وزیراعظم کا دفتر
سعودی عرب کے ساتھ کلیدی شراکت داری ، مضبوط باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنائے گی: وزیراعظم
بھارت سعودی عرب کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرنے والا چوتھا ملک بن جائے گا
Posted On:
29 OCT 2019 10:31AM by PIB Delhi
نئی دہلی۔29؍اکتوبر۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارت اور سعودی عرب کے مابین کلیدی شراکت داری معاہدے پر دستخط کیے جانے سے باہمی مضبوط تعلقات کو دونوں ممالک کے مابین مزید استحکام حاصل ہوگا۔
وزیر اعظم مملکت سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور عرب نیوز سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بات کہی۔
تین برسوں میں وزیراعظم مودی کا اس مملکت کا یہ دوسرا دورہ ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ دونوں ممالک جی۔ 20 کے دائرے کے تحت مل جل کر کام کرتے رہے ہیں جس کا مقصد عدم مساوات کا خاتمہ اور ہمہ گیر ترقیات کو فروغ دینا ہے۔
مستحکم تیل قیمتوں کو عالمی معیشت کی نمو کے لئےاہم عنصر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے بھارت کی توانائی ضروریات کی تکمیل کرنے والے ایک معتبر وسیلے کے طور پر مملکت سعودی عرب کے کردار کی تعریف کی۔
اپنے اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عالی جناب محمد بن سلمان کے مابین عمدہ ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 2016 میں مملکت سعودی عربیہ کے میرے پہلے دورے سے لیکر اب تک ہم نے اپنے تعلقات کو قابل ذکر حد تک فروغ دیا ہے ، میں شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان سے پانچ مرتبہ مل چکا ہوں اور مجھے ان کے ساتھ ہوئی گزشتہ ملاقاتوں میں ان کی گرمجوشی یاد ہے اور مجھے امید ہے کہ اس دورے کے دوران بھی میں ان سے ملاقات کروں گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ شاہ سلمان اور شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں بھارت اور سعودی عرب کے مابین باہمی تعلقات پروان چڑھیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میری حکومت کی پالیسی یہی ہے کہ ہمسایہ ممالک کو اولیت دی جائے اور یہی ہمارا رہنما اصول ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے تعلقات ہماری توسیع شدہ ہمسائیگی میں ازحد اہم باہمی تعلقات کی حیثیت کے حامل ہیں۔
کلیدی شراکت داری کونسل سے متعلق معاہدے کے سلسلے میں جس پر اس دورے کے دوران دستخط ہوں گے ، انہوں نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ مختلف زاویوں مثلاً تجارت، سرمایہ کاری، سلامتی اور دفاعی تعاون وغیرہ کے سلسلے میں ہمارے تعلقات ازحد مضبوط اور گہرے ہیں اور اس سے انہیں مزید فروغ حاصل ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ ایشیائی قوتیں مثلاً بھارت اور سعودی عرب اپنی ہمسائیگی میں یکساں سلامتی تشویشات رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے خوشی ہے کہ ہمارا تعاون خصوصاً انسداد دہشت گرد ی، سلامتی اور کلیدی موضوعات کے سلسلے میں ہمارا تعاون اچھے طریقے سے فروغ پارہاہے۔ میرے قومی سلامتی مشیر نے حال ہی میں ریاض کا دورہ کیا تھا جو ازحد مفید دورہ تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ بھارت اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون کے سلسلے میں ایک مشترکہ کمیٹی قائم ہے جو باقاعدگی سے اپنی میٹنگوں کا اہتمام کرتی ہے اور دونوں ممالک نے باہمی مفاد اور تعاون کے متعدد شعبوں کو دفاع اور سلامتی کے سلسلے میں شناخت کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم سلامتی تعاون ،دفاعی صنعتوں کے سلسلے میں بھی معاہدا ت کو عملی شکل دینے کے مراحل میں ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہم نے دونوں ممالک کے مابین ایک جامع سلامتی گفت وشنید میکینزم بھی منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
مغربی ایشیا کے متعدد خطوں میں انتشار کے سوال پر وزیراعظم نے تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک متوازن طریقہ کار اپنانے کی تلقین کی ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ خودمختاری اور دوسرے کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کے اصولوں کا بھی احترام کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اس خطے کے ممالک کے ساتھ عمدہ باہمی تعلقات کا حامل ملک رہا ہے اور آٹھ ملین سے زائد بھارتی افراد اس خطے میں سکونت پذیر ہیں۔ گفت وشنید کا ایک ایسا عمل جو تمام شراکت داروں کی شمولیت کو یقینی بناتا ہے وہ ازحد اہم ہے تاکہ اس ازحد اہم خطے میں امن اور سلامتی کا دور دورہ ہوسکے ۔
