وزیراعظم کا دفتر

من کی بات 2.0 کی 17 ویں قسط میں وزیراعظم کے  خطاب کا متن (25 اکتوبر 2020)

Posted On: 25 OCT 2020 11:51AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج وجے دشمی یعنی دشہرے کا تہوار ہے۔ اس مبارک موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ دشہرہ کا یہ تہوار جھوٹ پر  سچائی کی جیت کا تہوار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک طرح سے مشکلات پڑنے پر  صبر کی جیت کا تہوار بھی ہے۔ آج آپ سبھی بہت تحمل کے ساتھ  جی رہے ہیں۔ مریادہ میں رہ کر  تہوار منارہےہیں اس لئے جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، اس میں جیت بھی یقینی ہے۔ پہلے درگا پنڈال میں، ماں کے درشنوں کے لئے  اتنی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔ ایکدم، میلے جیسا ماحول رہتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوپایا۔ پہلے دشہرے پر بھی بڑے بڑے میلے لگتے تھے۔ لیکن اس بار ان  کی شکل بھی مختلف ہے۔ رام لیلا کا تہوار بھی، اس کی بڑی کشش تھی۔ لیکن اس میں بھی کچھ نہ کچھ پابندیاں لگی ہیں۔پہلے نو راتر پر، گجرات کے گربا کی گونج  ہر طرف چھائی رہتی تھی، اس بار بڑے بڑے  پروگرام سب بند ہیں۔ ابھی آگے اور بھی کئی تہوار آنے والے ہیں۔ابھی عید ہے، شرد پورنیما ہے، والمیکی جینتی ہے، پھر دھن تیرس ، دیوالی، بھائی دوج، چھٹی میا کی پوجا ہے،گورو نانک دیو جی کی جینتی ہے۔ کورونا کے اس  مصیبت کے دور میں ہمیں  صبر  و تحمل سے ہی کام لینا ہے،مریادہ میں ہی رہنا ہے۔

ساتھیو،  جب ہم تہوار  کی بات کرتے ہیں، تیاری کرتے ہیں، تو سب سے پہلے من میں یہی آتا ہے کہ بازار کب جانا ہے؟ کیا کیا خریداری کرنی ہے؟خاص طور پر بچوں میں تو اس کے  لئے خصوصی جوش  ہوتا ہے۔ اس بار تہوار پر نیا کیا  ملنے والا ہے؟ تہواروں کی یہ امنگ اور بازار کی  چمک  ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس بار جب آپ خریداری کرنے جائیں تو  ’ووکل فار لوکل‘ کا اپنا عزم ضرور یاد رکھیں۔ بازار سے سامان خریدتے وقت  ہمیں مقامی مصنوعات  اولیت دینی ہے۔

ساتھیو،  تہواروں کی اس خوشی اور  امنگ کے درمیان میں لاک ڈاؤن کے وقت کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں ہم نے معاشرے کے ان ساتھیوں کو اور قریب سے جانا ہے، جن کے بغیر ہماری زندگی بہت ہی مشکل ہوجاتی۔ صفائی ملازمین، گھر میں کام کرنے والے بھائی بہن ، مقامی سبزی والے، دودھ والے،  سکیورٹی گارڈ، ان سب کا ہماری زندگی میں کیا رول ہے، ہم نے اب اچھی طرح محسوس کیا ہے۔ مشکل وقت میں یہ آپ کے ساتھ تھے، ہم سب کے ساتھ تھے۔ اب  اپنے تہواروں میں، اپنی خوشیوں میں بھی، ہمیں ان کو ساتھ رکھنا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل ضرور کیجئے۔ خاندان کے رکن کی طرح شامل کیجئے، پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی خوشیوں میں کتنا زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

ساتھیو، ہمیں اپنے ان جانباز فوجیوں کو بھی یاد رکھنا ہے، جو ان تہواروں میں بھی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت ماتا کی خدمت اور حفاظت کررہے ہیں۔ ہمیں ان کو یاد کرکے ہی اپنے تہوار منانے ہیں۔ ہمیں  گھر میں ایک  دیا،  بھارت ماتا کے ان  بہادر بیٹے بیٹیوں کے اعزاز میں بھی جلانا ہے۔میں، اپنے ان بہادر  جوانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھلے ہی سرحد پر ہیں، لیکن پورا ملک آپ کے ساتھ ہے، آپ کے لئے نیک خواہشات رکھتاہے۔ میں ان خاندانوں کے ایثار کو بھی سلام کرتا ہوں، جن کے بیٹے بیٹیاں آج سرحد پر ہیں۔ ہر وہ شخص جو ملک سے متعلق کسی نہ کسی ذمہ داری کی وجہ سے اپنے گھر پر نہیں ہے، اپنے خاندان سے دور ہے۔ میں دل سے اس کے لئے  ممنوعیت کا اظہار کرتاہوں۔

