وزیراعظم کا دفتر

مَن کی بات  2.0 کے بارہویں سلسلے کا وزیر اعظم کا خطاب  ( 31 مئی ، 2020 ء )  

Posted On: 31 MAY 2020 11:43AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنوں  ، نمسکار

          کورونا کےاثر سے  ہمارے من کی بات بھی  اَچھوتی نہیں رہی ہے ۔ جب میں نے پچھلی مرتبہ آپ سے من کی بات کی تھی ، اُس وقت مسافر ٹرینیں بند تھیں ، بسیں بند تھیں ، فضائی خدمات بند تھیں ۔ اس مرتبہ بہت کچھ کھل چکا ہے ۔ شرمک خصوصی ٹرینیں چل رہی ہیں  ۔ دیگر خصوصی ٹرینیں بھی شروع ہو گئی ہیں ۔ تمام احتیاط کے ساتھ  ہوائی  جہاز اڑنے لگے ہیں  ۔ آہستہ آہستہ  صنعتیں بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ یعنی معیشت کا ایک بڑا حصہ اب چلنے لگا ہے ، کھل گیا ہے ۔ ایسے میں ہمیں اور زیادہ  محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ دو گز کی دوری  کا ضابطہ ہو  ، منہ پر ماسک لگانے کی بات ہو ، جہاں تک ہو سکے  ، گھر میں رہنا ہو ، اِن تمام چیزوں پر  عمل  درآمد ، اُس میں ذرا بھی  بے احتیاطی نہیں کرنی چاہیئے ۔

          ملک میں  سب کی اجتماعی کوششوں سے کورونا کے خلاف لڑائی بہت مضبوطی سے لڑی جا رہی ہے ۔ جب ہم دنیا کی طرف دیکھتے ہیں  تو ہمیں  محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت میں بھارتی شہریوں کی کامیابی  کتنی بڑی ہے ۔ ہماری آبادی زیادہ تر ملکوں سے کئی گنا زیادہ ہے  ۔ ہمارے ملک میں  چیلنج بھی مختلف طریقے کے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے ملک میں  کورونا اُتنی تیزی سے نہیں پھیل سکا ، جتنا  دنیا کے  دوسرے ملکوں میں پھیلا ۔ کورونا سے ہونے والی اموات کی شرح بھی ہمارے ملک میں کافی کم ہے ۔

          جو نقصان ہوا ہے ، اُس کا دکھ ہم سب کو ہے لیکن جو کچھ بھی ہم بچا سکے ہیں ، وہ یقیناً ملک کے اجتماعی عز م کا ہی نتیجہ ہے ۔ اتنے بڑے ملک میں  ہر ایک شہری نے خود اِس لڑائی کو لڑنے کی ٹھانی ہے ۔ یہ پوری مہم پیپل ڈرائیون ہے ۔

          ساتھیوں ، ہم وطنو ں کی پُر عزم قوت کے ساتھ ایک اور قوت  اِس لڑائی میں ہماری سب سے بڑی  طاقت ہے – وہ ہے – ہم وطنوں کی خدمت کی قوت  ۔ حقیقت میں  اس عالمی وباء کے دور میں ہم بھارتی شہریوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ خدمت اور   خلوص کا ہمارا جو نظریہ ہے ، وہ  ہمارا صرف   اصول ہی نہیں ہے بلکہ بھارت کی  زندگی  کا اصول ہے اور  ہمارے یہاں  تو کہا گیا ہے – خدمت  سب سے بڑا دھرم ہے ۔

          خدمت  اپنے اندر ایک سُکھ ہے اور خدمت میں ہی   سکون ہے ۔

          آپ نے دیکھا ہو گا کہ دوسروں کی خدمت میں مصروف شخص کی زندگی میں  کوئی ڈپریشن  یا تناؤ کبھی نہیں نظر آتا ۔ اُس کی زندگی میں زندگی کے تئیں اس کے نظریہ میں مکمل اعتماد    ، مثبت  نظریہ اور زندگی کا ولولہ نظر آتا ہے  ۔

          ساتھیو ، ہمارے ڈاکٹر ، نرسنگ اسٹاف  ، صفائی کرمچاری   ،  پولیس کا عملہ   ، میڈیا کے ساتھی  ، یہ سب  جو خدمت کر رہے ہیں ، اُس کا ذکر میں نے  کئی بار کیا ہے  ۔ مَن کی بات میں بھی میں نے اُس کا ذکر کیا ہے ۔ خدمت میں اپنا سب کچھ  وقف کرنے دینے والے لوگوں کی تعداد بے شمار ہے ۔  

