وزیراعظم کا دفتر

مَن کی بات  2.0 کی 16ویں کڑی میں وزیر اعظم کے  خطاب کا متن ( 27 ستمبر ، 2020 ء )

Posted On: 27 SEP 2020 11:50AM by PIB Delhi

نئی دلّی ،27 ستمبر / میرے پیارے  ہم وطنو ، نمسکار ۔ کورونا کے اِس  بحرانی دور میں پوری  دنیا  مختلف تبدیلیوں  کے دور سے گزر رہی ہے ۔ آج جب  دو گز کی دوری  ایک نا گزیر  ضرورت  بن گئی ہے تو اسی  بحرانی دور نے  کنبے کے  ارکان  کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کا بھی کام کیا  ہے  لیکن اتنے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا  ، کیسے رہنا  ، وقت کیسے گزارنا  ، ہر پل خوشی  بھرا کیسے ہو ؟ تو ، کئی کنبوں کو   پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اُس کی وجہ تھی کہ جو ہماری اقدار تھیں ، جو کنبے میں   ایک طرح سے  روایتی  نظام کی طرح چلتی تھی ، اُس کی کمی محسوس ہو  رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے  کنبے ہیں ، جہاں یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے  اور  اس کی وجہ سے  اُس کمی  کے رہتے ہوئے  ، بحران کے اِس دور کو  گزارنا  بھی  کنبوں کے لئے تھوڑا مشکل ہو گیا اور اس میں ایک اہم بات کیا تھی ؟ ہر کنبے میں کوئی نہ کوئی بزرگ ، کنبے کے بڑے شخص کہانیاں سنایا کرتے تھے اور گھر میں نیا جوش اور نئی توانائی بھر دیتے تھے ۔ ہمیں ضرور احساس ہوا ہو گا کہ ہمارے اجداد نے   ، جو طریقے بنائے تھے ، وہ آج بھی کتنے اہم ہیں   اور جب نہیں ہوتے ہیں تو کتنی  کمی محسوس ہوتی ہے  ۔ ایسا ہی ایک  ہنر  ، جیسا میں نے کہا ، کہانی سنانے کا آرٹ  ، اسٹوری ٹیلنگ  ہے ۔ ساتھیو ، کہانیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ، جتنا کہ انسانی تہذیب  کی تاریخ پرانی ہے ۔

" جہاں کوئی روح ہے  ، وہاں  کہانی بھی ہے ۔ "

          کہانیاں لوگوں کے تخلیقی اور حساس پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں اور اس کا اظہار کرتی ہیں ۔ کہانی کی طاقت کو  محسوس کرنا ہو ، تو جب کوئی ماں  اپنے چھوٹے بچے کو سلانے کے لئے  یا پھر اُسے  کھانا کھلانے کےلئے  کہانی سنا رہی ہوتی ہے  ، تب دیکھیں ۔  میں نے اپنی زندگی میں  بڑے عرصے تک  ایک سیاح کے طور پر  گزارا ہے   ۔ گھومنا ہی  میری زندگی تھی ۔ ہر دن نیا گاؤں ، نئے لوگ   ، نئے کنبے  لیکن جب میں  کنبوں میں جاتا تھا تو میں  بچوں سے ضرور بات کرتا تھا  اور کبھی کبھی بچوں سے کہتا تھا کہ  چلو بھائی   مجھے  کوئی  کہانی سناؤ ۔ تو میں حیران تھا   ، بچے مجھ سے کہتے تھے   کہ نہیں انکل ہم چٹکلا سنائیں گے اور مجھ سے  بھی  وہ یہی کہتے تھے    کہ  انکل  آپ ہمیں چٹکلے سنائیے   یعنی اُن کو  کہانی  سے کوئی   مطلب ہی نہیں تھا ۔ زیادہ تر اُن کی زندگی چٹکلوں میں ہی ختم ہو گئی ۔

ساتھیو ،  ہندوستان میں کہانی سنانے یا قصہ گوئی کی ایک اہم روایت رہی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں ، جہاں ہیتوپدیش اور پنچ تنتر کی روایت رہی ہے ، جہاں کہانیوں میں جانوروں اور پرندوں اور پریوں کی خیالی دنیا تشکیل دی گئی تھی تاکہ عقل  اور ذہانت کی باتوں کو  آسانی سے سمجھایا جا سکے ۔ ہمارے یہاں کتھا  کی روایت رہی ہے۔ یہ مذہبی کہانیاں سنانے کا یہ قدیم طریقہ ہے۔ اس میں 'کٹا کالیش وَم' بھی شامل رہا ہے ۔ ہمارے یہاں  طرح طرح  کی  لوک کہانیاں رائج ہیں۔ تمل ناڈو اور کیرالہ میں کہانی سنانے کا ایک بہت ہی دلچسپ طریقہ ہے۔ اسے 'ویلو پاٹ' کہا جات ہے ۔ اس میں کہانی اور موسیقی کی ایک بہت ہی پرکشش ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کٹھ پتلی کی  بھی روایت رہی ہے۔ ان دنوں سائنس اور سائنس فکشن سے جڑی کہانیاں اور کہانی کہنے کا طریقہ مقبول ہو رہا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں ، کئی لوگ قصہ گوئی کے آرٹ کو بڑھانے کے لئے  قابلِ  ستائش پہل کر رہے ہیں ۔ مجھے gaathastory.in جیسی ویب سائٹ کے بارے میں پتہ چلا ، جسے  ، امر ویاس ، باقی لوگوں کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں ۔ امر ویاس آئی آئی ایم احمد آباد سے ایم بی اے کرنے کے بعد بیرون ملک چلا گئے  ، پھر واپس آئے ۔ فی الحال بنگلورو میں رہ رہے ہیں اور وقت نکال کر  کہانیوں سے جڑے اِس طرح کے دلچسپ کام کر  رہے ہیں۔  کئی ایسی کوششیں بھی  ہیں ، جو دیہی بھارت کی کہانیوں کو خوب  مقبول بنا رہی ہیں ۔  ویشالی  ویہوہارے دیش پانڈے  جیسے کئی لوگ ہیں ، جو  اسے مراٹھی میں بھی مقبول بنا رہے ہیں ۔

