وزیراعظم کا دفتر

اکنامک ٹائمز گلوبل بزنس سمٹ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 06 MAR 2020 11:00PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 07  مارچ 2020 / گلوبل بزنس سمٹ کے اس منچ پر، پوری دنیا سے آئے ماہرین کے درمیان ، اکنامک ٹائمز نے مجھے اپنی بات رکھنے کا موقع دیا  ہے۔ آج صبح سے آپ جب سے یہاں بیٹھے ہیں ، یہاں کئی موضوعات پر   بحث ہوئی ہے،  بزنس ورلڈ کے ممتاز لوگوں نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور خیالات کے اس بہاؤ میں جو مشترکہ بات ہے – وہ ہے پائیدار ترقی کے لیے تعاون اور ترقی کے لیے تعاون کا یہ ویژن آج کی ضرورت بھی ہے اور مستقبل کی بنیاد بھی۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ویژن اچانک گزشتہ کچھ برسوں کے خیالات سے نکل کر آیا ہو، ایسا بھی نہیں ہے۔ بکھراؤ سے کیا کیا نقصان ہوتا ہے، اِس کا دنیا کو تجربہ ہے۔ جب ساتھ چلے تو سنبھل گئے، جب آمنے سامنے ہوئے تو بکھر گئے۔

تخلیق کے لیے تعاون کا خیال جتنا پروانا ہے اتنا ہی موزوں بھی ہے۔  ہر دور میں نئے چیلنج سامنے آتے ہیں - ہمارے تخلیق کے لیے تعاون کے جذبے کا امتحان لینے اور اُسے مستحکم کرنے کے لیے ۔

جیسے آج کرونا وائرس کی شکل میں ایک بہت بڑا چیلنج دنیا کو درپیش ہے ، مالیاتی اداروں نے اسے مالی دنیا کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج سمجھا ہے۔ آج ہم سب کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔ تخلیق کے لیے تعاون کے عزم کے ساتھ ہمیں کامیاب ہونا ہے۔

دوستو ،

فریکچرڈ ورلڈ کے فلسفے پر بھی آپ یہاں غور و خوض کرنے والے ہیں۔ حقیقی  فریکچرز ، اوور امیجنڈ  فریکچرز اور اس کے ذمہ دار عوامل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

ساتھیوں، ایک دور ایسا تھا جب ایک خاص طبقے  کے  پیش گوئوں کے مطابق چلا کرتی  تھیں۔جو رائے اس نے دے دی اسی کو حتمی سمجھا تھا۔ لیکن ٹکنالوجی کی ترقی سے اور  گفتگو کے 'ڈیمو کریٹائزیشن ' سے اب آج سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے۔  آج عوام اپنی رائے کو بہت مضبوطی کے ساتھ ، آج مقررہ نام نہاد دانشمندی کے برخلاف بڑی طاقت کے ساتھ درج کرا رہے ہیں۔ پہلے انہیں عوام کی امیدوں ، توقعات پر ہر خاص طبقے کی دلیلوں اور تھیوری حاوی ہو جاتی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ تھی کہ جب ہم ۔۔۔  آپ لوگوں میں ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا۔۔۔۔ 2014 میں پہلی بار اِس کام کو سنبھالا تو ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ٹائلیٹ ، بجلی کنکشن، گیس کنکشن، اپنا گھر، ان جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہا تھا۔

ساتھیوں ، ہمارے سامنے راستہ تھا کہ پہلے جو چلتا آرہا ہے، اسی راستے پر چلیں یا پھر اپنا نیا راستہ تیار کریں، نئے نظریے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ہم نے بہت غور و خوض کے ساتھ طے کیا ۔۔۔ ہم نے نیا راستہ بنایا، نئے نظریے کے ساتھ آگے بڑھے اور اِس میں سب سے زیادہ ترجیح دی لوگوں کی توقعات کو۔

اس دوران ، ملک میں انتخابات بھی ہوئے، ہمارے کاموں پر مہر بھی لگی، لیکن ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی۔ آج، عالمی بزنس سمٹ میں، میں آپ کے سامنے اسے بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں اس ہال میں بیٹھے ساتھی ضرور میری بات پر دھیان دیں گے!!!