          ایسے ہی  ایک شخص  ہیں ، تمل ناڈو کے سی موہن ۔ سی موہن جی  مدورئی میں ایک سیلون  چلاتے ہیں ۔ اپنی محنت کی کمائی سے انہوں نے اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لئے  پانچ لاکھ روپئے بچائے تھے لیکن انہوں نے یہ  پوری رقم اِس وقت ضرورت مندوں اور غریبوں کی خدمت کے لئے خرچ کر دیئے ۔

          اسی طرح  اگرتلہ میں  ٹھیلہ چلاکر زندگی گزارنے والے  گوتم داس جی  اپنی  روز مرہ کی کمائی   کی بچت میں سے  ہر روز  دال چاول خرید کر  ضرورت مندوں کو کھانا کھلا رہے ہیں  ۔

          پنجاب کے  پٹھان کوٹ کے بھی ایک ایسی ہی مثال  سامنے آئی ہے ۔ یہاں معذور ، بھائی راجو نے  دوسروں کی مدد سے جوڑی گئی چھوٹی سی رقم سے تین ہزار سے زیادہ ماسک بنواکر   لوگوں میں بانٹے ۔ بھائی راجو نے  اِس مشکل وقت میں تقریباً 20 خاندانوں کے لئے کھانے کا راشن بھی فراہم کیا ۔

          ملک کے سبھی علاقوں سے خواتین  کے خود امدادی گروپوں کی محنت   کی اَن گنت کہانیاں بھی ہمارے سامنے آ رہی ہیں ۔ گاؤوں میں ، چھوٹے قصبوں میں ہماری بہن بیٹیاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ماسک بنا رہی ہیں ۔  تمام سماجی ادارے بھی اس کام  میں  اُن کی مدد کر رہے ہیں ۔

          ساتھیو ، ایسی کتنی ہی مثالیں ، ہر دن  دکھائی اور سنائی دے رہی ہیں ۔ کتنے ہی لوگ خود بھی مجھے نمو ایپ پر  اور دیگر  ذرائع سے اپنی  کوششوں کے بارے میں بتا رہے ہیں ۔   کئی بار وقت کی کمی کی وجہ سے میں بہت سے لوگوں ، بہت سے اداروں  ، بہت سی انجمنوں  کا نام نہیں لے پاتا ہوں ۔ خدمت کے جذبے سے  لوگوں کی مدد کر رہے  ایسے سبھی لوگوں کی میں ستائش کرتا ہوں   ، اُن کا احترام کرتا ہوں  اور تہہ دِل سے اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ 

          میرے پیارے ہم وطنو ، ایک اور بات  ، جو میرے دِل کو چھو گئی ہے ، وہ ہے ، مصیبت کی اِس گھڑی میں  اختراع  ۔ تمام  ہم وطن  ، گاؤوں سے لے کر شہروں تک ہمارے چھوٹے کاروباریوں سے لے کر اسٹارٹ اَپ تک ، ہماری لیبس کورونا کے خلاف لڑائی میں نئے نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں ، نئی نئی انوویشن  کر رہے ہیں ۔

          جیسے ، ناسک کے راجندر یادو کی مثال بہت بہتر ہے ۔ راجندر جی   ناسک میں   سَتنا گاؤں کے کسان ہیں ۔ اپنے گاؤں کوکورونا سے بچانے کے لئے انہوں نے   اپنےٹریکٹر سے جوڑ کر  ایک سینیٹائزیشن  مشین بنا لی ہے اور یہ اختراعی مشین   بہت موثر طریقے سے کام کر رہی ہے ۔ 

          اسی طرح  میں سوشل میڈیا میں ایسی کئی تصویریں دیکھ رہا  تھا ۔ کئی دکانداروں نے دو گز کی دوری کے لئے دکان میں بڑے پائپ لگا لئے ہیں ، جس میں ایک طر ف سے وہ اوپر سے سامان ڈالتے ہیں اور دوسرے سرے سے  گاہک اپنا سامان لے لیتا ہے ۔

          اس دوران پڑھائی کے شعبے میں بھی   ٹیچروں اور طلباء نے کئی الگ الگ انوویشن کئے ہیں ۔ آن لائن کلاسیں ، ویڈیو کلاسیں  ، ان کو بھی الگ الگ طریقے سے  انوویٹ کیا جارہا ہے ۔

