وزیراعظم کا دفتر

نئی دہلی میں پہلی بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس 2020 میں وزیر اعظم کے افتتاحی خطاب کا متن

Posted On: 22 FEB 2020 11:45AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی، 22 فروری؍            

چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بوبڈے، وزیر قانون روی شنکر پرساد جی، اسٹیج پر موجود سپریم کورٹ کے جج حضرات، اٹارنی جنرل آف انڈیا، اس کانفرنس میں آئے دنیا کی دیگر عدالت عالیہ کے جج صاحبان، ہندوستان کے سپریم کورٹ  اور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان، مہمانان گرامی، خواتین وحضرات !

دنیا  کے کروڑوں شہریوں کے لیے انصاف اور وقار کو یقینی بنانے والے آپ سبھی ماہرین کے درمیان آنا، اپنے آپ میں بہت خوشی کا احساس دلاتا ہے۔انصاف کی جس کرسی پر آپ سبھی بیٹھتے ہیں، وہ سماجی زندگی میں اعتماد اور بھروسے کا اہم مقام ہے۔

آپ سبھی کا بہت بہت خیر مقدم

ساتھیوں،

یہ کانفرنس، 21ویں صدی کی تیسری دہائی کی شروعات میں ہو رہی ہے۔ یہ دہائی ہندوستان سمیت پوری دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی دہائی ہے۔ یہ تبدیلیاں سماجی، اقتصادی اور تکنیکی ہر محاذ پر ہوں گی۔

یہ تبدیلی متوازن ہونی چاہئے اور انصاف پر مبنی بھی ہونی چاہئے،  یہ تبدیلی سب کے مفاد میں ہونی چاہئے، مستقبل کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ہونی چاہئے اور اس لیے عدلیہ اور بدلتی دنیا پر غور وفکر بہت اہم ہے۔

ساتھیو، یہ ہندوستان کے لیے بہت ہی خوشی کا موقع بھی ہے کہ یہ اہم کانفرنس، آج اُس دور میں ہو رہی ہے جب ہمارا ملک، بابائے قوم مہاتماگاندھی کی 150ویں سالگرہ منا رہا ہے۔

قابل پرستش بابو کی زندگی سچ اور خدمت کے لیے وقف تھی جو کسی بھی انصاف کے وسائل کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ اور ہمارے باپو خود بھی تو وکیل تھے، بیرسٹر تھے۔ اپنی زندگی کا جو پہلا مقدمہ انھوں نے لڑا، اس کے بارے میں گاندھی جی نے بہت تفصیل سے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے۔

گاندھی جی تب بمبئی، آج کے ممبئی میں تھے۔ جدوجہد کے دن تھے۔ کسی طرح پہلامقدمہ ملا تھا۔ لیکن انھیں کہا گیا تھا کہ اس کیس کے عوض انھیں کسی کو کمیشن دینا ہوگا۔ گاندھی جی نے صاف کہہ دیا تھا کہ کیس ملے یا نہ ملے، کمیشن نہیں دوں گا۔ سچ کے تئیں، اپنے افکار کے تئیں گاندھی جی کے دل  میں اتنی وضاحت تھی اور یہ وضاحت آئی کہاں سے؟ ان کی پرورش، ان کے برتاؤ اور ہندوستانی فلسفہ کے مسلسل مطالعہ سے۔

دوستوں،

ہندوستانی سماج میں قانون کی حکمرانی، سماجی برتاؤ کی بنیاد رہی ہے۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے क्षत्रयस्य क्षत्रम् यत धर्म: یعنی قانون بادشاہوں کا بادشاہ ہے، قانون سب سے بالاتر ہے۔ ہزاروں سال سے چلی آرہی ایسی ہی سوچ، ایک بڑی وجہ ہے کہ ہر ہندوستانی کا عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے۔

ساتھیوں،

حال میں کچھ ایسے بڑے فیصلے آئے ہیں، جو  پوری دنیا میں بحث  کا موضوع بنا ہوا تھا۔ فیصلے سے پہلے مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ 130 کروڑ ہندوستانیوں نے عدلیہ کے ذریعہ دیئے گئے ان فیصلوں کو پوری رضامندی کے ساتھ تسلیم کیا۔ ہزاروں سال سے ہندوستان، انصاف کے تئیں اعتقاد کے انھیں اقدار کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہی ہمارے آئین کی بھی  تحریک بنی ہے۔ پچھلے سال ہی ہمارے آئین کو 70 سال  مکمل ہوئے ہیں۔

آئین کے معمار ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا ‘‘آئین محض وکیلوں کا ایک دستاویز نہیں ہے، یہ زندگی کی ایک گاڑی ہے اور اس کی روح ہمیشہ  عہد کی روح ہے’’۔

اسی جذبے کو ہمارے ملک کی عدالتوں، ہمارے سپریم کورٹ نے آگے بڑھایا ہے۔ اسی جذبے کو ہمارے قانون ساز اور مقننہ نے زندہ رکھا ہے۔ ایک دوسرے کے حدود کو سمجھتے ہوئے، تمام چیلنجوں کے درمیان کئی بار ملک کے لیے آئین کے تینوں ستونوں نے مناسب راہ تلاش کی ہے۔ اور ہمیں فخر ہے کہ ہندوستان میں اس طرح کی  ایک  خوشحال روایت رواج پائی ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ہندوستان کے الگ الگ اداروں نے، اس روایت کو اور مستحکم کیا ہے۔ ملک میں ایسے تقریباً 1500 پرانے قانونوں کو ختم کیا گیا ہے، جن کی آج کے دور میں موزونیت ختم ہو رہی تھی۔ اور ایسا نہیں ہے کہ صرف قانون ختم کرنے میں تیزی دکھائی گئی ہے۔سماج کو استحکام بخشنے والے نئے قانون بھی اتنی ہی تیزی سے بنائے گئے ہیں۔