          چنئی کی شری وِدھا اور وی راگھون بھی   ہمارے تہذیب سے جڑی  کہانیوں کی  نشر و اشاعت کرنے میں لگی ہیں ۔  وہیں کتھالیہ  اور  دی انڈین  اسٹوری ٹیلنگ نیٹ ورک نام کی دو  ویب سائٹ بھی اِس شعبے میں زبردست کام کر رہی ہیں ۔ گیتا راما  نجن  نے   kathalaya.org میں کہانیوں کو   مرکوز کیا ہے  ، وہیں The Indian Story Telling Network  کے ذریعے بھی الگ الگ شہروں کے اسٹوری ٹیلرس کا نیٹ ورک تیار  کیا جا رہا ہے ۔ بنگلورو میں  ایک وکرم شری دھر ہیں ،  جو باپو سے جڑی کہانیوں کو لے کر  بہت   پُر جوش ہیں     اور بھی کئی لوگ اِس شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ آپ ضرور ا ن کے بارے میں  سوشل میڈیا پر شیئر کریں ۔ 

          آج ہمارے ساتھ بنگلورو اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی بہن اپرنا    آتریا اور دیگر  ارکان جڑے ہیں ، آئیے ، انہیں سے بات کرتے ہیں  اور جانتے ہیں ، اُن کا  تجربہ ۔

وزیر اعظم : ہیلو

اپرنا : نمسکار محترم وزیر اعظم  جی کیسے ہیں آپ ۔

وزیر اعظم : میں ٹھیک ہوں  ۔ آپ کیسی ہیں  اپرنا جی ؟

اپرنا :  بالکل  بڑھیا  سر جی ۔  سب سے پہلے میں   بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہم  جیسے فن کاروں کو  اِس فورم پر بلایا ہے  اور بات کر رہے ہیں ۔

وزیر اعظم : اور میں نے سنا ہے  کہ آج تو  شاید آپ کی پوری ٹیم  بھی آپ کے ساتھ  بیٹھی ہوئی ہے ۔

اپرنا :  جی   - - جی بالکل - - بالکل سر  ۔

وزیر اعظم : تو اچھا ہوگا کہ آپ اپنی  ٹیم کا تعارف کرا دیں  تاکہ  من کی بات  کے  ، جو  سامعین ہیں ،  اُن کے لئے تعرف ہو  جائے  کہ  آپ   لوگ کیسے بڑی مہم چلا رہے ہیں ۔

اپرنا :  سر میں اپرنا  آتریہ ہوں ، میں دو بچوں کی ماں ہوں  ، ایک بھارتی  فضائیہ کے افسر  کی بیوی ہوں  اور ایک   جذباتی  قصہ گو ہوں  سر ۔ اسٹوری ٹیلنگ   کی شروعات  15  سال  پہلے ہوئی تھی  ، جب میں  سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کر رہی تھی ۔ تب میں   سی ایس آر پروجیکٹوں میں  رضا کارانہ طور پر  کام کرنے کے لئے   ، جب گئی تھی ، تب ہزاروں بچوں کو کہانیوں کے ذریعے  تعلیم دینے کا موقع ملا  اور یہ کہانی ، جو میں بتا رہی تھی ، وہ اپنی دادی ماں سے سنی تھی لیکن جب کہانی  سنتے وقت  میں نے  ، جو خوشی  ، اُن بچوں میں دیکھی ، میں کیا بولوں  آپ کو ،  کتنی مسکراہٹ تھی ، کتنی خوشی تھی  تو اُس وقت میں نے طے کیا کہ اسٹوری ٹیلنگ   میری زندگی کا   ہدف ہو گا  سر ۔

وزیر اعظم : آپ کی ٹیم میں اور کون ہے وہاں ؟

اپرنا :  میرے ساتھ ہیں  ، شیلجا سمپت ۔

شیلجا : نمسکار سیر ۔

وزیر اعظم : نمستے جی ۔

شیلجا : میں شیلجا سمپت بات کر رہی ہوں ۔ میں تو پہلے ٹیچر  تھی  ۔  اُس کے بعد  جب  میرے  بچے بڑے ہوئے تب میں نے  تھیٹر میں کام شروع کیا  اور آخر کار  کہانیوں کو سنانے میں   سب سے زیادہ     دلی سکون ملا  ۔

وزیر اعظم : شکریہ !

شیلجا : میرے ساتھ سومیا ہیں ۔

سومیا : نمسکار  سر ۔

وزیر اعظم : نمستے جی ۔

سومیا :  میں ہوں  سومیا سری نواسن  ۔ میں ایک سائکلوجسٹ ہوں  ۔ میں جب کام  کرتی ہوں  ، بچے اور  بڑے لوگوں کے ساتھ  ، اُس میں کہانیوں کے ذریعے   انسان کے    جذبات کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں  اور اس کے ساتھ ہی تبادلۂ خیال بھی کرتی ہوں ۔  میرا مقصد ہے  - Healing and transformative storytelling  ۔

اپرنا : نمستے سر ۔

وزیر اعظم : نمستے جی ۔

اپرنا : میرا نام  اپرنا  جے شنکر ہے   ۔ ویسے تو میری خوش قسمتی ہے کہ میں  اپنے نانا نانی  اور دادی کے ساتھ  اس ملک کے مختلف حصوں میں پلی ہوں ۔ اس لئے رامائن  ، پرانوں اور گیتا کی کہانیاں مجھے وراثت میں  ہر  رات کو ملتی تھیں  اور بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی   جیسی تنظیم ہے  تو مجھے   اسٹوری ٹیلر  بننا ہی تھا ۔  میرے ساتھ   میری ساتھی  لاونیا  پرساد ہیں ۔

وزیر اعظم : لاونیا  جی ، نمستے ۔

لاونیا  : نمستے سر ۔  میں ایک الیکٹریکل انجینئر ہوں ، جو    پیشہ ور  قصہ گو بن گئی ہوں ۔ سر  ، میں اپنے دادا سے کہانیاں سن کر بڑی ہوئی ہوں  ۔ میں  بزرگ شہریوں کے ساتھ کام کرتی ہوں ۔   میرے خصوصی پروجیکٹ  میں   ، جس کا نام روٹس ہے ، جہاں میں  ، اُن کی زندگی اور اُن کے   کنبوں کی زندگی کو  دستاویزی شکل  دینے میں مدد کرتی ہوں ۔