          کورونا کی ویکسین پر  ہماری لیبس میں ، جو کام ہو رہا ہے ، اُس پر تو  دنیا بھر کی نظر ہے اور ہمیں  سب کو امید ہے ۔

          کسی بھی صورتِ حال کو بدلنے کے لئے خود اعتمادی کے ساتھ ہی بہت کچھ  اختراع پر بھی منحصر کرتا ہے ۔ ہزاروں برسوں کی  انسانیت کا سفر  لگاتار   اختراع سے ہی  اتنے جدید دور میں پہنچا ہے ۔ اس وباء پر جیت حاصل کرنے کے لئے یہ خصوصی اختراع بھی بہت بڑی بنیاد ہے ۔

          ساتھیو ،  کورونا کے خلاف  لڑائی کا یہ راستہ لمبا ہے ۔ ایک ایسی وباء  ، جس کا پوری دنیا کے پاس کوئی علاج نہیں ہے ، جس کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں ہے ، تو ایسے میں نئے نئے چیلنج اور اُن کی وجہ سے پریشانیاں  ہم سب محسوس  کر رہے ہیں ۔ یہ دنیا کے کورونا سے متاثرہ ہر ملک میں ہو رہا ہے ۔ اسی لئے بھارت بھی اس سے الگ نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی   کئی شعبے ایسے نہیں ہے ، جو پریشانی میں نہ ہوں اور اس مصیبت  کا سب سے بڑا اثر اگر کسی پر پڑا ہے  تو ہمارے غریب  ، مزدور  اور محنت کش طبقے پر پڑا ہے ۔  اُن کی تکلیف   ، اُن کا درد  الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا  ۔ ہم میں سے کون ایسا ہوگا ، جو اُن کی اور اُن کے خاندان کی تکلیفوں کا  احساس نہ کر رہاہو ۔ ہم سب مل کر  اس تکلیف کو   ، اِس درد کو بانٹنے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔ پورا ملک کوشش کر رہا ہے ۔ ہمارے ریلوے کےساتھی  دن رات لگے ہوئے ہیں ۔  مرکز ہو ، ریاست ہو یا مقامی جمہوری ادارے ہوں  ، ہر کوئی دن رات محنت کر رہا ہے ۔ جس طرح ریلوے کے ملازمین  آج لگے ہوئے ہیں ، وہ  بھی ایک طریقے سے  صف اوّل میں کھڑے کورونا کے جانباز ہی ہیں ۔ لاکھوں مزدوروں کو ٹرینوں سے اور بسوں سے محفوظ لے جانا ، اُن کے کھانے پینے کی فکر  کرنا  ، ہر ضلعے میں  قرنطینہ مراکز   کا بندوبست کرنا  ، سبھی کی ٹسٹنگ ، چیک اَپ  ، علاج  کا بندوبست کرنا  ، یہ سب کام لگاتار  چل رہے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں چل رہے ہیں لیکن ساتھیوں  ، جو مناظر آج ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے  ملک کو   ماضی میں ، جو کچھ ہوا ، اُس کا تجزیہ کرنے اور مستقبل  کے لئے  سیکھنے کا موقع بھی ملا ہے ۔ آج ہمارے مزدوروں  کی تکلیف میں  ہم  ملک کے مشرقی حصے کی  تکلیف کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جس مشرقی حصے میں  ملک کا  ترقی  کا انجن  بننے کی صلاحیت ہے ، جس کے  مزدوروں  کے بازوؤں کی قوت میں ملک کو نئی اونچائیوں تک لے جانے کی قوت ہے ، اُسی مشرقی حصے کی ترقی  بہت ضروری ہے ۔  مشرقی بھارت کی ترقی سے ہی  ملک  کی متوازن   اقتصادی ترقی ممکن ہے ۔ ملک نے جب مجھے  خدمت کا موقع دیا ، تبھی سے ہم نے  مشرقی بھارت  کی ترقی کو  اولیت دی ہے ۔  مجھے اطمینان ہے کہ پچھلے برسوں میں  ، اس سلسلے میں بہت کچھ ہوا ہے اور   اب مہاجر مزدوروں کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ نئے قدم اٹھانے  کی بھی ضروری ہے اور ہم لگاتار اِس سلسلے میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جیسے کہیں  مزدوروں  کی  صلاحیت سازی کا کام ہو رہا ہے ، کہیں اسٹارٹ اَپس اِس کام میں مصروف ہیں ، کہیں مائگریشن کمیشن بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔ اس کےعلاوہ ، مرکزی حکومت نے ابھی ، جو فیصلے کئے ہیں  ، اُس سے بھی گاؤوں  میں روز گار ، خود روزگار اور چھوٹے کاروبار سے جڑے  وسیع امکانات  بھی پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ فیصلے   اس صورت حال    کو درست کرنے کے لئے ہیں ، خود کفیل بھارت کے لئے ہیں ، اگر ہمارے گاؤں خود کفیل ہوتے ، ہمارے قصبے  ، ہمارے ضلعے  ، ہماری ریاستیں  خود   کفیل ہوتیں تو  بہت سی پریشانیوں  نے وہ صورت اختیار نہ کی ہوتی  ، جس میں وہ آج ہماری سامنے کھڑی ہیں  ۔ لیکن اندھیرے سے روشنی کی طرف بڑھنا انسان  کا مزاج ہے ۔ تمام چیلنجوں کے درمیان  مجھے خوشی ہے کہ خود کفیل بھارت پر  آج ملک بھر میں   وسیع غور و خوض شروع ہو گیا ہے ۔ لوگوں نے اب اِسے اپنی مہم  بنانا شروع کر دیا ہے ۔ اس مشن کی قیادت  ملک کے شہری  اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے تو یہ بھی بتایا ہے کہ  انہوں نے جو جو سامان ،اُن  کے علاقے میں بنائے جاتے ہیں ، اُن کی ایک پوری لسٹ بنا لی ہے ۔ یہ لوگ اب  ان مقامی مصنوعات کو ہی خرید رہے ہیں  اور ووکل فار لوکل  کو فروغ بھی دے رہے ہیں ۔ میک اِن انڈیا کو بڑھاوا ملے  ، اس  کے لئے  سبھی اپنے اپنے عزم کا اظہار  کر رہے ہیں ۔

