مالیاتی کمیشن

پندرہویں مالی کمیشن نے صحت کے سیکٹر کے بارےمیں عالمی بینک اور اس کے اعلیٰ سطح کے گروپ (ایچ ایل جی) کے ساتھ میٹنگ کی؛ مالی کمیشن پہلی مرتبہ ایک پورے باب کو صحت سے متعلق مالیات کے لیے مختص کرے گا

Posted On: 07 JUL 2020 5:37PM by PIB Delhi

نئی دہلی،7 جولائی،        بھارت کے صحت کے سیکٹر کے خاکے کو بہتر طور پر سمجھنے اور  صحت کے سلسلے میں خرچ کی دوبارہ ترجیحات مقرر کرنے کی مرکزی حکومت کی ضرورت اور ارادے کی روشنی میں پنددرہویں مالی کمیشن نے صحت کے سیکٹر کے بارے میں عالمی بینک، نیتی آیوگ اور کمیشن کے  اعلیٰ سطح کے گروپ (ایچ ایل جی) کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کی ہے۔

پندرہویں مالی کمیشن کے چیئرمین جناب این کے سنگھ اور کمیشن کے تمام ممبر اور سینئر اہلکار میٹنگ میں موجود تھے۔ عالمی بینک کی نمائندگی کنٹری ڈائرکٹر جنید احمد، گلوبل ڈائرکٹر جناب محمد علی پاٹے اور دیگر سینئر افسران نے کی۔ ایمس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا، نیتی آیوگ کے ممبر ڈاکٹر وی کے پال، آیوشمان بھارت کے سی ای او ڈاکٹر اندو بھوشن بھی میٹنگ میں شامل ہوئے۔

میٹنگ کا آغاز ڈاکٹر جنید احمد کے یہ بتانے سے ہوا کہ عالمی بینک بھارت کے صحت کے سیکٹر سے طویل عرصے سے وابستہ رہا ہے۔ حال ہی میں وبائی بیماری کے سلسلے میں عالمی بینک نے بھارت سرکار کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔ عالمی بینک ریاستی حکومتوں کی مدد میں بھی شامل رہا ہے  کہ وہ ضلع اسپتالوں کے ذریعے خدمات کی فراہمی کو مستحکم بنائیں۔ عالمی بینک نے حال ہی میں ایچ آئی وی کے شعبےمیں بھارت سرکار کے ساتھ 20 سال طویل شراکت داری کا معاہدہ کامیابی کے ساتھ   مکمل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ  بھارت میں ریاستیں صحت پروگراموں کے عمل درآمد کے معاملے میں ایک بڑا سہارا بننے والی ہیں۔ کیونکہ ریاستوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے اس لیے ان کے حل بھی مختلف ہوں گے ۔ انھوں نے کہا کہ صحت  صرف ایک سماجی  خرچ کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ وہ ملک کی اقتصادی ترقی اور پیش رفت کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ مالی کمیشن تین مختلف طریقوں سے صحت کے سیکٹر پر نظر ڈالنا پسند کرسکتاہے۔ فی کس خرچ کے لیے گرانٹ میں اضافہ، ہنرمندی کے فروغ کے لیے بلاک کی سطح کی گرانٹ اور  صحت کے سلسلے میں  حاصل ہونے والے  بعض نتائج کے تعلق سے کارکردگی پر مبنی ترغیبات۔ اسی طرح سے  صحت کے سلسلے میں مقامی ادارے ایک محوری رول ادا کرسکتے ہیں۔ بھارت میں صحت کی دیکھ بھال  کا 60 فیصد سے زیادہ پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ڈی بی ٹی کے ساتھ پرائیویٹ کلینکوں کی مدد کے ذریعے  پرائیویٹ سیکٹر کے حصے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ غیر متعدی بیماریوں کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دوسرا شعبہ جس پر توجہ کی ضرورت ہے وہ انفیکشن کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق پروگرام کاہے۔ مثلاً تپ دق۔