دوستوں،

جس طبقے کی بات میں آپ سے کر رہا تھا اس کی ایک بہت بڑی پہچان ہے- 'حق باتیں کرنا'۔ یعنی ہمیشہ صحیح بات کہنا۔ صحیح بات کہنے میں کوئی برائی بھی  نہیں ہے ۔لیکن اس طبقے کو ایسے لوگوں سے نفرت ہے، چڑھ ہے، جو حق بات  کہنے  کی پیروی کرتے ہیں، اس لیے جب صورتحال میں تبدیلی آتی ہے  تو ایسے لوگوں کو کچھ خاص طرح کی خرابیاں دکھائی دینے لگتی ہے۔ آپ غور کیجیے جو لوگ خود کو صنفی صنف انصاف کا مسیحا بتاتے ہیں وہ تین طلاق کے خلاف قانون بنانے کے ہمارے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو لوگ دنیا بھر کو پناہ گزینوں کے حقوق کا درس دیتے ہیں، وہ پناہ گزینوں کے لیے جب سی اے اے کا قانون بن رہا ہے ، تو مخالفت کرتے ہیں۔  جو لوگ دن رات آئین کی دہائی دیتے ہیں وہ آرٹیکل 370 جیسے عبوری نظام کو ہٹا کر جموں و کشمیر  میں پوری آئین کو نافذ کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو لوگ انصاف کی بات کرتے ہیں وہ  سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ان کے خلاف جانے پر ملک کے سپریم کورٹ کی نیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ .

ساتھیوں، آپ میں سے کچھ نے  رام چرت مانس کی یہ چوپائی ضرور سنی ہوگی۔

پر اپدیش کُشل بہو تیرے ۔ جے آچر ہیں تے نر نہ گھنیرے۔

یعنی ، دوسروں کو ہدایت دینا بہت آسان ہے ، لیکن خود ان تعلیمات پر عمل کرنا بہت مشکل ہے ۔جب تک اسٹیٹس کو باقی رہتا ہے ، انہیں دقت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ مانتے ہیں کہ ‘بے عملی سب سے آسان عمل ہے۔’ لیکن ہمارے لئے قوم کی تعمیر ، ملک کی ترقی ، اچھی حکمرانی ، سہولت کی بات نہیں  بلکہ ہمیں پکا یقین ہے۔ صحیح کام کرنے کا پکا یقین، جمود کو توڑنے کا یقین۔

ساتھیوں، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو فطری طور پر اپنے خیالات کے قیدی بن جاتے ہیں۔ اپنے خیالات کے عمل کے وہ زندگی بھر قیدی رہتے ہیں۔ یہ لوگ اسی میں خوش رہتے ہیں، مزے کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ،  اسٹیٹس کو میں رہنے کو ہی اپنی زندگی کی قدر بنا لیتے ہیں۔  ان کے دباؤ سے الگ ، ہماری حکومت ملک کے تمام نظاموں کو پرانے خیالات کی قید سے آزادی دلانے کا کام کر رہی ہے۔ ایک ایک کرکے ہم ہر شعبے کو بے عملی کی سہولت سے باہر نکال رہےہیں۔  ڈی بی ٹی یعنی فائدے کی براہ راست منتقلی کے ذریعے ہم اسٹیٹس کو میں بہت بڑی تبدیلی لائی ہے اور ہزاروں کروڑ روپیوں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچایا ہے۔

ریرا قانون بنا کر کے ، ہم نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو کالے دھن کے چنگل سے آزاد کرنے کا بہت بڑا قدم اٹھایا ہے، اور متوسط ​​طبقے کی رسائی اس کے خوابوں کے گھر تک بنائی۔

نجات  کی یہ مہم کارپوریٹ ورلڈ میں بھی چلی۔ آئی بی سی بنا کر ہم نے اسٹیٹس کو تبدیل کیا اور ہزاروں کروڑ روپے کی واپسی کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی مصیبت میں پھنسی کمپنیوں کو ایک راستہ بھی دکھایا،  ورنہ ہمارے وہاں  ون وے تھا۔۔۔ آ تو سکتے تھے، لیکن نکل نہیں سکتے تھے۔ ہم نے نکلنے کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔

مُدرا یوجنا بنا کر بھی ، ہم نے بینکنگ کے نظام کو پرانی سوچ سے نکال اور گیارہ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ بغیر بینک گارنٹی لوگوں کو ، نوجوانوں کو، خواتین کو، پہلی بار کے صنعت کار کو ہم نے اپنے روزگار کے لیے دیے۔ ایسے ہی ہم نے چیف آف ڈیفینس اسٹاف – سی ڈی ایس بنا کر اسٹیٹس کو کو تبدیل کیا  اور ہماری فوجوں میں بہتر ہم آہنگی اور تعاون کو یقینی بنایا۔  عام طبقے کے غریبوں کو 10 فیصد ریزرویشن دے کر بھی ہم نے نظام میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی اور غریب کی بہت بڑی فکر دور کی۔