          بہار کے ہمارے ایک ساتھی  جناب ہمانشو نے مجھے نمو ایپ پر لکھا ہے کہ  وہ ایک ایسا دن دیکھنا چاہتے ہیں  ، جب بھارت  بیرونِ ملک سے آنے والی درآمدات کو   کم سے کم کر دے ، چاہے پیٹرول ، ڈیزل  ، ایندھن کی درآمد ہو  ، الیکٹرانک آئٹمس کی در آمد ہو ،یوریا   کی درآمد  یا پھر  خوردنی تیل کی درآمد ہو ۔ میں اُن کے جذبات کو سمجھتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں  کتنی ہی ایسی چیزیں باہر سے آتی ہیں ، جن پر ہمارے  ایماندار ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور جن کا متبادل ہم آسانی سے بھارت میں تیار کر سکتے ہیں ۔

          آسام کے سدیپ نے مجھے لکھا ہے کہ وہ  عورتوں کے  بنائے  ہوئے بانس کے مقامی سامان کا کاروبار کرتے ہیں اور انہوں نے طے کیا ہے کہ آنے والے دو برسوں میں وہ اپنی بہت سی مصنوعات کو عالمی برانڈ بنائیں گے ۔  مجھے پورا یقین ہے کہ خود کفیل بھارت مہم ، اِس دہائی میں ملک کو  نئی اونچائیوں تک لے جائے گی ۔

          میرے پیارے ہم وطنو ، کورونا بحران کے اس دور میں   میری دنیا کے بہت سے لیڈروں کےساتھ بات چیت ہوئی ہے لیکن   میں ایک   سیکریٹ ضرور آج بتانا چاہوں گا   - دنیا کے  بہت سے لیڈروں کی   جب بات چیت ہوتی ہے ، تو میں نے دیکھا کہ ان دنوں اُن کی بہت زیادہ دلچسپی  یوگ اور آیوروید کے  تعلق   سے ہوتی ہے ۔  کچھ لیڈروں نے مجھ سے پوچھا کہ  کورونا کے اس دور میں  یہ یوگ اور آیوروید  کیسے مدد کر سکتے ہیں  ۔