وزیر اعظم : لاونیا جی آپ کو بہت بہت مبارک ہو  اور جیسا آپ نے کہا ہے  ، میں نے بھی ایک بار من کی بات میں  سب سے کہا تھا کہ آپ   کنبے میں دادا ، دادی ، نانا ، نانی ہیں تو اُن سے  ، اُن کے بچپن کی کہانیاں پوچھیئے  اور اُسے ٹیپ کر لیجئے ، ریکارڈ کر لیجئے ۔  میں نے کہا تھا کہ بہت کام آئے گا  لیکن مجھے اچھا لگا کہ  ایک تو آپ سب نے   ، جو اپنا تعارف کرایا ،  اُس میں بھی  آپ کا فن   ، مواصلات  کی  آپ کی صلاحیت اور بہت ہی کم  الفاظ میں ، بہت اچھے طریقے سے  آپ نے اپنا  تعارف  کرایا ، اس لئے بھی میں آپ کو   مبارکباد دیتا ہوں ۔

لاونیا : شکریہ سر ، آپ کا شکریہ ۔

          اب جو ہمارے سامعین لوگ ہیں  ، من کی بات کے ، اُن کا بھی دل چاہتا ہوگا ، کہانی  سننے کا  ۔ کیا میں آپ سے درخواست کر سکتا ہوں کہ ایک  دو کہانی سنائے آپ لوگ ؟

گروپ کی آواز : جی بالکل  ، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔

          چلئے چلئے سنتے ہیں   کہانی ایک راجا کی ۔ راجا کا نام تھا ، کرشن دیو رائے اور سلطنت کا نام تھا ، وجے نگر ۔ اب راجا ہمارے تھے  تو بڑے  خوبیوں کے مالک ۔  اگر اُن میں کوئی کھوٹ  بتانا ہی تھا ، تو وہ تھا ،  زیادہ محبت اپنے وزیر   تینالی  راما کی جانب اور دوسرے کھانے کی ۔ راجا جی ہر دن  دوپہر کے کھانے کے لئے  بڑے شان سے بیٹھے تھے – کہ آج کچھ اچھا بنا ہوگا اور  ہر دن اُن   کے باورچی  انہیں وہی بے جان سبزیاں  کھلاتے تھے ، تورئی ، لاکی ، کدو   ، ٹنڈا – اُف ۔ ایسے ہی ایک دن   راجا نے کھاتے کھاتے  غصے میں تھالی پھینک دی   اور اپنے باورچی کو حکم دیا  کہ یا تو کل کوئی دوسری مزیدار سبزی بنانا  یا پھر   کل میں تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا ۔ باورچی بے چارہ ڈر گیا ۔ اب نئی سبزی کے لئے وہ کہاں جائے ۔ باورچی  بھاگا بھاگا چلا  سیدھے تینالی راما کے پاس  اور اُسے پوری کہانی  سنائی ۔ سن کر تینالی راما  نے   باورچی کو   ترکیب  بتائی ۔ اگلے دن راجا  دوپہر کو کھانے  کے لئے آئے اور باورچی کو آواز دی   ۔ آج کچھ نیا  مزیدار بنا  ہے  یا میں سولی تیار کر دوں ۔ ڈرے ہوئے باورچی نے جھٹ پٹ  تھالی کو سجایا اور  راجا کے لئے گرما گرم کھانا پیش کیا ۔  تھالی میں نئی  سبزی تھی   ۔  راجا بہت خوش ہوئے اور   تھوڑی  سی سبزی چکھی ۔  اوہ واہ ، کیا سبزی تھی   ، نہ تورئی کی طرح پھیکی تھی  ، نہ کدو کی طرح میٹھی تھی ۔  باورچی نے  ، جو بھی مسالحہ بھون کر ، کوٹ کر ڈالا تھا ، سب اچھی طرح سے   چڑھی تھی ۔ انگلیاں چاٹتے ہوئے   مطمئن راجا نے باورچی  کو بلایا اور پوچھا  کہ یہ کون سی سبزی ہے   ، اس کا نام کیا ہے ۔  جیسے سکھایا گیا تھا  ، ویسے ہی    باورچی نے   جواب دیا ۔ مہا راج ، یہ مکٹ دھاری بیگن ہیں ۔  پربھو  ٹھیک آپ  ہی کی طرح یہ بھی سبزیوں کے راجا ہیں اور   اسی لئے   باقی سبزیوں  نے بیگن کو تاج پہنایا ہے ۔ راجا خوش ہوئے اور اعلان کیا  ، آج  سے ہم یہی مکٹ دھاری  بیگن  کھائیں گے  اور صرف ہم ہی نہیں ، ہماری   سلطنت میں بھی   صرف بیگن ہی بنے گا اور کوئی سبزی  نہیں بنے گی ۔ راجا اور  پرچا دونوں خوش تھے ۔ یعنی  پہلے پہلے تو سب  خوش  تھے کہ انہیں نئی  سبزی ملی ہے  لیکن جیسے ہی دن  بڑھتے گئے  ،  سُر تھوڑا کم ہوتا گیا  ۔ ایک گھر میں بیگن کا بھرتا  تو دوسرے گھر میں بیگن  بھاجی ۔ ایک کے یہاں کاتے کا سمبھر تو دوسرے  کے یہاں وانگی بھات ۔ ایک ہی بیگن  بے چارا کتنے   روپ  دھارن کرے ۔  آہستہ آہستہ  راجا بھی  تنگ  آ گئے  ۔ روزانہ وہی بیگن   اور ایک دن ایسا آیا کہ راجا نے  باورچی  کو بلایا اور خوب ڈانٹا  ۔ تم سے  کس نے کہا کہ بیگن  کے سر پر تاج ہے ۔ اس سلطنت  میں اب کوئی بیگن نہیں کھائے گا ۔ کل سے باقی  کوئی بھی  سبزی بنانا لیکن بیگن نہیں بنانا ۔  باورچی   جیسے  آپ کی آگیا   مہا راج  ، کہہ کر سیدھا تینالی راما  کے پاس پہنچا ۔  تینالی راما کے پاؤں  پکٹرتے ہوئے کہا کہ منتری جی شکریہ ۔ آپ نے ہماری  جان  بچا لی ۔  آپ کے مشورے کی وجہ سے   اب ہم   کوئی بھی سبزی   راجا کو کھلا سکتے ہیں ۔   تینالی راما   نے ہنستے ہو کہا  ، وہ وزیر ہی کیا  ، جو راجا  کو خوش نہ رکھ   سکے  اور اسی طرح  راجا کرشن دیو رائے    اور اُن کے وزیر  تینالی راما کی کہانیاں   بنتی رہیں  اور لوگ سنتے رہے ۔  شکریہ ۔

