بجلی کی وزارت

بھارت مجوزہ بجلی(ترمیمی) بل 2020 کے ذریعے بجلی کے شعبے میں تبدیلی کی تیاریاں کر رہا ہے

Posted On: 25 JUN 2020 4:21PM by PIB Delhi

نئی دہلی،25 جون،         بجلی  اور ایم این آر آئی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)جناب آر کے سنگھ نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ایک پریس میٹنگ کی اور بجلی کے شعبے میں مجوزہ اصلاحات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے اس سلسلے میں خدشات اور شبہات کو دور کیا۔  انھوں نے کہا کہ اصلاحات اس سیکٹر کو صارفین پر مرتکز بنانے کی سمت میں  ا قدامات کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کا مقصد صارفین کی خدمت کرنا ہے۔ جناب سنگھ نے کہا ‘‘ہم اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشنز (ایس ای آر سیز) کے ممبروں اور چیئرپرسنوں کے تقرر میں  ریاستوں سے اختیارات چھین نہیں رہے ہیں اور مجوزہ اصلاحات کا مقصد شفافیت کو فروغ دینا ہے’’۔

بجلی کے محصول مقرر کرنے کے بارے میں  وضاحت کرتے ہوئے بجلی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ بجلی کے محصول مقرر کرنے کے اختیارات ایس ای آر سیز کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ بجلی کی مجوزہ اصلاحات کا مقصد شفافیت اور جوابدہی متعارف کرانا ہے تاکہ صارفین کے مفادات کا تحفظ ہوسکے اور بجلی کے سیکٹر کی صحت مند ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستوں پر  سبسڈی دینے پر کوئی پابندی نہیں ہےکیونکہ ریاستیں جتنی چاہئیں سبسڈی دے سکتی ہیں لیکن یہ سبسڈی ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کے ذریعے ہونی چاہئیں تاکہ بجلی کی کمپنیاں صحت مند رہیں اور وہ  تقسیم کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھیں اور اس میں بہتری لائیں۔ اس بنیادی ڈھانچے میں ٹرانسفارمر اور ترسیلی لائنیں، خریدی گئی بجلی کے لیے ادائیگی شامل ہے اور یہ کہ بجلی کمپنیاں لوگوں تک بجلی کی معیاری فراہمی کو یقینی بنائیں۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ بجلی بنیادی ڈھانچے کا سب سے اہم جزو ہے جو ملک کی معیشت کی دیرپا ترقی کے لیے لازمی ہے۔ ہم نے بجلی کی پیداواراور ترسیل کے شعبے میں خاطر خواہ بہتری پیدا کی ہے ۔ یعنی 100 فیصد گاؤوں کو  بجلی پہنچائی ہے اور بجلی تک تقریباً سبھی کی رسائی کردی ہے لیکن یہ شعبہ   آپریشن میں عدم صلاحیت، نقدی اور قرضوں کی ادائیگی میں معذوری سے دو چار ہے۔اس سلسلے میں بجلی کی وزارت نے  بجلی کے قانون 2003 میں ترمیمات کے لیے تجویز کا ایک مسودہ تیار کیا تھا۔ یہ بجلی (ترمیمی) بل 2020 کے مسودے کی شکل میں ہے۔ اس کے مقاصد موٹے طور پر مندرجہ ذیل ہیں:

  • اس شعبے کے صارفین پر مرتکز ہونے کو یقینی بنانا۔
  • کاروبار میں آسانی کو فروغ دینا۔
  • بجلی کے شعبے کی دیرپائی کو بڑھانا۔
  • ماحول دوست بجلی کو فروغ دینا۔

لیکن بجلی کے قانون میں مجوزہ ترمیمات کے سلسلے میں کچھ  خدشات اور غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔اس سلسلے میں صحیح پوزیشن کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔

 خدشہ-1: سی ای آر سیز میں  تقرر کے اختیارات ریاست سے لے کر مرکزی حکومت کو دینا

اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشنز کے ممبران / چیئر پرسنز کی تقرری کا اختیار ریاستی حکومتوں سے لینے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ جو مسودہ پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشنوں کے ممبران / چیئرپرسنز کے تقرر کا اختیار بدستور ریاستی حکومتوں کے پاس رہے گا۔ انتخابی کمیٹی میں اس وقت مرکز اور ریاستی حکومت کے ممبران کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ ایک ممبر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کا۔ بل کے مسودے میں مجوزہ انتخابی کمیٹی میں بھی پہلے کی طرح مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ممبروں کی تعداد برابر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انتخابی کمیٹی کی سربراہی ہائی کورٹ کے کوئی ریٹائر جج کرتے ہیں۔ لیکن اب تجویز کیا گیا ہے کہ کمیٹی کے سربراہ سپریم کورٹ کوئی موجودہ جج ہوں گے۔ سینٹرل الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشن اور  اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشنوں میں   خالی آسامیوں کے بھرنے کے لیے پینل بنانے کی خاطر  کئی انتخابی کمیٹیوں کی بجائے اب ایک انتخابی کمیٹی ہوگی۔ سینٹرل الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشن میں تقرر مرکزی حکومت کے ذریعے کیا جائے گا جبکہ پہلے کی طرح اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشنوں میں تقرری ریاستی حکومتوں کے ہاتھ میں ہوگی۔