          ساتھیو ، یوگ کا بین الاقوامی دن  جلد ہی آنے والا ہے ۔ یوگ جیسے جیسے لوگوں کی زندگی  سے جڑ رہا ہے ، لوگوں میں اپنی صحت کو لے کر بیداری بھی  مسلسل بڑھ رہی ہے ۔  ابھی کورونا بحران کے دوران بھی  یہ دیکھا جا رہا ہے  کہ ہالی ووڈ سے ہری دوار تک  لوگ گھروں میں رہتے ہوئے یوگا پر  بہت سنجیدگی سے دھیان دے رہے ہیں ۔ ہر جگہ لوگوں نے  یوگا  اور اُس کے ساتھ ساتھ آیور وید کے بارے میں زیادہ جاننا چاہا ہے ، اُسے اپنانا چاہا ہے ۔ کتنے ہی لوگ   ، جنہوں نے کبھی یوگا نہیں کیا ، وہ بھی یا تو آن لائن یوگا کلاس سے جڑے ہوئے ہیں  یا پھر آن لائن ویڈیو کےذریعے  یوگا سیکھ رہے ہیں ۔  صحیح میں  یوگا کمیونٹی ، امیونٹی اور یونٹی سب کے لئے اچھا ہے ۔

          ساتھیو ، کورنا بحران ج کے اس دور میں یوگا  آج اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ  یہ وائرس ہمارے  سانس کے نظام کو  سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے ۔ یوگا میں تو  سانس کے نظام کو مضبوط کرنے والی  کئی طرح کی مشقیں ہیں ، جن کا اثر  ہم  طویل عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں ۔ یہ ٹائم  ٹسٹیڈ تکنیک ہے   ، جس کی اپنی الگ اہمیت ہے  ۔ کپال بھاتی  اور انو لوم وِلوم  ، پرایام سے وغیرہ سے زیادہ تر لوگ واقف ہوں گے ۔  لیکن بھستریکا ، شیتلی  ، بھرامری جیسی کئی مشقیں  ہیں ، جس کے  بہت سے فائدے بھی ہیں   ۔ ویسے ، آپ کی زندگی میں یوگا کو بڑھانے کے لئے آیوش کی وزارت نے بھی  اس مرتبہ ایک انوکھا   تجربہ کیا ہے ۔ آیوش وزارت نے  مائی لائف مائی یوگا  نام سے  بین الاقوامی ویڈیو بلاگ کا مقابلہ شروع کیا ہے ۔

  بھارت ہی نہیں  پوری دنیا کے لوگ   اس مقابلے میں حصہ لے  سکتے ہیں ۔  اس میں حصے لینے کے لئے آپ کو اپنا   تین منٹ کا ایک ویڈیو بناکر اَپ لوڈ کرنا ہو گا ۔  اس ویڈیو میں آپ جو یوگا یا آسن کرتے ہوں ، وہ کرتے ہوئے دکھانا ہے اور یوگا سے  آپ کی زندگی میں   ، جو بدلاؤ آیا ہے ، اُس کے بارے میں بھی  بتانا ہے ۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ سبھی  اس مقابلے میں ضرور شرکت کریں اور اس نئے طریقے سے  یوگا کے بین الاقوامی دن میں آپ حصہ دار بنیں ۔

          ساتھیو ، ہمارے ملک میں  کروڑوں کروڑ  غریب کئی دہائیوں سے ایک بڑی    فکر میں رہتے آئے ہیں – اگر غریب بیمار پڑ گئے تو کیا ہو گا یا اپنا علاج کرائیں یا پھر کنبے کے لئے روٹی کی فکر کریں ۔  اس تکلیف کو سمجھتے ہوئے  ، اِس فکر کو دور کرنے کے لئے ہی تقریباً ڈیڑھ سال پہلے آیوشمان بھارت  اسکیم شروع کی گئی تھی ۔ کچھ ہی دن پہلے  آیوشمان بھارت کے  فیض حاصل کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے   ۔ ایک کروڑ سے زیادہ مریض  یعنی  ملک کے ایک کروڑ سے زیادہ  کنبوں کی خدمت ہوئی ہے ۔  ایک کروڑ سے زیادہ مریض  کا مطلب کیا ہوتا ہے ، معلوم ہے ، ایک کروڑ سے زیادہ  مریض  مطلب ناروے جیسا ملک  ،  سنگا پور جیسا ملک   ، اس کی جو ٹوٹل آبادی ہے ، اُس سے دوگنا  لوگوں کا مفت  علاج کیا گیا ہے ۔