وزیر اعظم : آپ نے  ، بات میں ، اتنی  درستگی تھی  ، اتنی باریکیوں کو پکڑا تھا ، میں سمجھتا ہوں ،   بچے  ، بڑے ، جو بھی سنیں گے ،  کئی چیزوں کو یاد رکھیں گے ۔  بہت اچھے طریقے سے   آپ نے بتایا  اور خاص  اتفاق یہ ہے کہ  ملک میں    تغذیہ کا مہینہ چل رہا ہے اور آپ کی کہانی    کھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔

خاتون : جی

وزیر اعظم : اور میں ضرور   ، یہ جو اسٹوری ٹیلر آپ لوگ ہیں ،   اور بھی لوگ ہیں  ۔  ہمیں کس طرح سے   اپنے ملک کی  نئی پیڑھی کو   اپنی  عظیم شخصیتوں، عظیم ماؤں بہنوں  کے ساتھ  ، جو عظیم ہو گئے ہیں ، کہانیوں کے ذریعے  کیسے جوڑا جائے ۔  ہم  قصہ گوئی کو اور زیادہ  کیسے   مقبول بنائیں   اور  ہر گھرمیں  اچھی کہانی کہنا  ،  اچھی کہانی بچوں  کو سنانا   ، یہ  عام آدمی کی زندگی   کی بہت بڑی  کریڈٹ ہو  ۔  یہ ماحول کیسے بنائیں ۔ اُس سمت میں  ہم سب کو مل کر   کام کرنا چاہیئے  لیکن مجھے بہت اچھا لگا ، آپ لوگوں سے بات کرکے  اور میں آپ سب کو   بہت نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ  ۔

گروپ کی آواز : شکریہ سر ۔

          کہانی کے ذریعے  تہذیب   کے ماحول کو آگے بڑھانے والی اِن بہنوں کو  اپنے سنا ۔ میں جب اُن سے فون پر بات  کر رہا تھا ،  اتنی لمبی بات تھی تو مجھے لگا کہ   من کی بات  کے وقت  کی حد ہے تو  میری اُن سے  جو باتیں ہوئی ہیں ، وہ ساری باتیں     ، میں اپنے نریندر مودی ایپ  پر اَپ لوڈ کروں گا  - پوری کہانیاں  ضرور وہاں سنیئے ۔  ابھی من کی بات  میں تو   میں  نے اُس کا  بہت  چھوٹا سا حصہ   ہی آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ میں ضرور آپ سے   درخواست کروں گا  ،  خاندان میں  ، ہر ہفتے  آپ کہانیوں کے لئے کچھ  وقت نکالئے  اور یہ بھی کر سکتے ہیں   کہ خاندان کے ہر رکن کو    ہر ہفتے کے لئے  ایک  موضوع طے کریں ، جیسے  مان لو   ہمدردی  ہے  ، حساسیت ہے ،  ہمت ہے ، قربانی ہے ، بہادری ہے  ، کوئی ایک جذبہ  اور خاندان کے   سبھی ارکان   اُس ہفتے  ایک ہی موضوع پر  سب کے سب لوگ  کہانی ڈھونڈیں گے  اور خاندان کے  سب لوگ مل کر  ایک ایک کہانی کہیں گے ۔

          آپ  دیکھئے کہ کنبہ میں کتنا بڑا خزانہ ہو جائے گا ، کتنا بڑا تحقیقی کام ہوگا ، ہر ایک اور کتنی خوشی خوشی لطف اٹھائے گا ، کنبے میں نئی ​​توانائی آئے گی ۔  اسی طرح ہم ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں۔  میں ، کہانی سنانے والے  سب سے اپیل  کروں گا کہ ہم آزادی کے 75 سالوں کو منانے جا رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنی کہانیوں میں پورے غلامی کے دور کے جتنے متاثر کن واقعات کو کہانیوں میں متعارف کرا سکتے ہیں! خاص طور پر ، 1857 ء سے لے کر 1947 ء تک ، ہم ہر چھوٹے موٹے نئے واقعہ سے ،  اب اپنی کہانیوں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یہ کام ضرور کریں گے۔ کہانی کہنے کا یہ فن ملک میں زیادہ مضبوط ، زیادہ عام اور زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوتا ہے ، لہذا ، آئیے ہم سب  کوشش کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو ،  آئیے  ، اب ہم کہانیوں کی دنیا سے نکل کر ، اب ہم سات سمندر پار چلتے ہیں ، یہ آواز سنیئے ۔

" نمستے ، بھائیو اور بہنوں ، میرا نام سیدو دیم بیلے  ہے۔ میں مغربی افریقہ کے ایک ملک مالی سے ہوں۔ فروری میں ، مجھے ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ مجھے کمبھ میلے میں شرکت کرکے بہت اچھا لگا اور ہندوستان کی ثقافت کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک بار پھر ہندوستان جانے کا موقع فراہم کیا جائے  تاکہ ہم ہندوستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکیں۔  نمستے " ۔