ساتھیوں ،

2014 کے بعد سے ، ملک جذبے میں تعاون ، عمل میں تعاون اور خیالات کے میل کو لے کر آگے چلا ہے۔ آج ہندوستان پائیدار ترقی  کا ایک ایسا ماڈل تیار کر رہا ہے جو پوری دنیا کے لیے مفید ہوگا۔ دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی شمولیت کا پروگرام ، دنیا بڑا صفائی ستھرائی کا پروگرام، دنیا کی  سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم  ایسی بہت سی اسکیمیں ہیں جس کے تجربے دنیا کی ترقی میں مدد کر رہے ہیں۔ 21 ویں صدی کا ہندوستان بہت کچھ سیکھ رہا ہے اور ملک کے لوگوں تک ترقی کا فائدہ پہنچانے کے لیے اُتنا ہی تیار بھی ہے۔

دوستوں ،

الگ الگ شعبوں میں، الگ الگ میدانوں میں  اس کے نتائج واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ چھ سال پہلے ملک میں شاہراہوں کی تعمیر کی رفتار قریب 12 کلومیٹر یومیہ تھی، آج یہ تیس کلومیٹر کے آس پاس ہے۔ 6  سال پہلے حالت یہ تھی کہ ایک سال میں چھ سو کلومیٹر ریلوے لائن کا الیکٹریفکیشن ہو رہا تھا۔ پچھلے سال ہم نے پانچ ہزار 300 کلومیٹر ریلوے روٹ کی بجلی کاری  کی ہے۔  6 سال پہلے ، ہمارے ہوائی اڈے  تقریباً 17 کروڑ مسافروں کو ہینڈل کر رہے تھے اب 34 کروڑ سے زیادہ کو ہینڈل کر رہے ہیں۔

6 سال پہلے ، ہمارے میجر پورٹس پر کارگو ہینڈلنگ تقریبا  550 ملین ٹن کے آس پاس تھی۔ اب یہ بڑھ کر  700 ملین ٹن کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اور ایک اہم چیز ہوئی ہے جس کی طرف بھی آپ کا دھیان دینا ضروری ہے ، یہ ہے میجر پورٹس پر ٹرن اراؤنڈ ٹائم ، 6 سال پہلے  پورٹس پر ٹرن اراؤنڈ ٹائم قریب 100 گھنٹے کے آس پاس ہوتا تھا، اب یہ کم ہوکر 60 گھنٹے ہوچکا ہے۔ اسے مزید کم کرنے کے لئے مسلسل کام جاری ہے۔

ساتھیوں،  یہ پانچ - چھ مثالیں کنکٹیویٹی سے متعلق ہیں۔ یہاں اس ہال میں بیٹھے ہر ایک شخص کو معلوم ہے کہ کنکٹیویٹی، انفراسٹرکچر ، گورننس .. اس کا معاشی سرگرمیوں پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ کیا اتنی بڑی تبدیلی ایسے ہی ہو گئی ؟ نہیں۔ ہم نے سرکاری محکموں میں سائلو کو ختم کرنے کی کوشش کی ، منظم کوششیں کیں اور تعاون پر زور دیا۔  بالکل زمینی سطح پر جاکر چیزوں کو درست کیا۔ آج جو ہوائی اڈوں پر کام ہو رہا ہے ، ریلوے اسٹیشنوں پر کام ہو رہا ہے، وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگ کیا ڈیزرو کرتے ہیں اور انہیں کیا ملا تھا۔ اس کا فرق سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔

ساتھیوں، کچھ  سال پہلے آئے  دن ریلوے کراسنگ پر حادثات کی اطلاعات موصول ہوتی تھیں ، کیوں؟ کیونکہ 2014 سے قبل ملک میں براڈ گیج لائن پر تقریبا 9 ہزار بغیر  چوکیدار والی ریلوے کراسنگ تھی۔  2014 کے بعد ، ہم نے مہم چلا کر براڈ گیج ریلوے لائن کو بغیر چوکیدار والی  کراسنگ نجات دلائی۔ کچھ ایسا ہی حال بائیو ٹائلیٹس کا بھی تھا، پہلی کی حکومت کے وقت میں تین سال میں 9 ہزار 500 بائیو ٹوائلٹ بنے تھے، ہماری حکومت نے پچھلے 6 سالوں میں ، ریلوے کوچز میں سوا دو لاکھ  سے بھی زیادہ بائیو ٹوائلٹ لگاوائے  ہیں۔ کہاں نو ہزار اور کہاں سوا دو لاکھ۔۔۔