اگر غریبوں کو  اسپتال میں بھرتی ہونے کے بعد  علاج کے لئے پیسے دینے پڑتے ، اُن کا مفت علاج نہیں ہوا ہوتا  تو انہیں ، ایک موٹاموٹا اندازہ ہے ، تقریباً 14 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ اپنی جیب سے خرچ کرنے پڑتے ۔  آیوشمان بھارت اسکیم نے غریبوں کے پیسے خرچ ہونے سے  بچائے ہیں  ۔ میں آیوشمان بھارت کے  سبھی فیض  حاصل کرنے والوں کے ساتھ ساتھ  مریضوں کا علاج کرنے والے سبھی ڈاکٹروں  ، نرسوں  اور طبی عملے کو بھی مبارکباد دیتا ہوں ۔  آیوشمان اسکیم کے ساتھ  ایک بہت بڑی خصوصیت  پورٹیبلیٹی  کی سہولت ہے ۔ پورٹیبلیٹی نے دیش کو  اتحاد کے رنگ  میں رنگنے  میں مدد کی ہے یعنی بہار کا کوئی غریب  اگر چاہے تو اسے  کرناٹک میں بھی وہی  سہولت ملے گی ، جو اُسے اپنی ریاست میں ملتی ۔  اسی طرح  مہاراشٹر کا کوئی غریب چاہے  تو اُسے علاج کی وہی سہولت  تمل ناڈو میں بھی ملے گی ۔  اس اسکیم کی وجہ سے  کسی شعبے میں  ، جہاں   صحت  خدمات کمزور ہیں  ، وہاں کے غریبوں کو  ملک کے کسی بھی کونے میں   بہتر علاج کرانے کی سہولت  ملتی ہے ۔

ساتھیو ، آج آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ ایک کروڑ فیض حاصل کرنے والوں میں 80 فی صد  فیض حاصل کرنے والے  دیہی علاقوں کے ہیں ۔  ان میں بھی تقریباً 50 فی صد فیض حاصل کرنے والی ہماری ماتائیں ، بہنیں اور بیٹیاں ہیں  ۔ ان فیض حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ  ایسی بیماریوں   سے متاثر تھے ، جن کا علاج   عام دواؤں سے  ممکن نہیں تھا ۔ ان میں سے 70 فی صد لوگوں کی سرجری کی گئی ہے ۔  آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بڑی تکلیفوں سے اِن لوگوں کو چھٹکارا ملا ہے ۔ 

منی پور کے چورا چاند  پور میں   6 سال کے بچے   کیلن سانگ   ،  اُس کو بھی  اِسی طرح آیوشمان اسکیم سے نئی زندگی ملی ہے ۔ کیلن سانگ کو اتنی چھوٹی  عمر میں  برین کی بیماری ہو گئی ۔ اس بچے کے والد دیہاڑی مزدور ہیں  اور ماں  بنائی کا کام کرتی ہیں ۔  ایسے میں بچے کا علاج کرانا   بہت مشکل ہو رہا تھا ۔  لیکن آیوشمان بھارت اسکیم سے اب ان کے بیٹے کا مفت علاج ہو گیا ہے ۔  کچھ اسی طرح  کا تجربہ   پڈوچری کی  امورتھا ولّی جی کا بھی ہے ۔ اُن کے لئے بھی آیوشمان بھارت اسکیم   رحمت بن کر آئی ہے  ۔ امورتھا ولّی جی کے شوہر کی  ہارٹ اٹیک سے  موت ہو چکی ہے  ۔ ان کے 27 سال کے بیٹے  جیوا کو بھی  دِل کی بیماری تھی ۔ ڈاکٹروں نے جیوا کے لئے   سرجری کی صلاح دی تھی   لیکن   دیہاڑی مزدوری کرنے والے   جیوا کے لئے اپنے خرچ سے  اتنا بڑا آپریشن کروانا ممکن ہی نہیں تھا   لیکن   امورتھا ولّی جی نے اپنے بیٹے  کا آیوشمان بھارت اسکیم میں  رجسٹریشن کروایا اور 9 دن بعد    بیٹے جیوا  کے دِل کی سرجری بھی ہو گئی ۔