میرے پیارے  ہم وطنو، آج ہم لوکل کے لئے ووکل ہو رہے ہیں تو دنیا بھی ہمارے لوکل پروڈکٹس کی فین ہور ہی ہے۔ہمارے کئی لوکل پروڈکٹس میں گلوبل ہونے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ جیسے ایک مثال  ہے کھادی کی۔ طویل وقت تک کھادی سادگی کی پہچان رہی ہے، لیکن ہماری کھادی آج ایکو فرینڈلی فیبرک کے طور  پر جانی جارہی ہے۔ صحت کے نظریہ سے یہ باڈی فرینڈلی فیبرک ہے، آل ویدر فیبرک ہے اور آج کھادی فیشن اسٹیٹمنٹ تو بن ہی رہی ہے۔ کھادی کی مقبولیت  میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے، ساتھ ہی دنیا میں کئی جگہ، کھادی بنائی بھی جارہی ہے۔ میکسکو میں ایک جگہ ہے ’اوہاکا‘۔ اس علاقے میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں مقامی دیہاتی افراد  کھادی بننے کا کام کرتے ہیں۔ آج یہاں کی کھادی ’اوہاکا کھادی‘ کےنام سے مشہور ہوچکی ہے۔ اوہاکا  میں کھادی کیسے پہنچی، یہ بھی  کم دلچسپ نہیں ہے۔ دراصل، میکسکو کے ایک نوجوان مارک براؤن نے ایک بار مہاتما گاندھی پر ایک فلم دیکھی۔ براؤن یہ فلم دیکھ کر  باپو سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھارت میں باپو کے آشرم آئے اور باپو کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سمجھا۔ تب براؤن کو احساس ہوا کہ کھادی صرف ایک کپڑا  ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پورا طریقہ  زندگی ہے۔  اس سے کس  طرح سے دیہی معیشت اور  خود کفیلی کا فلسفہ جڑ اہے براؤن اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یہاں سے براؤن نے عہد کیا کہ وہ میکسکو میں جاکر کھادی کا کام شروع کریں گے۔ انہوں نے میکسکو کے اوہاکا میں گاؤں والوں کو کھادی کا کام سکھایا، انہیں تربیت دی اور آج ’اوہاکا کھادی‘ ایک برانڈ بن گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی  ویب سائٹ پر لکھا ہے ’دی سیمبل آف دھرما ان موشن‘۔ اس ویب سائٹ میں مارک براؤن کا بہت ہی دلچسپ انٹرویو بھی ملے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں لوگ کھادی کے  تعلق سے شبے میں تھے، لیکن آخرکار اس میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور اس کا بازار تیار ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں، یہ رام راجیہ سے جڑی باتیں ہیں جب آپ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تو پھر لوگ بھی آپ سے جڑنے چلے آتے ہیں۔