ڈاکٹر جنید احمد نے ان پروگراموں پر عمل درآمد کے سلسلے میں  بھارت سرکار کے ساتھ مرکزی نگرانی والی اسکیموں  پر عمل درآمد کی اہمیت پر بھی زور  دیا۔ انھوں نے  مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک بھارت کی پانچ ریاستوں میں سمگر شکشا ابھیان کے عمل درآمد میں مصروف  رہاہے۔اسی طرح صحت کے شعبے میں اداروں مثلاً ضلع اسپتالوں، صحت کے بنیادی مرکزوں،پرائیویٹ پروائڈروں، میونسپلٹیوں، سوشل سیکٹر سسٹم کو بھی مددگار بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ عالمی بینک اس طرح کے اداروں کے ساتھ قریبی تال میل سے کام کرکے اس طرح کے پروگراموں کا ڈیزائن تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد میں ایک رول ادا کرسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ  ایک یکساں مقصد کے حصول کے لیے  ضروری ہے کہ سرکاری پروگراموں کو مالی کمیشن کی سفارشات اور عالمی بینک کی کوششوں کے ساتھ جوڑ دیاجائے۔

عالمی بینک کی طرف سے ایک مقابلہ پیش کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل نکات کو اجاگر کیا گیا ہے:

  • اختراع، مددگار ٹیکنالوجی اداروں کو مستحکم بنا کر تال میل کے ذریعے اور ریاستوں کو بااختیار بنا  کر خدمات کی فراہمی میں اصلاحات کے امکانات موجود  ہیں۔
  • کورونا وائرس کے مرض کی حالت اور اموات پر براہ راست اثرات سے زیادہ اقتصادیات پر پڑنے والے اثرات   کےزیادہ ہونے کا امکان ہے۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی مالی کمیشن نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ فی کس جی ڈی پی  میں 6 فیصد کمی ہوگی جو ملک میں اب تک کی جی ڈی پی سب سے کمی ہوگی۔
  • دیکھ بھال کا معیار بھارت کے صحت کے نظام میں ایک بڑے مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔  اس کے علاوہ  ریاستوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کے درمیان بھی بہت زیادہ فرق ہے۔
  • یکسانیت اور ضرورت پر بھی ازسر نو توجہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔مثال کے طور پر این ایچ ایم کو صحت پر فی کس خرچ سے متعلق ہونا چاہیے،اسی طرح غریب ریاستوں میں فیض یافتگان پر فی کس خرچ  کو بڑھایا جانا چاہیے۔
  • ریاستوں کے اندر وسائل کو الاٹ کیے جانے کے معاملے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
  • خدمات کی فراہمی کا انحصار زبردست سرکاری/ پرائیویٹ تال میل پر ہونا چاہیے۔
  • بھارت سرکار خدمات سے متعلق فراہمی میں اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے  ‘ایک کھلا وسیلہ’ ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر مرکزی نگرانی والی اسکیموں کے ذریعے عمل درآمد میں کافی لچک کا عنصر رکھا جاتا ہے۔
  • خدمات کی فراہمی کی اختراعات کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور یہ کام شہری علاقوں میں ٹیکنالوجی، حل، بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکزکی شروعات کے ذریعے  کیا جانا چاہیے۔ اور یہ مراکز پرائیویٹ پرووائڈروں اور  سرکاری اور پرائیویٹ شراکت داری کے ساتھ کیا جنا چاہیے۔
  • صحت سے متعلق اہم عوامی کارروائیوں کو مستحکم بنائےجانے کی ضرورت  ہے۔عالمی پبلک سامان مثلاً نئے ٹیکے، دوائیں اور تشخیصی آلات کی تیاری میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
  • نگرانی اور ضلع کی سطح کی صلاحیت کو مستحکم بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل کی وبائی بیماری کی نشاندہی کی جاسکے۔

