نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

نائب صدر جمہوریہ نے دیگر ملکوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات پر رائے زنی سے گریز کریں


دفعہ 370 ملک کے اتحاد ، سالمیت، حفاظت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے  ختم کی گئی: نائب صدر جمہوریہ

نائب صدر جمہوریہ نے سابق مرکزی وزیر محترمہ سشما سوراج کو ان کی پہلی برسی پر خراج عقیدت پیش کیا

سشما جی نے جو اقدار اور مثالی کردار پیش کیا اُس سے ہمیشہ ہر شخص کو جذبہ ملتا رہے گا : نائب صدر جمہوریہ

نائب صدر جمہوریہ نے نوجوان سیاستدانوں سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ محترمہ سشما سوراج کی خاصیتوں کو اپنائیں

سشما جی کو بھارتی ثقافت کی ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا تھا : نائب صدر جمہوریہ

نائب صدر جمہوریہ نے پہلا سشما سوراج یادگاری لیکچر دیا  جس کا اہتمام پنجاب یونیورسٹی نے کیا تھا

Posted On: 06 AUG 2020 1:15PM by PIB Delhi

نئی دہلی،6 اگست ، 2020  / نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج پڑوسی ملکوں سمیت  دیگر ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات پر رائے زنی سے گریز کریں اور زور دے کر کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کو ملک کے اتحاد، سالمیت ، حفاظت اور خود مختاری کے تحفظ کے بڑے مفاد میں ختم کیا گیا ہے۔

پہلا محترمہ سشما سوراج یادگاری لیکچر دیتے ہوئے جس کا اہتمام سابق وزیر خارجہ کی پہلی برسی پر پنجاب یونیورسٹی نے کیا تھا، نائب صدر جمہوریہ نے اشارہ دیا کہ بھارت ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور دفعہ 370کو ختم کرنے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے تفصیلی مذاکرات کے بعد اور ارکان کی اکثریت کی حمایت سے کیا گیا تھا۔ جناب نائیڈو نے دیگر ملکوں سے کہا کہ وہ دوسرے ملکوں کے امور میں دخل اندازی کے بجائے اپنے کام سے کام رکھیں۔

محترمہ سشما سوراج کے  مرنے سے پہلے دفعہ 370 پر اُن کی رائے کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وزیر خارجہ کے طور پر وہ بھارت کے موقف کو بہت ہی واضح طور پر اور بہت ہی میٹھے اور سنجیدہ انداز میں بیان کرتی تھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کے موقف کو سخت انداز میں بھی بیان کرتی تھیں۔

محترمہ سشما سوراج کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے انہیں ایک مثالی بھارتی خاتون قرار دیا۔ وہ ایک ایسی قابل ایڈمنسٹریٹر تھیں کہ انہوں نے جو بھی عہدہ سنبھالا اس میں ایک انمٹ چھاپ چھوڑی۔

نوجوان سیاستدانوں پر زور دیتے ہوئے کہ انہیں ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھیں اور ان کی خاصیتوں کو اپنائیں۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ محترمہ سشما ایک عمدہ شخصیت کی مالک تھیں، جو کسی کی بھی درخواست پر غور و خوض کے ساتھ فوری طور پر قدم اٹھاتی تھیں چاہے وہ دوست ہوں ،ان کے حامی ہوں یا بڑی تعداد میں عوام ہوں۔

انہوں نے یہ بھی کہا ‘‘یہ حقیقت کہ انہیں سات موقعوں پر لوک سبھا کے لیے چنا گیا اور تین بار اسمبلی کے لیے چنا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام میں کتنی زیادہ مقبول تھیں۔ ’’

انہوں نے ان کی خاصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھیں توان کا مزاح ، انسانی ہمدردی والا مزاج اور کسی بھی مسئلے پر فوری قدم اٹھانا سوشل میڈیا پر پوری طرح ظاہر ہوتا تھا۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کے لاکھوں عوام اُن سے محبت کرتے تھے اور حالیہ دنوں میں وہ بھارت کے سب سے زیادہ مقبول وزرا خارجہ میں سے ایک تھیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا  کہ محترمہ سوراج ایک عمدہ  خاتون تھیں ۔ انہوں نے اُن کو اُس موثر انداز کو یاد کیا ، جس میں انہوں نے 1996 میں لوک سبھا میں ایک تقریر کے دوران بھارتیتا  کو بیان کیا تھا۔  زبان کی پاکیزگی، الفاظ کا انتخاب اور خیالات کی وضاحت  کچھ عناصر ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک مقبول مقرر بنی تھیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا تھا کہ وہ جذبے سے سرشار ایک قوم پرست تھیں اور انہوں نے واضح انداز میں اپنے نظریات کا اظہار کیا۔