ساتھیو، دلی کے کناٹ پلیس کے کھادی اسٹور میں اس بار گاندھی جینتی پر ایک ہی دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی خریداری ہوئی۔ اسی طرح کورونا کے دور میں کھادی کے ماسک بھی بہت مقبول ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں کئی جگہ سیلف ہیلپ گروپ اور دوسرے ادارے کھادی کے ماسک بنا رہے ہیں۔ یو پی میں  بارا بنکی میں ایک خاتون ہیں۔ سمن دیوی جی۔ سمن جی نے سیلف ہیپ گروپ کی اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ مل کر کھادی ماسک بنانا شروع کئے۔ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دیگر خواتین بھی جڑتی گئیں، اب وہ سبھی مل کر ہزاروں کھادی ماسک بنارہی  ہیں۔ ہمارے لوکل پروڈکٹس کی خوبی ہے کہ ان کے ساتھ اکثر ایک پورا  فلسفہ  جڑ ا ہوتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمیں اپنی چیزوں پر فخر ہوتا ہے تو دنیا میں بھی  ان کے بارے میں کے تجسس بڑھتا ۔ جیسے ہماری روحانیت  نے،یوگ نے، آیوروید نے، پوری دنیا کو راغب کیا ہے۔ ہمارے کئی کھیل بھی دنیا کو راغبب کررہے ہیں۔ آج کل ہمارا ملکھمب بھی کئی ملکوں میں مقبول ہورہا ہے۔ امریکہ میں چنمے پاٹنکر اور پرگیا پاٹنکر نے جب اپنے گھر سے ہی ملکھمب سکھانا شروع کیا تھا تو انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی کامیابی ملے گی۔ امریکہ میں آج کئی مقامات پر ملکھمب تربیتی مراکز چل رہے ہیں۔ بڑی  تعداد میں امریکہ کے نوجوان اس سے جڑ رہے ہیں، ملکھمب سیکھ رہے ہیں۔ آج جرمنی ہو، پولینڈ ہو، ملیشیا ہو، ایسے تقریباً 20 دیگر ممالک میں بھی ملکھمب خوب مقبول ہورہا ہے۔ اب تو اس کی عالمی چمپئن شپ شروع کی گئی ہے، جس میں کئی ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ بھارت میں تو دور قدیم سے کئی ایسے کھیل رہے ہیں جو ہمیں  غیر معمولی  طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ذہن، باڈی بیلنس کو ایک نئی جہت پر لے جاتے ہیں۔ لیکن ممکنہ طور پر نئی نسل کے ہمارے نوجوان ساتھ،  ملکھمب سے اتنا واقف نہ ہوں ۔ آپ اسے انٹرنیٹ پر ضرور سرچ کیجئے اور دیکھئے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں کتنے ہی مارشل آرٹ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ساتھی ان کے بارے میں  بھی جانیں، انہیں سیکھیں اور وقت کے لحاظ سے اختراع بھی کریں۔

جب زندگی میں بڑے چیلنجز نہیں ہوتے ہیں تو شخصیت  کا بہترین عنصر  بھی باہر نکل کر نہیں آتاہے۔ اس لئے خود کو ہمیشہ چیلنج  کرتے رہئے۔

میرے پیارے ہم وطنو، کہا جاتا ہے کہ ’لرننگ از گروئنگ‘۔ آج ’من کی بات‘ میں، میں آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کراؤں گا جس  میں ایک منفرد جنون ہے۔ یہ جنون ہے دوسروں کے ساتھ مطالعہ کرنے اور سیکھینے  کی خوشیوں کو باٹنے کا۔ یہ ہیں پون مریپّن، پون مریپّن تمل ناڈو کے تُتکڑی میں رہتے ہیں۔ تتکڑی کو پرل سٹی یعنی موتیوں کے شہر کے طورپر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کبھی پانڈین سامراج کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں رہنے والے میرے دوست پون مریپن  ہیئر کٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں  اور ایک سیلون چلاتے ہیں۔ بہت چھوٹا سا سیلون ہے۔ انہوں نے ایک منفرد اور  تحریک  دینے والا  کام کیا ہے۔ اپنے سیلون کے ایک حصے کو ہی لائبریری بنا دیا ہے۔ اگر  کوئی شخص سیلون میں اپنی باری کا انتظار کرنے کے دوران وہاں کچھ پڑھتا ہے اور جو پڑھا ہے اس کے بارے میں کچھ لکھتا ہے تو پون مریپن جی اس گاہک کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ہے نہ مزے دار!

آیئے تتکڑی چلتے ہیں۔ پون مریپّن جی سے بات کرتے ہیں۔

وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم... نلّہ اِر کنگڈا؟

(وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم ۔ آپ کیسے ہیں؟)

پون مریپّن: ...(تمل میں جواب)

(پون مریپّن: عزت مآب وزیراعظم جی، ونکّم (نمسکار)۔)

وزیراعظم: ونکّم ، ونکّم... انگلکّے اند لائبریری آئیڈیا یّڑی ونددا

(وزیراعظم: ونکّم، ونکّم ۔  آپ کو یہ لائبریری  کا جو  آئیڈیا ہے، یہ کیسے آیا؟)

پون مریپّن: ... (تمل میں جواب)...