دوستوإ ، کوئی تصور نہیں  کر سکتا تھا۔۔۔ کہ ہندوستان میں ٹرین لیٹ ہونا۔۔۔ شاید یہ خبروں کے دائروں سے باہر نکل گیا۔۔۔ یہ تو ہوتا ہی ہے۔۔۔ ٹرین تو لیٹ ہوتی ہی ہے۔۔۔ اِس ملک میں پہلی بار اُس کلچر کو لایا گیا ہے جہاں پر ٹرین لیٹ ہونے پر مسافروں کو ریفنڈ دیا جا رہا ہے۔ ۔۔شروعات کی ہے، تمام ایئرلائنز بھی لیٹ ہونے پر ریفنڈ نہیں دیتی۔ لیکن آج ٹرین لوٹ ہونے پر مسافروں کو ریفنڈ دیا جا رہا ہے۔ تیجس ٹرین سے چلنے والوں کو ہم نے یہ سہولت دی ہے ، ہمیں پتا ہے ، ہم نے یہ کتنا رسکی کام کیا ہے، فوراً آر ٹی آئی والے آج رات کو ہی آر ٹی آئی ڈالیں گے۔۔۔ صحافی بھی نکل پڑیں گے۔۔ پوچھیں گے کہ کتنا ریفنڈ کیا؟ لیکن ہمیں اطمینان ہے کہ اتنا کانفیڈینس ہے کہ ملک کو اُس سمت میں لے جا سکتے ہیں، جس میں اگر ٹرین لیٹ ہوگی تو سرکار ذمہ دار ہوگی۔

 

ساتھیوں ،

اقتصادی ہو یا سماجی، آج ملک تبدیلیوں کے ایک بڑے دور سے گزر رہا ہے۔

گذشتہ کچھ برسوں میں، ہندوستان عالمی معیشت کے نظام کا  اور بھی مضبوط حصہ بن گیا ہے ۔لیکن الگ الگ  وجوہات سے ، بین الاقوامی حالات ایسے ہیں کہ عالمی معیشت کمزور اور مشکل حالت میں ہے۔  پھر بھی، اس کا اثر ہندوستانی معیشت پر اس کا اثر کم سے کم کیسے ہو۔۔۔ اس پر جتنے ہم پہل کر سکتے ہیں، جتنے پروایکٹیو ایکشن لے سکتے ہیں۔۔۔ ہم لیتے رہیں گے۔۔۔ اور اس کا فائدہ بھی ملا ہے۔  ہماری پالیسیاں واضح ہیں ، ہماری بنیادی باتیں مضبوط ہیں، ابھی حال ہی میں ہندوستان دنیا کی 5 ویں سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے ۔جب ہم 2014 میں آئے تھے تب ہم گیارہویں مقام پر تھے، اب پانچ پر پہنچ گئے ہیں۔

دوستوں، بھارت 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کا ہدف حاصل کرے، اس کے لیے ہماری حکومت  چار الگ الگ سطحوں پر کام کر رہی ہے۔

پہلا - نجی شعبے کے ساتھ تعاون

دوسرا – منصفانہ مسابقت

تیسرا - دولت کی تخلیق

اور چوتھا -  پرانے قوانین کو ختم کرنا

ساتھیوں، ہم نے انفراسٹرکچر کے شعبے میں 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے لئے روڈ میپ تیار کیا ہے ، ہم نے پی پی پی سے پی پی پی کو تقریت دینے کا  راستہ چنا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے ملک کی ترقی کو پاورفل پروگریشیو پُش !!!