ساتھیو ، میں آپ کو صرف تین چار  واقعات کا ذکر کیا  ۔ آیوشمان بھارت سے  ایسے ایک کروڑ سے زیادہ   کہانیاں جڑی ہوئی ہیں ۔  یہ کہانیاں  جیتے جاگتے انسانوں کی ہیں  ، دکھ تکلیف سے   چھٹکارا پانے والے ہمارے اپنے   کنبے کے لوگوں کی ہیں ۔ آپ سے میری اپیل ہے ، کبھی وقت ملے تو ایسے شخص  سے ضرور بات کریئے گا ، جس نے آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت  اپنا علاج کرایا ہو ۔  آپ دیکھیں گے  کہ جب ایک غریب بیماری سے باہر آتا ہے  تو اس میں  غریبی سے بھی لڑنے کی طاقت نظر آنے لگتی ہے اور میں ، ہمارے ملک کے ایماندار  ٹیکس دہندگان سے کہنا چاہتا ہوں  ، آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت  ، جن غریبوں کا مفت علاج ہوا ہے ، اُن کی زندگی میں ، جو   سکون آیا ہے   ، امن ملا ہے ، اُس   ثواب  کے اصلی حقدار آپ بھی ہیں۔ ہمارے  ایماندار  ٹیکس دہندگان  اِس کے حقدار ہیں  ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، ایک طرف ہم عالمی وباء سے لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ہمیں  حال ہی میں  مشرقی بھارت کے  کچھ حصوں میں  قدرتی آفات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے ۔  پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران ہم نے مغربی بنگال اور اڈیشہ میں انتہائی شدید سمندری طوفان  امفن کا قہر دیکھا ۔  طوفان سے بے شمار گھر تباہ ہو گئے ۔ کسانوں کو بھی بھاری نقصان ہوا ۔ حالات کا جائزہ لینے کے لئے  میں پچھلےہفتے  اڈیشہ اور مغربی بنگال گیا تھا ۔  مغربی بنگال اور اڈیشہ کے لوگوں نے  ، جس ہمت اور بہادری کے ساتھ  حالات کا سامنا کیا ہے  ، وہ قابلِ ستائش ہے ۔ مشکل کی اس گھڑی میں   پورا ملک  ہر طرح سے  وہاں کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے ۔

ساتھیو ، ایک طرف جہاں  مشرقی بھارت طوفان سے  آئی پریشانی کا سامنا کر رہا ہے ، وہیں دوسری جانب   ملک کے کئی حصے ٹڈیوں کے حملے سے متاثر ہوئے ہیں ۔ ان حملوں نے ہمیں پھر یاد دلایا ہے کہ معمولی سا ایک کیڑا کتنا نقصان کرتا ہے ۔ ٹڈی  دَل کا حملہ کئی دن تک چلتا ہے ۔ بہت بڑے علاقے پر اس کا اثر پڑتا ہے ۔   بھارتی حکومت     ہو ، ریاستی حکومت ہو   ،  زراعت کا محکمہ ہو   ، انتظامیہ بھی  اس نقصان سے بچنے کے لئے  ، کسانوں کی مدد کرنے کے لئے ، جدید  وسائل  کا استعمال کر رہے ہیں ۔  نئے نئے اختراعات کی طرف بھی دھیان دے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب مل کر   ہمارے زرعی شعبے پر   ، جو یہ بحران آیا ہے ، اُس سے بھی لوہا لیں گے ، بہت کچھ بچا لیں گے ۔ 

میرے  پیارے ہم وطنو ، کچھ دن بعد ہی   5 جون کو  پوری دنیا  عالمی یوم ماحولیات منائے گی ۔ ماحولیات کا عالمی  دن  کا    اس سال کا موضوع ہے  ، بایو ڈائیورسٹی  یعنی  حیاتیاتی تنوع   ۔ موجودہ حالات میں  یہ موضوع ، خاص طور سے بہت اہم ہے ۔  لاک ڈاؤن کے دوران  پچھلے کچھ ہفتوں میں   زندگی کی رفتار تھوڑی سست ضرور ہوئی ہے لیکن اس سے ہمیں   اپنے آس پاس  فطرت  کے تنوع کو  حیاتیاتی تنوع کو  قریب سے دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے ۔ آج کتنے ہی پرندے  ، جو  آلودگی اور شور شرابے  کی وجہ سے  غائب ہو گئے تھے ، سالوں بعد اُن کی آواز کو لوگوں نے اپنے گھروں میں سنا ہے ۔