(پون مریپّن کے جواب کا  ترجمہ: میں  نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے آگے میرےخاندان  کے  حالات  کی وجہ سے میں اپنی  تعلیم   جاری نہ رکھ سکا۔ جب میں پڑھے لوگوں کو یکھتا ہوں، تب میرے دل میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے میرے من میں آیا کہ ہم  کیوں نہ ایک لائبریری قائم کریں اور اس سے بہت سے لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا ، یہی میرے لئے ایک تحریک بنی۔

وزیراعظم: انگلکے یند پُتہم پڈکّم؟

(وزیراعظم: آپ کو کون سی کتاب بہت پسند ہے؟)

پون مریپّن: (تمل میں جواب)

(پون مریپّن: مجھے ’تروکورول بہت پسند ہے)

وزیراعظم: اَنگ کٹّ  پیسئے دل ینکّ۔ رومبا مگلچی۔ نل واڑ تکّل

(وزیراعظم: آپ سے بات کرکے مجھے خوشی ہوئی۔ آپ کا بہت  بہت نیک خواہشات)

پون مریپّن: .... (تمل میں جواب)

(پون مریپّن: میں بھی عزت مآب وزیراعظم جی سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہا ہوں)

وزیراعظم: نل واڑ تکّل

(وزیراعظم: بہت ساری نیک خواہشات)

پون مریپّن: (تمل میں جواب).....

(پون مریپّن: شکریہ وزیراعظم جی)

وزیراعظم: شکریہ۔

ہم نے ابھی پون مریپّن جی سے بات کی۔ دیکھئے، کیسے وہ لوگوں کے بالوں کو تو سنوارتے ہی ہیں، انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔ تھروکورل کی مقبولیت کے  بارے میں سن کر بہت اچھا لگا۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے  میں آپ سب نے بھی سنا۔ آج بھارت کی سبھی زبانوں میں تھروکورل دستیاب ہے۔اگر موقع ملے تو ضرور پڑھنا چاہیے۔ زندگی کے لئے وہ ایک طرح سے  رہنمائی کرنے والی  ہے۔

ساتھیو، لیکن آپ کو یہ جان کر خوش ہوگی کہ پورے بھارت میں متعدد لوگ ہیں جنہیں علم کی ترسیل سے بہت خوشی ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہتے ہیں کہ ہر کوئی پڑھنے کے لئے  تحریک حاصل کرے۔ مدھیہ پردیش کے سنگرولی کی ٹیچر، اوشا دوبے جی نے تو اسکوٹی کو ہی موبائل لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ ہر روز اپنی چلتی پھرتی لائبریری کے ساتھ کسی نہ کسی گاؤں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ بچے انہیں پیار سے کتابوں والی دیدی کہہ کر بلاتےہیں۔ اس سال اگست میں اروناچل پردیش کے نرجولی کے رایو گاؤں میں ایک سیلف ہیلپ لائبریری بنائی گئی ہے۔ دراصل یہاں کی مینا گورنگ اور دیوانگ ہوسائی کو جب پتہ چلا کہ قصبے میں کوئی لائبریری نہیں ہے تو انہوں نے اس کی فنڈنگ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس لائبریری کے لئے کوئی ممبر شپ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص دو ہفتے کے لئے کتاب لے جاسکتا ہے۔ پڑھنے کے بعد اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ لائبریری ساتوں دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ پاس پڑوس کے سرپرست یہ دیکھ کر کافی خوش ہیں کہ ان کے بچے کتاب پڑھنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور سے  اس وقت جب اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں۔ وہیں چنڈی گڑھ میں ایک این جی او چلانے والے سندیپ کمار جی نے ایک منی وین میں موبائل لائبریری بنائی ہے، اس کے ذریعہ  غریب بچوں کو پڑھنے کے لئے مفت میں کتابیں دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گجرات کے بھاؤ نگر کے بھی دو اداروں کے بارے میں جانتا ہوں جو بہترین کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے ’وکاس ورتل ٹرسٹ‘۔ یہ ادارہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کے لئے بہت مددگار ہے۔ یہ ٹرسٹ 1975 سے کام کررہا ہے اور یہ 5000 کتابوں کے ساتھ 140 سے زیادہ رسالے دستیاب کراتا ہے۔ ایسا ایک ادارہ ’پستک پرب‘ ہے۔ یہ اختراعی پروجیکٹ ہے جو ادبی کتابوں کے ساتھ ہی دوسری کتابیں مفت فراہم کراتا ہے۔ اس لائبریری میں روحانیت، آیورویدک طریقہ  علاج اور کئی دیگر موضوعات سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کو اس طرح کی اور کوششوں کے بارے میں کچھ پتہ ہے تو میرا اصرار ہے کہ آپ اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔ یہ مثال کتابیں پڑھنے یا لائبریری کھولنے تک ہی محدود نہیں  ہے بلکہ یہ اس نئے بھارت کے جذبے  کی بھی علامت ہے جس میں سماج کی ترقی کے لئے ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگ نئے نئے اور اختراعی طریقے اختیار کررہے ہیں۔ گیتا میں کہا گیا ہے :