نیتی آیوگ کے ممبر ڈاکٹر پال نے صحت کی خدمات کی فراہمی میں مقامی اداروں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ صحت پر 65 فیصد  اخراجات ریاستوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جبکہ 35 فیصد مرکزی حکومت کرتی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہےکہ صحت کے سیکٹر پر  اخراجات میں اضافہ کیا جائے۔

ایمس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر گلیریا نے کہا کہ صحت کے سیکٹر میں سرکاری اور پرائیویٹ شراکت داری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ انھوں نے صحت کے  تشخیصی بنیادی ڈھانچے پر زیادہ توجہ دیئے جانے کے لیے کہا۔

ڈاکٹر اندو بھوشن نے پی ایم- جے اے وائی میں ‘مسنگ مڈل’ آبادی کا احاطہ کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پرائیویٹ اسپتالوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وہ گرتی ہوئی مالی حالت سے اور بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صحت کو  مرکز اور ریاستوں کے درمیان ایک مشترکہ موزوں بنایا جانا چاہیے۔

چیئرمین جناب این کے سنگھ نے  وزیر خزانہ کے اس ارادے کو یاد دلایا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ صحت کی وزارت  کے لیے بجٹ امداد کو بڑھایا جائے۔ انھوں نے یہ بات معیشت کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہی تھی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت کے کووڈ-19 ایمرجنسی رسپونس اور ہیلتھ سسٹم تیاری پیکیج (ای آر اینڈ ایس ایچ پی) کو کابینہ نے 22 اپریل 2020 کو 15000 کروڑ روپئے سے منظوری دی تھی۔اس کامقصد کووڈکے سلسلے میں سہولتیں فراہم کرنا تھا یعنی آئیسولیشن وارڈس اور آئی سی یوز کی   تشکیل  جس میں  صحت سے متعلق پیشہ ور افراد کی تربیت ، ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ، پی پی ایز، این-95 ماسک، وینٹی لیٹر، ٹیسٹنگ کٹس اور دواؤوں کی خریداری، ریلوے کوچوں کو  کووڈ کی دیکھ بھال کے مراکز میں تبدیل کرنا،  نگہداشت یونٹوں کو مستحکم بنانا اور ہنگامی حالات کے سلسلےمیں اضلاع کے لیے متحدہ فنڈ کی فراہمی۔

نمبر شمار

جزو

رقم کروڑ میں

1۔

 ایمرجنسی کووڈ-19 ریسپونس

7500

2۔

روک تھام اور تیاری میں مدد دینے کے لیے قومی اور ریاستی صحت نظام کو مستحکم بنانا

4150

3۔

 عالم گیر وبائی بیماری کی تحقیق، ہمہ شعبہ جاتی، قومی اداروں اور پلیٹ فارموں کو مستحکم بنایا جانا

1400

4۔

کمیونٹی کو شامل کرنا اور خطرات کے بارےمیں آگاہی فراہم کرنا

1050

5۔

عمل درآمد، انتظام، صلاحیت سازی،نگرانی اورتشخیص۔

900

 

Total

15000

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

چیئرمین نے بتایا کہ پندرہواں مالی کمیشن پہلی مرتبہ ایک پورے باب کو صحت سے متعلق  مالیات کے لیے  مختص کرے گا۔ انھوں نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ  صحت کے سیکٹر میں  پندرہویں مالی کمیشن کی طرف سے اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی مقرر کی جائے اور عالمی بینک صحت کے سیکٹر کے بارے میں مناسب سفارشات پیش کرے۔ مرکزی نگرانی والی اسکیموں کے ذریعے بھارت سرکار صحت کے سیکٹر پر جو کچھ خرچ کر رہی ہے اس کا کمیشن کی طرف سے  مرکزی حکومت کو  اپنی سفارشات پیش کرنے سے پہلے تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

****************

م ن۔ اج ۔ ر ا

U:3749



(Release ID: 1637101) Visitor Counter : 204