ٹرانس جینڈر کے حقوق سے منسلک قانون ہو، تین طلاق کے خلاف قانون ہو یا پھر معذوروں کے حقوق کا دائرہ بڑھانے والا قانون، حکومت نے پوری حساسیت سے کام کیا ہے۔

دوستوں،

مجھے خوشی ہے کہ اس کانفرنس میں صنفی انصاف پر مبنی دنیا کے موضوع کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کاکوئی بھی ملک، کوئی بھی سماج صنفی انصاف کے بغیر پوری طرح ترقی نہیں کرسکتا  اور نہ ہی انصاف دوستی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ ہمارا آئین برابری کے حق کے تحت  ہی صنفی انصاف کو یقینی بناتا ہے۔

ہندوستان دنیا کے افن بہت کم ملکوں میں سے ایک ہے، جس نے آزادی کے بعد سے ہی خواتین کو ووٹ دینے کے حق کو یقینی بنایا۔ آج 70 سال بعد اب انتخابات میں خواتین کی یہ شمولیت اپنی سب سے اعلیٰ سطح پر ہے۔ اب 21ویں صدی کا ہندوستان اس شمولیت کو دوسرے پہلوؤں میں بھی تیزی سے فروغ دے رہا ہے۔

بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسی کامیاب مہم کی وجہ سے پہلی بار ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں بچیوں کے اندراج ، لڑکوں سے زیادہ ہوگیا ہے۔اسی طرح  فوجی خدمات میں بیٹیوں کی تقرری ہو، فائٹر پائلٹس کے انتخاب کا عمل ہو،بارودی سرنگوں میں  رات کے وقت کام کرنے کی آزادی ہو، حکومت کے ذریعہ متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کے  اُن مخصوص ملکوں میں شامل ہے جو ملک کی محنت کش خواتین  کو 26 ہفتے کی پیڈ لیو دیتا ہے۔

ساتھیوں،

تبدیلی کے اس دور میں ہندوستان نئی بلندی بھی حاصل کر رہا ہے، نئی تشریحات وضع کر رہا ہے اور قدیم افکار میں تبدیلی بھی  لا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ تیزرفتار ترقی اور ماحولیات کا تحفظ ایک ساتھ ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان نے اس سوچ میں بھی تبدیلی کی ہے۔ آج جہاں ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے، وہیں ہمارے فوریسٹ کور میں بھی تیزی سے  وسعت ہو رہی ہے۔ پانچ-چھ سال پہلے ہندوستان دنیا کی 11ویں سب سے بڑی معیشت تھی۔ تین چار دن پہلے ہی جو رپورٹ آئی ہے، اس کے مطابق اب ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ یعنی ہندوستان نے یہ کرکے دکھایا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ماحولیات کا بھی تحفظ کیا جاسکتا ہے۔

ساتھیوں،

میں آج اس موقع پر، ہندوستان کی عدلیہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جس نے ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن کی سنجیدگی کو سمجھا ہے، اس میں مسلسل رہنمائی کی ہے۔ مفاد عامہ کی متعدد عرضیوں(پی آئی ایل) کی سماعتوں کے دوران عدالت عظمی نے بھی ماحولیات سے جڑے معاملوں کی نئے سرے توضیح پیش کی ہے۔

ساتھیوں،

آپ کے سامنے انصاف کے ساتھ ہی، بروقت انصاف کا چیلنج بھی ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس کا ایک حد تک حل ٹیکنالوجی کے پاس ہے۔ خاص طور پر عدالت کے عملی انتظامات کو لے کر انٹرنیٹ پر مبنی ٹیکنالوجی سے ہندوستان کے انصاف کی فراہمی کے نظام کو بہت فائدہ ہوگا۔

حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کی ہر عدالت کو ای-عدالت کے مربوط مشن موڈ پروجیکٹ سے منسلک کیا جائے۔ نیشنل جوڈیشئل ڈاٹا گرڈ کے قیام سے بھی عدالتی کارروائی میں آسانی ہوگی۔ مصنوعی انٹیلی جینس اور انسانی شعور کا تال میل بھی ہندوستان میں انصاف کے عمل کو مزید رفتار دے گا۔ ہندوستان  میں بھی عدالتوں کے ذریعہ اس پر غور وفکر کیا جاسکتا ہے کہ کس شعبے میں، کس سطح پر انھیں مصنوعی انٹیلی جینس سے مدد لینی ہے۔

اس کے علاوہ بدلتے وقت میں ڈاٹا پروٹیکشن، سائبر کرائم، جیسے موضوع بھی  عدالتوں کے لیے  نئے چیلنج بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان چیلنجوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایسے متعدد موضوع پر اس کانفرنس میں سنجیدگی سے غور وخوض ہوگا، کچھ مثبت مشورے سامنے آئیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کانفرنس سے مستقبل کے لیے متعدد بہتر حل بھی نکلیں گے۔

ایک بار پھر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

شکریہ!!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 ( م ن ۔اض۔ را  ۔ 22 - 02 - 2020)

 U. No. 879



(Release ID: 1604057) Visitor Counter : 201