بہت سی جگہوں سے  جانوروں کے گھومنے پھرنے کی خبریں  بھی آ رہی ہیں ۔  میری طرح آپ نے بھی سوشل میڈیا میں  ضرور ان باتوں کو دیکھا ہوگا  ، پڑھا ہو گا ۔ بہت لوگ کہہ رہے ہیں ، لکھ رہے ہیں ، تصویریں  شیئر کر رہے ہیں کہ وہ اپنے گھر سے دور دور  پہاڑیاں دیکھ پا رہے ہیں  ، دور دور جلتی ہوئی روشنی دیکھ  رہے ہیں ۔ ان تصویروں کو دیکھ کر کئی لوگوں کے دِل میں  یہ  عزم ہوا ہوگا کہ ہم ان مناظر کو ایسے ہی برقرار رکھ سکتے ہیں ۔   ان تصویروں نے لوگوں میں فطرت کے لئے کچھ کرنے  کا عزم بھی  پیدا کیا ہو گا ۔  دریا ہمیشہ صاف رہیں ، جانوروں اور پرندوں کو بھی   کھل کر جینے کا حق ملے  ، آسمان بھی صاف ستھرا ہو ،  اس کے لئے ہم   فطرت کے ساتھ   تال میل بیٹھاکر   زندگی گزارنے  کی تحریک حاصل کر سکتے ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، ہم بار بار سنتے ہیں  ، جل ہی تو جیون ہے  ، - جل ہے تو کل ہے لیکن  پانی کے ساتھ ہماری ذمہ داری بھی ہے ۔ بارش کا پانی یہ ہمیں بچانا ہے ، ایک ایک بوند کو بچانا ہے ۔ گاؤں گاؤں میں بارش کے پانی کو   ہم کیسے بچائیں  ،  روایتی طور پر   بہت آسان طریقہ ہے ۔  اس آسان طریقے سے بھی  ہم پانی کو روک سکتے ہیں ۔

پانچ دن ، سات دن  بھی اگر پانی رکا رہے گا  تو زمین کی  پیاس بجھائے گا  ۔ پانی پھر زمین  میں جائے گا ، وہی پانی زندگی کی قوت بنا جائے گا اور اس لئے بارش کے اس موسم میں  ہم سب کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہم پانی کو بچائیں ، پانی کا تحفظ کریں   ۔

میرے پیارے ہم وطنو ، صاف ستھرا ماحول  براہ راست ہماری زندگی  ، ہمارے بچوں  کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ اس  لئے ہمیں انفرادی طور پر بھی  اس کی فکر  کرنی ہو گی ۔  میری آپ سے درخواست ہے  کہ اس  ؃" ماحولیات کے دن  "پر کچھ پیڑ ضرور لگائیں    اور  ماحولیات کی خدمت کے لئے  کچھ ایسا  ضرور کریں ، جس سے فطرت کے ساتھ آپ کا ہر دن   تعلق قائم رہے ۔ ہاں : گرمی بڑھ رہی ہے  ، اس لئے پرندوں کے لئے پانی کا انتظام  کرنا مت بھولیئے گا ۔

ساتھیو ، ہم سب کو یہ بھی دھیان رکھناہو گا   کہ اس سخت تپسیا کے بعد ، اتنی مشکلوں کے بعد ملک نے ، جس طرح حالات  سنبھالیں ہیں ، اُسے بگڑنے نہیں دینا ہے ۔ ہمیں اس لڑائی کو   کمزور نہیں ہونے دینا ہے ۔ ہم لاپرواہ ہو جائیں ، احتیاط چھوڑ دیں ، یہ کوئی متبادل نہیں ہے  ۔ کورونا کے خلاف لڑائی اب بھی  اتنی ہی سنگین ہے ۔

آپ کو ، آپ کے خاندان کو کورونا سے ابھی بھی  اتنا ہی سخت خطرہ ہو سکتا ہے  ۔  ہمیں  ہر انسان  کی زندگی کو بچانا ہے ، اس لئے دو گز کی دوری، چہرے پر ماسک   ، ہاتھوں   کو دھونا  ، ان سب احتیاط   پر ویسے ہی عمل کرتے رہنا ہے ، جیسے ابھی تک کرتے آئے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اپنے لئے ، اپنوں کے لئے ، اپنے ملک کے لئے یہ احتیاط ضرور برتیں گے ۔ اس یقین کے ساتھ  آپ کی اچھی صحت کے لئے میری دِلی نیک خواہشات ہیں ۔ اگلے مہینے پھر ایک بار مَن کی بات  بہت سے نئے  موضوعات کے ساتھ  ضرور کریں گے ۔

شکریہ  !

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( م ن ۔ و ا ۔ ع ا ) (31-05-2020)

U. No.  2925

 



(Release ID: 1628183) Visitor Counter : 511