یہ بھی ایک تجربہ رہا ہے جس میدان میں نجی شعبے کو  مسابقت کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے، وہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے اس لیے ہماری حکومت معیشت کے زیادہ سے زیادہ سیکٹرز کو نجی شعبے کے لیے کھول رہی ہے۔

ساتھیوں ،

ایمانداری کے ساتھ جو آگے بڑھ رہا ہے ، مقابلہ دے رہا ہے ، دولت پیدا کررہا ہے، حکومت اس کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے ۔ اس کے لئے ، قانون کو مسلسل آسان بنایا جارہا ہے ، پرانے قوانین کو ختم کیا جارہا ہے ، منصفانہ مسابقت کو بڑھانے کے لئے ، ہم بدعنوانی اور کرونیزم دونوں سے سختی سے نمٹ رہے ہیں۔  بینکنگ ہو، ایف ڈی آئی پالیسیاں ہوں یا پھر قدرتی وسائل کا الاٹمنٹ ، کرونیزم کو ہر جگہ سے ہٹایا جا  رہا ہے۔ ہم نے دھیان دیا ہے – آسان بنانے پر -  مدلل بنانے پر ، شفافیت پر۔ ٹیکس کے تنازعات کو حل کرنے کے لئے اب ہم اس بجٹ میں  "وواد سے وشواس" کے نام سے ایک نئی اسکیم لے کر آئے ہیں۔ لیبر اصلاحات کی سمت میں ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، ابھی پرسوں ہی،  حکومت نے کمپنی ایکٹ میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے کئی ضابطوں کو ڈی کریمنلائز کر دیا ہے۔

ساتھیوں ، آج ہندوستان دنیا کے ان اہم ممالک میں شامل ہے جہاں کارپوریٹ ٹیکس سب سے کم ہے ۔ کاروبار کرنے کی آسانی کی درجہ بندی میں صرف 5 سال میں ریکارڈ 77 درجوں کی  بہتری لانے والا ملک بھی بھارت ہی ہے ۔حکومت کی ان کوششوں کے درمیان ، غیر ملکی سرمایہ کاروں کا بھی ہندوستانی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ آپ نے کچھ دیر پہلے ہی یہاں  بلیک اسٹون کے سی ای او کو سنا۔وہ کہہ رہے تھے کہ ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ منافع دیتا ہے اور وہ اپنی سرمایہ کاری کو دوگنا کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

ساتھیوں ،

 2019 میں ہندوستان میں تقریباً  48 بلین ڈالر کی  براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آئی۔ یہ نمو 16 فیصد سے زیادہ تھی اسی طرح ہندوستان میں گذشتہ سال 19 بلین ڈالر کی نجی ایکویٹی اور وینچر کیپٹل انویسٹمنٹ ہوئی تھی۔ اس میں اضافہ 53 فیصد سے زیادہ تھا۔غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کار بھی ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کررہے ہیں۔ پچھلے سال ، یہ  سرمایہ کاری تقریبا 19 بلین  ڈالر تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ نئے آپشن کی تلاش کرنے والے سرمایہ کار بھی ہندوستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ساتھیوں ،

ہماری حکومت تمام متعلقین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے ، لگاتار فڈبیک لیتے ہوئے، ہر موقعے پر بڑے فیصلے  کر رہی ہے۔ ملک کو اسٹیٹس کو سے نجات دلاتے ہوئے، ہم نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تعاون سے تخلیق کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ کو یاد ہوگا ، جب اقوام متحدہ میں انٹرنیشنل یوگا ڈے کی تجویز پیش کی گئی تھی ، تو ہندوستان قریب قریب پوری دنیا کی حمایت ملی تھی۔ اور شاید اقوام متحدہ کی تاریخ میں کسی بھی قرارداد کو دنیا کے اتنے ممالک کی حمایت ملی ہو یہ پہلی بار ہوا۔ اور یوگا کا اثر یہ ہوا کہ شاید پہلی بار آپ کی سمٹ میں کسی نے میڈیٹیشن کروایا ہوگا۔

دوستوں،

آج ، ہندوستان امن بحالی دستوں میں سب سے زیادہ شرکت کرنے والے ملکوںمیں  سے ایک بن گیا، دوسرے ملکوں کے شہریوں کے حفاظت کے لیے بھی سب سے پہلے آگے آرہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، آج ہندوستان بین الاقوامی سطح کے اداروں کی تعمیر میں بڑا رول ادا کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل سولر ایلائنس ہو یا پھر آفات کا سامنا کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے لیے اتحاد ، مستقبل کو سمت دینے والے ایسے ادارے ہندوستان کی پہل پر ہی شروع ہوئے ہیں۔ اور آج پوری دنیا اس کے ساتھ جڑنے لگی ہے۔ لیکن دوستوں، اسٹیٹس کو کی حمایت کرنے والی تبدیلیوں کی مخالفت کرنے والی جیسی طاقتیں ہمارے ملک میں ہیں ، ویسی ہی طاقتیں اب عالمی سطح پر بھی مضبوطی سے متحد ہو رہی ہیں۔

