امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت
مہاجروں کے لیے اتم نربھر اسکیم-ایک جامع نقطہ نظر
Posted On:
18 AUG 2020 8:34PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 18/اگست 2020، ملک میں نوول کورونا وائرس(کووڈ-19) کے پھیلنے کے دوران حکومت ہند نے مئی 2020 کےوسط میں ملک بھر میں تاریکن وطن مزدوروں کے لیے آتم نربھر پیکیج (اے این بی ایس) کے تحت مختلف معاشی اقدامات کا اعلان کیاتھا۔ اس کے تحت خوراک اور پبلک ڈسٹری بیوشن کے محکمے نے تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو تقریباً 8 لاکھ میٹرک ٹن اناج مختص کیا تھا، جس کی اطلاع آتم نربھر بھارت اسکیم (اے این بی ایس) کے تحت 15 مئی 2020 کو تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو فراہم کی گئی تھی، جس کا مقصد ملک کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دینا تھا۔ یہ اسکیم ایسے تمام افراد کا احاطہ کرنے کے لیے مہیا کی گئی تھی، جو نہ تو قومی خوراک تحفظاتی قانون (این ایف ایس) کے تحت شامل تھے اور نہ ہی کسی اور ریاستی پبلک ڈسٹری بیوشن اسکیم کے تحت آئے تھے یا غیر متوقع کووڈ-19 وبا کے دوران کسی بھی مجبوری کے تحت کسی پبلک ڈسٹری بیوشن نظام سے اناج حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
بین ریاستی تارکین وطن کی تعداد کا کوئی ریکارڈ تو نہیں بنایا گیا تھا، البتہ وسیع تر احتیاط اور ذرائع ابلاغ کے وسیع پیمانے پر اس معاملے کو کوریج دینے کے مدنظر ملک بھر میں تارکین وطن نیز دوسرے مقام پر پھنسے ہوئے افراد کی تعداد کااندازہ 8 کروڑ افراد کا لگایا گیا تھا۔ یہ خیال رکھا گیا تھا کہ تمام ضرورت مندوں تک مدد پہنچائی جاسکے اور مختص اناج کی فراہمی میں کوئی کمی نہ ہو۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک بھر میں ایسے افراد کی تخمینی یا اصل تعداد سے متعلق کسی طرح کی اعدادوشمار نہ تو مرکزی حکومت کے پاس موجود تھے نہ ہی کسی ریاستی حکومت کے پاس۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس صورت حال کو اس طرح اجاگر کیا گیا تھا کہ اس پر حکومت کو فوری اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت تھی، تاکہ کوئی بھی شخص اس اسکیم سے محروم نہ رہے۔
اس کے مطابق خوراک اور پبلک ڈسٹری بیوشن کے محکمے نے ملک بھر میں پھنسے ہوئے زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کا احاطہ کرنے کی غرض سے وافر مقدار میں اناج کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اناج کی فراہمی یکساں طور پر ہوسکے، ہر ایک ریاست کو ملک کی تقریباً 81 کروڑ این ایف ایس اے آبادی کی 10 فیصد کے تناسب سے اضافی اناج کی فراہمی کی گئی۔اس طرح محکمہ خوراک نے ہر مہینے تقریباً4 ایل ایم ٹی اناج دستیاب کرایا، جو کہ مجموعی طور پر دو مہینوں یعنی مئی اور جون 2020 کے لیے 8 ایل ایم ٹی ہوگیا۔ یہ تارکین نیز پھنسے ہوئے تقریباً 8 کروڑ افراد کے لیے کافی تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ تمام ریاستوں کو مکمل اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اضافی مختص اناج کو ایسے افراد کی شناخت کے بعد فراہمی کرسکتی ہیں، جن کے پاس یا تو راشن کارڈ نہیں تھا یا پھر وہ اس بحران کے دوران ضرورت مند تھے۔ ریاستوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایسے افراد کی شناخت کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں اور انہیں اناج فراہم کرائیں۔ علاوہ ازیں خوراک اور پبلک ڈسٹری بیوشن کے محکمے نے تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا، نیز تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیر انتظام علاقوں پر یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ان کی ریاستوں میں تارکین نیز پھنسے ہوئے افراد کے علاوہ ایسے افراد کو بھی آتم نربھر اسکیم کے تحت مفت اناج فراہم کرایا جاناچاہیے، جو این ایف ایس کے تحت نہ آتے ہوں یا جن کے پاس راشن کارڈ بھی نہ ہو، لیکن وہ ضرورت مند ہوں۔