وزیر اعظم: ہے نہ مزیدار  ، تو یہ تھے مالی کی سیدو دیم بیلے ۔ مالی بھارت سے بہت دور مغربی افریقہ کا ایک بہت بڑا اور لینڈ لاکڈ  ملک ہے۔ سیدو دیم بیلے مالی کے ایک شہر  کیٹا کے ایک پبلک  اسکول میں ٹیچر ہیں ۔ وہ بچوں کو انگلش ، میوزک  ،  پینٹنگ اور ڈرائنگ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں ۔ لین اُن کی ایک اور شناخت بھی ہے۔ لوگ انہیں مالی کے ہندوستان کا بابو کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے انہیں بہت فخر ہوتا ہے۔ ہر اتوار کی دوپہر ، وہ مالی میں ایک گھنٹہ کا ریڈیو پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ اس پروگرام کا نام ہے ، انڈین فریکونسی آن بالی ووڈ سانگس ۔  وہ پچھلے 23 سالوں سے اسے پیش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوران ، وہ فرانسیسی زبان کے ساتھ ساتھ مالی کی مقامی زبان   'بمبارا' میں بھی اپنی کمنٹری کرتے ہیں اور ڈرامائی انداز میں پیش  کرتے ہیں۔  انہیں  ہندوستان سے دِلی  محبت ہے۔ ہندوستان سے ان کی گہری وابستگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ، ان کی پیدائش بھی 15 اگست کو ہوئی تھی۔ سیدو جی نے اب ہر اتوار کے روز دو گھنٹے  کا ایک اور پروگرام شروع کیا ہے ، جس میں وہ بالی ووڈ کی ایک مکمل فلم کی کہانی فرانسیسی اور بمبارا میں سناتے ہیں ۔  کبھی کبھی کسی جذباتی منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ، وہ خود اور ان کے سننے والے ایک ساتھ رو پڑتے ہیں۔ سیدو جی کے والد نے ہی ہندوستانی ثقافت سے ان کا تعارف کرایا تھا ۔ ان کے والد سینما ، تھیٹر میں کام کرتے تھے اور وہاں ہندوستانی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں ۔  اس 15 اگست کو ، انہوں نے ہندی میں ایک ویڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد دی تھی ۔ آج ان کے بچے آسانی سے ہندوستان کا قومی ترانہ گاتے ہیں۔ آپ ان دونوں ویڈیوز کو ضرور دیکھیں اور ان کی ہندوستان سے محبت کو محسوس کریں۔ جب سیدوجی نے کمبھ کا دورہ کیا  تھا ، اس وقت وہ، اُس وفد کا حصہ تھے ، جس سے میں نے ملاقات کی تھی ۔  ندوستان کے لئے ، اُن کا اس طرح کا جنون ، محبت اور پیار واقعی ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے

میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے ،  جو شخص زمین سے جتنا جڑا  ہوا ہے ، وہ بڑے سے بڑے طوفان میں اتنا ہی ڈٹا رہتا  ہے۔ کورونا  کے اس مشکل دور میں ہمارا زرعی شعبہ  ، ہمارا کسان ، اِس کی زندہ مثال ہے ۔ مشکل کے اس دور میں بھی ہمارے ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔  ساتھیو ،  ملک کا زرعی شعبہ ، ہمارے کسان ، ہمارے دیہات ، خود کفیل بھارت  کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے  تو پھر خود کفیل بھارت  کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ، ان شعبوں  نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے ، بہت سے مفروضوں  کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے ایسے بہت سے کسانوں کے خطوط ملتے ہیں ، میں کسان تنظیموں سے بات کرتا ہوں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کاشتکاری میں نئی ​​جہتیں شامل کی جارہی ہیں ، زراعت کیسے تبدیل ہورہی ہے۔ میں نے ان سے کیا سنا ہے ، میں نے دوسروں سے کیا سنا ہے ، میرا دِل چاہتا ہے کہ آج  'من کی بات' میں ، میں آپ کو ان کسانوں کی کچھ باتیں ضرور بتاؤں۔ ہمارا ایک کسان بھائی ہے ، جس کا نام جناب کنور  چوہان ہے ، جو ہریانہ کے سونی پت ضلع میں رہتے ہیں ۔ انہوں  نے بتایا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب انہیں  منڈی سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ اپنے پھل اور سبزیاں منڈی کے باہر بیچ دیتے تھے تو پھر کئی بار ان کے پھل ، سبزیاں اور گاڑیاں تک ضبط ہوجاتی تھیں۔  تاہم ، 2014 ء میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی ایکٹ سے باہر  کردیا گیا ، جس سے انہیں اور آس پاس کے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ چار سال پہلے ، انہوں  نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔ آج ، گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کھیتی  کرتے ہیں۔ آج ، ان کی پیداوار  دلّی کی آزاد پور منڈی ، بڑی  ریٹیل چین اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں براہ راست سپلائی ہو رہی ہے ۔ آج گاؤں کے کسان سویٹ کارن  اور بیبی کارن کی کاشت کرکے سالانہ ایکڑ ڈھائی سے تین لاکھ کما رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ، اس گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار ، نیٹ ہاؤس بنا کر ، پولی ہاؤس بنا کر ، ٹماٹر ، کھیرا ، شملہ مرچ ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر سال فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپئے  تک کمائی کر رہے ہیں۔  جانتے ہیں ، ان کسانوں کے پاس کیا الگ ہے ، اپنے پھل ، سبزیوں کو  کہیں پر بھی ، کسی کو بھی ، بیچنے کی طاقت ہے  اور یہ طاقت ہی اُن کی اس ترقی کی بنیاد ہے ۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ نہ صرف پھل اور سبزیوں کے لئے  ہی نہیں ، بلکہ اپنے کھیت میں وہ جو پیدا کر رہے ہیں – دھان ، گیہوں ، سرسوں ، گنا  ، جو بھی پیدا کر رہے ہیں ، اُس کو اپنی  مرضی کے مطابق زیادہ دام ملیں ، وہیں پر  بیچنے کی اب اُن کو آزادی مل گئی ہے ۔

ساتھیو ،  تین چار سال پہلے ، مہاراشٹر میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی کے دائرہ کار سے باہر کردیا گیا تھا۔  اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے ، اس کی ایک مثال یہ کسانوں کا ایک گروپ ہے ، جس کا نام سری سوامی سامرتھ  فارمرس  پروڈیوسر کمپنی لمیٹیڈ  ہے ۔ پونے اور ممبئی کے کسان خود ہفتہ وار بازار چلا رہے ہیں۔ ان منڈیوں میں ، تقریباً لگ بھگ  70 گاؤوں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار براہ راست فروخت ہوتی ہے ،  کوئی بچولیہ  نہیں ہے ۔  دیہی نوجوان منڈی ، کاشتکاری اور بیچنے کے عمل میں براہ راست شامل ہوتے ہیں ۔ اس سے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو روزگار میں فائدہ ہوتا ہے  ۔

