سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت
کووڈ۔ انیس کے پھیلنے کی نگرانی اور اس پر قابو پانے کے لئے ڈیجیٹل نگرانی
نگرانی تین سطحوں پر کی جائے گی: وائرس ، مریض اور مریض کا کلینیکل کورس
Posted On:
24 APR 2020 6:31PM by PIB Delhi
نئی دہلی، 24 اپریل 2020، سینٹر فار سیلولر اینڈ مالکیولر بائیولوجی (سی سی ایم بی) اور انسٹی ٹیوٹ آف جینیٹکس اینڈ انٹگریٹڈ بائیولوجی( آئی جی آئی بی)، کچھ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر نوول کورونا وائرس کے پھیلاو کی بائیولوجی، وبائی بائیولوجی اور بیماری کا اثر سمجھنے کے لئے ڈیجیٹل اور سالماتی نگرانی کے لئے کام کر رہے ہیں۔
اس بھیانک نوول کورونا وائرس سے کیوں کچھ انفیکشن کے شکار لوگوں میں علامت بھی دکھائی نہیں دیتی ہے اورصرف بیماری چھوڑتے ہیں؟ کیوں کچھ لوگ اس کی زد میں آتے ہیں اورپھر موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں، جبکہ کچھ دوسرے وائرس کے چنگل سے باہر نکل آتے ہیں؟ کیا وائرس اتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ ٹیکے اور دواوں کے ڈیولپمنٹ کی سمت میں ہماری کوششیں بیکار ہو جائیں گی یا یہ تبدیلی بہت ہی معمولی ہے؟ ایسے بہت سارے سوالات زیربحث ہیں ، جن کا جواب پوری دنیا کے سائنس داں تلاش کر رہے ہیں۔
نوول کورونا وائرس کی ڈیجیٹل اور سالماتی نگرانی کے ساتھ سائنس داں ابھی تک نا معلوم پہلووں کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سنٹر آئی جی آئی بی میں قائم کیا جائے گا جہاں پر تمام لیبز ، ریسرچ سنٹرز اور اسپتال، کلاؤڈ شیئرنگ کے ذریعے اپنے ڈیٹا شیئر کریں گے۔
یہ نگرانی تین سطحوں پر کی جائے گی: وائرس ، مریض اور مریض کا کلینیکل کورس۔ وائرس کی سطح پر نگرانی، وائرس کے جینوم کو ریفر کرتا ہے۔ اس کے لئے سی سی ایم بی ایک اہم رول نبھاتا ہے۔ کیونکہ یہ جینوم سلسلوں کو دستیاب کرائے گا۔ سی سی ایم بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راکیش مشرا نے انڈیا سائنس وائر سے کہا’’ ہم جینوم ترتیب اور نمونے کی جانچ کے بارے میں جانکاری فراہم کریں گے۔ جیسا کہ ہم وسیع پیمانے پر جانچ کر رہے ہیں، ہم نمونوں کے نتائج فراہم کر سکتے ہیں جس کا استعمال پھیلنے، الگ تھلگ اور متعدد قسم کی متعلقہ معلومات کو سمجھنے کے لئے کیا جا سکتا ہے‘‘۔
دوسرا حصہ مریضوں کے اعداد و شمار سے متعلق ہے جو کلینیکل نمونوں والے مریضوں کی تفصیلات ہے۔ کلینیکل کورس کی تفصیلات، کلینیکل کیئر ڈیٹا یا اسپتال کا ڈیٹا ہوگا جن سے نتائج سامنے آتے ہیں۔ کچھ مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے ، جبکہ کچھ خود ہی ٹھیک ہونے کے اہل ہوتے ہیں۔ کچھ مریضوں میں جان لیوا سائٹوکائن اسٹارم ڈیولپ ہوتا ہے، بہت سے لوگ انفیکشن سے آسانی سے بچ کر نکلنے میں اہل ہوتے ہیں۔ آئی جی آئی بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوراگ اگروال نے کہا کہ ’’ہم ان تمام چیزوں کے لئے ملک گیر سطح پر امراض پر قابو پانے سے متعلق قومی مرکز (این سی ڈی سی) کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ہم مقامی اسپتالوں کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم ملک بھر کے تمام اسپتالوں سے پوچھ رہے ہیں تاکہ آخری حصے تک ہماری زیادہ سے زیادہ رسائی ہو سکے۔ ہم ایک اینڈ ٹو اینڈ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہم سبھی چیزوں کے ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں‘‘۔ جانچ کے اعداد و شمار کا استعمال کر کے جو انفیکشن کے شکار لوگوں اور ہلکے اثر والی علامت رکھنے والے لوگوں کی پہچان کرتے ہین، اس مطالعہ میں اسپتال نیٹ ورک کے باہر انفیکشن کے شکار لوگ بھی شامل کئے جائیں گے۔ اس نگرانی میں اس آبادی پر نظر رکھی جا سکے گی جس میں پھیلاؤ خطرناک ہے اور جس آبادی میں پھیلاؤ کو قابو میں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اگروال کے مطابق ، سب کچھ کھلے لیکن خفیہ شکل میں کیا جائے گا۔ اخلاقیات کے معاملے میں یہ خفیہ ہو گا اور کسی بھی ایسے شخص کے لئے کھلا ہو گا جو حکومت کے مطابق رسائی کا اہل ہے۔ ڈیٹا کو کسی کے ذریعہ ڈاؤن لوڈ نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ اس کا کچھ حصہ خفیہ ہوسکتا ہے۔ تاہم ، اگر حکومت میں سے کوئی بھی صحیح وجوہات کی بناء پر ڈیٹا پر نگاہ رکھنا چاہتا ہے تو اعداد و شمار فراہم کیے جائیں گے اور پھر رازداری کی سطح بھی مختلف ہوگی۔ “وائرل جینوم کو عوامی امانتوں میں رکھا جائے گا۔ ہسپتال کے کورس اور کسی بھی معلومات کی مکمل شناخت کی جائے گی۔ لیکن ہمیں صرف شناخت شدہ ڈیٹا ہی ملتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار حکومت کو فراہم کیے جائیں گے تاکہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے شروع کردہ آروگیہ سیتو ایپ سے اس کو جوڑا جاسکے۔ اس کا مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ڈاکٹر اگروال کہتے ہیں کہ ایسے کسی بھی شخص کا جو دئیے گام میں ڈیٹا کا تعاون کرنے اور اس کوشش کا حصہ بننے کا خواہش مند ہے ، اس کا ہماری طرف سے خیر مقدم ہے۔
(کلیدی الفاظ: ڈیجیٹل نگرانی ، ڈیٹا ، جینوم کی ترتیب ، طبی اعداد و شمار ، آروگیہ سیتو ، سی سی ایم بی ، آئی جی آئی بی)۔
۰۰۰۰۰۰۰۰
(م ن- ن ا، ن ر)
U-2036
(Release ID: 1618240)
Visitor Counter : 184