رواں عالمی معیشت کے موضوع پر وزیراعظم نریندر مودی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اقتصادی نظریہ مضبوطی کے ساتھ بڑے ترقی پذیر ممالک مثلاً بھارت کے ذریعے متعین کردہ راستے پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا ، ہم پورے خلوص سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں ہر کسی کا اعتماد حاصل کرکے سب کی ترقی اور نشوونما کیلئے اجتماعی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اقتصادی غیریقینی صورتحال ، غیر متوازن کثیر پہلوئی تجارتی نظام کی دین ہے۔ جی۔ 20 کے دائرے کے اندر، بھارت اور سعودی عرب باہم مل جل کر نابرابری کے خاتمے اور ہمہ گیر ترقیات کو فروغ دینے کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ مجھے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ سعودی عرب آئندہ برس جی۔20 سربراہ ملاقات کا اہتمام کریگا اور بھارت اس کا اہتمام 2022 میں کریگا جو ہماری آزادی کی 75ویں سالگرہ کا موقع بھی ہوگا۔
مغربی معیشتوں میں موجودہ مندی اور سست روی اور بھارت اور سعودی عرب میں اس طرح کے منظرنامے کے سوال پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے تجارت دوست ماحول سازگار کرنے کیلئے متعدد اصلاحی اقدامات کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ہم عالمی نمو اور استحکام میں ایک اہم کارپرداز کے طور پر برقرار رہیں۔ آسان تجارت کے لئے ہماری اصلاحات اور سرمایہ کار دوست پہل قدمیوں کے متعارف کرانے کے ساتھ ہی ان دونوں عناصر نے عالمی بینک کے تحت آسان کاروبار کے اشاریے میں ہماری پوزیشن یعنی ہمارے مقام کو جو 2014 میں 142 واں مقام تھا اس میں ترقی کرکے اسے 2019 میں 63ویں مقام پر پہنچا دیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میک اِن انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، اسکل انڈیا، سوچھ بھارت، اسمارٹ سٹی اور اسٹارٹ اپ انڈیا جیسے متعدد اہم فلیگ شپ پہل قدمیوں کے نتیجے میں غیرملکی سرمایہ کاروں کیلئے بے شمار مواقع فراہم ہورہے ہیں۔ اسی طریقے سے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ سعودی عرب نے بھی اپنے وِژن 2030 کے ایک حصے کے طور پر اصلاح کا ایک پروگرام شروع کیا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ جو بھارت کو سب سے زیادہ تیل سپلائی کرنے والا ملک ہے، طویل المدت توانائی تعلقات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھار ت اس مملکت سے تقریباً 18فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے اور اس طریقے سے ہمارے لئے خام تیل فراہم کرنے والا یہ دوسرا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ خالص خریدار اور فروخت کار کے تعلقات سے اوپر اٹھ کر ہم اب ایک قریب ترین کلیدی شراکت داری کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں بنیادی تیل اور گیس پروجیکٹوں میں سعودی سرمایہ کاری کا عنصر بھی شامل ہے۔
ہم ہماری توانائی ضروریات کے ایک معتبر اور اہم وسیلے کے طور پر مملکت کے اہم کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اس امر میں یقین رکھتے ہیں کہ مستحکم تیل قیمتیں عالمی معیشت خصوصاً ترقی پذیر ممالک کیلئے ازحد اہم حیثیت رکھتی ہیں۔ سعودی آرامکو کو بھارت کے مغربی گھاٹ میں چل رہے اہم ریفائنری اور پیٹروکیمیکل پروجیکٹ میں شراکت داری حاصل ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ آرامکو بھارت کے کلیدی پٹرولیم ذخائر کے کام میں بھی شراکت داری اپنائے گا۔
اس سوال پر کہ کیا بھارت سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر اسمارٹ سٹی پروجیکٹوں کے کام میں شریک کریگا ،جیسا کہ حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے، وزیراعظم مودی نے کہا کہ بھارت اور سعودی عرب کے مابین باہم تعاون کے اہم شعبوں میں سے ایک شعبہ بنیادی ڈھانچوں سے متعلق پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ فروری 2019 میں شہزادہ ولی عہد کے بھارت کے دورے کے دوران شہزادہ موصوف نے اشارہ کیا تھا کہ وہ بھارت میں مختلف شعبوں میں 100 بلین امریکی ڈالر سے بھی زائد کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم اسمارٹ سٹی پروگرام سمیت ہمارے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں میں سعودی عرب کی افزوں ترین سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ قومی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچہ فنڈ میں بھی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سعودی دلچسپی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