اس کی ایک اور مثال تمل ناڈو کے تھینی ضلع کی ہے ۔ یہاں تمل ناڈو کے کیلے کے  کسانوں کی کمپنی ہے ۔ پیداوار کرنے والے کسانوں کی یہ کمپنی کہنے کو تو  کمپنی ہے لیکن  حقیقت میں ، ان کسانوں نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ایک بہت ہی لچکدار نظام موجود ہے ، اور وہ بھی پانچ چھ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران قریب کے گاؤوں  سے سیکڑوں میٹرک ٹن سبزیاں ، پھل اور کیلے خریدے اور چنئی شہر کو  سبزی کمبو کٹ  دیا۔ آپ سوچئے ، انہوں نے کتنے نوجوانوں کو روز گار دیا  اور مزے کی بات یہ ہے کہ بچولیا نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو بھی فائدہ ہوا اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا ۔  ایسا ہی ایک  لکھنؤ کا کسانوں کا گروپ ہے  ۔ انہوں نے نام رکھا ہے ، " ارادہ فارمر پروڈیوسر " ۔ انہوں  نے بھی لاک ڈاؤن کے دوران براہ راست کسانوں کے کھیتوں سے پھل اور سبزیاں لیں  اور سیدھے جاکر لکھنؤ کے بازاروں میں فروخت کیں ۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من پسند قیمت  انہوں نے حاصل کی ۔ ساتھیو ، گجرات میں  بناس کے رام پورہ گاؤں میں  اسماعیل بھائی کرکے ایک  کسان ہیں۔ ان  کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ اسماعیل بھائی کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے لیکن ، جیسا کہ اب زیادہ تر سوچ بن گئی ہے ، ان کے اہل خانہ بھی یہ سوچتے تھے کہ اسماعیل بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ اسماعیل بھائی کے والد کھیتی باڑی کرتے تھے ، لیکن اس میں  اکثر انہیں نقصان ہوتا  تھا  تو والد نے بھی منع کیا لیکن  خاندان والوں کے  منع کرنے کے باوجود اسماعیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ کھیتی باڑی ہی کریں گے۔ اسماعیل بھائی کا خیال تھا کہ کھیتی باڑی نقصان کا سودا ہے ، وہ اس سوچ اور صورتحال دونوں کو بدل کر دکھائیں گے ۔ انہوں  نے کھیتی باڑی شروع کی لیکن ، نئے طریقوں سے ، اختراعی  طریقوں سے۔ انہوں نے ڈرپ سے آبپاشی کرکے آلو کی کاشت شروع کردی اور آج ان کے آلو ایک پہچان بن گئے ہیں ۔  وہ ایسے آلو اگا رہے ہیں ، جن کی کوالٹی بہت ہی اچھی ہوتی ہے ۔  اسماعیل بھائی ، یہ آلو براہ راست بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں ۔  بچولیوں  کا نام و نشان نہیں اور نتیجہ – اچھا منافع کما رہے ہیں ۔ اب تو انہوں نے اپنے والد کا سارا قرض بھی ادا کر دیا ہے  اور سب سے بڑی بات جانتے ہیں : اسماعیل بھائی ، آج اپنے علاقے کے  سینکڑوں اور کسانوں کی بھی مدد کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی بھی بدل رہے ہیں ۔

ساتھیو ،  آج کی تاریخ میں ، ہم کھیتی باڑی کو جتنا جدید متبادل  دیں گے ، اتنا ہی وہ آگے بڑھے گی ۔   اس میں نئے نئے طور طریقے آئیں گے ، نئی اختراعات جڑیں گی ۔ منی پور کی رہنے والی بجے شانتی ایک نئی  اختراع کی وجہ سے  کافی بحث میں ہیں ۔ انہوں نے   کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اَپ  شروع کیا ہے ۔ آج اُن کی اختراع کی وجہ سے کمل کی کھیتی  اور ٹیکسٹائل میں ایک نیا راستہ بن گیا ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،  میں آپ کو ماضی کے ایک حصے میں لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ ایک سو  سال پرانی بات ہے۔ 1919 ء کا سال تھا۔ جلیانوالا باغ میں برطانوی حکومت نے بے گناہ لوگوں کو قتل عام  کیا تھا۔ اس قتل عام کے بعد ، ایک بارہ سالہ لڑکا جائے وقوع پر گیا۔ وہ خوشگوار اور چنچل بچہ ، تاہم ، اس نے جلیانوالا باغ میں جو کچھ دیکھا ، وہ اس کے تصور سے بالاتر تھا۔ وہ حیران رہ گیا ، حیرت سے کہ کوئی بھی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے۔  وہ  معصوم غصے کی آگ میں جلنے لگا ۔ اسی جلیانوالہ باغ میں ، اس نے انگریزی حکومت کے خلاف لڑنے کی قسم کھائی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ جی ہاں! میں شہید ویر بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں۔ کل ، 28 ستمبر کو ، ہم شہید ویر بھگت سنگھ کی یوم پیدائش منائیں گے۔ میں ، تمام شہریوں کے ساتھ ، شہید ویر بھگت سنگھ ، جو بہادری اور بہادری کی علامت ہے ، کو سلام کرتا ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ، ایسی حکومت ، جس نے دنیا کے اتنے بڑے حصے پر حکمرانی کی ، جس کے بارے میں  کہا جاتا تھا  کہ اس کی حکومت میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا ۔ اتنی طاقتور حکومت کو 23 سالہ شخص نے خوفزدہ کردیا۔ شہید بھگت سنگھ با ہمت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے ، مفکر تھے ۔   اپنی زندگی کی پرواہ  کیے بغیر ، بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھیوں نے ایسے جرات مندانہ کام انجام دیئے ، جس کا ملک کی آزادی میں بہت بڑا تعاون تھا ۔ شہید ویر بھگت سنگھ کی زندگی کا ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ٹیم ورک  کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ لالہ لاجپت رائے کے تئیں اُن کی لگن ہو یا چندر شیکھر آزاد ، سکھ دیو ، راج گرو سمیت انقلابیوں کے ساتھ ، اُن کا اتحاد ، اُن کے لئے کبھی  ذاتی فخر  کبھی اہم نہیں رہا ۔ وہ جب تک جئے ، صرف ایک مشن کے لئے جئے اور اسی کے لئے انہوں نے اپنی قربانی دے دی  - وہ مشن تھا ، بھارت کو  نا انصافی اور انگریزی حکمرانی سے آزادی دلانا ۔ میں نے نمو ایپ پر حیدر آباد کے اجے ایس  جی  کا ایک کمنٹ پڑا ۔ اجے جی لکھتے ہیں – آج کے نو جوان کیسے  بھگت سنگھ جیسے بن سکتے ہیں ۔ دیکھئے ، ہم بھگت سنگھ بن پائیں یا نہ بن پائیں لیکن بھگت سنگھ جیسی حب الوطنی  ، ملک کے لئے  کچھ کر گزرنے کا جذبہ ضرور ہم سب کے دلوں میں ہے ۔ شہید بھگت سنگھ کو یہ ہمارا سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔  4 سال پہلے تقریباً یہی وقت تھا ، جب سرجیکل اسٹرائک کے دوران دنیا نے  ہمارے جوانوں کے حوصلے  ، بہادری  اور بے خوفی کا مشاہدہ کیا ۔ ہمارے بہادر فوجیوں کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی ہدف تھا ، ہر قیمت پر بھارت ماتا  کے فخر اور عزت کا دفاع کرنا ۔  انہوں نے اپنی زندگی  کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی  ۔ وہ  اپنے   فرض  کے راستے پر   آگے بڑھتے گئے اور ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح   وہ فاتح ہوکر سامنے آئے ۔ بھارت ماتا  کے فخر میں اضافہ کیا ۔