خدشہ-2: ڈی بی ٹی صارفین کے مفادات کے خلاف ہے۔

دوسرا خدشہ جو ظاہر کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ  سبسڈی کے لیے ڈائریکٹ  بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ڈی) کا جو طریقہ شروع کیا جارہا ہے وہ  صارفین خاص طور پر کسانوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اگر ریاستی حکومت وقت پر سبسڈی دینے میں ناکام رہی تو صارفین کے لیے بجلی کی سپلائی منقطع کردی جائے گی۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ الیکٹری سٹی ایکٹ 2003 کی دفعہ65 کے تحت ریاستی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سبسڈی کی رقم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو پیشگی ادا کریں۔ اب یہ سبسڈی صارفین کے کھاتوں میں پہنچانے کی تجویزہے۔ ان کھاتوں کا انتظام ڈی بی ٹی کے ذریعے ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کریں گی۔ نئی محصول پالیسی میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی سپلائی منقطع نہیں کی جائے گی خواہ ریاستی حکومت سبسڈی کی رقم وقت پر دینے میں ناکام بھی رہے۔ یا اگر ریاستی حکومت سبسڈی کی رقم تین چار مہینے تک بھی ادا نہیں کرتی۔ اس لیے صارفین کے مفادات پوری طرح محفوظ ہیں۔

خدشہ-3: بجلی کا خوردہ محصول طے کرنے کا اختیارریاستی حکومت سے مرکزی حکومت کو دے دیا گیا ہے

ایک اور خدشہ یہ ہے کہ اس وقت ریاستی حکومتیں صارفین کے لیے بجلی کی خوردہ سپلائی کا محصول  مقرر کرتی ہیں اور یہ اختیار مرکزی حکومت کے حوالے کیا جانے والا ہے۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اس وقت محصول  اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشن مقرر کرتا ہے اور موجودہ انتظام میں کوئی بھی تبدیلی تجویز نہیں کی گئی ہے۔

بجلی کے قانون میں جو دیگر بڑی ترمیمات تجویز کی گئی ہیں وہ اس طرح ہیں:

پائیداری

  1. لاگت کے مطابق محصول:بعض کمیشنوں کی طرف سے ریگولیٹری اثاثے  فراہم کرنے کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کمیشن جو محصول مقرر کرے گا وہ لاگت کے مطابق ہوگا تاکہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنی لاگت پورا کرسکیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ  کل ریگولیٹری اثاثے یعنی  ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی کی طرف واجب مالیہ جو مناسب محصول اضافے  کی وجہ سے  جمع نہیں کیا گیا۔ وہ ملک میں تقریباً 1.4 لاکھ کروڑ روپئے ہے۔
  2. بجلی کے سلسلے میں مناسب پیمنٹ سکیورٹی طریقہ کار کا قیام- یہ تجویز کیا گیا ہے کہ لوڈ ڈسپیچ سینٹروں کو کنٹریکٹ کے حساب سے بجلی  ڈسپیچ کرنے سے پہلے مناسب پیمنٹ سکیورٹی طریقہ کار کی نگرانی کا اختیار دیا جائے۔