آتم نربھر بھارت اسکیم کے نفاذ کے دوران خوراک اور پبلک ڈسٹری بیوشن کے محکمے نے تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں اس طرح کے تارکین اور پھنسے ہوئے افراد کی شناخت کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی، جو ایک مقام سے دوسرے مقام جارہے تھے یا کورنٹائن مرکزوں یا لیبر کیمپوں یا پھر تعمیراتی سائٹنس پر رہ رہے تھے۔ اس سلسلے میں محکمے نے متعلقہ لیبرمحکموں، ضلع انتظامیہ، سول سوسائٹیوں اور غیرسرکاری تنظیموں وغیرہ کی مدد بھی حاصل کی، جس کے نتیجے میں شناخت نیز سروے کے مطابق ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں نے عندیہ دیا کہ تقریباً دو کروڑ 80 لاکھ ایسے تارکین نیز پھنسے ہوئے افراد ہیں، جنہیں آتم نربھر بھارت اسکیم کے تحت فوری اناج فراہم کرایا جانا چاہئے، لہذا اس طرح کے افراد کو مفت اناج کی فراہمی کے لیے جنگی پیمانے پر تمام وسائل استعمال کئے گئے، جنہیں نہ صرف راشن کی دکانوں(ایف پی ایس) کے ذریعہ اناج فراہم کیا گیا، بلکہ تمام بڑی شاہراہوں اور ہائی ویز، کورنٹائن مراکز، شیلٹر ہومز، لیبر کیمپوں وغیرہ پر قائم اناج تقسیم کے لیے خصوصی مراکز کے ذریعے اناج کی فراہمی کی گئی۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے موبائل گاڑیوں کا بھی استعمال کیا گیا، تاکہ اس طرح کے افراد، جہاں کہیں بھی ہوں، ان تک امداد پہنچ سکے۔
اتم نربھر بھارت اسکیم کا اعلان (اے این بی ایس) مئی 2020 کے وسط میں کیا گیا تھا اور ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے ذریعے اس طرح کے تارکین اور پھنسے ہوئے افراد کی شناخت کرنے کے بعد، تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں نے اپنے ہی ابتدائی تخمینے پر مبنی تقریباً 6.38 ایل ایم ٹی اناج حاصل کیا، جو ان کی ان احتیاطی تدابیر کا پرتوتھا کہ کوئی بھی ضرورت مند تارکین وطن نیز پھنسے ہوئے افراد امداد سے محروم نہ رہ جائیں۔ جس وقت یہ کام جاری تھا، بہت سی ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں نے بعد میں مطلع کیا کہ اس طرح کے تارکین اور پھنسے ہوئے افراد میں سے اکثر ان ریاستوں سے روانہ ہوچکے تھے اور اپنی اپنی آبائی ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو واپس ہوگئے تھے، جہاں وہ این ایف ایس اے یا ریاست کے راشن تقسیم نظام سے اناج حاصل کرسکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھایاہوا6.38 ایل ایم ٹی اناج مکمل طور پر تقسیم نہیں کیاجاسکا یا اس کا استعمال نہ ہوسکا۔ اس لیے جون 2020 کے آخر تک تمام ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں نے صرف تقریباً2.3 ایل ایم ٹی اناج ہی تقسیم کیا۔ البتہ بہت سی ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اناج کی تقسیم کی مدت میں توسیع کرنے کے درخواست موصول ہونے کے بعد اس میں توسیع کرکے اسے مزید دو مہینوں یعنی 31 گست 2020 تک کے لیے توسیع دے دی گئی تھی، جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ تمام ریاستیں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ تارکین نیز پھنسے ہوئے افراد تک رسائی کے تمام مواقع حاصل ہوسکے۔
17 اگست 2020 تک کے لیے دستیاب رپورٹ کے مطابق اٹھائے گئے 6.35 ایل ایم ٹی اناج میں سے ریاستوں نیزمرکز کے زیرانتظام علاقوں نے اسکیم کے تحت تارکین نیز پھنسے ہوئے افراد کی شناخت کرکے 2.49 ایل ایم ٹی (39فیصد) اناج کی تقسیم پوری کرلی ۔ 31اگست2020 تکملک کے لیے جاری تقسیم کے ساتھ ہی توقع ہے کہ اس وقت تک اے این بی ایس کے تحت مفت اناج کی فراہمی کی اسکیم سے مزید تارکین استفادہ حاصل کرلیں گے۔ اناج کی کم تقسیم اس بات کی مظہر ہے کہ تارکین ورکروں کی اصل تعداد دراصل کافی کم تھی اور اگر وہ اپنی آبائی ریاست نیز مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں واپس پہنچ گئے ہیں تو وہ وہاں این ایف ایس اے یا ریاستی راشن کارڈ اسکیم کے استفادہ حاصل کرچکے ہوں گے۔
