بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی وزارت

کے وی آئی سی نے اپنے اثاثوں میں اضافے کے لیے ایک نئی پہل کے طورپر صندل کی لکڑی اور بانسوں کی شجرکاری کا آغاز کیا

Posted On: 25 JUN 2020 5:29PM by PIB Delhi

نئی دہلی،25 جون،         کھادی اور دیہی صنعتوں کے کمیشن(کے وی آئی سی) نے اپنی نوعیت کی پہلی کوشش کے طور پر اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے کے لیے صندل کی لکڑی اور بانس کی شجرکاری کا جائزہ لینا شروع کیا ہے جس پر اب تک توجہ نہیں دی گئی تھی لیکن جو انتہائی منافع بخش ہے۔ صندل کی لکڑی اور بانس کی تجارتی شجرکاری کی حوصلہ افزائی کی خاطر کے وی آئی سی نے ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت 262 ایکڑ سے زیادہ زمین پر پھیلے ہوئے اپنے ناسک تربیتی مرکز میں 500 پودے صندل کی لکڑی کے اور 500 بانس کے لگائے جائیں گے۔

ایم ایس ایم ای کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے کے وی آئی سی کی اس پہل کی ستائش کی ہے۔

کے وی آئی سی نےاترپردیش میں ایم ایس ایم ای کی وزارت کے ایک یونٹ فریگرینس اینڈفلیور ڈیولپمنٹ سینٹر(ایف ایف ڈی سی) واقع قنوج سے صندل کے پودے حاصل کیے ہیں اور بانس کے پودے آسام سے منگائے ہیں۔ شجرکاری کی تقریب کی شروعات کے وی آئی سی کے چیئرمین جناب ونے کمار سکسینہ نے کل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کی۔

صندل کی لکڑی کی شجرکاری کا منصوبہ  کے وی آئی سی کے لیے ایک اثاثہ تشکیل دینے کے مقصد سے بھی  بنایا گیا ہے چونکہ اندازہ ہے کہ اس سے اگلے 10 سے 15 برسوں میں 50 سے 60 کروڑ روپئے حاصل ہوں گے۔ صندل کا درخت 10 سے 15 سال میں پورا ہوجاتا ہے اور موجودہ شرح کے حساب سے 10 سے 12 لاکھ روپئے فی درخت کے حساب سے ملتا ہے۔

اسی طرح سے بانس کی ایک  خصوصی قسم بمبوسہ ٹلڈا جو اگربتی کی لکڑیاں بنانے میں استعمال ہوتی ہیں ا سے آسام سے لاکر مہاراشٹرمیں لگایاگیا ہے جس کا مقصد اگربتی کی مقامی صنعت کو مدد دینا اور تربیتی مرکز کے لیے آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ پیدا کرنا ہے۔

بانس کا ایک پودا تیسرے سال میں کٹائی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ بانس کا ہر ایک لٹھا جس کا وزن اندازاً 25 کلو گرام ہوتا ہے اوسطاً پانچ روپئے کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ اس شرح سے  بانس کے ایک گٹھے کی قیمت تقریباً 125 روپئے ہوتی ہے۔ بانس کے پودے میں ایک بے مثال خصوصی ہوتی ہے۔بانس کا ایک پودا تیسرے سال میں پانچ لٹھے تیار کرتاہے اور اس کے بعدبانسوں کے لٹھے ہر سال دوگنے ہوجاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بانس کے 500 پودے تیسرے سال میں کم از کم 2500 بانس کے لٹھے تیار کریں گے اور ادارے کے لیے تقریباً 3.25 لاکھ روپئے کی فاضل ا ٓمدنی پیدا کریں گے جس میں ہر سال تقریباً دوگنا تین گنا ا ضافہ ہوتا جائے گا۔

اس کے علاوہ مقدار کے حساب سے 2500 بانس کے لٹھوں کا وزن 65 میٹرک ٹن ہوگا جنھیں اگربتی کی لکڑیاں بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس طرح بڑے پیمانے پر مقامی روزگار پیدا ہوگا۔

پچھلے کچھ مہینوں میں کے وی آئی سی نے بھارت کے مختلف حصوں میں بمبوسہ ٹلڈا کے قریب قریب 2500 پودے لگائے ہیں۔ بمبوسہ ٹلڈا کے 500 پودے دہلی، وارانسی اور قنوج میں سے ہر ایک شہر میں لگائے گئے ہیں۔ یہ پودے ناسک میں کی گئی تازہ ترین شجر کاری کے علاوہ ہیں اور اس کا مقصد اگربتی کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کو مناسب قیمت پر مقامی طور پر فراہم کرنا ہے۔

کے وی آئی سی کے چیئرمین جناب ونے کمار سکسینہ نے کہا ‘‘صندل کی لکڑی اور بانس کے پودے خالی زمین پر لگانے کا مقصد املاک کی قیمت  میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس سے دوہرا مقصد پورا ہوگا یعنی صندل کی لکڑی کی زبردست عالمی مانگ کو پورا کرنا جبکہ بانس کی شجر کاری سے مرکزی حکومت  کے بھارت کو اگربتی بنانے میں ‘آتم نربھر’ بنانے کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں  مقامی اگربتی بنانے والوں کی مدد کرنا ہوگا۔ہم پورے ملک میں کے وی آئی سی کی مزید املاک کی نشان دہی کر رہے ہیں جہاں اس طرح کی شجرکاری کا سلسلہ شروع کیا جاسکے’’۔ جناب سکسینہ نے مزید کہا کہ  اگر کسان ا پنے کھیتوں میں  صندل کے صرف دو پودے لگانا شروع کردیں تو وہ اقتصادی طور پر خود کفیل ہوجائیں گے  اور کسی بھی مالی ہنگامی صورت حال سے نمٹ سکیں گے۔

صندل کی لکڑی کےپودوں کی شجرکاری کے برآمدی منڈی میں زبردست امکانات ہیں۔ ا پنی تیل کی خصوصیت کی وجہ سے صندل کی چین، جاپان، تائیوان، آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ملکوں میں بڑی مانگ ہے۔ لیکن صندل کی  فراہمی کم ہے اس لیے بھارت کے لیے صندل کی لکڑی کی شجرکاری کے بہت اچھے مواقع موجود ہیں اور وہ صندل کی لکڑی کی پیداوار میں ایک عالمی لیڈر کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔

****************

م ن۔ اج ۔ ر ا

U:3518



(Release ID: 1634403) Visitor Counter : 246