نہ ہی گیانین سدرشم پوتر مہ ودیاتے

یعنی ، علم کی طرح دنیا میں کچھ بھی مقدس نہیں ہے۔ میں علم کی ترسیل کرنے والے ایسی نیک کوششیں کرنے والے سبھی لوگوں کو دل سے سلام کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، کچھ ہی دنوں بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کا یوم پیدائش 31 اکتوبر کو ہم سب ’قومی یکجہتی کے دن‘  کے طور پر منائیں گے۔ ’من کی بات‘ میں پہلے بھی ہم نے سردار پٹیل پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ہم نے ان کی عظیم شخصیت کی کئی جہتوں  کا ذکر کیا ہے۔ بہت کم لوگ ملیں گے جن کی شخصیت میں ایک ساتھ کئی عناصر موجود ہوں۔ نظریاتی گہرائی ، اخلاقی جرأت، سیاسی انفرادیت، زرعی شعبے کا  گہرا علم اور قومی  یکجہتی کے بارے میں  اپنے آپ کو وقف کرنے کا جذبہ ۔  کیا  آپ سردار پٹیل کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں جو ان کے سینس آف ہیومر کو ظاہر کرتی ہے۔ ذرا اس مرد آہن کی شبیہ کا تصور  کیجئے جو راجے رجواڑوں سے بات کررہے تھے،  پوجیہ باپو، کی عوامی تحریک کا انتظام کررہے تھے، ساتھ ہی انگریزوں سے لڑائی بھی لڑ رہے تھے اور ان سب کے درمیان بھی ان کا سینس آف ہیومر پورے رنگ میں ہوتا تھا۔ باپو نے سردار پٹیل کے بارے میں کہا تھا ۔ ان کی  پر مزہ باتیں مجھے اتنا ہنساتی تھیں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ ایسا دن میں ایک بار نہیں کئی کئی بار ہوتا تھا۔ اس میں ہمارےلئے بھی ایک سبق ہے۔ حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں، اپنے سینس آف ہیومر کو زندہ رکھئے، یہ ہمیں معمول پر  تو رکھے گا ہی ہم اپنے مسائل کا حل بھی نکال پائیں گے۔ سردار صاحب نے یہی تو کیا تھا!

میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے اپنی پوری زندگی ملک کے اتحاد کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے بھارتی عوام کے ذہن  کو تحریک آزادی سے جوڑا۔ انہوں نے آزادی کے ساتھ کسانوں کے معاملات کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہوں نے راجے رجواڑوں کو ہماری قوم کے ساتھ ملانے کا کام کیا۔وہ تنوع میں اتحاد کے منتر کو ہر بھارتی کے ذہن میں جگا رہے تھے۔

ساتھیو، آج ہمیں اپنی زبان ، اپنے رویہ، اپنے  کام سے ہر لمحہ ان سب چیزوں کو آگے بڑھانا ہے جو ہمیں ’متحد‘ کرے ، جو ملک کے ایک حصے میں رہنے والے شہریوں کے ذہن میں دوسرے کونے میں رہنے والے شہریوں کے لئے خلوص  اور  اپنے پن کا جذبہ پیدا کرسکے۔ ہمارے اباؤ اجداد نے صدیوں سے مسلسل یہ کوششیں کی ہیں۔ اب دیکھئے، کیرلا میں پیدا ہوئے   پوچیہ آدی شنکر چاریہ جی نے بھارت کی چاروں سمتوں میں چار اہم مٹھ قائم کئے۔ شمال میں بدری کاشرم، مشرق میں پوری، جنوب میں شرنگیری اور مغرب میں دوارکا۔ انہوں نے سری نگر کا سفر بھی کیا، یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک ’شنکراچاریہ ہل‘ ہےتیرٹھاٹن اپنے آپ میں  بھارت کو ایک دھاگے میں پروتا ہے۔ جیوتر لنگوں اور شکتی پیٹھوں کا سلسلہ بھارت  کو  ایک دھاگے میں باندھتا ہے۔ تریپورہ سے لیکر گجرات تک جموں کشمیر سے لیکر  تمل ناڈو تک قائم  کئے گئے  ہمارے آستھا کے مرکز  ہمیں ایک کرتے ہیں۔ بھگتی تحریک پورے بھارت میں  ایک بڑی عوامی تحریک بن گئی جس نے  ہمیں  بھگتی کے ذریعہ  متحد کیا۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی یہ باتیں اس طرح گھل گئی ہیں، جس میں اتحاد کی طاقت ہے۔ ہر ایک انوشٹھان سے پہلے مختلف دریاؤں  کو پکارا جاتا ہے۔ اس میں دور دراز شمال میں واقع دریا ئے سندھو سے لیکر  جنوبی ہند کا  زندگی  عطا کرنے والادریائے کاویری تک شامل ہیں۔ اکثر ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں، اشنان کرتےوقت  پاک جذبے کے ساتھ ایکتا کا منتر ہی بولتے ہیں:

گنگے چ یمنے چیو گوداوری سروتی۔

نرمدے سندھو کاویری جلیسمن سنّدھم کرو۔

اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات میں ’نانڈیڑ صاحب‘ اور ’پٹنہ صاحب‘گورودوارے شامل ہیں۔ ہمارے سکھ گوروؤں نے بھی اپنی زندگی اور اچھے کاموں کے ذریعہ سے  اتحاد کے جذبے کو  تقویت بخشی ہے۔ گزشتہ صدی میں ہمارے ملک میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر  جیسی عظیم شخصیات رہی ہیں۔ جنہوں نے ہم سبھی کو آئین کے ذریعہ سے متحد کیا۔

ساتھیو،

Unity is Power, Unity is strength,

Unity is Progress, Unity is Empowerment,

United we will scale new heights

ویسے۔ ایسی طاقتیں بھی موجود رہی ہیں جو مسلسل  ہمارے ذہن میں شکوک و شبہات کے بیچ بونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔  ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ملک میں نے بھی ہر بار، ان بد ارادوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ہمیں مسلسل اپنی تخلیقی صلاحیت سے، محبت سے، ہر لمحہ کوشش  کرکے اپنے چھوٹے سے چھوٹے کاموں میں ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے خوبصورت رنگوں کو سامنے لانا ہے۔ اتحاد کے نئے رنگ بھرنے ہیں، اور، ہر شہری کو بھرنے ہیں۔ اس ضمن میں  آپ سب سے ایک ویب سائٹ دیکھنے کا اصرار کرتا ہوں۔ ekbharat.gov.in (ایک بھارت  ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان)۔ اس میں  قومی  یکجہتی کی ہماری مہم کو  آگے بڑھانے کی کئی کوششیں نظر آئیں گی۔ اس کا ایک دلچسپ کارنر ہے ۔ آج کا واکیہ۔  اس سیکشن میں ہم ہر روز ایک  واکیہ کو الگ الگ زبانوں میں کیسے بولتے ہیں،  یہ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ اس ویب سائٹ کے لئے  کنٹریبوٹ بھی کریں، جیسے ہر ریاست اور  ثقافت میں  علیحدہ علیحدہ  خورد و نوش ہوتا ہے۔ یہ  پکوان مقامی سطح کی خاص اشیا  یعنی اناج اور مسالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ کیا ہم ان لوکل فوڈ کی  ریسیپی کو  مقامی اجزا کے ناموں کے ساتھ ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ ویب سائٹ پر شیئر کرسکتے ہیں؟ یونٹی اور امیونٹی کو بڑھانے کے لئے  اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے!

ساتھیو، اس مہینے کی 31 تاریخ کو مجھے کیوڑیا میں تاریخی  اسٹیچو آف یونٹی پر ہورہے کئی پروگرامیوں میں  شرکت کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ لوگ بھی ضرور جڑیئے گا۔

 میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کو ہم ‘والمیکی جینتی’  بھی منائیں گے۔ میں مہارشی والمیکی کو نمن کرتا ہوں اور اس خاص موقع کے لئے اہل  وطن کو دلی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مہارشی والمیکی کے عظیم خیالات  کروڑوں لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، تقویت عطا کرتے ہیں۔ وہ لاکھوں، کروڑوں غریبوں اور دلتوں کے لئے  بہت بڑی امید ہیں۔  ان کے اندر  امید اور اعتماد  پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کسی بھی شخص کی  قوت ارادی اگر اس کے ساتھ ہو تو وہ کوئی بھی کام بڑی آسانی سے کرسکتا ہے۔ یہ قوت ارادی ہی ہے جو کئی  نوجوانوں کو غیر معمولی کام کرنے کی طاقت دیتی ہے۔  مہارشی والمیکی نے  مثبت  سوچ پر زور دیا۔ ان کے لئے، خدمت اور انسانی  وقار کا مقام سب سے اوپر ہے۔مہارشی  والمیکی کا اخلاق ، خیالات اور  آئیڈیل آج  نیو انڈیا کے ہمارے عزم کے لئے محرک بھی ہیں اور  رہنما خطوط بھی ہیں۔ ہم مہارشی والمیکی کے ہمیشہ  ممنون رہیں گے کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے  رامائن جیسے عظیم گرنتھ کی تخلیق کی۔