علاوہ ازیں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اے این بی ایس کے تحت مفت اناج کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اترپردیش، بہار، تری پورہ، منی پور، جموں وکشمیر جیسی کچھ ریاستوں نے ان مستفیض کے لیے مارچ 2020 کے بعد نئے راشن کارڈ بھی جاری کیے ہیں، جو اس سے قبل شامل نہیں کئے گئے تھے۔ اس طرح بالترتیب ہر ریاست میں 45 لاکھ، 15 لاکھ، 25 ہزار، 10 ہزار اور 35 ہزار افراد کو نئے راشن کارڈ جاری کیے گئے، تاکہ انہیں این ایف ایس اے، پی ایم جی کے اے وائی کے تحت باقاعدگی کے ساتھ رعایتی راشن کوٹہ فراہم کرایا جاسکے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 60 لاکھ 70 ہزار ایسے اضافی افراد کا اس مدت کے دوران احاطہ کیا گیا، جو اس سے قبل اس اسکیم کا فائدہ نہیں اٹھا سکے تھے، کیونکہ وہ ریاست سے باہر تھے اور واپس پہنچنے پر انہیں نئے کارڈ دستیاب کرادیئے گئے تھے۔ اس تعداد کو ان 2 کروڑ 51 لاکھ تارکین کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے، جن کا احاطہ اے این بی پی کے تحت کیا گیا تھا، جس کے ساتھ ہی ہر مہینے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 3 کروڑ 81 لاکھ ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ریاستوں نیز مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے اوپن مارکیٹ سیلز اسکیم (او ایم ایس ایس) سے رعایتی نرخوں پر اناج حاصل کیا اور اس کے مختلف سول سوسائٹیوں، غیرسرکاری تنظیموں اور ضلع انتظامیہ کو فراہم کرایا ہے تاکہ وہ اس کی تقسیم کھانے کی کٹ یا پکے ہوئے کھانے کی صورت میں ان مزید تارکین کو کرسکیں، جو اس وبائی صورت حال کے دوران خوراک کی مدد کے مستحق ہیں۔ ریاستوں نے ابتدا میں پھنسے ہوئے لوگوں کو کھانا فراہم کرنے کے لیے ایس ڈی آر ایف کے وسائل کا بھی استعمال کیا ہے۔
این ایف ایس اے کے تحت تقریباً 81 کروڑ افراد کا احاطہ کیا گیا ہے، جبکہ ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی اناج فراہمی کی ذاتی اسکیم کے تحت اضافی 20 کروڑ افراد کا احاطہ ہوتا ہے۔ لہذا این ایف ایس اے اور ریاستوں نیز مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی اپنی اسکیموں کے ذریعے پی ڈی ایس کے تحت 100 کروڑ افراد کا احاطہ کرنے کے بعد 8 کروڑ اضافی افراد کے لیے اناج فراہم کرنے کی گنجائش قطعی طور پر آزادانہ تھی اور اسکیم کا معتدل استفادہ اس بات کا مظہر ہے کہ بین ریاستی تارکین کی اصل تعداد پہلے کی تعداد کے اندازے کے مقابلے کہیں کم تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دستیابی کی یہ گنجائش کافی سے زیادہ رہی تھی اور تارکین اور پھنسے ہوئے افراد کو اناج کی فراہمی میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوئی۔ اس بات کی ترجمانی کہ اصل میں 8 کروڑ تارکین وطن نیز پھنسے ہوئے افراد تھے اور یہ کہ ان کی مدد کی جانی چاہیے تھی، دراصل حقائق کی اصل ترجمانی نہیں تھی۔
یہ بات مزید اطمینان بخش ہونی چاہئے کہ اصل تعداد مئی میں دو کروڑ 33 لاکھ اور جون میں دو کروڑ 37 لاکھ یعنی کافی کم رہی، جو مئی 2020 کے آخیر میں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے جائزے سے بھی کم ہے، جس کا اندازہ دو کروڑ 80 لاکھ لگایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مارچ 2020 کے بعد 60 لاکھ 70 ہزار ان اضافی افراد کا احاطہ کیا گیا تھا جو اپنی ریاستوں میں واپس پہنچنے کے بعد باقاعدگی کے ساتھ این ایف ایس اے، پی ایم جی کے اے وائی کے تحت راشن حاصل کررہے ہیں۔ لہذا 8 کروڑ افراد کی تعداد کو اے این بی پی کے اصل ہدف اور کارکردگی کے طور پر نہیں سمجھنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعے اٹھائے گئے اناج کی تقسیم کی مدت کو جولائی سے اگست 2020 تک توسیع دینے کے بعد بھی تمام ریاستیں جولائی تک صرف 21 لاکھ سے زیادہ مستفیض کا ہی احاطہ کرپائی ہیں۔ اگست میں یہ تعداد تقریبا 6 لاکھ ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ تمام تارکین نیز پھنسے ہوئے افراد کا احاطہ کیا جاچکا ہے اور اے این بی اسکیم کا وہ مقصد پورا ہوگیا ہے جس کے لئے اسے نافذ کیا گیا تھا۔ لہذا اسے ایک نمایاں اور بروقت کامیابی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
U-4634
م ن۔ ا ع۔ ت ع۔
(Release ID: 1646936)
Visitor Counter : 279