          میرے پیارے  ہم وطنو ،  آنے والے دنوں میں ہم کئی عظیم لوگوں کو یاد کریں گے ، جن کا   بھارت کی تعمیر میں  بہ بھلایا جانے والا تعاون ہے ۔   2 اکتوبر ہم سب کے لئے مقدس ہے اور تحریک دلانے والا دن ہے ۔ یہ دن  مادر وطن  کے  2 سپوتوں ، مہاتما گاندھی اور لال بہادر  شاستری کو یاد کرنے کا دن ہے ۔

         

 

 پوجیا باپو کے افکار اور نظریات آج کے مقابلے میں آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ، مہاتما گاندھی کی معاشی سوچ ، اگر اس جذبے کو پکڑا جاتا ، سمجھا جاتا ، اسی راہ پر گامزن ہوتا ، تب ، آج خود انحصاری ہندوستان مہم کی ضرورت ہے گر نہیں ہوتا ہے۔ گاندھی کی معاشی سوچ کو ہندوستان کے اعصاب ، ہندوستان کی خوشبو کی سمجھ تھی۔ پوجیا باپو کی زندگی ہمیں اس بات کی یاد دلانے کی یاد دلاتی ہے کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کے غریب لوگوں کے مفاد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، شاستری کی زندگی ہمیں عاجزی اور سادگی کا پیغام دیتی ہے۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے خاص ہے۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک ہیرو جئے پرکاش جی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کرتے ہیں۔ جے پی نے ہماری جمہوری اقدار کے تحفظ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں ہندوستان رتن ناناجی دیشمکھ بھی یاد ہے ، جن کی یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہے۔ نانا جی دیشمکھ جئے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ جب جے پی بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو پٹنہ میں اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ پھر ، ناناجی دیشمکھ نے خود جنگ لڑ لی۔ اس حملے میں نانا جی کو شدید چوٹ پہنچی تھی ، لیکن ، وہ جے پی کی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ 12 اکتوبر راجماتا وجئےارجے سنڈیا جی کی یوم پیدائش بھی ہے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ وہ ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ، اسے جائیداد ، طاقت اور دیگر وسائل کی کمی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ، اس نے اپنی زندگی ، ایک ماں کی طرح ، عوامی مفاد میں ، عوامی خدمت کے لئے صرف کی۔ اس کا دل بہت فراخ دل تھا۔ یہ 12 اکتوبر ان کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کی تقریبات کا اختتامی دن ہوگا اور آج جب میں راجماتا جی کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آیا۔ ویسے ، مجھے اس کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، بہت سارے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن ، مجھے لگتا ہے ، آج ، مجھے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ہوگا۔ کنیاکماری سے کشمیر تک ، ہم ایکتا یاترا کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ سفر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی سربراہی میں جاری تھا۔ دسمبر ، جنوری سرد دن تھے۔ ہم مدھیہ پردیش کے گوالیار ، رات بارہ بجے کے قریب شیوپوری پہنچے ، ٹھکانے جاتے ہوئے ، کیوں کہ ، دن بھر تھکن ہوتی تھی ، نہاتے اور سوتے تھے ، اور صبح کی تیاری کرتے تھے۔ 2 بجے کے قریب ، میں نہانے اور سونے کی تیاری کر رہا تھا ، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے راجماتا صاحب کھڑے تھے۔ کڑوی سردی اور راجمتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔ میں نے ماں کو سجدہ کیا ، میں نے کہا ، آدھی رات میں ماں! انہوں نے کہا ، نہیں بیٹا ، تم یہ کرو مودی جی ، دودھ پی لو اور گرم دودھ پی کر سو جاؤ۔ خود ہلدی کا دودھ لے کر آیا تھا۔ ہاں ، لیکن جب ، دوسرے دن ، میں نے دیکھا ، وہ صرف میں ہی نہیں تھا ، ہمارے سفر کے انتظامات میں ، 30-40 افراد تھے ، ڈرائیور تھے ، اور خود بھی ، ہر کمرے میں جانے والے کارکن تھے۔ رات کے 2 بجے سب کو دودھ چھڑوایا۔ ماں کی محبت کیا ہے ، واٹسالیہ کیا ہے ، میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایسی عظیم شخصیات نے اپنی قربانی اور توبہ سے ہماری زمین کو پانی پلایا۔ آؤ ، آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا ہندوستان تشکیل دیں جس پر یہ عظیم آدمی فخر محسوس کریں۔ ان کے خوابوں کو ان کی قراردادیں بنائیں۔