کاروبار میں آسانی

  • iii. کراس سبسڈی:اس وقت کے قانون میں ریاستی کمیشنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کراس سبسڈی کو رفتہ رفتہ ختم کریں۔ سپلائی کی اوسط لاگت کے 20 فیصد کے اندر کراس سبسڈی کم کرنے کی محصول کی پالیسی کے باوجود بعض ریاستوں میں یہ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتیں غیر مسابقت والی ہوگئی ہیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ایس ای آر سیز محصول کی پالیسی کے ضابطوں کے مطابق کراس سبسڈیز کم کریں گے۔ محصول کی پالیسی تمام ساجھے داروں سے صلاح ومشورےکے بعد اور ریاستی حکومتوں کے نظریات پر غور کرنے کے بعد ضابطوں کو قطعی شکل دینے سے پہلے تیار کی جاتی ہے۔ یہ بات قابل غور ہےکہ کراس سبسڈی کو ختم کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔
  • iv. الیکٹری سٹی کنٹریکٹ انفورسمنٹ اتھارٹی کا قیام:سی ای آر سی اور ایس ای آر سیز کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ معاملات سول کورٹ میں ہونے کی وجہ سے اپنے اختیارات کو نافذکرے۔ہائی کورٹ کے ایک ریٹائر جج کی سربراہی میں ایک اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز ہے جس کے پاس اس طرح کے اختیاراتوں لیکن محدود نہ ہوں کہ وہ املاک کو قرق کرسکے اور اسے فروخت کرسکے، گرفتاری کرسکے اور جیل بھیج سکے اور ایک رسیور مقرر کرسکے۔ یہ رسیور بجلی پیدا کرنے والی ایک کمپنی لائنس یافتہ تقسیم کار یا لائنس یافتہ ترسیل کار کے درمیان بجلی کی فروخت یا ترسیل کے بارے میں کنٹریکٹ سے متعلق ضابطوں کو نافذ کرے گا۔ اس سے کنٹریکٹوں کی اہمیت بڑھ جائے گی اور بجلی کے سیکٹر میں درکار سرمایہ کاری میں اضافہ ہوسکے گا۔

قابل تجدید اور ہائیڈرو توانائی

  1. قابل تجدید بجلی کی قومی پالیسی: ماحولیات کی وجہ سے ہمارا طویل مفاد اسی میں ہے کہ ماحول دوست بجلی کو فروغ دیا جائے۔ بھارت نے پیرس کے آب ہوا سے متعلق معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی ترقی اور فروغ کے لیے ایک علاحدہ پالیسی بنائی جائے۔
  • vi. یہ بھی تجویز کیا ہےکہ پانی کے ذرائع سے بنائی جانے والی بجلی کی خریداری کا کم از کم اوسط کمیشن مقرر کریں۔
  1. جرمانے: مزید یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ قابل تجدید یا  آبی ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی خریداری کی ذمے داری پوری نہ کرنے پر جرمانے عائد کیے جائیں۔

متفرقات

  1. اپیلیں سننے والے ٹرائیبیونل (اے پی ٹی ای ایل)کو مضبوط بنانا: تجویز کیا گیا ہے  کہ اے پی ٹی ای ایل کی طاقت کو بڑھایا جائے۔ چیئرپرسن کے علاوہ اس کے ممبروں کی تعداد کم از کم 7 ہونی چاہیے تاکہ کیسوں کو تیز رفتاری کے ساتھ فیصل کیا جاسکے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت اے پی ٹی ای ایل میں  بڑی تعداد میں کیس زیر التوار ہیں۔ اپنے احکامات پر مؤثر طور پر عمل درآمد  کرانے کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کنٹیپ  آف کورٹ ایکٹ توہین عدالت کے ضابطوں کے تحت اسے ہائی کورٹ کے اختیارات دیئے جائیں۔
  • ix. جرمانے:بجلی کے قانون کے ضابطوں پر عمل درآمد اور کمیشن کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بجلی کے قانون کی دفعات 142 اور 146 میں ترمیم کیے جانے کی تجویز ہے تاکہ زیادہ جرمانوں کا التزام ہوسکے۔
  1. بجلی کی سرحد پار تجارت:بجلی کی  دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت میں آسانی پیدا کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے ضابطے شامل کیے گئے ہیں۔
  • xi. تقسیم کار ذیلی لائسنس یافتہ: سپلائی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بجلی کی کمپنیاں ایک دوسرے ادارے کو بطور ذیلی لائسنس یافتہ مقرر کریں کہ وہ بجلی کو ان کے کسی مخصوص علاقے میں سپلائی کرسکے۔ لیکن یہ کام اسٹیٹ الیکٹری سٹی ریگولیٹری کمیشن کی اجازت سے ہوگا۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈسٹری بیوشن فرنچائزی کے ضابطے قانون میں پہلے ہی موجود ہیں اور تقسیم کار کمپنیاں اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ان کا کامیابی سے استعمال کرتی ہیں۔ ان ضابطوں کے ذریعے بجلی کی کمپنیاں / ریاستیں جو بعض علاقوں کو فرنچائجیز / ذیلی لائسنس یافتہ اداروں کو دینا چاہتی ہیں وہ ایسا کرسکتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ تقسیم سے متعلق ذیلی لائسنس یافتہ ادارے صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ریگولیٹری کنٹرول اور ان کے دائرہ اختیار میں رہیں۔

****************

م ن۔ اج ۔ ر ا

U:3531

 


(Release ID: 1634626) Visitor Counter : 278