توانائی کے علاوہ دیگر شعبوں جن میں بھارت اور سعودی عرب باہمی تعاون کرسکتے ہیں، کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ یہ ساجھا کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اس بار میرے دورے کے دوران بھارت اور سعودی عرب نے منصوبہ وضع کیا ہے کہ دفاع ، سلامتی ، قابل احیاء توانائی سمیت مختلف النوع شعبوں میں معاہدات کیے جائیں۔
دیگر اہم اقدامات میں مملکت میں روپے کارڈ کےآغاز کی تجویز بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں بھارت نژاد افراد کے ذریعے ادائیگی اور بھرپائی کاعمل آسان ہوجائیگا، ای۔ مائیگریٹ اور ای۔ تواثیق پورٹل کو مربوط کرنا جیسی تجویزیں بھی اس میں شامل ہیں جو اس مملکت تک بھارتی مزدوروں کے نقل مکانی کے عمل کو آسان بنائیں گی اور ایک ایسا معاہدہ بھی زیر تجویز ہے جس کا تعلق ہمارے متعلقہ تعلیمی اداروں میں سفارتکاروں کی تربیت سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس کے عالمی درجے کے صلاحیت ساز مراکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور مختلف شعبوں میں سعودی نوجوانوں کو تربیت فراہم کرنے کیلئے متعدد پہل قدمیاں دستیاب ہیں ۔ ہم خلائی تحقیق کے شعبے میں بھی باہمی تعاون پر تبادلہ خیالات کررہے ہیں۔
سعودی عرب میں مقیم بھارتی افراد کے نام اپنے ایک پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ تقریباً 2.6 ملین بھارتی افراد نے اب سعودی عرب کو اپنا وطن ثانی بنالیا ہے اور یہ لوگ نمو اور ترقیات میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ متعدد بھارتی افراد ہر سال حج اور عمرہ جیسے مذہبی سفر اور تجارت کیلئے اس مملکت کا دورہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے اہل وطن کے نام میرا یہی پیغام ہے کہ آپ کاملک اس مقام کے لئے فخر کا احساس کرتا ہے جو آپ نے مملکت میں اپنے لئے حاصل کیا ہے اور آپ کی جانفشانی اور آپ کی عہدبندگی نے ہمارے باہمی تعلقات اور خیرسگالی کو بڑھاوا دینے میں خاصی مدد کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بھارتی افراد مملکت میں ہمارے تعلقات کو مضبوط بنائے رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے اور دونوں ممالک کے مابین استوار تاریخی تعلقات کو مستحکم بنانے میں مزید تعاون دیں گے۔ یہ تعلقات عوام سے عوام کے مابین روابط پر کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔
اپنے موجودہ دورے کے دوران وزیراعظم نریندر مودی شاہ سلمان کے ساتھ باہمی گفت وشنید کریں گے اور شہزادہ ولی عہد کے ساتھ وفد کی سطح کی بات چیت بھی کریں گے۔ یہ تبادلہ خیالات مودی کے ذریعے تیسری مستقبل کی سرمایہ کاری پہل قدمی (ایف آئی آئی) فورم میں کلیدی خطبے کے علاوہ ہوگی۔ اسے مشرق وسطی ٰ میں عام طور پر ایک ازحد اہم اقتصادی فورم خیال کیا جاتا ہے۔
توقع ہے کہ وزیراعظم مودی کے دورے سے مختلف شعبوں مثلاً سلامتی اور کلیدی تعاون، دفاع ، توانائی سلامتی، قابل احیاء توانائی، سرمایہ کاری ، تجارت اور معیشت ، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتی اکائیوں ، زراعت ، شہری ہوابازی ، بنیادی ڈھانچہ، ہاؤزنگ، مالی خدمات، تربیت اور صلاحیت سازی، ثقافت اور عوام سے عوام کے مابین روابط جیسے شعبوں میں باہمی تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہوگا ۔ ان شعبوں سے متعلق تقریباً ایک درجن حکومت سے حکومت کے مابین معاہدات پر دستخط ہونے کی امید ہے، ساتھ ہی ساتھ حکومت اور تجارت کے شعبے کے مابین بھی متعدد معاہدات پر دستخط ہونے کی امید ہے۔
اس دورے کے اہم نتائج کے سلسلے میں توقع ہے کہ دونوں ممالک کے مابین ایک کلیدی شراکت داری کونسل (ایس پی سی) وجود میں آئے گی۔ بھارت مملکت کے ساتھ معاہدہ کرنے والا چوتھا ملک بن جائیگا جو کلیدی شراکت داری پر دستخط کریگا۔ دیگر ممالک میں برطانیہ، فرانس اور چین کے نام شامل ہیں۔ ایس پی سی کے دو متوازی ٹریک ہوں گے ، سیاسی، سلامتی، ثقافتی اور معاشرتی جن کی قیادت دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کریں گے ۔ معاشی اور سرمایہ کاری عناصر کی قیادت بھارت کے تجارت اور صنعت کے وزیر اور سعودی عرب کے توانائی وزیر کے تحت ہوگی۔
سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے اہم شعبے میں توانائی سلامتی کو خاص حیثیت حاصل ہے، نئی دہلی بھارت کے طویل المدت توانائی رسدات کے ملک کے طور پر مملکت کے اہم کردار کا اعتراف کرتی ہے۔ یہ مملکت بھارت کے خام تیل کی 18فیصد ضروریات کی تکمیل کرتی ہے اور 30 فیصد رقیق پٹرولیم گیس کی ضروریات کی بھی تکمیل کرتی ہے۔ دونوں ممالک اس شعبے میں محض فروخت کار اور خریدکار تعلقات کو اس سے بھی کہیں زیادہ وسعت دیکر ایسی کلیدی شراکت داری میں بدلنے کے خواہاں ہیں جو باہمی طور پر ایک دوسرے کیلئے تعاون اور باہمی انحصار پر مبنی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م ن۔ ۔ ع ن
29-10-2019
U-4807
(Release ID: 1589418)
Visitor Counter : 365