اکتیس اکتوبر کو بھارت کی سابق وزیراعظم  محترمہ اندرا گاندھی جی کو ہم نے کھو دیا۔ میں احترام کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو،  آج کشمیر کا پلوامہ  پورے  ملک کو تعلیم  دینے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ آج ملک بھر میں بچے اپنا ہوم ورک کرتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے پلوامہ کے  لوگوں کی سخت محنت بھی ہے۔ وادی کشمیر پورے ملک کی تقریباً 90 فیصد پنسل سلیٹ، لکڑی  تختی کی مانگ کو پورا کرتی ہے اور اس میں بہت بڑی حصے داری پلوامہ کی ہے۔ ایک وقت  میں  ہم لوگ  بیرون ممالک سے پنسل کے لئے لکڑی منگواتے تھے، لیکن اب ہمارا پلوامہ ، اس  شعبے میں ملک کو  خود کفیل بنا رہا ہے۔ حقیقت میں پلوامہ کے یہ پنسل سلیٹ،  ریاستوں کے درمیان کے گیپ کو کم کررہے ہیں۔ وادی کی چنار کی لکڑی میں  اب بہت زیادہ نمی اور  سافٹ نیس ہوتی ہے جو پنسل تیار کرنے کےلئے اسے سب سے مناسب بناتی ہے۔ پلوامہ میں اکھو کو  پنسل ولیج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پنسل سلیٹ تیار کرنے کی کئی اکائیاں ہیں جو روزگار فراہم کرا رہی ہیں اور ان میں  کافی  تعداد میں خواتین کام کرتی ہیں۔

ساتھیو، پلوامہ کی اپنی  یہ پہچان اس وقت قائم ہوئی ہے جب یہاں کے لوگوں نے  کچھ نیا کرنے کی  ٹھانی۔ کام کو لیکر  جوکھم اٹھایا اور خود کو اس کے لئے وقف کردیا۔ ایسے ہی  محنتی لوگوں میں سے ایک ہیں منظور احمد علائی ۔ پہلے منظور بھائی لکڑی کاٹنے والے ایک عام مزدور تھے۔ منظور بھائی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں غریبی میں  زندگی نہ گزاریں۔ انہوں نے اپنی  پشتینی زمین  فروخت کردی اور ایپل وڈن باکس   یعنی سیب رکھنے والے لکڑی کے بکسے  بنانے کی یونٹ شروع کی۔ وہ اپنے چھوٹے سے  بزنس میں جٹے ہوئے تھے، تبھی منظوری بھائی کو کہیں سے پتہ چلا کہ پنسل تیار کرنے میں پوپلر وڈ یعنی چنار کی لکڑی کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد  منظور بھائی نے  اپنی صنعت  کاری  کی صلاحیت کا تعارف کراتے ہوئے کچھ  فیمس پنسل مینوفیکچرنگ یونٹس کو پوپلر وڈن باکس کی سپلائی شروع کی۔ منظور جی کو یہ بہت فائدے مند لگا اور ان کی آمدنی بھی اچھی خاصی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ انہوں نے  پنسل سلیٹ  مینوفیکچرنگ مشینری لے لی اور اس کے بعد انہوں نے ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں کو  پنسل سلیٹ  کی سپلائی شروع کردی۔ آج منظور بھائی کے اس کاروبار کا  ٹرن اوور کروڑوں میں ہے اور وہ تقریباً 200 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں۔  آج  ’من کی بات‘ کے ذریعہ تمام اہل وطن کی جانب سے  میں منظور بھائی سمیت  پلوامہ کے محنت کش بھائی بہنوں کو اور ان کے خاندان والوں کو ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ سب ملک کے نوجوان ذہنوں کو،  تعلیم دینے کےلئے اپنا بیش قیمت تعاون کررہے ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، لاک ڈاؤن کے دوران ٹکنالوجی  بیسڈ سروس ڈلیوری کے کئی تجربات ہمارے ملک میں کئے گئے ہیں اوراب  ایسا نہیں رہا کہ بہت بڑی  ٹکنالوجی  اور لاجسٹکس کمپنیاں ہی یہ کرسکتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں یہ کام خواتین کے  سیلف ہیلپ گروپ نے کرکے دکھایا ہے۔ ان خواتین  نے کسانوں کے کھیتوں سے سبزیاں اور پھل لئے اور سیدھے گھروں تک پہنچائے۔ ان خواتین نے  ’آجیوکا فارم فریش‘ نام سےایک ایپ بنوانا جس  کے ذریعہ لوگ آسانی سے سبزیاں منگوا سکتے تھے۔ اس پوری کوشش سے کسانوں کو  اپنی سبزیوں اور پھلوں کے اچھے دام ملے اور لوگوں کو بھی  فریش سبزیاں ملتی رہیں۔ وہاں  ’اجیوکا فارم فریش‘ ایپ کا آئیڈیا بہت مقبول ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں انہوں نے 50 لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پھل سبزیاں لوگوں تک پہنچائی ہیں۔  ساتھیو، زراعت کے شعبے میں نئے امکانات  پیدا ہوتے دیکھ کر ہمارے نوجوان بھی کافی تعداد میں اس سے جڑنے لگے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بڑوانی میں  اتل پاٹیدار اپنے علاقے کے 4000 کسانوں کو ڈیجیٹل طریقے سے جوڑ چکے ہیں۔  یہ کسان اتل پاٹیدار کے  ای۔ پلیٹ فارم فارم ارڈ کے ذریعہ کھیتی کے سامان، جیسے کھاد، بیچ، پیسٹی سائڈ، فنجی سائٹ  وغیرہ کی ہوم ڈلیوری  پا رہے ہیں، یعنی کسانوں کو گھر تک ان کی ضرورت کی چیزیں مل رہی ہیں۔ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر  جدید  زرعی آلات بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے وقت  بھی  اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ  کسانوں کو ہزاروں پیکٹ ڈلیور کئے گئے، جس میں کپاس  اور سبزیوں کے بیچ بھی تھے۔ اتل جی اور ان کی ٹیم  کسانوں  کو تکنیکی طور پر بیدار بنارہی ہے۔ آن لائن پیمنٹ اور خریداری سکھا رہی ہے۔

