عملے، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت
توہینِ عدالت کے ایک معاملے میں مرکزی انتظامی ٹرائبونل کی پریس ریلیز
Posted On:
24 SEP 2020 11:05AM by PIB Delhi
نئی دلّی ،24 ستمبر / مرکزی انتظامی ٹرائبونل ( کیٹ ) نے ایمس کے ڈیپوٹیشن پر اترا کھنڈ کے ایک آئی ایف ایس افسر جناب سنجیو چترویدی کے معاملے میں دلائل پیش کرنے والے وکیل جناب محمود پراچا کے رویہ پر از خود نوٹس لیا ہے ۔ جناب سنجیو چترویدی نے اے سی آر کی ریکارڈنگ سے متعلق مختلف درخواستیں داخل کی تھیں ۔ اس کے بعد ، درخواست گزار کو ، اُس کے اصل کاڈر میں واپس بھیج دیا گیا ۔ جناب محمود پراچا وکیل کو ، جسے درخواست گزار نے 28 فروری ، 2019 ء کو رابطہ کیا تھا ، کہا کہ معزز سپریم کورٹ نے 25000 روپئے کی لاگت عائد کرتے ہوئے ایمس کے ذریعے داخل کردہ ایس ایل پی کو خارج کر دیا ہے ۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ معزز اترا کھنڈ ہائی کورڈ اور معزز سپریم کورٹ کے پاس ہی ایڈمنسٹریٹیو ٹرائبونل ایکٹ – 1985 کی دفعہ 25 کے تحت چیئر مین کے اختیارات پر روک لگانے کا اختیار ہے ، جب کہ وہ تبادلے سے متعلق درخواست پر سماعت کر رہی ہوں ۔ لیکن یہ معاملہ معزز عدالتوں کے ذریعے فیصل کئے جانے کے بعد بر قرار نہیں ہے ۔ اگر چہ متعدد مرتبہ درخواست کی گئی کہ وہ اپنے دلائل کو بڑھائیں لیکن اُن پر کوئی اثر نہیں ہو ا ۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے دوسرے فریق کے وکیل کی توہین کرنی شروع کی کہ انہیں معزز سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ٹرائبونل کے سامنے دلائل پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ چیئرمین اور مدعا علیہ کو اپنے ڈرامائی انداز سے پریشان کرنے کے سبب عدالت میں ایک افسوسناک صورتِ حال پیدا ہوئی ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ اس اشتعال انگیزی سے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں ، مدعا علیہ نے چیئرمین پر ذاتی حملے شروع کر دیئے ۔ اگر چہ وہ اِس بات سے آگاہ تھے کہ قانون کی دفعہ 25 کے تحت صرف چیئرمین کے ذریعے ہی پی ٹیز کی سماعت کی جا سکتی ہے ، انہوں نے اصل معاملے سے ہٹ کر اشتعال انگیزی کی ۔ کوئی متبادل باقی نہ رہنے کی وجہ سے ، اُس تاریخ کو ایک تفصیلی حکم جاری کیا گیا اور توہینِ عدالت کا وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ۔ مجوزہ توہینِ عدالت کی کارروائی کے بارے میں یہ معاملہ بھارتی آئین اور توہینِ عدالت سے متعلق قانون کے متعلقہ ضابطوں کے تحت ضروری اقدامات کے لئے دلّی ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا گیا ۔ پی ٹیز کو درخواست گزار کو واپس کرنے کی ہدایت دی گئی تاکہ وہ ایڈمنسٹریٹیو ٹرائبونل ایکٹ - 1985 کی دفعہ 25 کے تحت تدارک کر سکیں ۔ 30 مئی ، 2019 ء کو ایک تفصیلی فیصلے میں دلّی ہائی کورٹ کی معزز ڈویژن بینچ کے معزز جج حضرات نے معزز سپریم کورٹ کے ٹی سدھاکر پرساد بنام حکومتِ آندھرا پردیش ( 2001 ( 1 ) ایس سی سی 516 ) اور اس معاملے پر دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف ٹرائبونل کو ہی توہینِ عدالت کے معاملے کی سماعت اور فیصلے کا اختیار ہے ۔ ہمارے نوٹس میں یہ لایا گیا ہے کہ معزز دلّی ہائی کورٹ کے فیصلے کی معزز سپریم کورٹ نے مدعا علیہ کے ذریعے داخل کردہ ایس ایل پی ( سی آر ایل ) نمبر 7850/ 2019 کو مسترد کرتے ہوئے توثیق کی ہے اور ٹرائبونل کے ذریعے مجرمانہ توہین کی عذر داری نمبر 290 / 2019 کو شروع کرتے ہوئے توہینِ عدالت ( کیٹ ) رول 1992 کے تحت فرد جرم کا مسودہ تیار کیا گیا اور اس معاملے کے مدعا علیہ کے دیئے گئے بیانات کی بنیاد پر 19 جولائی ، 2019 ء کو پی ٹی نمبر 286 ، 287 اور 288 / 2017 میں وکیل کی حیثیت سے ، اُن کے بیانات پر فرد جرم تیار کی گئی ۔ مدعا علیہ نے تین گزارشات کے ساتھ ایم اے نمبر 2471 / 2019 داخل کی ۔ ان گزارشات میں ( i ) پی ٹی نمبر 288 / 2017 میں داخل کردہ کچھ ایم ایز کا فیصلہ کرنا ، ( ii ) اس بات کا فیصلہ کرنا کہ آیا چیئرمین کو توہین کے معاملے کی سماعت کا اختیار ہے اور ( iii ) 19 جولائی ، 2019 ء کے فرد جرم کے مسودے کے متعلق احکامات جاری کرنا ۔ اِن ایم ایز کو 2 اگست ، 2019 ء کو فیصل کیا گیا ۔ 11 دسمبر ، 2019 ء کو درخواست کی بنیاد پر محترم اٹارنی جنرل نے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل جناب وکرم جیت بنرجی کو متعین کیا ۔ دونوں فریقوں کی سماعت کے بعد ٹرائبونل نے ، اِس بات کا اظہار کیا کہ یہ معاملہ توہین عدالت ( کیٹ ) رول – 1992 کے ضابطہ نمبر 13 ( بی ) کے تحت آتا ہے کیونکہ ہم اس بات سے مطمئن تھے کہ بظاہر یہ معاملہ بنتا ہے اور فارم III کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے ۔ اس معاملے کی 10 فروری ، 2020 ء کو سماعت کی گئی اور مدعا علیہ نے قصور وار نہ ہونے کی دلیل دی ۔ سالیسیٹر جنرل وکرم جیت بنرجی نے کہا کہ وکیل کی جانب سے ٹرائبونل کے اختیارات کو چیلنج کرنے جیسا رویہ یا چیئرمین کی توہین کی کوشش واضح طور پر مجرمانہ توہین کے برابر ہے اور یہ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ اِسے کوئی بھی عدالت برداشت نہیں کر سکتی ۔ مدعا علیہ نے کہا کہ دلائل صرف ریکارڈ کی بنیاد پر ہیں اور اُس نے ایسا کچھ نہیں کہا ، جو توہینِ عدالت کے مترادف ہو ۔ انہوں نے معزز سپریم کورٹ میں زیر التوا ایس ایل پی کا بھی حوالہ دیا ، جو مذکورہ توہین کے معاملے سے متعلق ہے ۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے اِس مشورے پر کہ اِس معاملے کو اگر مدعا علیہ افسوس کا اظہار کرتا ہے تو اس معاملے کو چھوڑا جا سکتا ہے لیکن مدعا علیہ نے کہا کہ وہ اُس بات پر قائم ہے ، جو انہوں نے سماعت کے دوران ٹرائبونل میں کہی ہیں اور اظہارِ افسوس کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔ ریکارڈ سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے ٹرائبونل اور خاص طور سے چیئرمین کو دھمکانے کے لئے حدود سے تجاوز کیا ۔ اس طرح کا رویہ توہین کی کارروائی شروع کرنے کا باعث ہو سکتا ہے ۔ یہ بات بھی قابلِ افسوس ہے کہ مدعا علیہ کے ذریعے کیا گیا حملہ اپنے موکل سے زیادہ شدید اور جارحانہ تھا ۔ متعدد بار اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ پی ٹیز بہت پرانے ہیں اور انہیں فوری طور پر فیصل نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا بھی ، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ دوسری جانب معزز اتراکھنڈ ہائی کورٹ اور معزز سپریم کورٹ کے ذریعے چیئرمین سے متعلق دیئے گئے احکامات کا حوالہ بھی دیا گیا کہ وہ سخت غلطی کر رہے ہیں اور اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے ، اُن کی سرزنش کی جا سکتی ہے ۔ یہ معاملہ اُس وقت اور سنگین ہو گیا ، جب انہوں نے کھلی عدالت میں کہا کہ سماعت چیمبر میں ہونی چاہیئے کیونکہ وہ چیئرمین کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ اس سے واضح طور پر عدالت میں موجود مولوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین کے خلاف کوئی سنگین معاملہ ہے ۔ جب اُن سے کہا گیا کہ وہ جو بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ، عدالت میں کہیں لیکن وہ کوئی خاص بات نہیں بتا سکے اور اس طرح درخواست گزار اور اُن کے وکیل نے عدالت میں کوئی اچانک پیدا ہونے والا رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ اس معاملے میں بھی انہوں نے درخواستیں ، حلف نامے وغیرہ داخل کئے ، جو تقریباً 400 صفحات پر مشمتل ہیں ۔ اس بات کی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ عدالت میں ، جو کچھ ہوا ، اُسے درست قرار دیا جائے لیکن یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ درخواست گزار نے اپنے کیریئر میں کیا کچھ حاصل کیا اور کس طرح انہوں نے مختلف اتھارٹی پر کام کیا ۔ اس میں میگ سیسے ایوارڈ کے لئے ستائش ، اُن کی معطلی کے حقائق ، تادیبی کارروائیاں اور پانچ سال کے اندر ہریانہ کاڈر میں 12 مرتبہ تبادلے اور اترا کھنڈ کے کاڈر میں تبدیلی اور الزامات ختم کیا جانا وغیرہ شامل ہے ۔ یہاں تک کہ پی ٹیز میں دیئے گئے احکامات اور توہین کے اس معاملے میں دیئے گئے احکامات کو سوشل میڈیا میں پوسٹ کیا گیا اور اس پر عائد بندشوں کو ، اس معاملے میں مدعا علیہ کے جواب کا حصہ بنایا گیا ۔ انہوں نے اور اُن کے موکل نے ہر مرحلے میں ہر ممکن طریقے سے ٹرائبونل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔ توہین کے نوٹس جاری ہونے کے فوراً بعد ہی اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیئرمین کے خلاف ایک توہین کا معاملہ درج کرایا گیا ۔ واحد جج کی بنچ نے اِس معاملے میں نوٹس جاری کیا ۔ البتہ معزز سپریم کورٹ نے اِس پر روک لگا دی ۔ ایک بعد ایک حلف نامے داخل کرنے اور وقتاً فوقتاً داخل کردہ درخواستوں کے سبب ، اِس معاملے کے کاغذات کی تعداد سینکڑوں صفحات تک پہنچ گئی ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کا بیان اتفاقی یا بلا سوچے سمجھے نہیں دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی ۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اتھارٹی یا عدالت کی توہین کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ یہ ایک آخری حد ہے ، جسے کوئی بھی عدالت برداشت نہیں کر سکتی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عدالتوں سے ، اُس کے تمام اختیارات ختم ہو سکتے ہیں اور وہ اپنی اہمیت کھو سکتی ہیں ۔ یہ واقعات عدالت کے سامنے پیش آئے ہیں اور یہ مجرمانہ توہینِ عدالت کے قانون کی دفعہ 14 کے تحت مجرمانہ توہین کا معاملہ ہے ۔ قانون کی دفعہ 14 کا خاص مقصد ، اس طرح کی صورتِ حال سے نمٹنا ہے ۔ اگرچہ مدعا علیہ نے سماعت کرنے کی درخواست دی ہے لیکن اس صورتِ حال میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ معزز سپریم کورٹ نے لیلا ڈیوڈ کیس میں اسی طرح کے ایک معاملے کا فیصلہ دیا تھا ۔ اس معاملے میں وکیلوں اور فریقوں نے معزز سپریم کورٹ میں ، جس طرح کا رویہ اختیار کیا تھا ، اُس پر انہیں مقدمہ چلائے بغیر ہی قید کی سزا دی گئی تھی ۔ قانونی شعبے میں انتہائی سخت مقابلہ آرائی کے ، اِن دنوں میں ، اِس طرح کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں ۔ کسی بھی آفیسر کو اپنی کار کردگی یا ایمانداری کے لئے پہچان بنانے میں کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ایک محنت کرنے والے وکیل کو پہچان بنانے یا شہرت حاصل کرنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ اِس بات کا احساس کئے بغیر مختصر راستہ اختیار کر لیتے ہیں کہ جو راستہ کم کرنا چاہتے ہیں ، اُن کے خود کا قد کم کیا جا سکتا ہے ۔ کبھی کبھی اِس میں تاخیر ہوتی ہے لیکن کسی نہ کسی دن ایسا ہوکر رہتا ہے ۔ کوئی بھی شخص اپنے غیر ذمہ دارانہ یا توہین کرنے والے رویہ کو منصفانہ قرار نہیں دے سکتا ۔ اپنے جوابی حلف نامے میں یا دلائل پیش کرتے ہوئے انہوں نے اُس سے انکار نہیں کیا ، جو کچھ اُن سے منقول کیا گیا ہے ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ وہ توہین عدالت قانون – 1971 کی دفعہ 14 کے تحت توہین عدالت کے قصور وار ہیں اور اُن کو سزا دینے کے لئے ہمارے پاس تمام جواز موجود ہیں ۔ البتہ اس معاملے کو پہلا معاملہ سمجھتے ہوئے ہم نے انہیں ایک سخت وارننگ کے ساتھ چھوڑ دیا ہے کہ اگر انہوں نے ٹرائبونل میں مستقبل میں کوئی ایسا کام کیا یا وہ توہین عدالت کے مرتکب پائے گئے تو اُن کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( م ن ۔ و ا ۔ ع ا ) (24-09-2020)
U. No. 5821
(Release ID: 1658823)
Visitor Counter : 247