سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ہمیں ،نالج  چین کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کس طرح آتم نربھر بھارت کی جانب لے جاسکتی ہے: ڈی ایس ٹی کے سکریٹری  کا راجستھان اسٹرائڈ ورچوول سمّٹ سے خطاب

Posted On: 02 JUN 2020 3:38PM by PIB Delhi

نئیدہلی03 جون 2020۔سائنس اورٹکنالوجی کے محکمے  ( ڈی ایس ٹی ) کے سکریٹری پروفیسر آشوتوش شرما  نے یہ دیکھنے کے لئے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کیسے آتم نربھر بھارت کی جانب لے جاسکتی ہے ،  نالج چین  کی جانچ  کرنے  اور اسے شروع سے آخر تک مضبوط  کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی   کے محکمے ، حکومت راجستھان کی پہل پر 30  مئی  2020  کو منعقدہ راجستھان اسٹرائک ورچوول  کانکلیو  سے خطاب کرتے ہوئے انہوں  نے یہ بات کہی۔

          انہوں نے کہا کہ ’’  چونکہ آتم نربھر بھارت یا خود کفیل  ہندوستان کے لئے اپیل کی گئی ہے ۔ اس  لئے عالمی  معیار کے ساتھ  اس کا جوا ب دیا جانا چاہئے ۔آتم نربھر  بھارت بننے کے لئے ہندوستان کی طاقت   میں اضافہ کرنا ہوگا، جو اس کی تحقیق وترقی  ، ڈیزائن ، افرادی قوت ،وسیع بازار ،کثیر آبادی  کافائدہ  اور اس کی کثرت ،تنوع اور  ڈیٹا  پرمشتمل ہے۔‘‘

          سائنس ،معاشرہ   اور خودانحصاری پرتوجہ مرکوز کرتے ہوئے پروفیسر شرما نے کووڈ -19  بحران سے  حاصل ہوئے سبق  کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’ گزشتہ دو ماہ کے دوران  کووڈ-19  کے حل کے سلسلے میں  کافی اہم چیزیں دیکھنے کو ملی ہیں۔چاہے عالمی معیار کے وینٹی لیٹر کو ڈیزائن کرنا ہو یا نئے علاج کے طریقے دریافت کرنے  ہوں ۔یہ ساری چیزیں  ہماری ضرورتوں  اور ترجیحات کیایک واضح  اور موجودہ  سمجھ  اور مسائل  پر مرکوز  طریقہ کار کے سبب  ممکن ہوئی ہیں ، جس میں تعلیمی برادری اور صنعت دونوں  ہی   شراکتدار کے طور پر شامل تھے ۔ ہم اپنی  طاقت  کو  مزید بڑھاسکتے ہیں  اور اپنے معلوماتی  جنریشن نظام  کو معلومات  کے صرفہ کے ساتھ   مضبوطی کے ساتھ جوڑکر رفتار اور پیمانے کے ساتھ اپنی طاقت  اور  کووڈ- 19 سے حاصل ہوئے سبق کو  بھی  بڑھاسکتے ہیں۔‘‘

          پروفیسر شرما نے کہا کہ کس طرح  ڈی ایس ٹی  ، پائیدار ترقی ، انٹلی  جنٹ  مشینوں  کی ترقی  ،صنعت  4.0  جیسے ابھرتے  ہوئے چیلنجوں سے کیسے  نمٹ رہا ہے ، یہ تمام امور مستقبل قریب میں  نہایت اہم رہیں  گے ۔پروفیسر شرما نے   مزید کہا کہ ’’  ڈی ایس ٹی نے پہلے ہی 3660 کروڑ روپے کی مالیت  کے  سائبر فزیکل سسٹم   پر ایک مشن شروع کیا ہے جس میں  ٹکنالوجیز کے  مختلف شعبوں   مثلاََ مواصلات ،  کمپیوٹنگ  ،  آرٹی فیشیل  انٹلی جنس   ،خودمختار مشین  پرتوجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں کوانٹم ٹکنالوجی اور 8000 کروڑروپے کی مالیت کے آلات  پر ایک مشن تیار کیا جارہا ہے۔‘‘ 

          انہوں نے  سائنس کو  سماج سے جوڑنے میں  سائنٹیفک سماجی ذمہ داری   کی اہمیت  پر زوردیا ۔ انہوں  نے کہا کہ ’’  یہ ایک ڈی ایس ٹی   کے ادارہ سائنس اینڈ انجنئرنگ  ریسرچ بورڈ   میں لاگو کیا گیا ہے ،  ایک محدود پیمانے پر اسے  لاگو کیا گیا  ہے  اور اس  پر پالیسی کو نوٹی فائی کیا جارہا ہے ۔‘‘

          سائنس کے  فائدے کو سماج تک  پہنچانے میں ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ ’’  ٹکنالوجی کی منتقلی، صنعت اور تعلیمی  برادری کے درمیان  قریبی رابطے  اور دوسروں کے ساتھ  کام کرنا ہے ۔ اس شعبے میں کافی کچھ  ہورہا ہے ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی  جیسے ادارے اس سمت میں کام کررہے ہیں ۔‘‘

          زرعی اسٹارٹ اپ میں محکمہ برائے سائنس وٹکنالوجی  ( ڈی ایس ٹی ) کی سرمایہ کاری کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ ’’  مواقع کے  لحاظ سے  زراعت   ایک  وسیع  شعبہ ہے ۔ اکیلے  ڈی ایس  ٹی نے زراعت او ر متعلقہ شعبوں   جیسے پانی ، مٹی  ، میپنگ  ،  سینسر اور رفتار فراہم کرنے والے  آلات سمیت  3000 سے زائد  تکنیکی اسٹارٹ اپ کے ساتھ تقریباََ 120  انکیوبیٹر س  کو تعاون فراہم کیا ہے ۔پچھلے  پانچ  برسوں  کے دوران انکیوبیٹرس اور اسٹارٹ  اپ دونوں   کی تعداد  تیزی کےساتھ دوگنی ہوگئی ہے ۔‘‘  

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

م ن ۔م ع۔رم

U-3003



(Release ID: 1628945) Visitor Counter : 134