محترم باپو  کے خیالات اور اصول آج پہلے سے کہیں زیادہ  مطابقت رکھتے  ہیں ۔ مہاتما گاندھی کی ، جو اقتصادی فکر تھی ،  اگر اُس جذبے  پر  کام  کیا گیا ہوتا  ، سمجھا گیا ہوتا ،  اُس راستے پر چلا گیا ہوتا   تو آج  خود کفیل بھارت   مہم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔  گاندھی جی کی اقتصادی فکر میں  بھارت کی نس نس کی سمجھ تھی ، بھارت کی خوشبو تھی ۔  مہاتما کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا  ہر کام ایسا ہو ، جس سے  غریب سے غریب تر  شخص کا بھلا ہو ۔  وہیں شاستری جی کی زندگی ہمیں   انکسار اور سادگی کا پیغام دیتی ہے ۔ 11 اکتوبر کا دن بھی  ہمارے لئے بہت  خاص ہوتا ہے ۔ اس دن ہم بھارت رتن  لوک نائک  جے پرکاش جی کو   ، اُن کے یومِ پیدائش پر  یاد کرتے ہیں ۔ جے پی نے ہماری جمہوریت  کی اقدار   کی حفاظت میں  اہم کردار ادا کیا ہے ۔  ہم بھارت رتن   نانا جی دیش مکھ   کو بھی یاد کرتے ہیں ، جن کا یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہی ہے ۔ نانا جی دیش مکھ ، جے پرکاش نارائن   جی کے  بہت قریبی ساتھی تھے ۔  جب جے پی  بد عنوانی کے خلاف جنگ  لڑ رہے تھے ،  تو پٹنہ میں اُن پر  قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ تب نانا جی دیش مکھ نے   ، وہ وار اپنے اوپر لے لیا تھا ۔ اس حملے میں  نانا جی کو  کافی چوٹ  لگی تھی  لیکن   جے پی کی زندگی  بچانے  میں وہ کامیاب رہے ۔  اس 12 اکتوبر ، راج ماتا وجے راجے سندھیا جی  کا بھی یومِ پیدائش ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی   لوگوں کی خدمت میں  وقف کر دی ۔  وہ ایک  شاہی خاندان سے تھیں ۔ اُن کے پاس   دولت  ، طاقت  اور دیگر وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی  لیکن پھر بھی انہوں نے  اپنی زندگی  ایک ماں کی طرح  ممتا کے جذبے سے  عوامی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔  ان کا دل بہت نرم تھا ۔ اس 12 اکتوبر کو ان کی  یومِ پیدائش کا صد سالہ تقریبات  کا اختتام کا دن ہو گا   اور آج جب میں راج ماتا جی کی بات کر رہا ہوں  تو مجھے بھی ایک بہت ہی  جذباتی واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ویسے تو اُن کے ساتھ  بہت سالوں تک  کام کرنے کا موقع ملا ، کئی واقعات ہیں ،  لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ  ایک واقعہ کا ذکر کروں   ۔ کنیا کماری سے کشمیر  ، ہم اتحاد  ی یاترا لے کر نکلے تھے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی کی قیادت میں یاتر ا چل رہی تھی ۔ دسمبر ، جنوری ، سخت سردی کے دن تھے ۔ ہم رات کو تقریباً بارہ ایک بجے مدھیہ پردیش میں گوالیار کے پاس شیو پوری پہنچے ۔ ٹھہرنے کی جگہ پر جاکر ، کیونکہ دن بھر   کی تھکان ہوتی تھی ،  نہا دھوکر سوتے تھے  اور صبح ہی  تیاری  کر لیتے تھے ۔ تقریباً 2 بجے ہوں گے ، میں نہا دھوکر  سونے کی تیاری  کر رہا تھا ،  تو دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ میں نے دروازہ کھولا  تو راج ماتا صاحب سامنے کھڑی تھیں ۔ سخت سردی میں   اور راج ماتا صاحب کو دیکھ کر میں  حیران تھا ۔   میں نے ماں کو پرنام کیا ، میں نے کہا  ، ماں آدھی رات میں : بولیں کہ  نہیں بیٹا ۔ آپ ایسا کرو ، مودی جی دودھ پی لیجئے ۔ یہ گرم دودھ پی کر سو جائیے ۔ ہلدی والا دودھ لے کر خود آئیں ۔ ہاں ، لیکن جب دوسرے دن  میں نے دیکھا  ، وہ صرف مجھے ہی نہیں ہماری یاترا  میں ، جو 30 – 40 لوگ تھے ، اُس میں ڈرائیور بھی تھے اور بھی ورکر تھے ، ہر ایک کے کمرے میں جاکر خود نے رات کو دو بجے سب کو دودھ پلایا ۔ ماں کا پیار کیا ہوتا ہے ، ممتا کیا ہوتی ہے ، اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ یہ ہماری خوشی قسمتی ہے ،  کہ ایسی مہان شخصیتوں نے ہماری سر زمین کو  اپنے تیاگ اور تپسیا سے سینچا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر کے  ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں ،  جس پر ان عظیم شخصیتوں کو  فخر ہو  ، اُن کے خوابوں کو اپنا عہد   بنائیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، کورونا کے اِس وبائی دور میں   ، میں پھر ایک  بار آپ کو یاد کراؤں گا ، ماسک ضرور رکھیں ،  فیس کور کے بغیر باہر نہ جائیں ، دو گز کی دوری  کا اصول  آپ کو بھی بچا سکتا ہے  ، آپ کے خاندان کو بھی بچا سکتا ہے ۔ یہ کچھ اصول ہیں ، اس کورونا کے خلاف ، لڑائی کے ہتھیار ہیں  ، ہر شہری  کی زندگی کو   بچانے کا  مضبوط ذریعہ ہیں  اور ہم نہ بھولیں ، جب تک دوائی نہیں ، تب تک  ڈھیلائی نہیں ۔ آپ صحت مند رہیں  ، آپ کا خاندان صحت مند رہے ، انہی نیک خواہشات کے ساتھ ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار !

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( م ن ۔ و ا ۔ ع ا ) (27-09-2020)

U. No.  5890


(Release ID: 1659551) Visitor Counter : 1839