نائب صدر جمہوریہ نے محترمہ سشما سوراج کو بھارتیہ ثقافت کی ایک مثالی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت  جدید سوچ اور روایتی اقدار کا امتزاج تھیں۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ سشما سوراج ایک کنبے کے فرد کی طرح تھیں ۔ انہوں نے یاد کیا کہ وہ رکشا بندھن پر کس طرح ان کے گھر آکر ان کی کلائی پر راکھی باندھی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ  ‘‘جب  ملک میں کچھ دن پہلے یہ تہوار منایا گیا تو میں اپنے خوشگوار تعلقات کو یاد کر کے جذباتی ہو گیا تھا۔’’

پنجاب یونیورسٹی کے سابق طلبا کی ایسوسی ایشن اور قانون کے محکمے پر ہر سال محترمہ سشما سوراج کے اعزاز میں ایک یادگاری لیکچر کا اہتمام کرنے کے فیصلے پر نائب صدر جمہوریہ نے یاد دہانی کرائی کہ یادگاری خطبات یا یادگاری تقریبات محض خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ نوجوان نسل میں جذبہ پیدا کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں کہ وہ عظیم مردوں اور خواتین کی خاصیتوں کو اپنائیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر راج کمار ، محترمہ سشما سوراج کی صاحبزادی محترمہ بانسری سوراج اور دیگر شخصیتیں بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

نائب صدر جمہوریہ کی پوری تقریر کا متن مندرجہ ذیل ہیں :

جیساکہ آج ہم محترمہ سشما سوراج کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ میں اب بھی  اس حقیقت کو ماننے سے قاصر ہوں کہ انہیں ہم سے رخصت  ہوئے ایک سال گزر گیا ہے۔ وہ میری بہن تھیں اور ہر رکشا بندھن پر میری کلائی پر راکھی باندھنے کے لیے میرے گھر آیا کرتی تھیں۔ جب کچھ دن پہلے ملک میں  یہ تہوار منایا گیا تو میں اپنے خوشگوار تعلقات کو یاد کرتے ہوئے  جذباتی ہو گیا تھا۔

سشما جی ہمارے کنبے کی ایک رکن کی طرح تھیں۔ جب ہم دلی میں نئے تھے تو ہم ان سے مشورہ اور مدد لینے کے لیے رجوع کرتے تھے۔ وہ ایک ایسی عمدہ شخصیت کی مالک تھیں جو ہمیشہ کسی کی بھی درخواست پر غور و خوض کرتی تھیں اور فوری قدم اٹھاتی تھیں۔ یقیناً وہ ہر شخص کے ساتھ تھیں چاہے وہ دوستو ہوں ، حامی ہوں یا بڑی تعداد میں عوام ہوں۔

جب سشما جی وزیر خارجہ تھیں تو ان کا مزاح، انسانی ہمدردی والا مزاج ، اور کسی بھی پریشانی میں فوری طور پر قدم اٹھانا سوشل میڈیا پر پوری طرح ظاہر ہوتا تھا۔  ان سے ملک کے لاکھوں عوام محبت کرتے تھے اور وہ حالیہ دنوں میں بھارت کے سب سے زیادہ مقبول وزرائے خارجہ میں سے ایک بن گئی تھیں۔

کیسا اتفاق ہے، جس پنجاب یونیورسٹی نے ملک کو سشما سوراج جی جیسا مقبول رہنما دیا۔ مجھے اس یونیورسٹی کا چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ایسے امتیازی طلبا سے ہی کسی تعلیمی ادارے کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ سشما جی کی زبان اور تقریروں  کے تو ہم سبھی مرید رہے ہیں، زبان کی شستگی، لفظوں کا انتخاب، خیالات میں عزم ، بے جوڑ دلیل اور حقائق ان کو ایک مقبول ترجمان بنا دیتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ سمع تقریر کا ہنر بھی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے تقریری مقابلوں میں ہی سیکھا، جنہیں وہ ہر سال جیتتی رہیں ۔ اس یونیورسٹی سے جو سیکھا اس ہنر کا انہوں نے قومی اور بین الاقوام سطحوں پر موثر طور پر استعمال بھی کیا۔ ملک کے لیے اور اپنے اس ادارے کے لیے  شہرت حاصل کی۔

وہ بہت ہی کم عمر میں ایک متحرک رہنما بن گئیں اور محض 25 سال کی عمر میں ہریانہ میں کابینہ وزیر بن گئیں۔ انہوں نے اپنی قابل ذکر کیریئر میں بہت سے ایسے کام کیے جو پہلی بار کیے گیے تھے وہ  اپنی پارٹی کی پہلی خاتون جنرل سکریٹری تھیں اور وہ دلی کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ تھیں۔