ساتھیوں،

تاریخ  میں ایک ایسا دور تھا جس میں سے ہر کوئی جدوجہد کے راستے پر ہی چل پڑا تھا۔ تب کہا جاتا تھا – مائٹ از رائٹ۔ پھر ایک ایسا دور آیا جس میں یہ سوچ حاوی رہی ہے کہ ہم اس گروپ کے ساتھ رہیں گے ، تبھی ٹک پائیں گے۔ وہ وقت بھی گیا، پھر ایک ایسا وقت بھی آیا لوگوں نے ناوابستگی کی بھی کوششیں کیں۔ پھر ایسا بھی ایک دور آیا جس میں اہمیت کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینے کی سوچ حاوی ہو گئی۔

اب آج کا دور دیکھیے۔ ٹینالوجی کی اس دور میں آج دنیا، انٹر کنکٹڈ ہے، انٹر رلیٹیڈ ہے اور انٹر ڈیپینڈینٹ بھی ہے۔ یہ اسی ایک صدی کی تبدیلیاں ہیں۔۔۔ عالمی سطح پر آنے تبدیلیاں ہیں۔

لیکن پھر بھی ،ایک عالمی ایجنڈے کے لیے کسی بھی عالمی نشانے کے لیے ایک بہت بڑا عزم دنیا کی غریبی کو کیسے دور کریں، دہشت گردی کو کیسے ختم کریں، آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کو کیسے ہینڈل کریں، آج بھی دنیا ایک منچ پر نہیں آپا رہی ہے۔ آج پوری دنیا کو اس کا انتظار ہے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔

ساتھیوں،

اکیسویں صدی اپنے آپ میں بہت سے امکانات سے بھری ہوئی  ہے۔ان امکانات کے درمیان ، آج ایک مشترکہ عالمی آواز کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ایک ایسی آواز جس میں سُر بھلے ہی الگ الگ ہوں لیکن یہ مل کر ایک سُر کی تیار کریں۔ ایک سُر میں اپنی آواز اٹھائیں۔ آج پوری دنیا کے سامنے یہ سوال ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات میں کس طرح ایڈجسٹ ہوکر گزارا کریں۔ یا پھر نئے طریقے سے نئے راستے کا فروغ کریں۔

ساتھیوں ،

بدلتے ہوئے عالمی حالات کے درمیان ، ہندوستان نے بھی بہت وسیع تبدیلیاں کی ہیں۔ ایک دور تھا جب ہندوستان غیر جانبدار تھا ، ہم غیر جانبدار تھے ، لیکن ممالک سے برابر کا فیصلہ باقی رہا، تبدیلی کیسے آئی ہے ۔۔۔ آج بھی ہندوستان غیرجانبدار ہے، ہم غیر جانبدار ہیں ، لیکن فاصلے کی بنیاد پر نہیں، دوستی کی بنیاد پر ۔ ہم سعودی عرب کے ساتھ  بھی دوستی کرتے ہیں…. ایران کے ساتھ  بھی دوستی کرتے ہیں۔ہم امریکہ کے ساتھ   بھی دوستی کرتے ہیں۔ ہم روس کے ساتھ بھی دوستی کرتے ہیں۔ تب بھی ہم غیر جانبدار ہیں… ایک وقت تھا جب لوگ برابری کا فاصلہ بنا  کر غیر جانبدار تھے ، ہم برابر کی  دوستی کر کے  غیر جانبدار ہیں۔اس دور میں ، فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ،  بچنے کی کوشش کی گئی ، آج ہم دوستی رکھ کر ساتھ چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی، ہندوستان کی آج کی معاشی پالیسی کا ہی اختصار ہے۔

ساتھیوں، میں مہاتما گاندھی جی کی ایک بات کے ساتھ اپنی بات ختم کررہا ہوں ۔گاندھی جی کہتے تھے  "میں ہندوستان کا عروج اس لیے چاہتا ہوں کہ پوری دنیا اس سے فائدہ اٹھا سکے"۔ اس ایک لائن میں عالمگیریت کی ہندوستانی سوچ اور مستقبل کے لئے باہمی تعاون کا منتر بھی ہے۔

میں پھر ایک بار  اتنے اہم موضوع پر آپ نے غور و خوض کی جو اسکیم بنائی ہے اس کے لیے میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ اور مجھے آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا اس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور سبھی کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ شکریہ!!!

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 م ن۔ ا گ ۔ م ت ح ۔

-U1104


(Release ID: 1605681) Visitor Counter : 188