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ  لندن میں اپنی کچھ فلموں کی نمائش کے بعد کس طرح سے دادا صاحب کو وہاں کام کرنے کی  پیشکش ملی۔‘‘انہوں نے احسن طریقے سے پیشکش ٹھکرا دی اور کہا کہ ان کا ملک ، جہاں سنیما ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، ان کی سخت ضرورت  ہے۔’’

جناب پوسلکر کے مطابق سنیما کے تئیں ان کے نانا کی لگن کی وجہ سے، انہیں کبھی بھی پیسہ بنانے کی فکر نہیں رہی۔ جذبات سے پُر جناب پوسلکر نے کہا کہ ‘‘ہمارے نانا نے ایک عظیم الشان روایت چھوڑی ہے، انہوں نے ہمارے لئے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمیں ان کے طفیل میں تمام تعریفیں اور تالیاں مل رہی ہیں اور ان کی خدمات کی وجہ سے ہی ہمیں عزت و احترام حاصل ہو رہا ہے۔’’

یہ تفصیل بتاتے ہوئے کہ دادا صاحب نئی نسل کے فلم سازوں کےلئے کس طرح سے ایک محرک بن سکتے ہیں، جناب پوسلکر نے کہا  کہ میرے نانا اپنے خاندان سے بہت زیادہ پیار اور اس خیال رکھنے والے تھے، لیکن پھر بھی وہ کام اور گھر پر سخت ڈسپلن رکھتے تھے۔اپنی فلموں کے بارے میں  وہ ہر چیز بہت باریک بینی سے پلان کرتے تھے۔ان کا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ کوئی چیز سیکھنے کےلئے  کوئی عمر مقرر نہیں ہوتی، کیونکہ وہ خود بھی نئی چیزیں سیکھتے رہتے تھے۔’’ انہوں نے فخریہ اندا ز میں کہا کہ یہی چیزیں جسے نئی نسل کے فلم سازوں کو ان سے اپنے لئے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘چیزوں کو سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔’’

دادا صاحب کی خدمات کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کےلئے ان کے خاندان کے ذریعے کی جارہی کوششوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے جناب پوسلکر نے دادا صاحب پھالکے بین الاقوامی بیداری مشن کے بارے میں بات کی۔انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ دادا صاحب کے بارے میں پورے ہندوستان  اور پوری دنیا میں بیداری پھیلانے کےلئے ایک چھوٹا سا مشن ہے۔ اس کے لئے ایک ڈیڈیکیٹڈ ویب سائٹ    http://www.dpiam.org.inہے، جہاں  کوئی بھی میرے ناناکے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

دادا صاحب کے عہد کے کچھ سنہرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے جناب چندر شیکھر نے کہا کہ دادا صاحب نہ صرف فلم سازی میں ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے، بلکہ اشتہارات اور پروموشن میں بھی ان کا ایک مقام تھا، جس میں وہ ہمیشہ اختراعی طریقہ کار کا تجربہ کرتے رہتے تھے۔ ان کا طلباء ناظرین سے خاص تعلق تھا اور وہ اکثر زیادہ سے زیادہ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے خصوصی پاس دیا کرتے تھے، تاکہ وہ ان کی فلم دیکھیں۔’’

پروموشن  سے متعلق ایک واقع کو یاد کرتے ہوئے جناب پوسلکر نے کہا کہ ‘‘ایک بار انہوں نے پونے میں ایک تھیٹر مالک کے ساتھ معاہدہ کیا، جس کی تھیڑ سے متصل ایک آٹے کی مل تھی، جو ایک ٹکٹ خریدتا تھا اسے ایک کلو گرام آٹا مفت ملتا تھا اور جو کوئی ایک کلو گرام آٹا خریدتا تھا اسے بھی ایک ٹکٹ فری ملتا تھا۔

جناب پوسلکر نے اپنے نانا کو مزید شناخت دلانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘میرے نانا کے 150 ویں یوم پیدائش پر یہی صحیح موقع ہے  اور بعد از مرگ میرے نانا کو بھارت رتن کا خطاب دینا ان کی شناخت کے لئے درست ہے اور فلم صنعت کو بھی ان کی حیات پر فلم بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

جناب پوسلکر نے‘‘ مزید کہا کہ اہم شخصیات آتی اور جاتی رہیں گی، لیکن جب تک سنیما ہے دادا صاحب پھالکے کو یاد کیا جائے گا۔’’

 

*************

 

ش ح۔ف ا۔ ن ع

(20.01.2021)

(U: 574)


(Release ID: 1690269) Visitor Counter : 529