ساتھیو، ان دنوں مہاراشٹر کے ایک واقعہ پر میرا دھیان گیا۔ وہاں ایک فارمر پروڈیوسر کمپنی نے مکئی کی کھیتی کرنے والے کسانوں سے  مکئی  خریدی۔  کمپنی نے کسانوں کو اس بار  قیمت کے علاوہ بونس بھی دیا۔ کسانوں کو بھی  حیران کن خوشی ہوئی۔ جب اس کمپنی سے پوچھا تو انہوں نے کہا بھارت  سرکار نے  جو نئے زرعی قوانین بنائے ہیں اب ان کے تحت  کسان بھارت میں کہیں پر بھی فصل  فروخت کرپارہے ہیں اور انہیں اچھے دام مل رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ اس فاضل پروفٹ کو  کسانوں کے ساتھ بھی بانٹنا چاہیے۔ اس پر ان کا بھی حق ہے اور انہوں نے کسانوں کو بونس دیا ہے۔ ساتھیو، بونس بھلے ہی ابھی چھوٹا ہو، لیکن شروعات بہت بڑی ہے۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے زمینی سطح پر  کس طرح کی تبدیلیاں کسانوں کے حق میں آنے کے  امکانات  بھرے پڑے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات میں‘ اہل وطن کی غیر معمولی کامیابیوں ، ہمارے ملک، ہماری ثقافت کی علیحدہ علیحدہ جہتوں کے بارے میں آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ملک  باصلاحیت  لوگوں سے بھرا  ہوا ہے۔ اگر آپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں، ان کے بارے میں بات کیجئے، لکھئے اور ان کی کامیابیوں کو شیئر کیجئے۔  آنے والے تہواروں کی  آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو بہت بہت مبارکباد۔ لیکن  ایک بات یاد رکھئے  اور تہواروں میں، ذرا خصوصی طور پر یاد رکھئے۔ ماسک پہننا ہے، ہاتھ صابن سے دھوتے رہنا ہے، دو گز کی دوری بنائی رکھنی ہے۔

ساتھیو، اگلے مہینے پھر آپ سے من کی بات ہوگی بہت بہت شکریہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

م ن۔  ا گ۔ن ا۔

U-6651                    


(Release ID: 1667505) Visitor Counter : 665