اس  حقیقت سے کہ انہیں سات مرتبہ لوک سبھا کے لیے چنا گیا اور 3 مرتبہ اسمبلی کے لیے چنا گیا، ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں عوام میں کتنی زبردست مقبولیت حاصل تھی۔ وہ جذبے سے سرشار ایک قوم پرست تھیں اور  اپنے خیالات کا صاف طور پر اظہار کرتی تھیں۔ 1996 میں لوک سبھا میں ایک تقریر کے دوران جس میں انہوں نے بہت ہی موثر طریقے سے بھارتیتا کو بیان کیا تھا اس کی یاد آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔ یقیناً وہ ایک شاندار مقرر تھیں اور ہر شخص ان کی تقریر کو گہری توجہ سے سنتا تھا۔

سشما جی کی ہندی سننے اور سبھی کے سمجھنے مکے لائق ہوتی تھیں ان کے لفظوں کا انتخاب خالص ہوتا تھا پھر بھی ان کی تقریر اتنی آسان اور سادہ لگتی تھیں کہ سامعین مسحور ہوکر سنتے تھے۔ سنسکرت کے تئیں ان کی خصوصی توجہ ہوتی وہ اپنا حلف سنسکرت میں ہی لیتی تھیں۔ ہریانہ کی باشندہ ہونے کی وجہ سے ہریانہ ہندی پر ان کا عبور ہونا تو لازمی تھا لیکن کرناٹک میں چناؤ لڑتے وقت کنڑ زبان میں ان کی روانی  سے بھرپور  تقریر  ان کو حقیقت میں کثیر لسانی شخصیت بناتی تھیں۔ ہندوستانی زبانوں کے تئیں ان کا لگاؤ ہم سب کے لیے ترغیب ہے۔ کوئی بھی زبان کبھی کم تر ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ وہ ہماری اپنی تہذیب اور قدروں سے متعرف کراتی ہے۔ زبان، سیاسی خیالات، اور پارلیمانی اقدار کے تئیں ان کے عزم کے سبب ہی بھارت کی پارلیمنٹ میں انہیں غیر معمولی ماہر پارلیمنٹ کے خطاب سے نوازا تھا۔

سشما جی کو بھارتی ثقافت کی ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت ، جدید سوچ اور روایتی اقدار کا امتزاج تھی۔ وہ اپنے سینئر اور اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا ہمیشہ احترام کرتی تھیں۔

وہ سب سے زیادہ قابل بھارتی سیاست دانوں میں سے ایک تھیں اور وہ ہر شخص سے گرم جوشی اور محبت سے پیش آتی تھیں۔ یہ حقیقت کہ ان کی تعریف مقبول  طبقے میں بھی کی جاتی تھیں ، ان کے دوستانہ رویے کا ایک ثبوت ہے۔

سشما جی ایک قابل ایڈمنسٹریٹر تھیں اور وہ جس عہدے پر بھی رہیں اُس پر انہوں نے ایک امٹ چھاپ چھوڑی۔

مثال کے طور پر ان شعبے کو ایک صنعت کے شعبے کی حیثیت دینے کی، طویل عرصے سے زیر التو درخواست کو ، اُن کی اطلاعات و نشریات کی وزارت کی مدت کے دوران ہی تسلیم کیا گیا۔

آج جب ہم انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں میں نوجوان سیاستدانوں سے زور دے کر کہتا ہوں کہ وہ انہیں مثالی شخصیت کے طور پر دکھیں اور ان کی خاصیتوں کو اپنائیں۔

سشما جی ، جو پنجاب یونیورسٹی کی سابق طالبہ تھیں انہوں نے یہیں پر علم حاصل کیا اور ملک کو ان کی  متعداد کامیابیوں  اور قوم کی تعمیر میں ان کے تعاون پر فخر ہے۔ میں پنجاب یونیورسٹی ایلمنائی ایسوسی ایشن اور قانون کے محکمے کی ستائش کرتا ہوں کہ انہوں نے ان کے اعزاز میں  ہر سال ایک یادگاری لیکچر کے اہتمام کا فیصلہ کیا۔ براہ کرم یاد رکھیے یادگارخطبات یا یادگاری تقریبات کا مقصد محض  خراج عیقدت پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ نوجوان نسل میں یہ جذبہ پیدا کرنا بھی ہوتا ہے کہ وہ عظیم مردوں اور خواتین کے خاصیتوں کو اپنائیں ۔ سشما جی میں جو اقدار اور مثالی کردار تھا اس سے ہمیشہ ہر شخص کو جذبہ حاصل ہوتا رہے گا۔

شکریہ!

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

م ن ۔ اس۔ ت ح ۔

U – 4362



(Release ID: 1643828) Visitor Counter : 102